ہم بھی مسلمان تھیں مگر۔۔۔۔

مصنف : سہیم بخاری

سلسلہ : گوشہ آزادی

شمارہ : اگست 2005

            علامہ عزیز انصاری ۳۳ برس کے بعد آج سے دو سال قبل جب اپنے آبائی گاؤں بھوجیاں گئے تو بھوجیاں میں تقسیم سے قبل کریانہ کی دکان کرنے والی چھیانتی سروپ نامی ہندو سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ علامہ صاحب کے بیان کے مطابق چھیانتی سروپ نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے علامہ صاحب کو بتایا کہ بھوجیاں پر حملے کے بعد ایک ہزار کے لگ بھگ اغوا شدہ مسلمان عورتوں کو حملہ آور بھیڑبکریوں کی طرح ہانک کر لے گئے تھے۔ چھیانتی سروپ نے بھوجیاں کے ایک کھاتے پیتے گھرانے کی ایک مسلمان لڑکی کے اغوا کی روداد بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ بھوجیاں کی مسجد (جسے فسادیوں نے شہید کر دیا تھا) اب ایک حویلی کے روپ میں موجود ہے اور اس میں ایک سکھ خاندان رہائش پذیر ہے۔ آپ اس مسجد کو دیکھنے کے بہانے چلے جائیں آپ کو اس حویلی کے صحن میں ایک ادھیڑ عمر عورت بیٹھی دکھائی دے گی۔ آپ اس عورت کو جب غور سے دیکھیں گے تو پہچان جائیں گے کہ وہ عورت بھوجیاں کے کون سے معزز گھرانے کی آبرو تھی۔

            علامہ صاحب جب چھیانتی سروپ کے انکشاف کی روشنی میں اس مسجد کے ملبے اور حویلی کے پاس پہنچے تو وہ عورت اپنی حویلی کے صحن میں چارپائی پر بیٹھی سردیوں کی دھوپ تاپ رہی تھی۔ اس عورت نے جب علامہ صاحب کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا تو اس نے انھیں ایک ہی نظر میں پہچان لیا اور وہ اپنے گاؤں کے اس دیرینہ مسلمان ہمسائے کا سامنا کرنے کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے برسنے والے آنسوؤں کو اپنے دوپٹے سے پونچھتی ہوئی بجلی کی سی تیزی سے ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ علامہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس عورت کے اوجھل ہوتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور تقسیم کے موقع پر اغوا ہونے والی ایک مسلمان دوشیزہ کی داستان نے پاکستان کے نام پر قربان ہونے والی ہزاروں مسلمان دوشیزاؤں کے اغوا کی داستانوں کی درد بھری یاد تازہ کر دی اور وہ اس سوچ میں ڈوب گئے کہ ان کے گاؤں کی اس مسلمان مغویہ کی طرح نہ جانے کتنی مسلمان عورتیں کسی محمد بن قاسم کے گھوڑوں کی ٹاپ سننے کی آس میں اپنی کوکھ سے غیر مسلم بچوں کو جنم دیتے دیتے بوڑھی ہو چکی ہوں گی۔

            اس وحشت ناک اغوا اور سفاکانہ قتل و غارت کے چشم دید واقعات نے لاکھوں افراد کے ذہنوں پر ناقابل فراموش نقوش چھوڑے ہیں۔ ایسے نقوش جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے ہوتے چلے گئے اور ہر آنے والا یوم آزادی انھیں کچھ اس طرح تڑپا دیتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہو۔ شاید ہی کوئی پنجابی خاندان ایسا ہو گا جس نے اپنا کوئی رشتے دار یا عزیز اس وحشیانہ قتل و غارت کی نذر نہ کیا ہو۔ پنجاب آئندہ برسوں کے لیے ان گنت یادوں کامسکن بن گیا اور ہر یادداشت دوسری سے تلخ اور روح فرسا ہے۔’’

 (بحوالہ جب امرتسر جل رہا تھا، ص ۲۴۶۔۲۴۷)

