جواب کی تلاش

مصنف : محمد فاروق مودودی

سلسلہ : گوشہ آزادی

شمارہ : اگست 2005

            گزشتہ دنوں ایک چوراہے پر ایک پولیس اہلکار ایک موٹر سائیکل سوار کو گھیر کر کھڑا کرنے کے بعد اس کا چالان کرنا چاہ رہا تھا۔ میں نہ جانے کیوں پاس سے گزرتے ہوئے یہ ماجرا دیکھ کر وہاں رک گیا۔ شاید یہ سوچ کر کہ مبادا میری گواہی کی یہاں کوئی ضرورت ہو، کیونکہ جو ماجرا میں نے دیکھا تھا اس کے مطابق وہ موٹر سائیکل سوار شک کے فائدے کا مستحق تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہ شخص بڑی سعادت مندی سے چالان کروانے پر رضا مند ہو گیا، یوں پولیس کارِ سرکار میں مصروف ہو گئی اور نام وغیرہ لکھنے کے بعد پتا لکھوانے کے لیے سوال پوچھا گیا تو وہ شخص جواب دے رہا تھا۔ ‘‘مینارِ پاکستان لکھ دیں’’ پولیس نے کہا ‘‘میں آپ سے آپ کے گھر کا پتاپوچھ رہا ہوں’’ وہ شخص بولا ‘‘میں آپ کو اپنے آخری ٹھکانے کا پتا ہی تو بتا رہا ہوں۔’’ پولیس کے مزید اور شدید اصرار پر جواب دیا گیا کہ ‘‘جب آپ ایک آدمی کو کسی طور جینے ہی نہ دیں گے تو وہ آخر مینارِ پاکستان سے چھلانگ لگانے کے سوا اور کیا کرے گا، میرا آخری ٹھکانہ وہی تو ہے، چنانچہ میرا یہی پتا لکھیے اس کے بعد اس شخص نے قانون بنانے والوں، قانون کا نفاذ کرنے والوں اور چند ایک بہت ہی بھاری بھرکم شخصیات کا نام لے کر انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار اس قدر شدت سے کیا کہ ایک دفعہ تو وہ پولیس اہلکار بھی اندر سے ہل کر رہ گیا۔

            میری گواہی کی وہاں ضرورت ہی نہ پڑی، میں اسے تسلی دینے اور اپنے جذبات پر قابو پانے کی تلقین میں لگ گیا۔ پولیس والا بھی اس شدید حملے کی کیفیت سے باہر آگیا تھا، مگر میری حیرت کی انتہا ہو گئی جب وہ پولیس والاکارِ سرکار سے دستبردار ہو کر اپنے بال بچوں کی فکرِ معاش کا مظاہرہ کر رہا تھا ، وہ اپنے مطالبے میں اس قدر صادق تھا کہ میں نے دیکھا کہ حق و صداقت ثابت کرکے وہ پولیس والا اس غریب موٹر سائیکل والے سے اپنے بال بچوں کی دال روٹی کے لیے مبلغ ایک سو روپے لے کر دوبارہ کارِ سرکار میں مشغول ہو گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ بعد میں وہ موٹر سائیکل والا شخص اپنے ٹھکانے یعنی مینارِ پاکستان پہنچ پایا یا راستے میں ہی کسی دوسرے سرکاری اہلکار کے ہتھے چڑھ گیا۔

