غار کہف

مصنف : حافظ نذر احمد

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : جون 2005

غاریں کیا ہوتی ہیں اور اصحاب کہف کی غار کی دلچسپ تفصیلات ایک عظیم محقق کے قلم سے

            سطح زمین سے نیچے کی گہرائی غار کہلاتی ہے۔ خصوصاً وہ گہرا خلا جو دامن کوہ میں پتھروں کے درمیان باقی رہ جائے۔

            لفظ غار سے کئی محاورے بنے۔ اور زبان زدِ خلائق ہوئے۔ ان میں سے ایک ‘‘یارِ غار’’ ہے پکے اور سچے مخلص دوست کو یارِ غار کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ بات صرف محاورہ کی نہیں بلکہ اس کی سر حدیں حقیقت سے جا ملتی ہیں۔ چودہ سو سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا کے دو عظیم المرتبت اصحاب نے مکہ سے نکل کر ‘‘غارِ ثور’’ میں پناہ لی…… جان نثار صدیقؓ نے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر اپنے محبوب نبیؐ کی حفاظت کا اہتمام کیا۔ اور یارِ غار کا لقب پایا۔ قرآن مجید میں ان کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے۔

            ‘‘تم یاد تو کرو، جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے۔ جب نبیؐ نے اپنے ساتھی (ابوبکرؓ صدیق) سے کہا گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔’’

(سورۂ توبہ ۹:۴۰)

            انسان اپنے ابتدائی دور میں غاروں کے اندر اپنی قیام گاہ بنا کر رہتا تھا۔ دن میں جنگلی پرندوں اور وحشی جانوروں کا شکار کرتا۔ خشک لکڑیاں چنتا۔ جنگلی پھل اکٹھے کرتا۔ انھیں کھا پی کر رات کے وقت بال بچوں کے ساتھ ان غاروں میں آ کر رہتا۔

            آخر انسان غاروں سے نکلا اور گھاس پھونس کی جھونپڑی میں رہنے لگا۔ تمدن نے ذرا ترقی کی اور انسان کو گھر بار کی سمجھ آئی، اب غار صرف پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہونے لگے۔ اچانک کسی دشمن کا حملہ ہوتا تو لوگ غاروں میں چھپ جاتے۔ اسی طرح کھلے میدان میں مقابلہ کی ہمت نہ ہوتی تو غاروں کو اپنی کمیں گاہیں بنا لیتے۔

            دنیا کے بہت سے ملکوں میں غار بطور قبرستان بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ایسے علاقوں میں خاص طور پر غاروں سے قبروں کا کام لیا گیا ہے جہاں گڑھے کھود کر مردے دفن کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ اس لیے عام طور پر مردوں کو غاروں میں ڈال کر اس کے منہ پر پتھر رکھ دیتے تاکہ مردہ کی لاش گدھوں اورچیل کووں سے محفوظ رہے اور فضا اس کے تعفن سے مسموم نہ ہو۔

            بہت سی توہم پرست قوموں میں غاروں کے متعلق یہ خیال پایا جاتا ہے کہ یہاں ان کے بڑوں کی روحیں رہتی ہیں۔ کچھ لوگ اس وہم میں گرفتار رہے کہ ان غاروں سے دوسری دنیا کو راستے جاتے ہیں اور انھیں راہوں سے مرنے والوں کی روحیں سفر کرتی ہیں۔

            حقیقت یہ ہے کہ غار یا تو دریاؤں اور سمندروں کے تیز بہاؤسے وجود میں آئے۔ یا آسمانی بارش کے تیز پانی اور سیلابوں کے بہاؤ سے پہاڑوں کے درمیان خلا پڑ گیا۔ اور اس نے غار کی شکل اختیار کر لی۔ بارش کے پانی میں کاربالک ایسڈ مل کر پتھروں کو کھاتا رہا یا ریت کی رگڑ اور پتھروں کے باہم ٹکراؤ سے خلا پیدا ہوا اور بڑھتے بڑھتے اس نے ایک خاصے وسیع غار کی شکل اختیار کر لی۔

