توہین رسالت کی سزا

مصنف : ڈاکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2019

فکر ونظر
توہین رسالت کی سزا
مولانا عمار خان ناصر

                                                                                                                                                                                                                                                        پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی ایک نشست میں سوال ہوا کہ کسی اسکالر نے لکھا ہے کہ قرآن یا حدیث میں توہین رسالت کی سزا کا کوئی ذکر نہیں اور واجب الاتباع تو یہی دونوں ہیں۔ ہاں، خلفاء کے ہاں مثالیں ملتی ہیں، لیکن وہ تو معصوم نہیں ہیں اور غلطی کر سکتے ہیں، اس لیے وہ گویا اسلامی قانون کا ماخذ نہیں ہو سکتے۔
عرض کیا کہ اول تو دنیا کی کوئی مذہبی یا قانونی روایت خود کو اس طرح ڈیفائن نہیں کرتی، اور اسلامی قانونی روایت تو بالکل نہیں کرتی اس میں خلفائے راشدین اور اس کے بعد فقہاء کے اجتہادات بھی درجے کے فرق کے ساتھ قانونی روایت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ خلفاء کا معصوم نہ ہونا بالکل درست ہے اور یقیناًان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کیا بھی گیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اختلاف کرنے والے کے پاس ان کے مقابلے میں قرآن یا سنت سے، زیادہ وزنی اور قابل توجہ استدلال موجود ہے۔ اگر کسی کی یہ پوزیشن ہے تو اسلامی روایت اسے پوری توجہ سے سنے گی، لیکن یہ کہنا کہ خلفائے راشدین کے فیصلے سرے سے کسی شمار میں ہی نہیں ہیں، کیونکہ وہ معصوم نہیں، یہ ریڈکشنزم ہے اور اسلامی روایت کے مجموعی مزاج کا ترجمان نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ توہین رسالت پر داروگیر کا سوال قرآن میں بھی زیر بحث آیا ہے، تاہم اس کی صورت موجودہ مذہبی موقف سے بالکل مختلف ہے۔ سورت احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس گروہ کو تفصیل سے موضوع بنایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کے اہل خانہ اور عام مسلمان خواتین کو مسلسل اسکینڈلائز کرنے کی مہم میں مصروف تھا اور مسلمان سماج کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ قرآن مجید نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دنیا و آخرت میں خدا کی لعنت کے سزوار ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنی روش سے باز آ جائیں، اور اگر اس تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو پھر اے پیغمبر، ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کے خلاف آپریشن کریں، اور پھر یہ لوگ مدینے میں رہنے نہیں پائیں گے، بلکہ جہاں ملیں گے، ان کو پکڑ کر قتل کر دیا جائے گا۔
اس ہدایت میں قرآن نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے شریعت کا یعنی فقہی اصطلاح میں ''حدود'' کا نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ کا معاملہ ہے۔ کوئی ایک یا چند افراد کیا، اگر پورا ایک گروہ بھی توہین رسالت کو باقاعدہ ایک مہم بنا کر مسلمانوں کے درپے آزار ہو تو اسے تنبیہ کی جائے گی، زجر وتوبیخ اور دوسرے تعزیری اقدامات سے اپنی روش بدلنے پر مجبور کیا جائے گا اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کے خلاف آخری اور انتہائی اقدام کر کے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
توہین رسالت کے جرم کو قذف کی طرح حدود کے زمرے میں شامل نہ کرنے اور اسے سیاست شرعیہ سے متعلق قرار دینے میں گہری دینی حکمتیں مضمر ہیں۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے اور عقلی ونفسي استدلالات کی بنیاد پر اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے۔ وہ قرآن اور پیغمبر، دونوں کی حقانیت کو عقل وفطرت کے دلائل پر پرکھنے کے لیے پیش کرتا ہے اور ہر طرح کے اشکالات واعتراضات کا انھی کی روشنی میں جواب دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کے مسلمہ موروثی عقائد کو چیلنج کرتا اور انھیں کفر وشرک قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان سے تائب ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید مخالفانہ ردعمل کا پیدا ہونا ایک فطری انسانی رویہ ہے اور اس ردعمل کو صبر وتحمل کے ساتھ گوارا کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعوت دین کو پیش کرتے رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو ایک دعوتی مذہب اختیار کر سکے۔ اگر اسلام اپنی پہلی ترجیح دعوت کے فروغ کے بجائے ناموس رسالت کے تحفظ کو بناتا اور مسلمان ہر گستاخ رسول کے ساتھ لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو اپنی اولین ایمانی ذمہ داری بناتے تو تاریخ میں اس کا ذکر مکے میں پیدا ہونے والے چند ''شرپسندوں'' کے الفاظ میں ملتا اور بس۔ یہ ترجیحات کا حکیمانہ تعین
تھا جس نے اسلام کو ایک نہایت مخاصمانہ صورت حال سے، جس میں ہمہ وقت پورا معاشرہ توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا تھا، نبرد آزما ہونے کی طاقت بخشی اور پرامن طور پر دنیا میں پھیلنے والا عالمی مذہب بنا دیا۔ پس توہین رسالت سے متعلق قرآن کی ہدایت یہی ہے کہ جس معاشرے میں مسلمان اصلاً غیر مسلموں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں، وہاں ایسے مخالفانہ رویوں پر صبر اور اعراض سے کام لیں اور اشتعال ظاہر کر کے دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ اور جہاں ان کے پاس سیاسی طاقت ہو اور کوئی بدنہاد گروہ اپنے خبث باطن کے اظہار سے مسلمان جماعت کے احساسات و جذبات کو مجروح کرنے پر تلا ہوا ہو، وہاں پہلے مرحلے میں تنبیہ وتوبیخ سے اسے باز رکھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی معقول طریقے سے اس میں کامیابی نہ ہو اور انتہائی اقدام کے بغیر اس فتنے سے گلوخلاصی ممکن نہ دکھائی دیتی ہو تو پھر ریاستی طاقت استعمال کر کے اس کی بیخ کنی کر دیں۔

