قیام پاکستان کا تاریخی پس منظر

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : گوشہ آزادی

شمارہ : اگست 2005

خطاب ،جاوید احمد غامدی

تحریر و تلخیص، عمر فاران ۔ نظر ثانی ، طالب محسن

یہ تحریر اصل میں محترم جاویداحمد غامدی کا خطاب ہے جو انہوں نے ۱۴، اگست ۱۹۸۴ کو خالد مسجد ، کیولری گراؤنڈ لاہور میں کیا۔ سوئے حرم اس تاریخی تجزیے کی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے باذوق قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے ۔ اس تجزیے کے ساتھ اتفاق یا اختلاف بہر حال قارئین کا حق ہے ۔

بسم اللہ الرحمان الرحیم

             حضرات ایک مسلمان اور اس ملک کے شہر ی ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ دن خوشی ’ مسرت اور انبساط کا دن تو ہے ہی لیکن خدا کے حضور میں اظہار تشکر کا دن بھی ہے ۔ قوموں کی زندگی میں اس طرح کے دن کبھی کبھی آتے ہیں کہ جب وہ کوئی بڑا اجتماعی فیصلہ کرتی ہیں تو اس اجتماعی فیصلے کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ان کی اپنی زندگی پر اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ گردوپیش کے انسانوں، علاقوں اور ممالک پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ پاکستان کے قیام کو اگر آپ تاریخ کے تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو ہماری قومی زندگی کایہ ایسا ہی عظیم الشان فیصلہ تھا۔

            برصغیر میں مسلمانوں کی وہ سلطنت جو محمد بن قاسم نے قائم کی تھی ،اپنے تصور کو تاریخ میں برقرار نہ رکھ سکی اور اس کے بعدوسط ایشیا سے آنے والے مختلف حکمرانوں کے اندر دین کی رمق تو تھی لیکن وہ دین کی حکمرانی یہاں اس طرح قائم نہ کر سکے جس طرح کبھی مسلمان قائم کیا کرتے تھے ۔ اور اسی انحطاط کا نتیجہ تھا کہ جب انگریزوں، پرتگیزیوں، فرانسیسیوں اور ولندیزیوں نے دنیا میں صنعتی انقلاب برپا کیا تو ہم ان کا ساتھ نہ دے سکے ۔ ان لوگوں نے قدرت کی طاقتوں سے کام لیکر اپنے اندر وہ قوت اور ہمت پیدا کر لی کہ ایک زمانہ ان کے سامنے سر نگوں ہوا،ہم بھی سرنگوں ہوئے اورہماری یہ سلطنت بھی۔مسلمانوں کی حالت یہ ہو گئی کہ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ تھے جو یہ جانتے تھے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے ۔

             ہندوستان میں مسلمانوں کے اجتماعی وجود کا سب سے پہلا اظہارسید احمد شہید کی تحریک کی شکل میں ہوا۔ اگر اس تحریک کی قیادت اور اس تحریک سے مابعد متاثر ہونے والے لوگ حالات کا صحیح صحیح جائزہ لیتے اور مسلمانوں کی کتاب و سنت کی روشنی میں تربیت کرنے کی کوشش کرتے، ان کے نظام تعلیم کو بدلتے، اوران کے افکارو خیالات کو کتاب وسنت سے مربوط کرتے تو شاید یہ ہراول دستہ جو اپنی شہادت سے ہمارے لیے راستہ روشن کر گیا تھا، آگے بھی روشنی کا مینار ثابت ہوتا لیکن ہماری یہ بد قسمتی ہوئی کہ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد وہ جذبہ جہاد بھی سرد ہو گیااور مسلمانوں کے اندر کی قوت بھی ختم ہو کر رہ گئی ۔

