مشق سخن

مصنف : صائمہ حنا

سلسلہ : شعر و ادب

شمارہ : جون 2005

ہر اس شخص کی دلی کیفیت کی خوبصورت ترجمانی جسے یہ معلوم نہ ہو کہ اسے اس کے خالق نے دنیا میں کیوں بھیجا ہے یا ہر اس شخص کی جو محض پیسے کی خاطر دیار غیر میں جا بسا ہو۔

 

کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے 
کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے
اب اس دل میں کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے
کسی سے دور جانے کا، کسی کے پاس آنے کا
کسی اپنے کو کھونے کا ،کسی کھوئے ہوئے کوپانے کا
نہ رونے رلانے کا ،نہ ہنسنے ہنسانے کا
کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے
تصور ہی تصور میں ،حسین دنیا بسانے کا
اپنی جاگتی آنکھوں میں، خوابوں کو سجانے کا
نہ ان خوابوں کی تعبیروں کو، اس دنیا میں پانے کا
کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے
احساس کی دنیا میں جانے، کب سے ہے جاری
 برف باری
برف کی ان تہوں نے میرے ہر احساس کو چھپا ڈالا
میری حرکت بھری اس زندگانی کوجماڈالا
اس بے حس سے دل میں،
 اب مصیبت کا نہ فرحت کا، محبت کا نہ نفرت کا
کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے
نہ زند ہ رہنے کی خواہش 
نہ کچھ کرنے یا پانے کی آرزو 
بھلا کیا فائدہ ایسی جامد زندگانی کا، جب دل میں 
 کوئی بھی احساس باقی نہیں ہے

صائمہ حنا،اٹلی