            جن غاروں میں انسانی قدم نہیں پہنچ سکے۔ وہاں شیر، چیتے اور دوسرے درندے رہنے لگے۔ گیدڑ اور لومڑیوں نے ڈیرے ڈال لیے اور چھوٹے موٹے سوراخوں میں سانپ، بچھو اور دوسرے موذی کیڑے مکوڑوں نے اپنے مسکن بنا لیے۔

            شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو گا، جس میں غار نہ ہوں ہم یہاں صرف ان غاروں کا ذکر کریں گے جو اپنی کسی نہ کسی حیثیت سے خاص شہرت کے حامل ہیں۔

مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر

کردے اے رب چاند کے غاروں میں نظر بند

اے مردِ خدا تجھ کو یہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو یاد کر

(علامہ محمد اقبال)

٭٭٭

غار کہف

            غارِ کہف کے ساتھ اصحابِ کہف کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ لیکن اصحابِ کہف کی تعداد، ان کے ناموں کی تفصیل اور حالات کے متعلق یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ مختلف روایات سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:

            اصحابِ کہف رقیم کے رہنے والے تھے۔ ان کی تعداد پانچ، چھ یا سات تھی۔ وہ توحید پرست تھے۔ بت پرستی اور شرک سے حد درجہ بیزار تھے۔ مکابی خاندان کے ان نامور اور بہادر سپوتوں نے بادشاہِ وقت کے مشرکانہ مذہب کو کسی قیمت پر قبول نہ کیا بلکہ خاموشی سے ترکِ وطن کرنا قبول کر لیا۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ یہ ان کا محافظ اور جاں نثار تھا۔ وہ غار کے دہانے پر پہرہ کے لیے بیٹھا رہا۔

            اکثر مورخین نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ان کے حالات اس پہاڑ میں کندہ کر دیے گئے تھے۔ اور ان کے نام و نشان سیسہ یا تانبے کی تختیوں پر کندہ کرکے غار کے دہانے پر آویزاں کر دیے گئے تھے۔ لیکن تا حال کسی تحریر یا کتبہ سے ان بیانات کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں کبھی اس راز سے پردہ اٹھ جائے۔

            حضرت امیر معاویہؓ روم پر لشکر کشی کے دوران اس غار تک پہنچ گئے تھے۔ انھوں نے تحقیق احوال چاہی تو حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اس سے روکا، اور فرمایا کہ ان کی شکل و صورت دیکھنے کے در پے نہ ہوں۔ کیونکہ رب العزت نے اس بارہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی خطاب فرمایا ہے اور وہ بہرحال آپ سے بہتر ہیں۔ امیر معاویہؓ نے ان کی رائے سے اتفاق نہ کیا۔ اور حالات معلوم کرنے کے لیے کچھ لوگ غار میں بھیجے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ واپس نہ لوٹے۔ (تفسیر بیضاوی)

            ‘‘کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے، اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں تعجب کی چیز تھے…… ہم خود ان کا قصہ تم سے ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ وہ چند نوجوان تھے۔ اپنے پروردگار پر ایمان رکھتے تھے۔ ہم نے انھیں ہدایت میں ترقی دی تھی اور ہم نے ان کے دل مضبوط کر دیے تھے۔’’(سورۃ الکہف۱۸:۹،۱۳،۱۴)

            یہ لوگ غار میں کیوں پناہ گزین ہوگئے۔ اس بارہ میں قرآن مجید کا ارشاد ہے، کہ وہ معبودِ برحق کے پرستار تھے۔ وہ اس وحدہ لا شریک کے سوا کسی اور کے آگے جھکنے کو تیار نہ تھے۔ دوسری طرف کفر و شرک میں مبتلا ان کی قوم معبودانِ باطل سے رشتے جوڑے ہوئے تھی۔ ان نوجوانوں نے بڑی جرأت سے کام لیا۔ معبودانِ باطل کو بھی چھوڑ دیا، اور اپنی قوم کو بھی۔ وہ شہر چھوڑ کر غار میں پناہ گزین ہو گئے۔

غار کا طویل قیام:

