ہندستان کا کلچر

مصنف : معز امجد

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اگست 2005

معروف دانشور، نامور عالم دین اور ویب سائٹ انڈر سٹینڈنگ اسلام کے بانی جناب معز امجد اپریل میں ہندستان تشریف لے گئے ۔ واپسی پر مدیر سوئے حرم کے ساتھ ان کی ایک گفتگو ریکارڈ کی گئی جسے آپ کے لیے قلمبند کیا ہے محمد عبداللہ بخاری نے ۔

اسلام کی وہ ظاہری صور ت جو برصغیر کے حوالے سے مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہے۔وہ ہندوؤں کو کچھ زیاد ہ اجنبی محسوس نہیں ہوتی ۔یعنی جب اِن لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا جو پیر ہے وہ دعائیں بھی سنتا ہے اور آگے بھی پہنچاتا ہے تو اِن کویہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی بہت زیادہ مختلف قوم نہیں ہے۔

ہمیں اپنے آپ کوایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور یہ بات اپنی جگہ پر بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ علاقہ اپنی زرخیزی کے اعتبار سے، اپنی آبادی کے اعتبار سے ، اس نوعیت کا علاقہ ہے کہ اگر اس کے اندر باہمی تعاون وجود میں آجاتا ہے تونہ صرف یہ، بلکہ بنگال اور اس طرف سری لنکاکے علاقے بھی دنیا کے ماسٹر اکنامک پاورز بن جائیں گے۔

جیسے جیسے آپ کسی بھی کلچر کسی بھی مذہب کے آدمی کے ساتھ اپنی communication کو strong کرتے ہیں۔اس کے بعد نہ صرف یہ کہ آپ اس کی غلطی کی اصلاح زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں بلکہ اس کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ بھی سکتے ہیں۔ آپ نے اصل میں جو کچھ ان کے مذہب کے بارے میں ،ان کے کلچر کے بارے میں پڑھا ہوا ہوتا ہے وہ بنیادی طور وہ ہوتا ہے جو مخالفین نے لکھا ہوتا ہے۔

ابوالکلام کایہ نقطہ نظر کہ اگر مسلمان اس علاقے میں اپنے مذہب پر ٹھیک ٹھیک زندگی بسر کرتے رہیں تو زیا دہ موثر ہو ں گے کچھ زیادہ غلط نہیں تھا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان خود اپنے مذہب کی سماجی شکل میں ہندو ازم سے کوئی زیاد ہ مختلف نہیں ہیں۔

بنیادی طور پر مغرب کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر یہ علاقہcombine  ہو جاتا ہے، peaceful رہتا ہے تو پھر اس کے بعد یہ خطہ دنیا کے اوپر اثر ڈالنا شروع کر دے گا۔ اکنامک پاور کے طور پر بھی اور کلچرل پاور کے طور پر بھی۔

ہم لوگوں کی نفسیات ہے کہ جب تک ہم دوسروں کے سر پہ پاؤں نہ رکھیں ہمارا قد بلند نہیں ہوتا۔ہم جب اپنے طور پر ،اپنا سر بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے تودوسروں کے کندھے تلاش کرتے ہیں اورپھراس کونیچے کرکے خود کو بلند محسوس کرتے ہیں۔تاریخ کے افق پر ایسی بلند ی کی کوئی اہمیت نہیں۔

اسلام کے نام پر جان قربان کرنا آسان ہے لیکن اسلام کے نام پر جینا مشکل ہے۔

ہندستان سے دوستی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے پاجائے توحکومتوں کے پاس عوام کے لیے کوئی نعرہ ہی باقی نہیں رہتا۔

اگر ہمارے مذہبی ادارے اپنا رخ درست کرلیں تو ایک ارب انسانوں کا میدانِ دعوت ان کے سامنے کھلاہے اوراس حوالے سے جنت بنانے کا پورا موقع موجود ہے۔

ڈسپلن کا تقاضا یہ ہے کہ میں اپنی باری کا انتظار کروں اور اگر اسوقت کسی اور کی باری ہے تو اس کو برداشت کروں ۔ ہمارے ہاں یہ ڈسپلن لیڈر شپ میں بھی موجود نہیں ہے اور اسی کے نتیجے میں عوام میں بھی موجود نہیں ہے۔ باری کا انتظار کرنے کو کوئی تیارہی نہیں اور مزید یہ کہ دوسرے کو باری لیتے دیکھنا نہیں چاہتے۔یعنی ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس کی باری ہو پہلے ہم اس کی ٹانگ کھینچیں اور پھر اس کے بعد دیکھیں گے کہ ہوتا کیاہے۔

ہندستان بس آئینی طور پر سیکولر ہے عملا کہنا بہت مشکل ہے۔

س: ہندستان کی طرف یہ آپ کا پہلا سفر تھا یا کہ پہلے بھی کبھی آپ گئے؟

ج: نہیں، میں پہلی دفعہ گیا تھا۔خواہش کافی عرصے سے تھی لیکن ظاہر ہے کہ ویزے کے لیے ہی بڑی مشکلات ہوتی تھیں۔

س: آپ کا مقصد کرکٹ میچ دیکھنا تھا یا؟

ج: میں یہ سمجھتا ہوں کہ کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے ٹیلی ویژن سے اچھی جگہ کوئی نہیں ۔میرا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو observeکیا جائے اور ا ن کی تہذیب و تمدن سے واقفیت حاصل کی جائے ۔

س: کتنے دن کا ویزہ تھا یہ ؟

ج: یہ پانچ دن کا تھا، لیکن ان میں سے دو دن تو سفر ہی کی نذ ر ہو گئے۔ بس پر اگر آپ جائیں تو اٹاری کراس کر کے بس لینی پڑتی ہے ۔وہاں سے بارہ گھنٹے لگ گئے۔

س: یعنی آپ اٹاری سے بارہ گھنٹے میں گئے؟

ج: ہاں جی، آرام کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ سفر اتنا اچھا نہ تھا۔لیکن اگر تجربے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بہت اچھا سفر تھا۔

س: کیا یہ لوکل بس تھی؟

ج: جی لوکل بس تھی، چونکہ یہ اٹاری سے چلی تھی اس لیے اس میں اکثر پاکستا نی ہی تھے لیکن انڈین بھی تھے۔

 س: کیا بس ہی واحد ذریعہ تھی جانے کا؟

ج: جی نہیں اور ذرائع بھی تھے۔ لیکن مجھے غلط معلومات ملیں۔ میں جب اترا، تو ہمیں بتایا گیا کہ آپ ریلوے سٹیشن نہیں جاسکتے ۔لیکن مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ جا سکتے تھے۔اگر چلے جاتے تو بہت آرام دہ سفرہوتا۔ان کی ٹرینیں بہت اچھی ہیں۔ پانچ بجے ادھر سے ایک ٹرین چلتی تھی جو چھ گھنٹے میں پہنچ جاتی تھی۔ لیکن بس کے سفر میں ایک فائد ہ یہ ہوا کہ مقامی طور پر جو لوگ سوار ہوجاتے تھے ان سے communication کا ایک اچھا موقع ہاتھ آگیا۔