            ٹریفک کے گونا گوں مسائل نے میرے رویوں میں بھی ہنگامی تبدیلیاں کی ہیں۔ پہلے میں کہیں جاتا تھا اور مطلوبہ کام نہ ہونے کی صورت میں واپس پلٹ آتا تھا کہ دوبارہ آجاؤں گا۔ اب رویہ یہ اختیار کیا ہے کہ انتظار کر لیا جائے،دوبارہ آمدورفت سے بچ جاؤں گا۔ اپنے اسی رویے کی بنا پر ایک بازار میں کچھ انتظار کرنا چاہتا تھا۔ سامنے نکڑ پر ایک پان سگریٹ کی دکان کے سامنے تین لڑکے چوبیس پچیس سال کے کھڑے ہوئے تھے۔ نہ جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ چلو ان سے بات کرتے ہیں، کچھ پتا چلے یہ لوگ آج کل کیا اور کس طرح سوچتے ہیں۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا سلام کے بعد میں نے بتایا کہ میں یہاں کچھ وقت گزارناچاہتا ہوں، مناسب لگا کہ اس وقت میں آپ کے خیالات سنوں، اگر مناسب سمجھیں تو اپنا تعارف بھی کرائیے۔

            ان میں سے ایک صاحب نے انتہائی مہذب طریقے سے بات شروع کی‘‘میرے والد گزشتہ بیس سال سے انگلستان میں رہتے ہیں۔ میں سب سے بڑا ہوں میرے تین چھوٹے بھائی بہن ہیں۔ ہم اپنی والدہ کے ساتھ یہاں رہتے ہیں۔ میں نے پہلے بی کام کیا، پھر کمپیوٹر کورس بی سی ایس کیا اور اب دو سال سے صبح سے شام تک نوکری کی تلاش میں پھرتا ہوں۔ مجھے شرم آتی ہے اپنے آپ سے اور ترس آتا ہے، اپنے بوڑھے باپ پر کہ آج بھی وہ پیسے بھیجیں تو گھر میں بتی جلتی اور کھانا پکتا ہے۔ خود میں تو پانی کا بل بھی اپنی جیب سے ادا نہیں کر سکتا۔ میں اپنی والدہ کی شفقت، تربیت اور رہنمائی کا بہت مداح رہا ہوں مگر اب سوچتا ہوں یہ شفقت کیا شفقت تھی، یہ تربیت کیا تربیت تھی اور یہ رہنمائی کیا رہنمائی تھی کہ اس معاشرے میں میں ایک عضو معطل بن کے رہ گیا ہوں۔ مجھے نماز کی تلقین کی جاتی ہے، مجھے قرآنِ پاک کی تعلیم دی جاتی رہی مجھے اسکول کا پتا اور استفادہ بتایا جاتا رہا۔ آج میں اس معاشرے کے لیے بالکل بے کار ہوں۔ میں کبھی کبھی تو پھٹ پڑتا ہوں اور اپنی ماں سے سوال کرتا ہوں،میری تعلیم پر جو پیسے آپ نے خرچ کیے وہ بچا لیتیں تو آج میں کوئی چھوٹی موٹی دکان بنا لیتا۔ نماز روزے کی تلقین کے بجائے چوری چکاری میں ہمت افزائی کی ہوتی تو کم از کم یوٹیلٹی بل تو اپنی جیب سے ادا کر ہی دیتا۔ کلاشنکوف چلانے کی تربیت حاصل کرتا تو گھر کے حالات بدل سکتے تھے۔میں انکل آپ سے سوال کرتا ہوں۔ وہ اپنے خیالوں سے باتیں کرتے کرتے ایک دم مجھ سے مخاطب ہوا۔ مجھے یہ بتائیں کہ پاکستان کا خواب دیکھنے والوں اور پاکستان بنانے والوں نے اور پھر پاکستان کو چلانے والوں نے کیا صرف اپنی اور زیادہ سے زیادہ آپ کی نسل ہی کو پیش نظر رکھا تھا۔ کیا ان لوگوں کے حاشیۂ خیال کے کسی کونے میں یہ خیال بھی موجودتھا کہ اس ملک میں زندگی گزارنے کے لیے کبھی ہماری نسل بھی یہاں آباد ہو گی؟’’ سکتے کے عالم میں میں اسے دیکھ رہا تھا، ایک طوفان گزر چکا تھا، خیالوں کا ایک دوسرا ریلا آیا ۔ وہ کہنے لگا : ‘‘قائداعظم سے قائد عوام تک اورایوب خان سے پرویز مشرف تک یہ قوم اپنے ‘‘محسنوں’’ کے احسانوں تلے دبی ہوئی سسک رہی ہے، کسی نظام، کسی قانون اور کسی اصول سے اتنی ہی دور ہے جتنی دور پتھر کے زمانے میں لوگ رہا کرتے تھے۔