            یہی موقع ہے جس موقع پر ہمارے بعض اہل علم نے یہ سوچا کہ اب ہم اگر مزاحمت نہیں کر سکتے تو ہمیں کم از کم اپنے دین کو محفوظ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ چنانچہ دیو بند کا مدرسہ اوربعض دوسرے مدار س اسی کوشش کا نتیجہ تھے ۔لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد انگریزوں نے یہاں ایک نئے نظام تعلیم کا ڈول ڈال دیا اور اس نئے نظام تعلیم کے نتیجے میں فارسی عربی پڑھے لوگ جاہل مانے گئے ۔ان کی جگہ پر انگریزی کی شد بد رکھنے والے لوگوں کو حکومت میں اثر و رسوخ ملنے لگا ،ملازمت کے مواقع بھی انہی کو حاصل ہونے لگے اور سوسائٹی میں احترام بھی انہی کا ہونے لگا۔ ہندو چونکہ مزاحمت کی تحریک میں شریک نہیں تھے اس لیے وہ بڑھ چڑھ کرانگریزی کی جانب لپکے تو مسلمانوں کے ذی شعور لوگوں میں بھی اس کا احساس پیدا ہوا کہ وہ بھی اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ درحقیقت اپنے حقوق کا تحفظ اور اپنے عقاید کا دفاع، یہ دو کوششیں ہیں جو بنیادی طور پر دونوں طرف دکھائی دیتی ہیں۔ حقوق کا تحفظ بھی حقیقت میں آدمی کو میدانِ مزاحمت سے پیچھے لاتا ہے اور دفاع کی کو شش بھی آدمی کو حصار میں بند کرتی ہے۔ چنانچہ پہلی کوشش نے ہمارے عظیم مدرسے دیو بند کی شکل اختیار کی اور دوسری کوشش نے ہمای عظیم درسگاہ علیگڑھ کی شکل اختیا ر کی ۔

             سر سید کے بارے میں آپ کچھ بھی کہیں آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ اس زمانے میں جبکہ مسلمان مغلوب تھے اور ان کی قوتِ جہاد ختم ہو چکی تھی اور وہ لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کے قابل نہیں رہے تھے، اس وقت اس شخص نے مسلمانوں کے قومی حقوق کی پاسداری کی اور ان کے اجتماعی وجود کو بچانے کے لیے تعلیمی جدو جہد کی۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی کوشش غلط نہج پر استوار ہوئی جس کے نتیجے میں وہ نظام مسلمانوں کے اندر سرایت کر گیا،جس نظام کا ہماری روایات اور ہمارے معاشرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا لیکن یہ کوشش بہر حال تھی مخلصانہ ۔ یہ کوشش درحقیقت مسلمانوں کے اجتماعی وجود کو بچانے ہی کی ایک کوشش تھی اس کوشش کا نتیجہ یہ نکلاکہ کچھ ہی عرصے کے بعد مسلمانوں کے اندر واضح طور پر دو فریق وجود میں آگئے ایک گروہ ہمارے قدیم مدارس سے پڑھ کر نکلا۔ یہ گر وہ دین کا جذبہ ، دین کاعلم اور دین کا درد رکھتا تھا۔ دین کے ساتھ ان کا تعلق گہرا تھا واقع یہ ہے کہ یہ درویش لوگ جمع ہوئے اور اس زمانے میں جب کہ دین کی کوئی قدرو منزلت نہیں تھی انہوں نے دین کا علم حاصل کیااور جگہ جگہ مدارس قائم کیے جس سے یہ فائدہ ہوا کہ مسلمان انحطاط کے دور میں جانے سے بچ گئے ،مسجدیں آباد ہو گئیں اور مسلمانوں کو دین کی تعلیم دینے والے لوگ وجود میں آ گئے۔

            علی گڑھ کی تحریک کا نتیجہ یہ نکلاکہ اس کے اندر سے جو لوگ نکلے ان میں سے کوئی آکسفورڈ گیا اورکوئی کیمبرج ۔ انہوں نے انگریزوں کے نظام تعلیم، تہذیب وتمدن اور معاشرت وغیرہ کا مطالعہ کیا ،ان کو یہ معلوم ہوا کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کے اندر قومی حس پیدا ہو گئی ہے ۔ اسی قومی شعور اور احساس کو لیکر یہ لوگ واپس آئے لیکن جب یہ لوگ واپس آئے تو ہندوستان میں اس وقت تحریک ِخلافت کا ڈول ڈالاجا چکا تھا ۔سیداحمد شہید کی تحریک کے بعد برصغیر میں مسلمانوں کی اجتماعی جدوجہد کا یہ دوسر ا بڑا موقع ہے ۔