س: مثلاً؟

ج: ایک لڑکا آیا،ہندو تھا۔ہمارے آس پاس جتنے بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ سارے پاکستانی مسلمان تھے۔ جب وہ لڑکا آیا تولوگوں نے اس کے ساتھ بہت ٹیڑھی گفتگو شروع کر دی ۔لیکن اس نے بہت تحمل اور برد باری سے جواب دیے۔ مثال کے طور پرلوگوں نے پوچھا آپ گوشت کھاتے ہیں؟اس نے کہا کہ میں کھایا کرتا تھا لیکن ایک مرتبہ میں نے جانور کو کٹتے ہوئے دیکھا ،سو اس کے بعد میں نے کھانا چھوڑ دیا کہ میں اپنی لذت کی خاطر کسی جان کو اذیت دینے کا باعث نہیں بن سکتا۔پھر پوچھا گیاکہ کبھی گائے کا گوشت کھایا آپ نے؟ تو اس نے ان سے کہا کہ آپ میرے سے یہ پوچھ رہے ہیں دوسروں سے یہ نہ پوچھیے گا۔لوگ جذباتی ہوتے ہیں۔گائے یہاں پر ایک مقد س ہستی ہے ۔اور اس کے تقدس کے سلسلے میں اپنی منطق بھی بیان کی۔ اس نے کہا کہ بچہ جب پیدا ہوتاہے تو کس کا دودھ پیتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ماں کا۔اس نے کہا کہ اگر وہ کسی اور کا دودھ پیئے تو کیا اس کو بھی ماں نہیں کہتے آپ لوگ؟ظاہر ہے ہمارے ہاں رضاعی ماں ایک بڑی محترم ہستی ہے۔اِس کے بعد اس نے کہا کہ ہم بڑے ہو کر جو دودھ پیتے ہیں وہ گائے کا پیتے ہیں تو ہم اس کو بھی ماں سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک احترام کا تعلق رکھتے ہیں۔

س: حسن تاویل کی داد دی جانی چاہیے تھی؟

ج: جی ہاں،مجھے یہ بڑی میٹھی منطق لگی۔اس کے علاوہ بھی اس کے ساتھ بڑ ی دلچسپ بات چیت ہوئی۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ میں انبالے اپنے گُرو کے پاس جارہا ہوں۔پھر اس نے پوچھاآپ سمجھتے ہیں نا کہ گرو کیا ہوتا ہے؟ اس کو آپ لوگ کیا کہتے ہیں ۔ میں نے کہا جی ہم پِیر کہتے ہیں ۔اس نے کہا کہ ہاں بالکل ،میں اپنے پیر کے پاس جا رہا ہوں۔اور یہ گروجن کے پاس میں جارہا ہوں یہ خواجہ معین الدین چشتی کو مانتے ہیں ۔اس پر لوگ بڑے متوجہ ہوئے کہ ہمارے صوفیا کو یہ بھی مانتے ہیں۔

یہ عنصر ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے کہ اسلام کی وہ ظاہری صور ت جو برصغیر کے حوالے سے مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہے۔وہ ہندووں کو کچھ زیاد ہ اجنبی محسوس نہیں ہوتی ۔یعنی جب اِن لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا جو پیر ہے وہ دعائیں بھی سنتا ہے اور آگے بھی پہنچاتا ہے تو اِن کویہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی بہت زیادہ مختلف قوم نہیں ہے۔

یہ ایک اچھا تجربہ تھا جاننے کا کہ وہ کس طرح سے اپنے دین کو سمجھتے ہیں۔ اس کی گفتگو میں دو پہلو اہم تھے۔ ایک تو یہ کہ اس نے جس طریقے سے اپنی بات کو پیش کیا۔اور دوسری یہ کہ، اس نے عام مسلمان کی جوcommonگراؤنڈز تھیں اس کوسامنے رکھ کر بات کی۔ مثلاً ایسا نہیں کیا کہ یکد م سے اپنے کسی عقیدے کو بیان کر نا شروع کر دیا۔بلکہ بات کا آغاز ایسے کیا کہ ہم معین الدین چشتی کو مانتے ہیں ۔ خاص طور پر ،داعی حضرات کے لیے اس پہلو میں بہت سبق ہے۔

س: کیا آپ نے یہ feelنہیں کیا کہ پاکستانیوں کا اس سے گائے والا سوال غلط تھا؟

ج: ظاہر ہے بالکل غلط تھا۔لیکن آپ یوں سمجھیں کہ بس میں عامۃ الناس تھے۔ اوران کے اندر بھی عجیب ڈرامے قسم کے لوگ تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ کوئی lightسی گفتگو ہو جائے۔ کوئی تھوڑا سی leg pullingہوجائے۔

س: مسلمانوں کی جن چیزوں سے جذباتی وابستگی ہے اگران سے ان کے بارے میں ایسے سوال کیے جائیں توان کا کیا رد عمل ہوگا؟

ج: یہ dependکرتا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کیا ہے ؟وہاں پہ یہ ایک ہی ہندو تھا ۔ اگر زیادہ ہوتے تو جانے کیا ہوتا؟یعنی کتنے مسلمان ہیں وہ اس حساب سے رد عمل ظاہر کریں گے۔

س: وہاں اجنبیت کا احسا س کتنا ہوتا ہے ؟

ج: ادھر جا کر آپ کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ آپ دوسرے ملک میں آگئے ہیں۔سوائے اس کے کہ جو سکھ قوم ہے ان کی پگڑیا ں بہت الگ محسوس ہوتی ہیں۔ورنہ ذرہ برابر بھی احساس نہیں ہوتا کہ آپ کسی اجنبی ملک میں آگئے ہیں۔میرا سری لنکا بھی جانا ہوا وہ بھی ایک لحاظ سے برصغیر ہی ہے لیکن ادھر زبان کا ،رہن سہن کا ،طورطریقوں کا اتنا بنیادی فرق ہے کہ آپ فوراًمحسوس کرتے ہیں کہ آپ کسی دوسری جگہ آگئے ہیں۔وہاں کے بعض لوگوں کے ساتھ میرا مستقل رابطہ بھی ہے۔لیکن پھر بھی اگر کبھی آپ کو وہاں جاکے رہنا پڑے تو تھوڑی سی مشکل پیش آتی ہے۔کیونکہ کھانے پینے کا سٹائل بالکل مختلف ہے۔اگر چہ مسلمان ہیں، حلال ہی ہوگا۔لیکن انڈیا میں تو آپ کو بالکل کوئی احساس نہیں ہوتاکہ کسی غیر علاقے میں آ گئے ہیں۔خاص طور پر عام لوگوں کے جذبات بہت مثبت تھے ۔سٹیڈیم میں بھی یہی محسوس ہوا اور عام عوام میں چلتے پھرتے ہوئے بھی۔ میں نے تو وہاں کچھ دوست بھی بنائے۔سٹیڈیم میں بھی اور ویسے بھی۔ایک ہندو میرے دوست بن گئے ان کے ساتھ میرا،ای میل سے رابطہ بھی انشا اللہ رہے گا۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ انگریزی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ مجھے ضرور بھیجنا۔پڑھنا چاہتا ہوں۔ جہاد کے حوالے سے انہوں نے سوال بھی اٹھائے کہ جہاد کے conceptکا اسلام سے کیاتعلق ہے ؟کیا یہ قرآن مجید میں واقعی مذکوربھی ہے یا نہیں؟ امید ہے کہ اگر رابطہ بحال رہتا ہے اور یہ آنے جانے کا سلسلہ کچھ کھلا رہتا ہے تواس طرح کے معاملات مزید بہتر ہوں گے اورغلط فہمیوں کے بادل چھٹیں گے۔ دوستی کے معاملات آگے بڑھنے سے لوگ بہر حال خوش نظر آئے ۔میری ایک خاتون رپورٹر سے بات ہوئی اور اسی طرح بعض دیگر لوگوں سے بھی، سب میں خوشی کا عنصر ہی محسوس ہوا۔

س: یہ احساسات آپ نے تما م طبقات میں محسوس کیے یا کسی خاص کلاس میں مثلاً لوئریا مڈل یا ہائی؟

ج: تین دن میں یہ اندازہ لگانا تو بہت مشکل تھا،لیکن جس کلاس میں میں پھر رہا تھا اس کو مڈل کلاس ہی کہا جاسکتا ہے۔اور اصل میں کسی بھی ملک کی مڈل کلاس ہی سب سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اس وجہ سے میرا خیال یہ ہے کہ جب مڈل کلاس میں یہ جذبات ہیں تو اس کے اثرات اوپر اور نیچے بھی یقیناہوں گے ۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ جذبات پاکستانی گورنمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے آگے بڑھے ہیں؟