٭٭٭

            ‘‘میری عمر سات اور سکینہ آپا کی عمر ۱۳ برس تھی۔ اسپیشل ٹرین کے ذریعے ہندوستان سے پاکستان آ رہے تھے کہ امرتسر کے قریب ٹرین جنگل میں کھڑی کر دی گئی جس کے چاروں طرف سے ننگی تلواروں، بندوقوں سے مسلح سکھوں ، ہندوؤں نے گھیر ا ڈال کر قتل عام شروع کر دیا۔ بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی چیخ و پکار میں کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی میں بد نصیب بچ گئی، بوڑھا باپ اور بوڑھی ماں رہ گئے، بھائی قتل کر دیے گئے سکینہ آپا اغوا ہو گئی۔ ہم شام کو اسی ٹرین سے پاکستان پہنچ گئے اور ایک شہر میں آباد ہو گئے۔ اس امید پر کہ چند دنوں کی بات ہے ہمارے شیر جوان مسلمان پاکستانی بھائی ان مغویہ عورتوں کو چھڑا لائیں گے جو کہ تقریباً ۸۰۔۹۰ کے لگ بھگ تعداد میں پکڑی گئی تھیں جس کی ماں بہن بیٹی اس طرح سے جدا ہو جائے اس کی ساری زندگی جہنم بن کر رہ جاتی ہے۔ وہ نہ مرتا ہے نہ زندہ ہوتا ہے۔ افسوس ایک نسل اسی امید پر ختم ہو رہی ہے، دوسری نسل پروان چڑھ چکی مگر اس شان سے کہ جن پر اپنی اغوا شدہ بہنوں کا تذکرہ بھی گراں گزرتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اب کیا کیا جا سکتا ہے وہ وہاں بھی تو رہ ہی رہی ہوں گی! اس کا جواب ہمارے پاس کیا ہوتا ہے شاید قارئین کرام آپ کے پاس ہو۔ میری شادی ہو گئی۔ میں اب ۴۹ سال کی ہوں اپنے شوہر کے ہمراہ اجمیر شریف گئی۔ زیارت کے بعد بازار میں سودا سلف کے لیے نکلے تو بہت سی عورتیں اپنے سکھ شوہروں کے ہمراہ دکانوں پر سودا خرید رہی تھیں ان میں ا یک عورت ہو بہو میری اغوا شدہ بہن سکینہ بی بی جیسی تھی۔ میں اس کے ساتھ ساتھ دکانوں کے چکرکاٹتی رہی کہ وہ اکیلی ہو تو کچھ پوچھوں۔ پھر ایک جگہ مجھے موقع مل گیا اور میں نے ادب سے سلام کیا اور ساتھ ہی پوچھ لیا۔ کیا آپ کا نام سکینہ بی بی تو نہیں ہے۔ وہ اپنے سر کے جوڑے کو درست کرتی ہوئی میری طرف متوجہ ہوئی اور جواب دیا نہیں۔ تو پھر میری طرف غور سے دیکھا اور پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: بلقیس! پھر اس نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا تمھارے ساتھ کون ہے؟ میرا شوہر! میں نے کہا۔ پھر بولی کہ تم کہاں سے آئی ہو؟ پاکستان سے، اس پر وہ ہم دونوں میاں بیوی کو اپنے گھر لے گئی۔        