             1914 میں جب پہلی جنگ عظیم ہوئی اور اس کے بعد ترکی کے حصے ہونا شروع ہوئے تو اس بات کا خطرہ پیدا ہو گیا کہ اب مسلمانوں کا ضعیف خلیفہ بھی ختم ہو جائے گا اور مسلمانوں کے اجتماعی وجود کی آخری علامت بھی دنیا سے مٹ جائے گی تو اس کے لیے ہندستاں کے مسلمانوں میں جذباتیت پیدا ہوئی ۔ اس جذباتیت کا نتیجہ تھا کہ سارے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے اور پہلی دفعہ انگریزوں کو یہ احساس ہواکہ وہ قوم جسے ہم نے مغلوب کیا تھا اور جس کا ہراول دستہ سکھوں کے ساتھ دادِ شجاعت دیتا ہوا بالا کوٹ میں دفن ہو گیا تھا اس قوم کے اندر پھر ایک دفعہ اجتماعی وجود کا تصور پیدا ہو رہا ہے۔ اس تحریک خلافت کی دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح اس کو دیوبند سے خون ملا اسی طرح علیگڑھ سے بھی ملا ۔ بلکہ اس کے قائد آپ لوگوں میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ محمد علی جوہر تھے جن کا تعلق دیوبند سے نہیں علی گڑھ سے تھا ۔ تحریک خلافت کے زمانے میں یہ معلوم ہوتا تھا کہ پورے برصغیر میں مسلمان اپنے اجتماعی شعور کے ساتھ جاگ اٹھے ہیں اور یہی وہ موقع ہے کہ جب پہلی مرتبہ ہندوؤں میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کی صفوں میں خلافت کی تحریک کی تائید میں شامل ہوئے اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں اجتماعی جدوجہد کرنے کا جذبہ پیدا کیا ۔ یہی زمانہ ہے کہ جب محمد علی جوہر نے گاندھی جی کو دہلی کی جامع مسجد میں خطاب کی دعوت دی ۔ لگتا تھا کہ یہ دونوں قومیں اب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئی ہیں لیکن جس طرح تحریک خلافت کا آغازجذباتی تھا بالکل اسی طرح اس کے اقدامات بھی جذباتی تھے ۔ زمانہ کروٹ بدل چکا تھا ۔وہ دور گزر چکا تھا کہ جب ایک آدمی کٹھ پتلی کی طرح عثمانی سلطنت کے تخت پر بیٹھا لوگوں کو اپنی عقید ت میں مبتلا کیے رکھتا۔ لیکن زمانے کی اس کروٹ کا مسلمان صحیح شعور نہ پا سکے ۔تحریک خلافت چلی تو مسلمانوں نے یہاں خون دیا ،روپیہ دیا، مسجدیں برباد کروائیں ،ہزاروں عورتیں بیوہ ہوئیں ، مسلمان یہاں سے وفد کے وفد لیکر ترکی میں گئے اور کچھ اس طرح کی فضا پید ا ہو گئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ خلافت کے لیے جییں گے اور خلافت کے لیے ہی مریں گے۔ اپنے اجتماعی شعور کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی مسلمانوں کی اسی آواز نے ہندوؤں کے اندر لیڈر شپ پیدا کر دی۔ ورنہ ہندو نہیں جانتے تھے کہ ان کے اندر بھی کہیں قیادت پیدا ہوسکتی ہے۔ تحریکِ خلافت سے پہلے آپ نہیں بتا سکتے کہ ہندوؤں کے اندر کسی قسم کی کوئی لیڈر شپ موجود ہو ۔ موتی لال نہرو کی طرح کے لوگ اگرچہ بڑے لوگ تھے لیکن کانگریس کا حال ایک تجارتی تنظیم سے زیادہ نہ تھا۔ یہ مسلمان ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے ہندوؤں کو اجتماعی زندگی کا تصور دیا اور یہ مسلمان ہیں کہ جنہوں نے ان لوگوں کو سٹیج فراہم کیا ۔یہ نہیں جانتے تھے کہ مجمع سے خطاب کیسے کیا جاتا ہے ۔یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے جذبات کو اپیل کیسے کیا جاتا ہے ۔ ان کا مذہب تو حقیقت میں بتیاں بند کر کے اشنان کرنے کا مذہب ہے ان بیچاروں کو اس کی خبر نہیں تھی کہ کوئی قوم اجتماعی حیثیت سے بھی کبھی اٹھا کرتی ہے یہ مسلمان تھے کہ جنہوں نے ان لوگوں کو اپنی صفوں میں جگہ دی تو دیکھتے ہی دیکھتے سیاست میں بھی بہت بڑی بڑی ہندو شخصیات نمودار ہوگئیں۔