ج: نہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہمیشہ سے ہی ایسے ہیں۔یعنی جذبات میں گورنمنٹ کی پالیسی کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ہاں البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ورنہ ہمار ا جو سیاسی طبقہ ہے اس کے اپنے مخصوص مفادات رہے ہیں یعنی پروپیگنڈا وغیرہ۔ یا پھر جو ہمارا مذہبی طبقہ ہے اس کے اندرنفرت کے جذبات رہے ہیں۔ جو عام آدمی ہے اس کے اندر اس نوعیت کے جذبات کم ہیں اور کم ہی رہے ہیں۔ہم ایک رنگ کے اورایک زبان بولنے والے لوگ ہیں۔بڑا مشکل ہے کہ ان کو دور رکھا جا سکے۔سوائے اس کے کہ دیواریں کھڑی کردیں جائیں۔

س: جیسا کہ آپ نے فرمایااورمیں نے خودبھی سعودیہ میں دیکھاکہ تہذیبی اختلاف کی وجہ سے بہت اجنبیت محسوس ہوتی ہے مثلا سعودیہ میں سب مسلمان ہیں لیکن چونکہ ان کا رہن سہن، کھانے پینے کے انداز اتنے مختلف ہیں کہ آپ کو اجنبیت کا احساس ہونا لازم ہے ۔لیکن انڈیا کے حوالے سے بہت سے لوگوں سے پوچھاسب کا یہی جواب ہے کہ وہاں اجنبیت محسوس نہیں ہوتی آپ کا کیا خیا ل ہے ؟

ج: جی بالکل ، بہت اپنائیت محسوس ہوتی ہے ۔ اور اسی سے آپ تہذیب اور تہذیبی ہم آہنگی کی اہمیت کا اند ازہ کر سکتے ہیں۔

س: کیا اس پس منظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت ہما را یہ کہنا کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہماری تہذیب الگ ہے ،یہ صرف ایک سیاسی بات تھی یا اس میں کوئی سچائی بھی تھی؟

ج: اس حوالے سے دیکھیں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو اب ایک ایسی بحث ہے جوگڑے مردے اکھیڑنے والی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ کچھ چیزیں جب تاریخ میں واقع ہوجاتی ہیں تو ہم ان کو آئندہ کے لیے اچھاتو کر سکتے ہیں واپس نہیں جا سکتے جو نعرے ہم نے لگائے، اسی کی بنیاد پر سارا معاملہ ہوا ۔ اس وقت کی پوزیشن کو پرکھنا شاید اب ممکن نہ ہو کیونکہ اب ہمارا کلچر وہ نہیں رہا جو اس وقت تھا ۔ چاہے ہندستان ہویا پاکستان ،دونوں ہی ممالک عالمی کلچر کی یلغار کا شکار ہو چکے ہیں۔کلچر کے اعتبار سے سعودی عریبیہ کا کلچر آج بھی ہم سے بہت مختلف ہے۔لیکن ہند ستان اور پاکستان کے لوگ اپنی تاریخ اور کلچر کے اعتبارسے کافی قریب ہیں۔ اصل میں دوبارہ قوم بننا تو ایک مسئلہ ہے۔ وہ تو تاریخ کا وہ واقعہ ہے جو ہو نہیں سکتا۔لیکن بہر حال ہماری دوریوں کو توکم کیا جاسکتا ہے ۔ ہمیں اپنے آپ کوایک دوسرے کے قریب لانا ہے اور یہ بات اپنی جگہ پر بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ علاقہ اپنی زرخیزی کے اعتبار سے، اپنی آبادی کے اعتبار سے ، اس نوعیت کا علاقہ ہے کہ اگر اس کے اندر co opreationوجود میں آجاتی ہے تونہ صرف یہ، بلکہ بنگال اور اس طرف سری لنکاکے علاقے بھی دنیا کے ماسٹر اکنامک پاورز بن جائیں گے۔

س: اس co operation سے آپ کی مراد کنفیڈریشن ہے یا ؟

ج: نہیں، کنفیڈریشن تو اصل میں پولیٹیکل ایشوہے اس پر تو سیاستدانوں ہی کو گفتگو کرنی چاہیے ہم بہرحال اس نوعیت کا کام تو کر سکتے ہیں کہ tradeکو openکیاجائے، visitsکو openکیا جائے ، ویزا ختم کر دیا جائے۔ یہ چیز سری لنکا میں موجود ہے۔ایسا تو نہیں ہوا کہ سارے پاکستانی سری لنکا چلے گئے ہیں۔اور ایسا بھی نہیں ہوا کہ سارے سری لنکنز پاکستان آگئے ہیں۔لوگوں کے اپنے گھر ہیں، لوگوں کو ان سے محبت ہے۔کوئی وجہ ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی مائیگریشن وجود میں آئے گی۔لوگ غائب ہونا شروع ہو جائیں گے۔اور بہرحال حکومت کے نظام کے اندر ایک ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے کہ لوگ بغیر ویزے کے بھی جارہے ہوں تو ان پہ checkرکھا جاسکے۔تو اس وجہ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علاقے کے لوگوں کے اندر نفرتوں کے بجائے محبتوں کے جذبات کوابھارا جائے اور ان میں interaction زیادہ کیا جائے اس کے نتیجے میں ان کی hesitationدور ہوجائے گی۔میں نے تو یہ محسوس کیا، سچی بات ہے کہ جیسے جیسے آپ کسی بھی کلچر کسی بھی مذہب کے آدمی کے ساتھ اپنیcommunicationکو strongکرتے ہیں۔اس کے بعد نہ صرف یہ کہ آپ اس کی غلطی کی اصلاح زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں بلکہ اس کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ بھی سکتے ہیں۔ آپ نے اصل میں جو کچھ ان کے مذہب یا کلچر کے بارے میں پڑھا ہوا ہوتا ہے وہ بنیادی طور وہ ہوتا ہے جو مخالفین نے لکھا ہوتا ہے۔

س: آپ کا مطلب ہے کہ one-sided ہوتا ہے؟

ج: جی ون سائڈڈ ہوتا ہے۔ اس خلا کو میڈیا نے کافی حد تک دور کیا ہے۔ اگرسرحدیں کھلیں اور آپس میں کلچرل انٹر ایکشن ہوتودونوں ملکوں کے لیے بہتر صورت حال پیدا ہو سکتی ہے ۔میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ ہم ہندو ازم کوجس طرح سے جانتے ہیں اور جس طرح سے ہندو ازم اپنی کلاسیکل صورت میں ہے اس کے بارے میں میراتاثر ہمیشہ سے ہی یہ رہا ہے کہ یہ دنیا کاواحد، واضح مشرکانہ مذہب ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ انٹریکشن سے ہندو ازم کی ایک بالکل نئی صورت سامنے آجائے گی۔اس صورت میں ہندو مت عیسایت سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہو گا۔عیسائی خدا کی وحدانیت کو مانتے ہوئے خدا کی دنیا میں مختلف شکلوں کو مانتے ہیں۔ رومن عیسائیت اپنی ماڈل صورت میں یہ نہیں مانتی کہ تین خدا ہیں۔بلکہ وہ یہ مانتی ہے کہ خدا نے مسیح کی صورت میں دنیا میں نزول کیا۔ تین روپ ہیں حقیقی ایک ہی ہے۔ بالکل یہ ہی چیز ہندو ازم کے اندر موجود ہے۔یعنی ہندو ازم اپنی اصل میں توحید کا قائل ہے۔ کہ خدا ایک ہی ہے۔ لیکن اس نے مختلف ادوار میں دنیا کی ہدایت کے لیے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔وہ دنیا میں مختلف شکلوں میں آیا ہے۔ہمارے نقطہ نظر سے یہ بھی ایک غلطی ہے۔لیکن اسکو اس طرح کا شرک نہیں کہہ سکتے جس طرح کہ مشرکین مکہ کا تھا۔یہ ایک فلسفیانہ غلطی ہے جو شرک تک منتج ہوجاتی ہے۔چونکہ خدا کو آپ انسانی روپ میں سمجھتے ہیں۔تو وہ اس خدا سے ایک مختلف چیز بنتا ہے جو اصل خدا ہے۔ہند و ازم کے اندر توحید کے غلبے نے ایک نیا کلچر پیدا کیا ہے اور یہ معمولی چیز نہیں ہے۔

