غارِ حرا

مصنف : حافظ نذر احمد

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جولائی 2005

غارِ حرا کے بارے میں دل چسپ معلومات ایک محقق کے قلم سے

حرا پہاڑ:

            حرا پہاڑ کا دوسرا نام ‘‘جبل النور’’ ہے۔ کیوں نہ ہو، یہیں سے وہ نور چمکا۔ جس نے اپنی روشنی سے ساری دنیا کو جگمگا دیا۔ حضرت ختم المرسلین ؐ پر اس پہاڑ کے غار میں اللہ کا وہ آخری کلام نازل ہوا جسے اللہ پاک نے ‘‘نور’’ ہی کہا ہے۔ لقد جاء کم من اللہ نور۔ (المائدہ۵:۱۵)

            یہ پہاڑ مکہ کے شمال جنوب میں قدیم شہر سے کوئی تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ شہر میں قابل قدر توسیع ہونے اور ارد گرد نئے محلے آباد ہو جانے کے بعد یہ فاصلہ اور بھی کم ہو گیا ہے۔ مکہ مکرمہ سے منیٰ اور عرفات کو جائیں تو حرا راستہ میں بائیں طرف پڑتا ہے۔ مقامات حج کو جانے والی وسیع و عریض سڑک اس پہاڑ کے ساتھ ساتھ گزرتی ہے۔ موٹریں پہاڑ کے دامن تک پہنچ جاتی ہیں۔

            جبل حرا بالکل ایک خشک پہاڑ ہے۔ اس پر کہیں سبزے کا نام و نشان نہیں۔ کہیں کہیں خشک جھاڑیاں ضرور دکھائی دیتی ہیں۔ پہاڑ کی چڑھائی تقریباً بالکل سیدھی ہے اس لیے بہت دشوار ہے۔ خصوصاً اس کا آخری نصف حصہ زیادہ دشوار گزار ہے۔

            جبل حرا کی بلندی پر ہموار سی جگہ میں قدرتی طور پر چٹانیں اور پتھر کچھ اس طرح اوپر نیچے جمع ہیں کہ ان کے درمیان ایک غار بن گیا ہے۔ اس غار کے اندر پہنچنے کے لیے قدرتی سیڑھیاں سی بنی ہوئی ہیں۔ ان سیڑھی نما پتھروں کے ذریعہ آدمی بہ آسانی غار میں داخل ہو سکتا ہے …… یہ ہے مبارک غارِ حرا۔

            سطح زمین سے جبل النور پر چڑھیں تو غارِ حرا کی جانب جاتے ہوئے تین چار سو فٹ کی بلندی پر درمیان میں کچھ ہموار سی سطح آتی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ اس جگہ حضرت رسولِ امینؐ نے نماز ادا کی تھی۔ غارِ حرا کی زیارت کو جانے والے حضرات عام طور پر یہاں نوافل ادا کرتے ہیں۔

            اس مبارک پہاڑ کا ذکر بائبل مقدس میں بھی موجود ہے۔ کتاب مقدس میں حرا کو فاران کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے۔‘‘خداوند جنوب سے، اور وہ قدوس ہے، کوہِ فاران سے آیا۔ اس کی شان و شوکت سے آسمان چھپ گیا۔’’ (کتاب یسعیاہ باب ۳)

غارِ حرا:

            غارِ حرا مکہ مکرمہ کی سمت پہاڑ کی چوٹی سے بیس تیس فٹ نیچے ہے اور سطح زمین سے غار کی بلندی کم و بیش ایک میل کے قریب ہے۔ کوہِ حرا کی چوٹی پر کھڑے ہوں تو مکہ کی آبادی جنوب میں نظر آتی ہے۔محلِ وقوع کا صحیح اندازہ مندرجہ ذیل حدوداربعہ سے کیا جا سکتا ہے:

            غارِ حرا کے مشرق میں عرفات کا پہاڑ جبل الرحمۃ ہے۔

            مغرب میں بحیرۂ عرب ہے۔ یہاں سے تیز نگاہ اشخاص موجیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔

            جنوب میں مکہ مکرمہ کی آبادی ہے۔

            شمال میں ایک طویل سلسلۂ کوہ ہے۔ ان پہاڑوں کے درمیان وادیاں ہیں۔ جن کی سفید ریت دھوپ میں چمکتی ہے۔ ان وادیوں کے اندر برسات کے موسم میں بارش کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔

            غارِ حرا اندر سے چار گز لمبا اور پونے دو گز چوڑا ہے۔ اس کی اندرونی سطح ہموار ہے۔ بلندی قد ِآدم سے کم ہے۔ درمیانے قد کا آدمی، بمشکل کھڑے ہو کر نماز ادا کر سکتا ہے۔ طول و عرض میں صرف اس قدر گنجائش ہے کہ ایک آدمی آرام سے پاؤں پھیلا کر لیٹ سکے۔ چھت ایک خیمہ کی مانند ڈھلوان ہے۔