            ایک شخص کے خیالوں کا طوفان تو تھم گیا تھا مگر میرے خیالوں میں ایک سونامی تھا جو چڑھ دوڑا تھا۔ مشرقی پاکستان کا ایک ایک پاکستانی میری آنکھوں کے سامنے غرق ہوا اور پھر وہاں جو بچا وہ صرف بنگلہ دیش تھا۔ وہاں کوئی پاکستانی نہ بچ سکا اور جو پاکستانی وہاں بچا اس کی طرف پھر یہاں کسی نے پلٹ کے نہ دیکھا خواہ وہ اسلامی چھاترو سنگھو تھا یا مسلم لیگی، جماعت اسلامی تھا یا محض محب وطن پاکستانی، یہ نسل تو سامنے سوالیہ نشان بنی کھڑی ہے میں آئندہ یہاں آباد ہونے والی نسلوں کو بھی دیکھ رہا ہوں، ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بھی مجھ سے یہی سوال پوچھ رہی ہیں۔ میں جواب دوں تو کیا جواب دوں۔ تسلی دوں تو کس بہانے دوں، کس کے آنے کی نوید سناؤں، کس کے پاس چلے جانے کی تلقین کروں۔

            ہزاروں لاکھوں مسجدیں ہیں، جہاں لاکھوں اہل ایمان پانچ وقت جمع ہوتے ہیں ہر نماز کے وقت شہروں کے در و دیوار اذانوں سے گونج اٹھتے ہیں۔ لاکھوں ہل ایمان ہر سال رائے ونڈ میں جمع ہوتے ہیں۔ نعت و درود و سلام کا ٹھاٹھیں مارتا ایک سمندر ہے جو پورے معاشرے پر محیط ہے۔ دیو بند و بریلوی مکتب فکر کا پر بصیرت نورِ ایمان ہے جو اس وقت پورے معاشرے پر چھایا ہوا ہے اور جماعت اس معاشرے میں ۱۹۴۱ء سے موجود ہے، جس کے ہر رکن نے اپنی صلاحیتیں اللہ کے دین کے لیے وقف کر رکھی ہیں، جن کا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا سب خدا کے دین کی سربلندی کے لیے وقف ہے۔ اصلاح احوال کے لیے ہمہ وقتی اراکین کی تعداد بھی اب ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ میں کس کس کا نام لوں، میں کس کس کی نشاندہی کروں۔ محراب و مسجد سے لے کر، دیوبندی و بریلوی سے ہو کر تحریک اسلامی سے جماعت اسلامی تک اور رائے ونڈ سے ہو کر تبلیغی جماعت تک اس معاشرہ میں سب کچھ تو موجود ہے ، پھر یہ کیسی مایوسی، یہ کیسی بد حالی، یہ کیسی افراتفری ہے کہ پورا معاشرہ ایک رستا ہوا ناسور بنا ہوا ہے۔ عیدِ قربان پر جہاں لاکھوں جانور قربان ہوئے وہاں بھوک سے بلکتے بچوں کو ایک شخص نے قربان کر دیا اور پھر خود اپنی قربانی دے کر پورے معاشرے کو روزِ حشر گریبان سے پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ بسنت کو ہندوؤں سے بڑھ کر منانے والوں سے پوچھو جن کے گلوں پر ڈوریں پھریں ان کی قربانی کا وبال کس پر ہے، وہ کس کا گریبان پکڑیں گے؟

(بشکریہ: ماہنامہ خطیب لاہور)