            گاڑی میں بیٹھ کر اس کے گھر پہنچ گئے جسے وہ خود چلا رہی تھی۔ اس نے اپنی تعلیم بی اے تک مکمل کی ہوئی تھی۔ اب اس کی عمر تقریباً ۵۶ سال ہو گئی تھی۔ سر میں سب سفید بال آ گئے تھے۔ بنگلہ نما اور حویلی نما بڑا گھر تھا جس میں ایک بڑھیا نوکرانی کام کررہی تھی۔ اس نے اسے کہیں کام پر بھیج دیا تھا اور اب گھر میں کوئی دوسرا موجود نہیں تھا۔ اس کا شوہر ایس پی تھا جو کہ سی آئی ڈی میں تعینات تھا ۔ وہ بھی ڈیوٹی پر گیا ہوا تھا۔ بچے اسکولوں ، کالجوں میں گئے ہوئے تھے۔ اس کا بڑا لڑکا ملٹری میں میجر کے عہدے پر تھا جو آج کل ڈیرہ دون میں مقیم تھا۔ یہ سب معلومات اس نے ہمیں گاڑی میں بیٹھے بیٹھے فراہم کر دی تھیں۔ ہم دونوں بہنیں جب ملیں تو وہ منظر بیان سے باہر تھا۔ اس قدر گلے مل مل کر روئیں اور روتی رہیں کبھی ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر، کبھی گھر والوں کو پوچھ پوچھ کر، کبھی پاکستان کے حالات معلوم کرکے زاروقطار روتی رہیں۔ جب ہمارے پاس آنسوؤں کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو اس وقت رونا دھونا بندہوا۔ اس نے ہمیں پرانے واقعات سنائے۔ اسپیشل گاڑی میں قتل و غارت گری کے بعد ہم تقریباً ۸۰۔۹۰ نوجوان لڑکیاں سکھوں، ہندوؤں ، بلوائیوں کے رحم و کرم پر تھیں۔ مجھے پتا چلا کہ میرے گھر والے سب ختم ہو گئے ہیں۔ ہمیں کیمپ میں پہنچا دیا گیا وہاں سے ہمیں انھوں نے آپس میں بانٹ لیا۔ مجھے ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے کر دیا گیا۔ جس کا نام درشن سنگھ (نام درست لکھنے کی اجازت نہیں) تھا۔ میں اور ایک شریفاں بی بی انبالہ کی رہنے والی کو ایک گاؤں میں لا کر رکھا۔ شریفاں پڑوسی سکھ کی بیوی بن گئی اور میں پولیس والے کے گھر میں رہنے لگی۔ ہمیں تالے لگا کر بند کر دیا جاتا۔ ایک سال تک باہر نکلنے کی اجازت نہ ملی۔ آخر کب تک ہم روتی رہتیں۔ وقت تو بڑے بڑے گھاؤ مندمل کر دیتا ہے اور یہ بڑے بڑے صدمے اور دل شکن واقعات فراموش کرا دیتا ہے مجبوراً حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ اس امید پر یہ ذلت آمیز زندگی برداشت کر لی کہ ہمارے شیر دل نوجوان جو مسلمان قوم کے سپوت ہیں۔ آخر ہم کو چھڑا کر واپس پاکستان لے جائیں گے کیونکہ بچپن ہی سے مسلمان گھرانوں میں راجا داہر کے مظالم کے خلاف ایک مسلمان عورت کی فریاد پر محمد بن قاسم کو بھیجنے کے واقعات سنتے آئے تھے۔

            سر کے بال سیاہ سے سفید ہو گئے مگر ہمارے پاکستانی ویر (بھائی) ہمیں چھڑانے نہ آئے۔ ہمیں کبھی کبھی آدھی رات کے بعد پاکستانی سرحد کی طرف سے گھنگھروؤں کی آوازیں آتی تھیں تو میں فخر سے کہتی کہ ہمارے ویر راتوں کو اٹھ کر ہل چلاتے ہیں۔ یہ آوازیں بیلوں کے گلے کے گھنگھروؤں کی ہیں مگر سکھ شوہر فوراً کہتا کہ بے وقوف لڑکی یہ بیلوں کے گھنگھروؤں کی آواز نہیں بلکہ ان عورتوں کے ناچنے کی آوازیں ہیں جو قتل ہونے اور اغوا ہونے سے محفوظ ہیں اور پاکستان پہنچ گئی ہیں۔ میں ماننے سے انکار کر تی رہی کہ پاکستان تو بنایا ہی گیا تھا اسلامی دین نافذ کرکے دنیا والوں کے سامنے ایک مثال قائم کرنے کے لیے کہ اسلامی اصول ہی دنیا کی نجات کا ذریعہ ہیں تو ایسے ملک میں ایسا کس طرح سے ہو سکتا ہے ۔ میرا شوہر قومی ہاکی کا کھلاڑی تھا۔ وہ اکثر و بیشتر پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر میں ہاکی کھیل چکا تھا۔ اس نے بتایا کہ جو کچھ ہندوستان میں ہو رہا ہے تھانوں، اسمبلیوں، مارکیٹوں، عدالتوں، بازاروں، گلی کوچوں، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں وغیرہ میں جو طور طریقے استعمال ہوتے ہیں ویسے ہی پاکستان کے اداروں میں چل رہے ہیں حتیٰ کہ انگریزکے زمانے کے قوانین آج تک دونوں ممالک میں چل رہے ہیں۔ اسی طرح سے قحبہ خانے، گانے بجانے کے اڈے، چل رہے ہیں۔ ایسے ہی جھوٹے لوگ فریبی ، کاروباری، کام چور، مزدور ، کاریگر، زمیندار وڈیرے اسی طرح سے غریبوں کے لیے وبال جان، تھانے اور پولیس والے ان کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں گویا کہ وہاں ہر چیز بیوپار بن چکی ہے۔ پہلے بھارت میں ہندو مسلمان مذہب کے نام پر لڑتے تھے اب پاکستان میں وہاں فرقے ایک دوسرے کا گلہ کاٹتے ہیں۔