            ان نوجوانوں نے غار میں کتنا عرصہ بسر کیا۔ اس بارہ میں سورۃ الکہف کی بارہویں آیت میں ارشاد ہوا ہے: ‘‘ہم نے غار کے اندر سال ہا سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے رکھا۔ ’’ پھر انیسویں آیت میں فرمایا ‘‘ہم نے انھیں اس طرح جگایاجس سے وہ آپس میں پوچھیں چنانچہ ان میں سے ایک نے دریافت کیا۔ بھلا تم کتنی دیر سوئے ہو؟ بعض کہنے لگے ایک دن یا دن بھر سے بھی کچھ کم حصہ۔ بعض بولے نہیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم یہاں کتنی دیر ٹھہرے ہیں۔’’ آگے چل کر آیت نمبر ۲۵ میں فرمایا ‘‘وہ غار میں تین سو برس اور نو برس اور زیادہ رہے۔’’ یعنی کل ۳۰۹ سال۔ بعض اصحاب نے تین سو اور نو کی تطبیق یوں کی ہے کہ شمسی سال کے تین سو سال اور قمری سال کے تین سو نو سال ہوتے ہیں۔

            ممکن ہے کسی ذہن میں یہ خیال گزرے کہ صدیوں کا یہ طویل عرصہ کیسے سوتے سوتے گزرا ہو گا؟ گوشت پوست کے جسم کیسے محفوظ رہے ہوں گے؟ موسموں کے تغیرات سے کیسے بچے ہوں گے؟ ان سوالات کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

            ‘‘تم (انھیں خواب کے عالم میں) دیکھتے، تو جاگتا ہوا خیال کرتے۔ حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے۔ ہم انھیں کروٹ دلاتے رہتے۔ دائیں طرف بھی اور بائیں طرف بھی’’ …… ‘‘جب وہاں دھوپ نکلتی ہے تو تم دیکھو گے تو وہ ان کے غار سے دائیں جانب بچی رہتی ہے اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو دھوپ بائیں جانب کو کترا جاتی ہے۔ وہ غار کے ایک کشادہ حصہ میں سوتے رہے۔’’(آیات۱۷،۱۸)

            غار کی ساخت اور اس کے طول و عرض پر ہم ابھی بحث کریں گے جس سے معلوم ہو جائے گا کہ اس غار کا محلِ وقوع ایسا تھا کہ وہاں ہوا اور روشنی پورے طور پر پہنچتی تھی۔ لیکن دھوپ کا گزر ممکن نہ تھا۔ ہوا کے تیز جھونکوں سے کروٹ بدل جانا بھی بعید از قیاس نہیں۔ جسموں کا محفوظ رہنا بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ آئے دن صدیوں پرانی نعشیں صحیح سلامت ملتی رہتی ہیں۔ پھر جسے اللہ بچائے کون اس کا بال بیکا کر سکتا ہے؟

غار میں آنے کی وجہ:

            اصحابِ کہف کے غار میں پناہ گزین ہونے کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً:

٭        وہ گھاس ، ایندھن وغیرہ کی تلاش میں نکلے تھے۔ غار میں آ کر سو گئے اور صدیوں سوتے ہی رہ گئے۔

٭        وہ کہیں جا رہے تھے۔ دورانِ سفر سخت آندھی نے آ لیا۔ انھوں نے غار میں پناہ لی۔ اس وقت پہاڑ سے ایک بڑا سا پتھر لڑھکا اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ بڑی دعاؤں کے بعد یہ پتھر تھوڑا تھوڑا سرکا اور انھیں رہائی نصیب ہوئی۔

٭        اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ پکے دیندار تھے۔ توحید ان کا مسلک تھا۔ کفر و شرک سے انھیں بے حد نفرت تھی۔ ملک کا بادشاہ اور عوام سب کفر و شرک میں مبتلا تھے۔ ایسے حالات میں ان کے لیے دین حق پر قائم رہنا ناممکن ہو گیا۔ انھوں نے وطن کو خیر باد کہا اور چپکے سے شہر چھوڑ کر باہر چل دیے۔ آخر اس پہاڑ کی گود میں آ کر پناہ لی۔ کہتے ہیں بادشاہ نے سیسہ کی ایک تختی پر ان کے نام کندہ کرائے اور شاہی خزانہ میں محفوظ کرا دیے۔

اصحابِ رقیم کون تھے؟:

            قرآن مجید میں انھیں ‘‘اصحابِ رقیم’’ کہا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ کہف آیت نمبر۹) رقیم سے کیا مراد ہے؟ اس بارہ میں مفسرین کرام نے مختلف خیالات کا اظہار کیا ہے۔