ابوالکلام کایہ نقطہ نظر کہ اگر مسلمان اس علاقے میں اپنے مذہب پر ٹھیک ٹھیک زندگی بسر کرتے رہیں تو زیا دہ موثر ہو ں گے کچھ زیادہ غلط نہیں تھا ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان خود اپنے مذہب کی سماجی شکل میں ہندو ازم سے کوئی زیاد ہ مختلف نہیں ہیں۔

س: اگرچہ ہند ستان اور پاکستان کے لوگوں میں بہت سی تہذیبی مماثلت موجود ہے لیکن کیا یہ کہنا غلط ہے کہ ہندوؤں کی اور مسلمانوں کی تہذیبی شناخت الگ الگ ہے؟

ج: تہذیب میں بنیادی طور رہن سہن کا معاملہ ہوتا ہے اور رسم و رواج ہوتے ہیں۔یہ سب چیزیں ہماری بہت حدتک ایک ہیں۔ہمارے ہاں بنیادی طور پر وہ چیزیں diffrent ہیں جو مذہبی ہیں یعنی جن پر مذہب کے اثرات ہیں۔وہ ظاہر ہے مختلف ہوں گی۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مسلمان ممالک کے اندربھی ایک مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کے اپنے اپنے تہذیبی رنگ ہیں جیسے ہمارے ہاں پنجابی، سندھی ، بلوچ اور پختون تہذیبی رنگ، ایسا نہیں ہوا کہ یہ سب اپنی تہذیب میں بالکل یکساں ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر جگہ پر ایک ہی وقت میں اذان دی جارہی ہے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے رسم و رواج ، ان کارہن سہن ، ان کے لباس سب ایک ہوگئے ہیں۔ہر علاقے کی تہذیب پر مذہب اثر انداز ہوتا ہے لیکن اس علاقے کی جغرافیائی و سیاسی ہییت کے اندر۔

مجھے اس چیز کا خیال ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر مغرب کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر یہ علاقہ combineہوجاتا ہے، peacefulرہتا ہے تو پھر اس کے بعد یہ خطہ دنیا کے اوپر اثر ڈالنا شروع کر دے گا۔ اکنامک پاور کے طور پر بھی اور کلچرل پاور کے طور پر بھی۔

س: گویا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر ہم یونائیٹڈ رہتے توآج سے زیادہ بہتر صورتحال ہوتی؟

ج: یہ کہنا تو بڑا مشکل ہے جی۔ جو کچھ نہیں ہوسکا اس کے بارے میں رائے دینی بڑی مشکل ہے۔لیکن بہرحال یہ محسوس ہوتا ہے کہ یونائیٹڈ انڈیا اپنے معاشی و سیاسی اثر و نفوذ میں کم از کم دو تین گنا زیادہ ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امن کی بہتر صورت حال ملکوں کو مائل کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سے توجہ اپنی اکنامک ڈیولپ منٹ پردیں۔ہمارا ڈیفنس بجٹ صرف ہندستان کی وجہ سے ابنارمل ہے ۔ ظاہر ہے کہ دوسری صورت میں اس کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔یہ areaاگر peacefulرہتا تو ہندستان کے بجٹ کا معاملہ بھی یقینا اس سے مختلف ہوتا۔

س: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ ،خصوصاً علما، جو تقسیم کے حق میں نہ تھے۔ اس وقت کے معروضی حالات میں ان کی رائے ایک سیاسی رائے تھی اور اخلاص پر مبنی تھی اس کا دیانتد اری سے جائزہ لیا جانا چاہیے؟

ج: جی تاریخی آرا کا تو ہمیشہ ہی دیانتد اری سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ جو میں آپ سے عرض کر رہا ہوں اگراس کے برخلاف بھی ہوتا تب بھی یہ ان حضرات کی ایک ذاتی رائے تھی اور یقینا اخلاص پر مبنی ہوگی۔ ابوالکلام آزاد ایک عالم تھے دوسرے لوگ بھی بڑے بڑے علما تھے جو اس کے حق میں نہیں تھے۔یہ بات طے شدہ ہے کہ ان کی بات یقینا اخلاص پر مبنی ہوگی۔ ہمیں اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حق نہیں دیا کہ ہم نیتوں کے فیصلے کرتے پھریں ۔ ہمیں یہ حق بہر حال حاصل ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ان کی رائے ٹھیک نہیں تھی۔ لیکن یہ کہنے کا بالکل بھی حق نہیں ہے کہ ان کی رائے اخلاص پر مبنی نہیں تھی۔

س: لیکن ہمارے ہاں تو ایک مخصوص لابی ان لوگوں کے خلاف پرچار کرتی رہتی ہے اور ان کی تمام قربانیوں کے علی الرغم ان کو غدار ثابت کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی ۔ کیاایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دانشور اس کے خلاف آواز اٹھائیں؟

ج: یقینا اٹھانی چاہیے۔ اصل میں ہم لوگوں کی نفسیات ہے کہ جب تک ہم دوسروں کے سر پہ پاؤں نہ رکھیں ہمارا قد بلند نہیں ہوتا، اس لابی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ہم جب اپنے طور پر ،اپنا سر بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے تودوسروں کے کندھے تلاش کرتے ہیں اورپھراس کونیچے کرکے خود کو بلند محسوس کرتے ہیں۔تاریخ کے افق پر ایسی بلند ی کی کوئی اہمیت نہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کی جو نفسیات ہے اس میں ہمیں دوسروں میں کوئی نہ کوئی کیڑا نکالنا ہوتا ہے، وہ کیڑا اگر صحیح نکلتا ہے تو بڑی اچھی بات ، نہیں تو ہم خود سے بنا دیں گے، ایجاد کر لیں گے۔ یہ گھٹیا نفسیات ہے۔مودودی صاحب کی ایک رائے ہے۔ مودودی صاحب پر کوئی شبہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک مخلص آدمی نہیں تھے ۔جو انہوں نے صحیح سمجھا اس کے مطابق انہوں نے زندگی گزاری۔ لیکن ان کی اگر رائے یہ تھی کہ اس موقعے پہ پاکستان نہیں بننا چاہیے تووہ ان کی ایک سیاسی رائے تھی۔اور ابوالکلام کے بارے میں شورش نے جو لکھا ہے اس کو دیکھیں تو آپ ان کی بات کو appreciateکریں گے۔ایسا نہیں ہے کہ وہ آپ کو اجنبی محسوس ہو۔یعنی ان کے پاس بہرحال ایک استدلال موجود تھا۔اور وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ combineمسلمان انڈیا کے اوپر بہت زیاد ہ اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے بھی اور سیاسی اعتبار سے بھی۔

س: آج کےperspectiveمیں یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ شاید وہ لوگ دور اندیشی میں بہتر جگہ پہ کھڑے تھے۔جو وہ feel کررہے تھے شاید ہم اسے صحیح سمجھ نہیں سکے۔

ج: مجھے آپ کی اس بات سے پورااتفاق ہے۔تاہم یہ میری ایک رائے ہوسکتی ہے اور اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا جو دین ہے وہ ہمیں ہر گز اس طرف نہیں لے کے جاتا کہ ہم قوموں کو divisionsکی طرف لے جائیں۔یعنی ہمیں وہ اس نوعیت کے کوئی احکام نہیں دیتا۔ ہمیں اس پر نہیں ابھارتا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اگریہ موقع میسر رہتا کہ وہ مکے کے اندر اپنی دعوت دیتے رہتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ ہجرت کرتے۔

س: گویا مولانا حسین احمد مدنی کی وہ بات صحیح تھی کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں اقبال نے تند و تیزاشعار کہے ۔