            تحریک خلافت ہماری بد قسمتی سے اٹھی تھی۔ اس کے پیچھے نہ عقل تھی اور نہ حالات کا تجزیہ ۔ بس یہ خیال پیدا ہواکہ ہمارے خلیفہ کو خطر ہ لاحق ہے تو لوگ اٹھ کھڑ ے ہوئے اور یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی کہ خلیفہ کہیں قائم بھی رہ گیا ہے یا نہیں اورخود اس کے اپنے وطن میں لوگوں کے اند راس کے لیے کوئی ہمدردی بھی موجود ہے یا نہیں ۔ مسلمانوں کی خلافت کی یہ تحریک اگر صحیح بنیادوں پر اٹھی ہوتی تو اس کے نتیجے میں ہمیں جو آزادی ملتی وہ آج کی آزادی سے بہت بہتر ہوتی اور مسلمانوں کا اجتماعی پلیٹ فارم اگر اس کو حاصل کرتا تو اس کے بعد ہمارے جسد کے بہت سے ٹکڑے ہونے کا یہ منظر ہمیں دیکھنے کو نہ ملتا۔ لیکن ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ یہاں خلافت کی تحریک عروج پر تھی اور ادھر مصطفی کمال نے اپنے ہی وطن میں خلافت کی قبا تار تار کر دی ۔ صرف ایک سال کے اندر اندر مسلمانوں کی خلافت ترکی کی قومی سلطنت میں بدل گئی ۔ ہندستاں میں اس کا اثر یہ ہوا کہ بڑے بڑے لیڈر ششدر رہ گئے ۔جس مقصد کے لیے وہ سعی کر رہے تھے ، وہ مقصد اپنے ہاتھوں سے ختم ہو کر رہ گیا۔چنانچہ جذبہ اورقوت عمل سلب ہو کر رہ گئی یہی وہ موقع ہے کہ ادھر مسلمان اپنی اخلاقی اورعملی شکست کے زخم چاٹ رہے تھے توادھر گاندھی اور نہرو وغیرہ حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی سوچ رہے تھے ۔ چنانچہ قیادت کا توازن آہستہ آہستہ آل انڈیا کانگریس کے ہاتھ میں جاتا چلا گیا۔ مسلمانوں کے اجتماعی وجود نے اس کے بعد انگڑائی لی تو معلوم ہوا کہ بازی ہار چکے ہیں۔