            غارمشرق و مغرب کی سمت سے کھلا ہوا ہے۔ اس طرح ہوا اور روشنی بے روک ٹوک اندر داخل ہوتی ہے۔ ہوا کی گزرگاہ سے ذرا نیچے ہٹ کر غار کا وہ خلا ہے جس میں آدمی لیٹ یا بیٹھ سکتا ہے۔ گویا غار کی اپنی قدرتی بناوٹ اس طرح ہے کہ اندر دھوپ اور بارش سے کافی حفاظت رہتی ہے مگر ہوا اور روشنی خوب پہنچ جاتی ہے۔ یہ محض اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے پہاڑ کے اندر ایسی صورت پیدا کر دی ہے۔

            ایک عجیب بات یہ ہے کہ غارِ حرا مستطیل شکل میں لمبا سا ہے اور اس کی لمبائی کا قدرتی رخ خانہ کعبہ کی سمت ہے۔ اس طرح ایک عبادت گزار کا چہرہ از خود قبلہ کی جانب رہتا ہے۔ ان امور کو اتفاق کہیں یا کچھ اور، بہرحال یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت سے ہے۔ با ہمت لوگ آسانی سے غارِ حرا تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے حجاج کرام اکثر ایسی عمر میں جاتے ہیں کہ وہ اس قدر صبر آزما کاموں کی ہمت ہی نہیں کر سکتے۔ یا ان مقامات سے بے خبری کے باعث آسانی سے کھوج نہیں لگا سکتے۔ اس قسم کے اہم مقدس اور تاریخی مقامات کی زیارت فائدہ سے خالی نہیں۔

غارِ حرا کی خلوت گاہ:

            یہ مبارک غار ایک گوشۂ عافیت ہے۔ دور دور نہ چرند ہیں نہ پرند۔ نہ حیوان نہ انسان۔ نہ شور نہ شر۔ نہ دور نزدیک سے کوئی آواز۔ نہ کسی کی مداخلت۔ نہ آمدورفت۔ ہر طرف ایک مکمل سکون اور کامل سکوت ہے۔

            لوگ زمین کے نیچے تہ خانوں میں یا تاریکی کے اندھیروں میں خلوت خانے ڈھونڈتے ہیں۔ لیکن حضوؐر کو پہاڑ کی بلندیوں پر غارِ حرا کا یہ ایسا خلوت خانہ ملا جو آپ کی بلندئ نظر اور بلندئ فکر کی ایک روشن دلیل ہے ۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے ؂

فکر بلند، سخن دل نواز، جاں پر سوز

یہی ہے رخت سفر میرکارواں کیلئے

            قبل بعثت یعنی اعلانِ نبوت سے پہلے کئی سال حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوقات کا زیادہ حصہ اس غار میں بسر کیا۔ خصوصاً عمر مبارک کے بتیسویں سال سے چالیس سال کی عمر مبارک تک آپ اکثر اس غار میں جاتے، کئی کئی دن یہیں رہتے، کھانے پینے کو گھر سے کچھ ہمراہ لے جاتے اور دن رات غارِ حرا میں خلوت گزیں رہتے۔ اس تنہائی میں آپ ریاضت و عبادت میں مصروف رہتے۔خاص طور پر رمضان المبارک کا پورا مہینہ اس غار میں بسر کرتے تھے۔

            کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ کی خاتونِ محترم حضرت خدیجہ کبریٰ رضی اللہ عنہا خود کھانے کا سامان پہنچا آتیں۔ کبھی اپنے کسی خادم کے ہاتھ بھیج دیتی تھیں۔ حضور اکرمؐ غار کی تنہائی میں بہت لطف محسوس کرتے تھے۔ اکثر سچے خواب دیکھتے اور عجیب و غریب روحانی تجربات حاصل کرتے۔

            اس عرصہ میں ایک ایسا بھی دور آیا کہ آپ کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے کوئی آپ سے بات کر رہا ہے۔ کبھی یوں معلوم ہوتا جیسے کوئی آواز دے رہا ہے۔ پھر یہ آواز بالکل انسانی آواز کی طرح بامعنی سنائی دینے لگتی۔ مگر دور ونزدیک بات کرنے والا کوئی انسان نظر نہیں آتاتھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ باتیں زیادہ پر لطف اور لطیف ہوتی گئیں۔

(بحوالہ: دیواریں اور غاریں از حافظ نذر احمد)