            بعض مفسرین نے ‘‘رقیم’’ کو رقم سے مشتق خیال کیا ہے جس کے معنی تحریر کے ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ رقیم کا لفظ مرقوم کے معنوں میں ہے۔ اور اس سے مراد کتبہ یا لوحِ مزار ہے۔ اصحابِ کہف کے غار یا ان کے مزار پر جو تختی آویزاں تھی وہ رقیم کہلائی۔ (ابن جریر۔ تاج اللغات)

            بعض اصحابِ نظر کا خیال اس طرف گیا ہے کہ اس غار والے پہاڑ یا اس وادی کا نام رقیم تھا۔ عطیہ، قتادہ اور ضحاک جیسے علماء کی رائے یہی ہے (تفسیر مواہب الرحمن) انھوں نے اس وادی کو شہر عرفان اور ایلہ کے درمیان قرار دیا ہے۔ ارضِ فلسطین کی یہ وادی عقبہ سے صرف نو میل دور تھی۔ اس کے شمال میں بحر میت اور مشرق میں ریگستانی علاقہ تھا۔ اس وادی تک پہنچنے کے لیے ایک تنگ درہ سے گزرنا پڑتا تھا۔(ملاحظہ ہو ارض القرآن، از مولانا شہابی)

            مورخین اور مفسرین کرام کی ایک جماعت کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ رقیم اس بستی کا نام تھا، جو اصحابِ کہف کا وطن تھا۔ اہل عرب کا بھی یہی خیال ہے۔ چنانچہ متعدد شعرائے عرب نے یہ تلمیح اپنے اشعار میں استعمال کی ہے۔ علامہ یاقوت حموی نے بھی اپنی کتاب ‘‘مراصد الاطلاع’’ میں یہی خیال ظاہر کیا ہے۔ زجاج کا بھی یہی بیان ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی روایت سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔

مولانا آزاد کی تحقیق:

            اس موضوع پر مولانا ابوالکلام آزاد نے عالمانہ تحقیق کی ہے۔ انھوں نے اپنی تحقیق کی بنیاد توریت مقدس اور آثارِ قدیمہ کے جدید انکشافات کو بنایا ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ رقیم سے مراد اصحابِ کہف کا وطن تھا۔ توریت میں اسے ‘‘راقیم’’ کہا گیا ہے۔ آگے چل کر یہ شہر پیٹرا کے نام سے مشہور ہوا۔ جس کا معرب ‘‘بطرا’’ ہو گیا۔

            ۱۹۱۴ء کی عالمگیر جنگ کے بعد آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے نتیجہ میں اس شہر کے نشانات ملے ہیں۔ جزیرہ نمائے سینا اور خلیج عقبہ سے سیدھے شمال کی جانب بڑھیں تو اس جگہ سے مسلسل دو پہاڑی سلسلے شروع ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پہاڑی سطح پر راقیم نامی شہر ہے۔

            دوسری صدی عیسوی میں یہ شہر رومیوں کے زیر اثر تھا۔ اس کے عبادت خانوں کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔

            ۶۴۰ء میں جب مسلمانوں نے یہ علاقہ فتح کیا تو راقیم کا اصل نام کسی کو یاد نہ تھا۔ رومی اسے پیٹرا کہتے اور عرب بطرا۔ بعدازاں یہ شہر بالکل ویران ہو گیا اور دنیا اسے یکسر بھول گئی۔

اصحابِ کہف کی تعداد اور نام:

            اصحابِ کہف کی تعداد کے بارہ میں لوگوں میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ روایات کے اس اختلاف کی طرف خود قرآن مجید نے ان الفاظ میں نشاندہی کی ہے:

            ‘‘عنقریب بعض لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ یہ سب اٹکل کے تکے ہیں۔ بعض لوگ کہیں گے وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ تم کہہ دو کہ ان کی صحیح تعداد میرا پروردگار ہی جانتا ہے۔ چند لوگوں کے سوا کسی کو ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں۔ لہٰذا اس بارہ میں ان لوگوں میں سے کسی سے بھی نہ پوچھو۔’’ (سورۂ الکہف آیت۲۲)

            صاحب تفسیر بیضاوی نے حضرت علی مرتضیٰؓ کی روایت سے اصحابِ کہف کے نام یہ بتائے ہیں:

            (۱) یملیخا (۲) یکثلمینیا (۳) مثیلبنیا (۴) مرنوش (۵) برنوش(۶) شاذنوش (۷) اور ایک چرواہا۔ (بیضاوی)

٭٭٭

            یعقوب وراژینی (Jecquesde Vosagine) مصنف ‘‘نخبتہ مقدسین’’ (Fleurees Saints) نے اصحابِ کہف کے نام مندرجہ ذیل لکھے ہیں:

۱۔         مالخوس

۲۔        میکسمانوس

۳۔        مارسیانوس

۴۔        دینی سوس

۵۔        یوحنا

۶۔        سراپیون

۷۔        کنتسان تیونس

            خود اصحاب کہف کو انگریزی میں The Seven Sleeperکہتے ہیں۔

اصحابِ کہف کا کتا:

            اصحابِ کہف کے ساتھ ایک کتا بھی تھا، جو ان کا بڑا ہی جاں نثار تھا۔ وہ غار کے دہانہ پر بیٹھا پہرہ دیتا رہا۔ اس کتے کا نام ‘‘نسطور’’ بیان کیا گیا ہے۔ بعض نے اس کا نام ‘‘قطمیر’’ لکھا ہے۔

            ابن جریح نے اس کا نام ‘‘حمران’’ بیان کیا ہے۔شیخ سعدی نے اس کتے کے بارہ میں کیا خوب کہا ہے :

پسرِ نوح با بداں بنشست

خاندانِ نبوتش گم شد

سگ اصحاب کہف روزے چند

پئے نیکاں گرفت مردم شد

غار اور اس کا محل وقوع:

            ایشیائے کوچک میں ایک بہت قدیم شہر افسوس کے نام سے آباد تھا (الف کے نیچے زیر۔ بعض لوگ الف پر پیش بھی پڑھتے ہیں) یہ شہر سمرنا سے ۳۶ میل اور بحیرۂ روم سے صرف چھ میل کے فاصلہ پر تھا۔ قرائن کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اصحاب کہف کا غار اسی شہر سے دو فرسنگ کے فاصلہ پر ہے۔ موجودہ شہر ایاسلوکAyasulukافسوس کے کھنڈرات پر ہی آباد ہوا ہے۔ ویانا کا مشہور بت کدہ یہیں تھا۔ چنانچہ ویانا کا مجسمہ اور اس کے بت کدہ کے دوسرے حیرت انگیز آثار ابھی تک موجود ہیں۔

            اس علاقہ کے آثارِ قدیمہ کی جانچ پڑتال کے دوران یہاں عجیب و غریب غاریں ملی ہیں۔ بعض بہت ہی گہری اور وسیع ہیں بعض کے اندر روشنی کا گزر تک نہیں۔ ایک ایسا غار بھی ہے جس کے دہانے پر قدیم عمارات کے نشانات پائے جاتے ہیں۔

            قرآن مجید کے ابتدائی مفسرین نے اس پہاڑ کا نام ‘‘بنجلوس’’ لکھا ہے۔ کتاب ‘‘حیات الحیوان’’ میں اس کا تلفظ بنجلوس کے بجائے ‘‘منجلوس’’ مرقوم ہے۔ ابن جریح نے ان دونوں سے اختلاف کرتے ہوئے غار کا نام ‘‘حیزم’’ لکھا ہے۔ بعض کتابوں میں حیزم کو ‘‘حیزوم’’ لکھا گیا ہے۔

            غار کا محل وقوع قدرتی طور پر ایسا ہے کہ اس میں سورج کی شعاعیں براہِ راست داخل نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کا عرض البلد شمال میں ۳۸ ہے اور غار شمال کی سمت میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے مقام پر جو غار بھی شمال رُویہ ہو گا اس میں قدرتی طور پر سورج کی شعاعیں داخل نہ ہو سکیں گی۔

            غار کے اندر اگر آپ شمال کے رخ ہوں تو دھوپ کی تیزی اور سورج کی گرمی ہرگز آپ کو نہ چھو سکے گی خواہ غار کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو اور اس کا دہانہ کسی قدر کھلا کیوں نہ ہو۔ چونکہ جب سورج طلوع ہو گا تو دائیں جانب سے گزر جائے گا، اور غروب کے وقت بائیں سمت رہتے ہوئے ڈھل جائے گا۔ اس قدرتی اصول کے مطابق اس غار میں مستقل طور پر ہوا اور روشنی آتی تھی لیکن سورج کی شعاعوں اور ان کی حدت کا ہرگز گزر نہ ہوتا تھا۔