             برطانوی ہند میں اصلاً خلافت کی تحریک ہے جس نے آزادی کی تحریک کی شکل اختیا ر کی تھی لیکن آزادی کے علمبردار ہندو بن گئے اور مسلما ن ان کے پیچھے چل پڑے ۔ ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھاکہ وہ کانگریس کا ساتھ دیں ۔بانی پاکستان کانگریس کے رکن تھے ،محمد علی جوہر کانگریس کے رکن تھے، حسرت موہانی کانگریس میں تھے، شوکت علی کانگریس میں تھے، مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کانگریس میں تھے ۔ ہندستان کے بڑے بڑے علما کانگریس میں تھے ۔ وقت آیا کہ قیادت کا پلہ بالکل دوسر ی طرف آگیااور اس پلے کے دوسری جانب جانے میں جس چیز نے اہم کردا ر ادا کیا و ہ اکثریت کی حکومت کا وہ شعو رتھا جو یہاں سے جاکر آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھنے والوں کو میسر آیاتھا۔ وہ یہ تصور لیکر آئے کہ اکثریت کی بنیاد پر حکومتیں قائم ہونی چاہییں ۔پہلے یہ تصور نہیں ہوتا تھا ۔ پہلے یہ تصور ہوتا تھا کہ جس قبیلے کے پاس قوت زیادہ ہوتی اور جو اندرونی طور پر مضبوط ہوتا اس کا حق حکومت پر سمجھا جاتا ۔ دنیا میں ایک طویل عرصے تک اجتماعیت کا یہ اصول رہا مسلمانوں نے یہاں اسی اصول پر حکومت کی۔ ایک زمانے میں پورے برصغیر میں مسلمانوں کی آبادی چند لاکھ سے زیادہ نہیں تھی اور کروڑوں عوام ان کے آگے سرنگوں تھے کیونکہ اجتماعی زندگی میں مسلمانوں کے اندر ایک تنظیم پائی جاتی تھی اور طاقت کی کنجی ،طاقت کا چشمہ کسی قوم، کسی قبیلے کا اجتماعی وجود ہوتا ہے ۔ یہ شعو ریورپ نے دیا کہ اصل عنصر اکثریت ہے۔ چنانچہ ہندو لیڈر جب یہاں آئے تو ان کو خیا ل ہوا کہ ہم ہندوستان میں بہت اکثریت میں ہیں ۔ شروع شروع میں انہوں نے مسلمانوں کا تعاون حاصل کیا کیونکہ مسلمانوں نے ان کو بولنا سکھایا ،مسلمانوں نے ان کو اپنے مجمعوں سے خطاب کرنا سکھایا، مسلمانوں نے ان کو اجتماعی جدوجہد کرنے کا سلیقہ سکھایا لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب ان کی لیڈر شپ چمک اٹھی تو انہوں نے محسوس کیا کہ مسلمان تو یہاں اقلیت میں ہیں چنانچہ انہوں نے محض اپنے مفادات کو ترجیح دی ۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب ضروری تھا کہ مسلمانوں کی وہ لیڈر شپ جس کو مذہبی اثرو رسوخ اور دینی علم حاصل تھا، اپنے اجتماعی وجود کی بنیاد پر اس کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑ ی ہوتی تو یہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایک بار پھر ایک عظیم اقدام ہوتا۔ لیکن ہمار ی بد قسمتی یہ ہوئی کہ ان لوگوں نے دوسرے درجے کی پوزیشن کو قبول کر لیا۔یہی وہ مقام ہے جو ہماری تاریخ کاسب سے اہم مقام ہے۔ اسی مقام پر آکر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے بڑے اکابرجن کی خدمات سے، جن کے خلوص سے ،جن کے خدا کے ساتھ تعلق سے، جن کے دین کے فہم سے ہم انکار نہیں کرسکتے لیکن بہرحال وہ انسان تھے ۔ تحریک مزاحمت میں ہزیمت اٹھانے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے اپنے اجتماعی وجود کو ہندو کے ساتھ جوڑنے ہی میں عافیت سمجھی۔ چنانچہ کانگریس اور کانگریس کے زعما کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کا بھوت کچھ اسطرح سوار ہوا کہ بڑے بڑ ے علما نے خود کو کانگریس سے وابستہ کر لیا۔کانگریس سے وابستگی کا یہ فیصلہ ایک طرف ان کی صلاحیتوں کو کھاتا چلا گیا تو دوسری طرف مسلمانوں نے جب یہ محسوس کیا کہ ہماری ساری لیڈر شپ ہندؤوں کی حا شیہ بردار ہو کر رہ گئی ہے تو وہ آہستہ آہستہ اپنی لیڈر شپ سے دور ہوتے چلے گئے ۔کانگریس جو پہلے مسلمانوں کی ناز برداریاں کرتی تھی، گاندھی جو ابوالکلام کے جوتوں میں بیٹھناعبادت سمجھتے تھے ان کے اندر یہ چیز پیدا ہونا شروع ہو گئی کہ ہم اکثریت میں ہیں، مسلمانوں کو ہمارے پیچھے چلنا ہو گا چنانچہ مسلمانوں کو پیچھے چلانے کا یہ شوق اتنا زیادہ سوار ہوا کہ رد عمل میں بہت سے مسلمان لیڈر کانگریس چھوڑ گئے ۔ بانی پاکستان الگ ہوئے، تھوڑی دیر بعد محمد علی جوہر بھی الگ ہوئے کچھ ہی عرصہ بعد حسرت موہانی بھی الگ ہوئے لیکن مولانا آزاد جو بلاشبہ ،بلا شرکت غیرے ہندوستان کے سب سے بڑے لیڈ رتھے ،وہ کانگریس کے ساتھ وابستہ رہے ۔ درحقیقت یہی وہ فیصلہ ہے کہ جس فیصلے نے ہماری تاریخ کو ایک عظیم موڑ دیا کہ آہستہ آہستہ قیادت علما کے ہاتھ سے چھن کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو دین سے براہ راست واقف نہ تھے ۔جن کی مسلمانوں کے قومی وجود سے وابستگی کے ساتھ توکوئی شبہ نہیں ہے لیکن ہم پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے دین اور علوم سے اس طرح واقف نہیں تھے جس طرح کے علما تھے ۔