            باجی نے بیان جاری رکھتے ہوئے کہا ستمبر۱۹۶۵ء میرے سکھ شوہر نے کہا کہ ایک خوشخبری سن لو: ہم تمھارے والدین کے پاس بلا روک ٹوک آیا جایا کریں گے کیونکہ اب چند دنوں میں اکھنڈ بھار ت کا اعلان ہونے والا ہے۔ ۵۔ ۶ ستمبر رات بھر ٹینک، ٹرک، آرمی کی فوج ظفر موج پاکستان کی طرف بھاگم بھاگ جا رہی تھی۔ ہم ان دنوں امرتسر شہر میں رہتے تھے۔ ان کے پیچھے سول لوگوں کی فوج تانگوں ، ٹرکوں اور موٹروں پر جا رہی تھی۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ صبح لاہور میں اکھنڈ بھارت کا اعلان سننے جا رہے ہیں جو بھارتی فوج کا چیف کل صبح لاہور جا کر کرے گا کیونکہ لاہور پر بھارتی فوج نے جھنڈے لگا دیے ہیں۔ دوسرے دن ایسا کوئی اعلان نہ سنا بلکہ فوج کے نوجوانوں اور سول لوگوں کی لاشیں بھرپور تعداد میں واپس آ رہی تھیں اور امرتسر پر بم گرنے لگے اور در و دیوار ہلنے لگے۔ دو دنوں کے اندر سارا امرتسر خالی ہوچکا تھا۔لوگ دیہاتوں یا دہلی، جالندھر کی طرف بھاگ رہے تھے۔ ہم بھی سب دہلی پہنچ گئے۔ میرا شوہر وہیں رہا، ڈیوٹی تھی۔

            دہلی میں بھی لوگ پاکستانی طیاروں کی بمبارمنٹ سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ سنا تھا بھارت کے کئی علاقوں پر پاکستانی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ ہمیں ڈھارس بندھی کہ اب ہمارے ویر ہم کو سکھوں کی قید سے چھڑا لیں گے مگر ہماری قسمت ایسی نہ تھی۔

            آپا نے کہا کہ اب اس کے بچوں کے گھر آنے کا وقت ہو رہا ہے۔ بڑھیا باہر کھانا پکانے میں لگ گئی اور آپا نے کہا میرے بچوں کے سامنے یہ تذکرہ نہ کرنا کہ تم میری بہن اور میں مسلمان تھی۔ میرے بچوں کی زندگی اجیرن نہ بنا دینا یہ کہہ کر۔ اتنے میں اس نے اٹھ کر کھڑی ہو کر کہا کہ اپنے لوگوں کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ اپنی اولادوں کو محمد بن قاسم کی زندگی اپنانے کا درس دو، تمھاری نجات اسی میں ہے۔ اتنے میں لڑکے آگئے۔ سفید گورے چٹے، سفید پگڑیاں بندھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے تعارف کرایا یہ میری کالج کی سہیلی تھی آج اچانک مل گئی۔ دونوں لڑکوں نے ماسی جی کہہ کر پرنام کیا۔ اتنے میں لڑکی جو کہ میڈیکل میں زیر تعلیم تھی، آگئی۔ اس نے بھی ایسے پرنام کیا۔ بہت اونچی لمبی خوب صورت جسے میں ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔’’ (بحوالہ ماہنامہ الفاروق، کراچی۔ ذوالحجہ ۱۴۱۴ھ)