ج: یہ دو نقطہ ہائے نظر تھے جو اب تاریخ کا حصہ بن چکے اوراب ان میں صحت اور غلطی کا فیصلہ بھی تاریخ کے اوراق ہی میں کیا جائے گا۔لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا نازک مسئلہ ہے کہ جس میں دو رائے ہو سکتی ہیں۔یعنی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مسلمانوں کی جو حالت آج پاکستان کے اندر ہے وہ شاید زیادہ بہتر ہے۔اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔

س: مذہب ہمیں کشت و خون سے منع کرتا ہے۔جہاد بمعنی قتال کی اجازت بھی مخصوص شرائط کے ساتھ ہے لیکن ہمارے ہاں عام طور پر مذہبی طبقہ اس بات کی بہت خواہش کرتا رہا ہے کہ دہلی کے لال قلعے پہ جھنڈا گاڑیں گے۔ یہ کیا نفسیات ہے؟

ج: یہ ہماری جذباتیت ہے ۔ جب آپ نے کوئی سیاسی جماعت قائم کرنی ہو یا سیاسی جلسہ کرنا ہو تو آپ کو کوئی نہ کوئی ایجنڈا دینا پڑتا ہے چونکہ معاملہ عوام کا ہوتا ہے تو انہیں جذبات پر مبنی ایجنڈا دیا جاتا ہے۔

س: کیا عوام کی جذباتیت کو دوسرے میدانوں میں نہیں ابھار ا جا سکتا؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم مہنگائی کم کردیں گے،آپ کو تعلیم ملے گی، آپ کو صحت ملے گی۔ یہ جذباتی مسئلے نہیں ہیں۔لوگ بھوکوں مر رہے ہیں ان کو دوا تک میسر نہیں۔

ج: دیکھیے یہ جذبات کے وہ مسئلے ہیں جس میں آپ عوام کو ایک لمبے عرصے کے لیے محنت پر آمادہ کرتے ہیں ۔لمبے عرصے میں عوام کے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔آپ جذبات ابھار کر کسی سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ جان دے دو۔ لیکن آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جذبات میں باقی ساری زندگی کے لیے محنت شروع کر دو۔

س: یعنی اسلام کے نام پر جان قربان کرنی آسان ہے لیکن اسلام کے نام پر جینا مشکل ہے۔

ج: بالکل ٹھیک ہے۔ اسی طرح کی situationیہ ہے۔

س: آپ نے اس دورے میں کیا محسوس کیا کہ ہماری حکومتوں اور عوام کے طرزِ عمل میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟

ج: عوام کے جذبات فی الواقع بہت پازیٹو ہیں ۔ ہماری حکومتوں کے طرزِ عمل میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے ۔ عوام کے طرزِ عمل میں کوئی فرق نہیں پڑا۔exceptions تو ہر جگہ ہی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات کہ بالعموم آپ کو جو رویہ نظر آتا ہے وہ پازیٹو ہی ہے حکومتیں اپنے بعض مسائل کو بعض مسائل سے دباتی رہتی ہیں۔ حکومتوں کے مفادات مختلف ہوتے ہیں۔ ہندستان کی دوستی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے پاجائے توحکومتوں کے پاس عوام کے لیے کوئی نعرہ ہی باقی نہیں رہتا۔کیونکہ امریکہ تو بہت دور ہے اس سے جنگ کیسے کی جائے ؟

س: میرے خیال میں ایسا ہونا چاہیے کہ دونوں ممالک میں بالکل گراس روٹ لیول پہ اس طرح کی تحریکیں اور پریشر گروپس منظم ہوں جو ایک طرف تو عوام کو جذباتیت سے نکالنے کی جدوجہد کریں اور دوسر ی طرف وہ حکومتوں پر زور ڈالیں کہ ہر سطح پر امن کا عمل جاری رکھا جائے تا کہ حکمران نہ عوام کو exploit کر سکیں اور نہ ان کے مفاد ات بیچ میں آسکیں۔

ج: دیکھیں حکومتوں کے پاس میڈیا کی پاور بہت زیادہ ہے۔وہ چیزوں کو پروپیگنڈا بنا کراگر آپ کے جذبات کو تبدیل نہ بھی کر سکیں تو اس کو دبا ضرورسکتے ہیں۔وہ ایسے جذبات اور ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ اپنے پازیٹو جذبات کا اظہار کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے لیکن بہرحال بات آپ کی بالکل ٹھیک ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اُدھر بعض لوگوں نے بتایا کہ ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کلبوں کا تبادلہ کریں۔ کلب لیول پہ ٹیمیں آپس میں کھیلیں۔اس سے نچلی سطح پر انٹر ایکشن بڑ ھے گا۔اس طرح میں یہ سمجھتا ہوں کہ مذہبی اداروں کو بھی یہ کام کرنا چاہیے وہ جائیں اور ادھر جا کر سیمینارز کریں۔لوگوں کو inviteکریں اپنی بات مثبت طریقے سے ان تک پہنچائیں۔ آپ یہ دیکھیں گے کہ جس طرح اور جیسے جیسے لوگ ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔(یقینا ایسے لوگ بھی ہوں گے جو سمجھنے کے باوجود بھی کوئی اثر نہیں لیں گے) جذبات بہتر ہوتے چلے جائیں گے ۔یعنی ایک دوسرے کے نقطہ نظر کوappreciate کرنا دوستی کا پہلا قدم ہوسکتا ہے۔

س: میرا خیال ہے کہ اس میں مذہبی طبقے کو زیادہ رول اداکرنا چاہیے۔

ج: یہ بھی ایک مسئلہ ہے ۔ مذہبی ادارے اگر سمجھیں کہ پورا ہندستان ہمارے لیے دعوت کا میدان ہے تو پھر تو مسئلہ آسان ہو سکتا ہے ورنہ بہت مشکل ہے ۔ اگر ہمارے مذہبی ادارے اپنا رخ درست کرلیں تو ایک ارب انسانوں کا میدان آپ کے سامنے کھلاہے اوراس حوالے سے جنت بنانے کا پورا موقع موجود ہے۔

س: کسی institution میں جانے کا موقع بھی ملا؟

ج: نہیں کسی institution میں جانے کا موقع تو نہیں ملا۔البتہ ایسی جگہیں دیکھنے کا موقع ملا جو institutionsہی کی طرح دیکھی جاسکتی ہیں۔لیکن امید ہے کہ اللہ نے پھر کبھی موقع دیا تو میں یونیورسٹیاں دیکھنا چاہوں گا۔مولانا وحیدالدین اُدھر ہوتے ہیں ان سے ملاقات کا اگر شرف حاصل ہوا تو ان کو ضرور ملوں گا۔

س: مساجد میں آپ نے کیساماحول دیکھا؟

ج: جو صورت حال ہمارے ہاں ہے وہی ادھر بھی ہے نمازی کم ہی ہو تے ہیں۔

س: عام آدمی کے حوالے سے کوئی دلچسپ بات؟

ج: جب ہم دہلی پہنچے تو صبح کے تقریباً چار بجے کاوقت تھا۔وہاں پہ کچھ ٹیکسیاں کھڑی تھیں۔رکشے بھی تھے آٹو رکشے۔ایک صاحب نے میرا سامان اٹھا لیا میں اس کے ساتھ چلا گیا ۔ راستے میں ایسے ہی بات چیت ہوئی کرکٹ کا ایک میچ ہوا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کو کچھ خبر ہے کہ میچ کا کیا بنا؟تواس نے کہا کہ میرا اس میں کچھ انٹرسٹ نہیں ہے۔اور پھر خود ہی وہ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگا کہ میرے پاس سمے نہیں تھا۔ یہ ان لوگوں کا شوق ہے جن کے پاس سمے(وقت ) ہو۔اور میرے پاس سمے نہیں ہے۔ پھر کہا کہ اصل میں تو کسی کے پاس بھی سمے نہیں ہے لیکن لوگ یہ مانتے اور سمجھتے نہیں ہیں۔ میں اس پر کافی متوجہ ہو گیا۔پھر اس نے کہا کہ دور وہ آگیا ہے کہ جس میں بھگوان کی طرف لوٹنا ہے۔اور یہ کہ انسان اس کے لیے تیاری پکڑ رہا ہے۔ چھیالیس سال کی عمر ہو گئی ہے میری اور یہ کہ مجھے اس طرح کے دنیاوی کاموں سے پرہیز ہی کرنا چاہیے۔

 بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک عام آدمی چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیور ہو یا اور ،چاہے وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوا ہو یا کہیں اور، خدا کے لیے اس میں لپک بہر حال موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنے اپنے طریقے پر۔ نیکی ہر رنگ میں، ہر ماحول میں، ہر جگہ پر ایک بڑی خوبصورت تصویر کی صورت میں پائی جاتی ہے۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کی بخشش کے امکانات موجود ہیں؟

ج: دیکھیں، آخرت میں اللہ تعالیٰ جو سزا دے گاوہ اصل میں کفر کی دے گا۔یعنی آدمی نے جس بات کو حق پایا اور جس بات کو اس نے حق سمجھا اس سے اگر اس نے اپنے تکبر میں، یاضد میں، یا تعصب میں ،یا محض دنیا کی خاطر منہ موڑا تواس بات کی سزا انسان کو ملے گی۔ یہ فیصلہ تو پروردگار کو، جو سب جانتا ہے، کرنا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جو آدمی یہ تڑپ رکھتا ہے اور اپنی دنیا میں پوری احتیاط کر رہا ہے اس تک اگر ہم موثر طریقے سے دین کی دعوت پہنچائیں گے تو کیا وجہ ہے کہ وہ اسلام پر کھڑا نہ ہو؟ ہمیں اصل میں یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے کہ کس آدمی نے جنت یا جہنم میں جانا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کو کرناہے اور ہم اس کے نااہل ہیں علم کے اعتبار سے بھی اور اپنی معلومات کے اعتبار سے بھی ۔لیکن ہمیں کم از کم یہ فیصلہ تو کر لینا چاہیے کہ ہم اپنی باقی زندگی کو کس طرح سے بسر کر یں ۔جنت کے لیے یا جہنم کے لیے اوراگر اپنی لیے جنت کا فیصلہ کرتے ہیں تو دوسروں کے بار ے میں بھی ہمیں یہی فیصلہ کر ناچاہیے میرا خیال ہے کہ اگر ہم اتنا بھی کر لیں توہماری بخشش کاسامان ہو جائے۔بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے بارے میں وہ فیصلے کرتے پھریں جوصرف اور صرف اللہ کے اختیار میں ہیں۔

س: بعض حلقوں کا خیا ل ہے کہ پاک ہند تعلقات بڑھنے سے انڈین کلچر promote ہوگا خاص طور پر فلموں کے حوالے سے ۔ اورہمیں مذہبی حوالے سے نقصان ہوگا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں ایسا ہوگا؟

ج: دیکھیے جو کلچرل انٹریکشن ہے وہ دنیا میں روکا نہیں جا سکتا۔ہندستانی فلموں کا معاملہ تو تب بھی ایسے ہی تھا جب آپ کی دوستی نہیں تھی۔ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ ہندستان اور پاکستان میں دوستی کے معاملات پیدا ہوئے ہیں تو ہندستان کی فلمیں دیکھی جانا شروع ہوگئی ہیں۔یہ توپہلے بھی گھرگھر دیکھی جاتی تھیں۔ یہ چیز آپ نے اگر روکنی ہے تو آپ کو communication کے سارے دروازے بند کرنے پڑیں گے۔ ان کے چینلز پہ پابندی لگائیں ، انٹر نیٹ کمیونیکیشنز پر پابندی لگائیں۔دنیا اب کمیونیکیشن کے معاملے میں اس جگہ پہ پہنچ چکی ہے کہ آپ اگر پابندی لگاتے ہیں تو آپ دنیا سے کٹ کر رہ جائیں گے۔یہ وہ چیزیں ہیں جن پراس دور میں ہمیں نئے سرے سے غور کرنا پڑے گا۔اور اپنی جو کلچرل ویلیوز ہیں ،جن کو ہم فی الواقع اہم سمجھتے ہیں ،ان کی مضبوطی کے ساتھ دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انڈین کلچر کی بعض چیزیں ہمارے لیے واقعتا نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں؟

ج: جی ہو سکتی ہیں، میں آپ کو مثال دیتا ہوں ۔ ایک صاحب بتارہے تھے کہ ان کی بچی نے ایک شادی پر پوچھا کہ اس میں آگ کیوں نہیں جل رہی ؟یہ ظاہر ہے ہندستان کے ڈراموں اور فلموں کااثر ہے ۔بچے ان چیزوں سے اتنے exposeہوتے ہیں کہ وہ اس کو اپنی چیز سمجھتے ہیں۔ اور اپنی چیز اس لیے سمجھتے ہیں کہ وہی زبان بولی جارہی ہے ،وہی طور طریقے ہیں ،وہی لباس ہوتے ہیں۔

ہر گلچر کی بعض مخصوص چیزیں ہوتی ہیں جن سے محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کلچرل انٹریکشن کو تو روکنا نا ممکن ہے البتہ ہمیں اپنی کلچرل ویلیوز کو سیف گارڈ کرنا چاہیے۔ہمیں میڈیااور دوسرے کمیونیکیشن نیٹ ورکس کو useکر کے اپنی کلچرل ویلیوز کو آگے بڑھانا چاہیے۔مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمار ی فلموں اور چینلز پر بھی ہندستانی کلچر ہی پروموٹ کیا جا رہا ہے ۔ اگر آپ ہندستان کی ساری فلموں کو بندبھی کر دیں تو ہمارے اپنے چینلز جو کچھ پرچار کر رہے ہیں وہ بھی کوئی کم نہیں۔ہمیں کیا چیز سیف گارڈ کرنی ہے اور کیا نہیں کرنی، اس کے لیے ہمارے پاس کوئی پالیسی ہی موجود نہیں ہے۔جب ہمارے پاس کوئی واضح نصب العین ہی موجود نہیں ہے تو پھر اس کے بعد تو ہر چمک دار چیز ہمیں مائل کرنا شروع کر دے گی۔ اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔

س: یہ تو ہمار ا بڑ ا مسئلہ ہے کہ قومی سطح پر ہمارے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔اب کم از کم خاندان کی سطح پر ہمیں کون کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں؟

ج: دیکھیں یہ تو فرد کے اوپر منحصر ہے کہ گھر کا سربرا ہ اس کو کس طرح سے ہینڈل کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ چونکہ میڈیا کا معاملہ ہے تویہ اصل میں ایک macro لیول کا معاملہ ہے۔یہ ایسا نہیں ہے جو بعض گھروں کے اندر موجود ہو اور بعض کے اند رنہ ہو۔ اس پر ہمیں واضح پالیسی بنانی پڑے گی۔کہ ہمیں اس کو counter کیسے کرنا ہے؟ہم اپنے ایجوکیشن سسٹم کے اندر کیا تبدیلیاں لے کے آئیں کہ جن کے نتیجے میں ہم اپنی کلچرل ویلیوز کو پروموٹ کر سکیں۔ہم اپنے پروگرامز کس طرح کے بنائیں کہ جو ہمارے کلچر کو یا ہماری ان ویلیوز کو پروموٹ کریں کہ جن کے ساتھ فی الواقع ہمیں مذہبی لگاؤ ہونا ضروری ہے۔کیونکہ جس وقت آپ کے اوپر کلچرل یلغار ہو جاتی ہے وہ ایک macro لیول پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔تو اس وقت یہ decideکرنا بڑا ضروری ہوجاتا ہے کہ اب جب کہ سب کچھ نہیں بچ رہا تو کم از کم وہ کون سی چیز ہے جوہمیں بچانی ہے۔ یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کلچرل یلغار کے نتیجے میں اپنے مذہب سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