            اس نئی لیڈر شپ نے آگے بڑھ کر ہندووں کے عزائم کا پردہ چاک کرنا شروع کیا اورمسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ ہندو درحقیقت تمہیں ابدی غلامی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں اور اکثریت کے بل بوتے پر ان کا یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کوان کا حاشیہ بردار ہو کر رہنا ہے ۔یہ چیز جب مسلمانوں کو باور کرائی گئی تو ان کااجتماعی ضمیر پھر جاگ اٹھااور انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنی اس پرانی لیڈر شپ کو خیر باد کہہ دیا اور باوجود اس کے کہ یہ نئی لیڈر شپ دین کے معاملے میں اس طرح کی مستحکم لیڈر شپ نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ نئی قیادت کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ یہ کیوں ہوا؟ اس لیے نہیں کہ مسلمانوں کے یہ لیڈر تقوی سے محروم ہو گئے تھے، اس لیے نہیں کہ یہ لیڈر نماز پڑھنا نہیں جانتے تھے، اس لیے نہیں کہ ان کی داڑھیاں کٹ گئی تھیں بلکہ اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی مزاج کا کما حقہ ادراک نہ کرسکے تھے۔

            مسلمانوں کے اندر یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ اگر تم انگریز کی غلامی سے نکلو گے تو ہندو کی غلامی میں چلے جاؤ گے ۔ اس چیز نے مسلمانوں کو مجبور کردیا کہ وہ اس نئی لیڈر شپ کوقبول کرلیں اور یہ کم وبیش یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان اور ہندوستان کے آزاد ہونے سے کوئی دس بیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ دس بیس سال کے اندر اندر اجتماعی جدوجہد دوسرا رنگ بدلتی چلی گئی ۔آہستہ آہستہ مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر بیدار ہوتا چلا گیااور اجتماعی ضمیر کی یہ بیداری ایک مسلم سلطنت کے خواب میں بدلتی چلی گئی۔ وہ خواب جو خلافت کے استحکام کے لیے مسلمانوں نے دیکھا تھا اور محمد علی جوہر کی قیادت میں جس کے لیے انہوں نے جدوجہد کی تھی ایک دوسرے محمد علی کی قیادت میں وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اب ہمارا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گا ۔ وہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ ہمیں ہمارا کھویا ہوا سب کچھ مل رہا ہے، ایک مسلم سلطنت ،اپنا وطن، جس میں ہم خدا کا دین قائم کریں گے۔

             یہ لیڈر شپ اسلام اور اسلام کے علوم سے کتنی ہی نا آگاہ سہی لیکن چونکہ یہ پڑھی لکھی لیڈر شپ تھی ،سمجھتی تھی کہ سیاست کس طرح کی جاتی ہے، اس لیے اس لیڈر شپ نے جلسوں میں، جلوسوں میں، قراردادوں میں مسلمانوں کے سامنے یہی اجتماعی نصب العین رکھا ۔ تھوڑے ہی عرصے کے اندر اندر مسلمانوں کے ا س اجتماعی نصب العین نے اس نعرے کی شکل اختیار کر لی ‘‘ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ ’’ گویا بات بالکل واضح ہو گئی کہ مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر کسی قومی وطن کا طالب نہیں بلکہ ان کا اجتماعی ضمیر اسی خلافت کے احیا کی کوشش کر رہا ہے وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم ایک ایسی سلطنت قائم کریں جس میں خدا کا قانون ہم خود نافذ کر سکیں۔ مسلمان عام طور پر یہ ہی جانتے اور یہی سمجھتے تھے ۔ لوگ سر پر کفن باندھ کر اگر میدان میں آئے اور اس نئی قیادت کے تحت مستعد ہوئے تو اس کے پیچھے اس کے علاوہ کوئی جذبہ نہیں تھا ۔کوئی آدمی اگریہ کہے کہ دیکھو تمہارے مسلمان ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ تم یہ کام کرو تو ظاہر ہے کہ اس کے بعدتو سوچ ختم ہو جاتی ہے ۔یہ بات جب ذہن میں ڈال دی گئی ۔کہ‘ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ’ تو پھر مسلمانوں کو سوچنے کی فرصت نہ رہی۔ ان علاقوں کے مسلمان بھی اٹھے جن کو یہ یقین تھا کہ ہم کبھی اسلامی سلطنت میں شامل نہیں ہونگے۔ کس لیے؟ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ایک ایسے قومی وطن کی جدوجہد کی جارہی ہے جہاں اسلام نافذ ہو گا۔اگر محض قومی وطن کی جدوجہد کی جارہی ہوتی اور محض حقوق کاتحفظ پیش نظر ہوتا تو مسلمان اپنے اجتماعی ضمیر کا اتنا بڑا فیصلہ کبھی بھی اپنے قدیم علما کو کندھے سے اتا رکر نہ کرتے۔