اصحابِ کہف کا زمانہ:

            اصحابِ کہف کا زمانہ کون سا تھا۔ اس سلسلہ میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ دراصل مسیحیت کے ابتدائی دور میں ایسے متعدد واقعات پیش آئے کہ راسخ العقیدہ لوگوں کو حکام اور دشمنوں کے مظالم سے عاجز ہو کر اپنے گھر بار چھوڑنے اور غاروں، پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ بہت سے لوگ اس حال میں مر کھپ گئے اور بعد میں غاروں سے ان کی نعشیں برآمد ہوئیں۔

اس دور کے مشہور واقعات میں سے چند ایک یہ ہیں:

۱۔         ایک واقعہ روم کے اطراف میں پیش آیا۔

۲۔        ایک واقعہ انطاکیہ سے منسوب ہے۔

۳۔        ایک واقعہ افسوس شہر میں پیش آیا تھا۔

            قرآن مجید کے قدیم مفسرین کا خیال ہے کہ اصحابِ کہف کا واقعہ اسی شہر افسوس سے تعلق رکھتا ہے۔ مسیحی نوشتوں میں بھی یہی خیال ظاہر کیا گیا ہے۔

            ڈی سس(Decius)نامی ایک مشہور رومی شہنشاہ ہو گزرا ہے۔ عربی زبان میں اس کا تلفظ ‘‘ذوقیوس’’ یا ‘‘دقیانوس’’ کیا گیا ہے۔ اس کا سالِ وفات ۲۵۱ء ہے۔ دقیانوس بت پرست ہو گیا تھا۔ اس نے عیسائی موحدین پر بڑے مظالم ڈھائے۔ قرائن یہی کہتے ہیں کہ اصحابِ کہف اس کے جورو استبداد سے تنگ آ کر غار میں پناہ گزین ہوئے ہوں گے۔

            جس بادشاہ کے عہد میں اصحابِ کہف نیند سے بیدار ہوئے اس کا نام تھیودوسیس(Theo Dosius) تھا۔اس کا زمانۂ حکومت ۴۰۸ء تا ۴۵۰ء ہے۔

            طویل خواب کے بعد اصحابِ کہف کی بیداری غالباً ۵۴۹ء میں ہوئی۔گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت سے ۲۱ سال اور سنہ ہجری سے ۷۲ سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔

             علامہ ابن کثیر کا خیال ہے کہ یہ واقعہ یہودی دور کا ہے۔ وہ اپنے خیال کی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ واقعہ بعد کے زمانہ میں پیش آتا تو یہود اس کے لیے اس قدر جستجو نہ کرتے۔

            اس خیال سے متفق جدید مورخین اس واقعہ کو ۱۶۱ سال قبل مسیح سے متعلق بیان کرتے ہیں۔ اس زمانہ میں ملک شام پر انطوکیس چہارم حکمران تھا۔ وہ بے حد متعصب تھا۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل کو مسمار کرکے اس جگہ زلمیس دیوتا کے مندر کی بنیاد ڈالی۔

            ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ دقیان بادشاہ کے عہد کا ہے۔ یہ دقیان حضرت لقمان علیہ السلام کے زمانہ میں افسوس شہر پر حکمران تھا۔

اصحابِ کہف بیداری کے بعد:

            اس واقعہ کے ضمن میں دوسرا یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس قدر طویل خواب سے بیداری کے بعد اصحابِ کہف پر کیا گزری؟ اور ان کے ہم وطنوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