س: آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے امکانات ہیں؟

ج: امکانات تو ہندستان کے ٹیلی ویژن چینلز کوبند بھی کر دیں تو بھی موجود ہیں۔ بچپن میں جب ہم موویز دیکھا کرتے تھے تو اس وقت جس چیز کا احساس ہوتاتھا وہ یہ تھا کہ یہاں گاؤں کاجو کلچر دکھایا جارہاہے وہ ہمارے گاؤں میں تو کبھی نظر نہیں آیا۔ جب یہ صورتحال ہے تو ہم کن کلچرل ویلیوز کی بات کر رہے ہیں۔ہماری تو کوئی کلچرل ویلیوز ہی نہیں جن کو ہم پیش کر سکیں۔ وہ فلمیں جو فی الواقع اس کلچر کی پروموشن یا پروجیکشن کرتی تھیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتی تھیں۔ عام آدمی بھی ان کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ اصل میں اینٹرٹینمنٹ کے لیے آتا ہے اینٹرٹینمنٹ کر کے چلا جاتا ہے اور جو بنانے والے ہیں ان کے پیش نظر بھی یہ نہیں ہوتا کہ ہمیں کسی پالیسی کے تحت کسی چیز کو سیف گارڈ کرنا ہے۔ وہ تو صرف لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کا خیال کر تے ہیں اور وہ چیز پیش کر تے ہیں جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں۔

س: میرامقصد یہ ہے کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی، تعلیم کا نظام کچھ نہیں کررہا ،سیاستدان نہیں کر رہے پارٹیاں نہیں کر رہیں تو اب ایک فرد کی ذمہ داری کیا ہے؟

ج: فرد اپنے گھر میں ذمہ دار ہے وہ اپنے گھر میں ذمہ داری ادا کرے ۔اپنے بچوں کو وقت دے اور ان پر علمی طور پر اور عملی مثالوں سے بھی اپنی اقدار کی اہمیت اجاگر کرے۔اگر کوئی ایسی بات ،یا کوئی ایسی چیز ،یا کوئی ایسی تحریک سامنے آتی ہے جو اس طرح کے معاملات میں کام کررہی ہے ،توفرد اس کے ساتھ تعاون کرے۔

س: اس پورے سفر میں آپ نے کیا محسوس کیا کہ آیا ایک عام ہندستانی شہری کی معاشی حالت ایک عام پاکستانی شہری کی نسبت بہتر ہے یا کم تر ہے؟

ج: ہندستان میں جو مڈل کلا س ہے وہ زیادہ ایجوکیٹڈ اور زیادہ مہذب نظر آئی خاص طور پر ٹریفک کے اعتبار سے اور یہ بھی ایک علامت ہو تی ہے۔باقی یہ ہے کہ مضافات میں توجانا نہیں ہوا،ان میں جانا ہو تو بہتر تجزیہ ہو سکتا ہے ۔ جن علاقوں میں ہم گئے وہ تو لاہور ہی لگتے تھے۔ وہی مغل تاریخ، وہی کلچر ۔ دہلی ان کا capital ہے اور ایک capital city سے پورے ملک کی assessment بڑی مشکل ہو جاتی ہے ۔اس وجہ سے اس پوزیشن میں مَیں اپنے آپ کو نہیں پاتا کہ اس پر comment کر سکوں ۔ generally جو چیز محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہاں عوام میں lawکی sense ہم سے زیادہ ہے ۔اور وہ زیادہdisciplined محسوس ہوتے ہیں۔باقی استثنا تو ہوتے ہی ہیں۔

س: تعلیم کا تناسب زیادہ ہے پاکستان سے؟

ج: جی بالکل اور تعلیم کے اثرات بھی زیادہ ہیں۔کرکٹ کے میچ میں حالانکہ اتنا رش تھالیکن لوگ اپنی باری کے انتظا ر میں کھڑے تھے وہ کوئی لائن نہیں توڑ رہے تھے۔

تعلیم کے اثرات قومی مزاج میں محسوس ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

س: ہمارے ہاں اس ڈسپلنڈ مزاج کے نہ بننے کی وجہ کیا تعلیم سے زیادہ سیاسی بدنظمی نہیں ہے ؟

ج: ڈسپلن کا تقاضا یہ ہے کہ میں اپنی باری کا انتظار کروں اور اگر اسوقت کسی اور کی باری ہے تو اس کو برداشت کروں ۔ ہمارے ہاں یہ ڈسپلن لیڈر شپ میں بھی موجود نہیں ہے اور اسی کے نتیجے میں عوام میں بھی موجود نہیں ہے۔ باری کا انتظار کرنے کو کوئی تیارہی نہیں اور مزید یہ کہ دوسرے کو باری لیتے دیکھنا نہیں چاہتے۔یعنی ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس کی باری ہو پہلے ہم اس کی ٹانگ کھینچیں اور پھر اس کے بعد دیکھیں گے کہ ہوتا کیاہے۔

س: میرا خیال ہے کہ پچھلے اٹھاون برسوں سے حکومتوں اورمقتدر طبقوں کے مابین جو رسہ کشی ہے اس کے نتیجے میں عوام کے اندر یہ بات جڑ پکڑ گئی ہے کہ شایدہمیں باری ملے ہی نہ ۔ ایک خوف سا پید اہو گیا ہے جس کی وجہ سے وہ چھین لینا چاہتے ہیں ۔

ج: بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ ہی حکومت میں ہورہا ہے اور یہ ہی عوام میں ہورہا ہے۔ اس سے ایک خاص مزاج ڈیولپ ہوا ہے۔

س: اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی استحکام نے انڈیا میں بہت بڑارول ادا کیا ہے؟

ج: یقینا ۔

س: دہلی میں بھی اسی طرح دو علاقے ہیں ایک پرانا دہلی اور نیا دہلی ؟

ج: ایسا ہی ہے جامع مسجد ، کوتوالی اور جو ہسٹوریکل پلیسز ہیں وہ زیادہ تر پرانے شہر میں ہیں۔

س: آئندہ سفر میں آپ انڈیا کے کن علاقوں میں جانا چاہیں گے؟

ج: میں آگرہ دیکھنا چاہوں گا ۔ اعظم گڑھ اور یوپی اصلاحی صاحب کی وجہ سے ۔ لکھنؤ کا اگر موقع ملے تو لکھنؤ کا کلچر بھی دیکھنے کی چیز ہے۔دہلی میں ایک چیز بہت مزیدار ہے ،کہ بعض سائن بورڈز پر اردو لکھی ہوتی ہے ۔ میں نے جب ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا تو اس نے بتا یا کہ لکھنؤمیں بہت جگہوں پہ لکھی ہوتی ہے۔

س: لکھنؤ میں تو اردو سپیکنگ کلچر ہو گا کیا دہلی میں پنجابی کلچر زیادہ ہے؟

ج: جی زیادہ پنجابی کلچر ہے اور پنجابی بولی بھی بہت زیادہ جاتی ہے۔دہلی almost یوپی کے بارڈر پر آجاتا ہے تو اس سے پہلے اس طر ف جو ہے وہ زیادہ پنجابی ہی بولی جاتی ہے ۔ پنجاب ہی کہنا چاہیے اسے۔

س: ہمارے ہاں جو ہندستان اور پاکستان کا انٹریکشن ہے وہ ان ہی علاقوں میں زیادہ ہوسکتا ہے۔

ج: جی ان علاقوں میں اور دوسرا مسلم کلچر کی وجہ سے حیدرآباد میں بھی ۔ حیدرآباد دکن، میں آج بھی بہت مسلمان بستے ہیں۔ حیدرآباد بھی اچھی جگہ ہوسکتی ہے دیکھنے کے لیے۔

س: یہ تو واضح ہوا کہ، عوام چاہتے ہیں کہ دوستی ہو لیکن ہمارا جو کور ایشو ہے یعنی کشمیر کا معاملہ ۔ اس ایشو کو اسی طرح رکھتے ہوئے کیا ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔یا اس کو پہلے سیٹل کر نا ہوگا؟