             آج تو ہمارے بڑے بڑے دانشور ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں معاشی مسائل درپیش تھے ۔اصل میں ہندوؤں کی ذہنیت کے نتیجے میں ہمیں کاروبار کرنے کے مواقع حاصل نہیں تھے ۔وہ یہ کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے محرکات یہ تھے ،میں یہ کہتا ہوں کہ یہ محرکات لوگوں کے ذہن میں ہونگے ،یہ محرکات لیڈر شپ کے ذہن میں بھی ہونگے لیکن اس لیڈر شپ نے مسلمانوں سے جو بات کہی ،وہ یہ بات تھی کہ ہم درحقیقت اس کھوئی ہوئی خلافت کی جدوجہد کر رہے ہیں او رمسلمانوں نے اس آواز پر لبیک کہا تو یہ سوچ کر کہااور یہ سمجھ کر کہا کہ درحقیقت ہم اپنے اجتماعی شعور کو بیدار کر رہے ہیں ۔ اس کی مثال وہ تقریر ہے جوبہادر یار جنگ نے بانی پاکستان کی صدارت میں ہونے والے ایک جلسے میں کی تھی ۔انہوں نے کہا،‘‘ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں قائد اعظم، کہ آپ جس پاکستان کی جدجہد کررہے ہیں اگر وہ پاکستان خدا کے دین کا علمبردار ہوا ،اگر وہاں خلافت کا احیا ہوا، اگر وہاں ابو بکرؓ و عمرؓ کے دورکی سلطنت قائم ہوئی ،اگر وہاں قرآن وسنت کا بول بالا ہوا تو بہادر یار جنگ تمہارا سپاہی ہے اوراگر یہ نہ ہوا تو جس طرح بہادر یار جنگ آج تمہارے دشمنوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا ہے ،تمہارے گریبان میں بھی ہاتھ ڈالے گا’’۔ یہی وہ آواز تھی جس نے ہندوستان کو اور بالخصوص مسلمانوں کو شعلہ جوالہ بنا کر رکھ دیا ۔ کسی مسلمان لیڈر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کی اس آواز کے بر خلاف کچھ کہہ کر دکھائے۔لوگ احرار کے لیڈروں کی تقریر سننے کے لیے جم غفیر کی صورت میں اکٹھے ہو جاتے تھے لیکن احرا ر کے ان لیڈروں نے جب انہیں کانگریس کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ کرنا چاہا تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے اسے قبول نہیں کیا ۔یہ وہ وقت تھا کہ جس وقت اگریہ ہمارے پرانے لیڈر اور زعما یہ خیال کر لیتے کہ اجتماعی ضمیر کی یہ آواز تاریخ کی آواز بن چکی ہے اور مسلمانوں کو اب اس آواز سے ہٹانا ممکن نہیں ہے اور اس آواز پر لبیک کہنے کے بعد اب مسلمان کسی اور بات پر لبیک نہیں کہیں گے تو واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ بھی اس نئی لیڈر شپ کے ساتھ آملتے تو آج پاکستان کا نقشہ بالکل دوسرا ہوتا۔

             مسلمانوں کے اندر کے وہ سارے لوگ جنہوں نے سیاست کی تھی جنہوں نے گولیاں کھائی تھیں جنہوں نے جیلیں کاٹی تھیں وہ تواسی قدیم لیڈر شپ کے ساتھ تھے لیکن عامۃ الناس اس نئی لیڈ ر شپ کے ساتھ تھے اور جب عامۃالنا س اس کے ساتھ آئے تو بہت مشکل تھا کہ تھوڑے سے عرصے میں ان کی تربیت ہوجاتی ۔وہ لیڈر شپ جو ان کی تربیت کر سکتی تھی وہ چونکہ الگ ہو کر بیٹھ گئی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ جم غفیر کی شکل میں یہ لوگ مجتمع تو ہوتے چلے گئے لیکن ان کے اندر کام کرنے والے اس طرح تربیت نہ پاسکے ۔