            ‘‘کلام اللہ نے اس بارہ میں صرف اس قدر بتلایا ہے کہ بیدار ہونے کے بعد انھیں بھوک محسوس ہوئی، تو ان کے سامنے خوراک کا مسئلہ پیدا ہوا۔ باہم طے پایا کہ ایک سمجھ دار نوجوان روپیہ لے کر جائے اور شہر سے صاف ستھرا اور پاکیزہ کھانا خرید لائے۔ مگر شہر جانے والا کامل احتیاط برتے کہ کسی پر افشائے راز نہ ہو جائے۔ انھیں ڈر تھا کہ بت پرست قوم کو پتا لگ گیا تو وہ انھیں مرتد ہونے پر مجبور کریں گے یا سنگسار کر ڈالیں گے۔’’ (الکہف-۱۹تا۲۰)اس کے بعدکیا ہوا؟ کلام اللہ خاموش ہے۔ قرآن مجید دراصل تاریخ اور قصہ کہانیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ تو کتابِ ہدایت ہے۔ وہ تاریخی واقعات کو محض عبرت و موعظت کے لیے درمیان میں لاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس آیت کے فوراً بعد قیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کا ذکر ہے اور اس واقعہ کو بطور ایک دلیل پیش کیا گیا ہے۔

اصحابِ کہف وطن میں:

            پرانی کتابوں میں اصحابِ کہف کی کہانی کا یہ حصہ اس طرح بیان ہوا ہے کہ ان کا ایک ساتھی شہر گیا۔ وہ شہر کی جدید گلیوں ، سڑکوں اور نئے مکانوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہر چیز کا نقشہ بدلا ہوا تھا۔ ہر گھر اوپرا معلوم ہوتا تھا اور شہر والے اجنبی نظر آتے تھے۔ اسے شہر بھر میں کوئی شناسا نظر نہ آ رہا تھا۔ وہ نوجوان اس فکر میں پڑ گیا کہ راتوں رات یہ کیا ہو گیا ہے۔وہ اپنی اس شدید حیرت کے باوجود خاموش رہا۔ مبادا کوئی اسے پہچان لے۔ اس نے چپکے سے ایک دکاندار کو کچھ سکے دیے اور کھانے پینے کی اشیاء مانگیں۔ دکاندار نے اسے حیرت سے دیکھا، اور پوچھا تم نے یہ سکے کہاں سے پائے ہیں۔ اور یہ خزانہ تمھیں کہاں سے دستیاب ہوا ہے۔ یہ تو بہت پرانے سکے ہیں۔ ان سکوں والے بادشاہ کب کے مر کھپ گئے ہیں۔نوجوان مصر تھا کہ رائج الوقت سکہ ہے، کسی خزانہ یا دفینہ کا حصہ نہیں۔ اس بحث میں لوگ جمع ہو گئے اور اسے حاکم شہر کے پاس لے گئے۔ نوجوان کا بیان یہاں بھی وہی تھا۔ کسی نے کہا جھوٹا ہے، کوئی بولا پاگل ہے۔ مگر پرانے سکے کے علاوہ اس کی سب باتیں عقل کی تھیں۔نوجوان نے کہا۔ ہمارا مکان یہیں ہے، اور ہم اسی شہر کے رہنے والے ہیں۔نوجوان کے بیان کی تصدیق کے لیے حاکم سمیت بہت سے لوگ اس کے ساتھ ہو لیے۔ وہ اس جم غفیر کے ساتھ ایک بہت پرانے، بوسیدہ سے مکان کے سامنے جا رکا۔ اور بولا ‘‘ہمارا یہ مکان ہے۔’’ اندر سے ایک بزرگ معمر نکلا۔ اس نے کہا نوجوان غلط کہتا ہے۔ مکان کا مالک میں ہوں، مکان ہمارے باپ دادا کا بنایا ہوا ہے۔ ہم صدیوں سے اپنے جدی مکان کے مالک چلے آ تے ہیں۔ نوجوان نے اپنا نام بتلایاتو بڑے میاں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ یہ اس کے جد امجد اور مکان کے بانی کا نام تھا۔ اس کی بتلائی ہوئی تمام نشانیاں اور ساری باتیں سچ معلوم ہو رہی تھیں۔ پورا مجمع نوجوان کی صداقت کا قائل ہو گیا۔اب سب لوگ غار پر ‘‘اصحابِ کہف’’ کی ملاقات اور استقبال کو گئے۔ اللہ کی حجت پوری ہو گئی، اور سب کو معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھانے پر قادر ہے اور آخرت برحق ہے۔ اس کے بعد وہ کب مرے ۔ اس بارہ میں تاریخ خاموش ہے۔

(بشکریہ دیواریں اورغاریں مولفہ حافظ نذر احمد صاحب)