ج: دیکھیے یہ تو decideکرنے والی باتیں ہیں جو اوپرپالیسی لیول پہ لوگوں کو decide کرنی چاہئیں۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ بہت سے ایشوز ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر ہمیں زمینی حقائق کی روشنی میں غور کرنا چاہیے۔ ان کے بارے میں محض جذبات کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اس وقت کیا چیز حل کر سکتے ہیں اس کو حل کریں اور پھر ایک اجتماعی فائدے کی طرف آگے بڑھیں ۔ کیا یہ زیادہ اچھا نہیں ہوگا کشمیر کے اندر جو جانیں ضائع ہورہی ہیں اور ماؤں بہنوں کی جوبے آبروئی کا معاملہ ہے وہ کنٹرول میں آجائے ۔

س: کیا کشمیر کے ایشو کو منجمند کر دیا جائے اورباقی جو پولیٹیکل مسئلے ہیں وہ حل کر لیے جائیں جیسے پانی وغیر ہ کا مسئلہ؟

ج: بالکل بالکل ،یہ کرنے چاہییں۔ کیونکہ کشمیر کا ایشو اگر آپ سیز نہ بھی کریں تو بھی اس کو حل کرنے کے لیے بڑے صبر کے ساتھ آگے بڑھناہو گا ۔ کشمیر دونوں ممالک میں ایک جذباتی مسئلہ ہے۔ دونوں ہی ممالک اپنے پراپیگنڈے سے اسے ا تنا جذباتی ایشو بنا چکے ہیں کہ اس سے پیچھے ہٹنا دونوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں اگر عوامی نفسیات کو پہلے ٹھیک کر لیا جائے اور اعتمادپیدا ہونے دیا جائے تو پھر اس کے بعد آگے بڑھنا ممکن گا۔اس وقت صورتحال یہ نظر آتی ہے کہ نہ پاکستان ہی اپنے موقف سے بہت زیادہ ہٹ سکتا ہے کیونکہ بہت زیادہ بیان بازی ہو چکی ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اگر کٹ گئی تو پاکستان کی جان نکل جائے گی تو ایسی باتوں کے بعد اس سے پیچھے ہٹنا حکومت کے لیے آسان نہیں ہوتا ۔ اور ہندستان کا بھی یہ ہی معاملہ ہے کہ وہ اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے چکے ہوئے ہیں اب ان کو کسی نوعیت کی adjustment کے اوپر آنے کے لیے وقت چاہیے۔

س: اس کا حل یہ نہیں ہے کہ حکومت میڈیا کے ذریعے عوام کی ذہین سازی کرے؟

ج: یہ بھی تب ہو سکتا ہے، جب آپس میں کوئی decisionہو جائے۔ اور decisions لینے کے لیے عوام کی جو نفسیات ہے اس کو ابھی مزید پازیٹو کرنے کی ضرورت ہے ۔یعنی عوام آپس میں محبت کرنے لگیں۔ابھی کشمیر کے ایشو پر تعصب باقی ہے۔اوریہ تعصب آپس کے انٹر ایکشن سے ہی دور ہو گا۔ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ تعلقات کو بڑ ھنے دیا جائے ،یہ دور اب جنگیں لڑ نے کا نہیں ہے۔

س: اگر دینی تقاضا ہو تب بھی؟

ج: دین کی جنگیں اپنی جگہ پر لڑنی ضروری ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے جو قوانین ہیں ان کی پابندی کرتے ہوئے ۔ اس موقعے پر پاکستان تو اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اس نوعیت کی جنگ لڑ سکے تو اس وجہ سے زیادہ حکمت کے ساتھ ایشوز کو diplomatic point پہ ہی حل کرنا ہے۔ اور اس میں ظاہر ہے ٹائم لگتا ہے۔اور پھر کیا یہ لازم ہے کہ ہمیں ہی حل کرنا ہے معاملات کو آگے بڑھنے دیا جائے اگلی نسلیں اس کوحل کر لیں گی ۔

س: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا کی سوسائٹی زیادہ لبرل ہے؟

ج: ۔پاکستان کی طرح ہندستان بھی ملٹی کلچرل سوسائٹی ہے ادھر بھی لبرل ازم بہت زیادہ ہے اور اُدھربھی۔ مذہب کے ساتھ آپ نے صحیح اور غلط کا فیصلہ خود کرنا ہے

س: ہمارے ہاں بعض لوگ مذہب کو نفرت پروموٹ کر نے کے لیے استعما ل کر تے ہیں کیا وہاں بھی یہ ہورہا ہے ؟

ج: ایسے گروپس یقینا ہیں لیکن یہ بات کہ وہاں لبرل ازم زیاد ہ ہے، اس طرح بات generalizeنہیں کی جا سکتی۔ میں تو امریکہ کے حوالے سے بھی یہ سمجھتا ہوں کہ امریکن سوسائٹی یورپ کے مقابلے میں لبرل سوسائٹی نہیں ہے ۔چونکہ امریکن سوسائٹی بھی ملٹی کلچرل سوسائٹی ہے ۔ وہاں بھی بعض علاقے ایسے ہیں جہاں آپ کو بہت conservativeلوگ نظر آئیں گے میرے ایک عزیز دوست مجھے بتا رہے تھے کہ بعض علاقوں کے اندر آپ اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر بھی نہیں جاسکتے۔ اور conservativeism تو ہر جگہ پایا جاتا ہے ۔ ہندستان میں بھی پایا جاتا ہے۔پاکستان کی طر ح وہ سوسائٹی بھی کوئی ایک رنگ کی سوسائٹی نہیں ہے۔

س: لبرل ازم کی ٹرم کو ہمارے ہاں ایک خاص تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔مثلا ً پچھلے دنوں پرویز مشرف صاحب نے کہا کہ پاکستان میں مقابلہ حسن اس لیے نہیں ہو سکتاکہ یہاں کی کمیونیٹی زیادہ لبرل نہیں ہے ۔ یعنی مشرف صاحب بھی اس کو ایک خاص اینگل سے دیکھ رہے تھے ۔ نہ کہ اس کو اوور آل ٹریڈیشن یا قدر کے طور پر کیااس طرح سے دیکھنا اور اجاگر کرنا غلط نہیں ہے؟

ج: جی یہ بات بھی ٹھیک ہے آپ کی لیکن اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ دنیا خاص طور پہ پاکستان کے اندر لبریلیٹی کواسی نظر سے دیکھتی ہے ۔ اس وجہ سے جب بھی لبرل ازم کی بات ہوتی ہے تو بات خواتین کے انٹریکشن پر ہوتی ہے۔ یہ ایک تخصیص ہو گئی ہےother wise لبرل ازم اپنی جگہ پہ ایک پورا نقطہ نظر ہے۔ہندستان میں بھی آپ کو ہر طرح کے لوگ ملیں گے سوسائٹی کیونکہ سیکولر ہے ۔ اس وجہ سے وہاں لبرل ازم کا پرچار زیادہ نظر آئے گا۔

س: کیاوہاں سوسائٹی واقعتا سیکولر ہے ؟

ج: عملاً کہنا تو بہت مشکل ہے کیونکہ ان کے سارے مذہبی تہواروں کی نیشنل ہالیڈیز ہوتی ہیں ۔ اور عید پر ایک چھٹی ہوتی ہے اور دیوالی پر چار پانچ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ یہ آپ کے سامنے ہی ہے ۔ سیکولر سوسائٹی دیوالی کی چھٹی کیوں دے گی۔ ہندستان آئینی طور پر بس سیکولر ہے۔

س: اس سفر کے حوالے سے اور کوئی خاص بات جو آپ کہنا چاہیں؟

ج: بس جی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں ایمان کی سلامتی نصیب فرمائے اور مسلمانوں کو توفیق دے کہ وہ ہندستان کو دعوت کامیدان سمجھیں نہ کہ جنگ کا۔

بہت بہت شکریہ۔