            یہ ہماری اجتماعی تاریخ کا وہ پس منظر ہے جس کے تحت در حقیقت قیام پاکستا ن کا مطالبہ پیش کیا گیا ۔لیکن یہ پاکستان اتنا مختصر کیوں ہوا ؟ اس سے جونا گڑھ کیوں کھویا گیا، اس سے حیدر آباد کی سلطنت کیوں جاتی رہی ، کشمیر سے ہم کیوں ہاتھ دھو بیٹھے؟ اس کا سارا الزام اگر جاتا ہے تو ہماری قدیم لیڈر شپ کو جاتا ہے کہ جنہوں نے ا س موقع پر مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر کی آواز نہ سنی اگر وہ ساتھ آجاتی تو یوں سمجھ لیجیے کہ ہندوؤں کے ساتھ بھی اور انگریزوں کے ساتھ بھی معاملے کی نوعیت ہی بالکل بدل جاتی۔ مسلمان بٹے ہوئے نہ ہوتے بلکہ ان کی اجتماعی قوت ایک ہی مقام پر ہوتی۔ اس بٹنے کے نتائج مسلمانوں نے بھگتے ،اس کے نتائج خود ان لوگوں نے بھی بھگتے اور ہندوستان کا مسلمان تو ابھی تک بھگت رہا ہے ۔

            پاکستان بنانے سے مسلمانوں نے کیا پایا؟ واقعہ یہ ہے کہ جو مسلمانوں نے یہاں آکر پایا ہے اور جو ان کو عروج یہاں حاصل ہوا ہے اور جس مقام پروہ آج کھڑے ہیں ،متحدہ ہندوستان میں وہ اس کا تصوربھی نہیں کرسکتے تھے ۔لیکن وہ خواب جس کے لیے مسلمان تڑپے اور ان کا خون بہا تھا وہ خواب، خواب ہی رہا ۔بلکہ یہاں تک ہوا کہ اسلام کے نام پر بنے اس ملک میں اس بات کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑی ہے کہ ہمارے حکمران آمادہ ہو جائیں کہ یہاں خدا کے دین کو نافذ کریں۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ پاکستان کے ذریعے سے مسلمانوں کو کچھ ہاتھ نہیں آیا تو وہ جھوٹ بولتا ہے مسلمانوں کو انکے قومی اور شخصی وجود کے اعتبار سے جو کچھ اس ملک نے دیا ہے جو پانی، جو روٹی ، جو غلہ، جو اجناس،جو مکان، جو تجارت، جو کاروبار دیے ہیں، اس کا مسلمان ہندوستان میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن مسلمان روٹی کے لیے نہیں جیتا مسلمان اس کلمے کے لیے بھی جیتا ہے جو آسمان سے نازل ہوتا ہے یہ سب کچھ تو ملا ہے لیکن وہ ہمارا نصب العین ،واقعہ یہ ہے کہ وہ میسر نہیں آیا۔                       

            مسلمانوں کے اجتماعی وجود کے اندر یہ جذباتی پہلو بڑی قدروقیمت کی چیز ہے بشرطیکہ اس کی لیڈر شپ اس کو عقل پر استوا ر کرے ،یہ جوش خاصے کی چیز ہے بشرطیکہ اس کے پس منظر میں کتاب و سنت کی ہدایات کے مطابق صحیح تربیت موجود ہو۔ یہ صحیح تربیت نہ مسلم لیگ کی قیادت اس وقت مسلمانوں کی کر سکی جس وقت تحریک پاکستان چل رہی تھی اورنہ آج تک کوئی ایسا نظام وجود میں آ سکا ہے ۔اوراگر آئند ہ بھی ہم اس تربیت کا بندوبست نہ کر سکے تو تاریخ ہمارے بارے میں یہی کہے گی کہ خواب تھا جو کچھ دیکھاتھا اور خواب تھا جو کچھ سنا تھا۔ وماعلینا الا البلاغ المبین۔