***

نفس کا دھوکہ 
سید مناظر احسن گیلانی اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن کے درس کا ایک واقعہ سناتے ہیں: ’’بخاری شریف کا سبق ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گزری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ میں اس کیلئے محبوب نہ ہو جاؤں۔ فقیر نے عرض کیا کہ’’بحمد اللہ عام مسلمان بھی سرکارِ کائنات کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو تو ایک حد تک مسلمان برداشت کر لیتا ہے لیکن رسالت مأب کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کر دیتی ہے کہ ہوش حواس کھو بیٹھتے ہیں ۔آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت نے فرمایا:ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا۔ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ اس تک تمھاری نظر نہیں پہنچی، محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے، لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آنحضرت کی مرضی مبارک کے ساتھ ہے وہ بھی ہمارے تمھارے سامنے ہے۔ پیغمبر نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں، اِس سے کون ناواقف ہے،پھر سبکی آپ کی جو مسلمانوں کیلئے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہو سکتی۔‘‘ خاکسار نے عرض کیا کہ تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟حضرت نے فرمایا کہ ’’سوچو گے تو درحقیقت آنحضرت کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیر شعوری احساس پوشیدہ ہو تا ہے۔ مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے۔ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کر سکتے۔چوٹ درحقیقت اپنی اسی ’انانیت‘ پر پڑتی ہے لیکن مغالطہ ہو تا ہے کہ پیغمبر کی محبت نے ان کو انتقام پر آمادہ کیا ہے۔ نفس کا یہ دھوکہ ہے۔۔۔۔محبوب کی مرضی کی جسے پروا نہ ہو،اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے مؤذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہئے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منہ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔‘‘(توہین رسالت پر عشق رسول کے اظہار پر شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی رح کا تبصرہ)

(احاط? دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، صفحہ۳۵۱۔۴۵۱)