طلاق

مصنف : کوکب شہزاد

سلسلہ : گوشہ خواتین

شمارہ : مئی 2005

 (پچھلے شمارے میں حلالہ کے مضمون کے بعد قارئین کے اصرار پر طلاق کا مکمل قانون دیا جا رہا ہے)

            ایک مرد اورایک عورت جب نکاح کے رشتے میں بندھتے ہیں تو اسلام کی رو سے اس رشتے کی بنیاد میں یہ مصمم عہد ہونا چاہیے کہ ہم تا حیات ایک دوسرے کے ساتھی رہیں گے اور دکھ سکھ ’تنگی خوشحالی میں ایک دوسرے کا سہارا بنیں گے یہی عہد ان کے اندر وفا کا احساس پیدا کرتا ہیـــ لیکن اگر میاں بیوی میں کسی وجہ سے نباہ نہ ہوسکے تو دین میں علیحدگی کی گنجائش بھی موجود ہے لیکن حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ حلال چیزوں میں اللہ تعالی کو سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہیـ۔

طلاق کا حق

            سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر ۲۳۷ میں قرآن نے شوہر کے لیے ,الذی بیدہ عقدۃ النکاح ’ (جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے )کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت نے طلاق دینے کا اختیارصرف مرد کو دیا ہے وہ اس وجہ سے کہ عورت کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری ہمیشہ مرد پرہوتی ہے البتہ اگر عورت علیحدگی چاہے تو وہ طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے جسے اصطلاح میں‘‘ خلع’’کہتے ہیں اگر شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہیں تو خاندان کے بزرگ یاپھر عدالت اس بات کی پابند ہے کہ وہ ان دونوں میں علیحدگی کروادے۔ـالبتہ حکم جو بھی بنے اسے حتی الوسع یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اگر یہ رشتہ سمجھانے بجھانے یا کوئی غلط فہمی دور کرنے سے سے بچ سکتاہے تو ضرور بچائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بالعموم طلاق جذباتیت اور غصّے کی حالت میں دی جاتی ہے فی الواقع طلاق دینا پیش نظر نہیں ہوتا اس صورت میں فریقین کے موقف اور حالات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہییـ۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ ‘‘لا طلاق ولا عتاق فی غلاق ’’(غصّے سے مغلوب ہو کر طلاق مؤثر ہوتی ہے اور نہ غلام کی آزادی کا فیصلہ)سنن ابی داؤد’رقم ۲۱۹۳ـ

طلاق دے کر لوٹانے کا حق مرد کو زندگی میں دو دفعہ ہے

            سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۲۹ میں ہے’ ‘‘طلاق دینے کا حق زندگی میں دو مرتبہ ہے پھر بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا پھر خوبی کے ساتھ رخصت کر دینا ہے’’۔یعنی شوہر کسی وجہ سے بیوی کو طلاق دیتا ہے تو تین مہینے کی عدّت کے دوران وہ صلح کرکے اپنی طرف لوٹانا چاہے تو وہ بیوی کو لوٹانے کا حق رکھتاہے اور اگر عدّت گزر گئی ہے تو دوبارہ نکاح کرسکتا ہے ۔اس کے بعد زندگی میں پھر کبھی کسی وجہ سے طلاق دے دی(یعنی دوسری بار) تو پھر لوٹانے کا حق موجود ہے یا عدّت کے بعد نکاح کرسکتا ـہے۔لیکن اگر تیسری مرتبہ کسی بھی وجہ سے شوہر نے طلاق دے دی تو پھر اب وہ اس کو لوٹانے کا حق نہیں رکھتاکیونکہ اس نے اس مقدّس رشتے کو مذاق بنا لیا ہے اور اسلام اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔

طلاق دینے کا صحیح طریقہ

            اسلام نے اس بات کا پابند کیاہے کہ اگر طلاق کی نوبت آگئی ہے تو طلاق طہر یعنی عورت کے پاکیزگی کے ایّام میں دی جائے یعنی حیض کے بعد جو طہر آئے گا اس میں میاں بیوی کے درمیان کوئی تعلّق قائم نہیں ہوگااور اس میں طلاق دی جائے گی اس میں حکمت یہ ہے کہ عورت کے پیٹ میں اگر بچّہ ہے تو معلوم ہوجائے چنانچہ حضرت عمرؓ کے بیٹے عبداللہ نے جب اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو نبیﷺ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا‘‘اس کو حکم دو کہ رجوع کرے ’پھر اسے اپنے پاس روکے رکھے ’یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے ’پھر حیض آئے ’پھر پاک ہو اس کے بعد چاہے تو روک لے اور چاہے تو ملاقات سے پہلے طلاق دے دے۔اس لیے کہ یہی عدّت کی ابتدا ہے جس کے لحاظ سے اللہ تعالی نے طلاق دینے کی ہدایت فرمائی ہے۔

متعہ اور حلالہ دونوں اسلام کی رو سے حرام ہیں

            جیسا کہ ہم اوپرواضح کرچکے ہیں کہ نکاح ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کی رو سے ایک مرد اور ایک عورت زندگی بھر اکٹھے رہنے کا عہد سوسائٹی کے سامنے کرتے ہیں اگر یہ ارادہ کسی نکاح میں نہیں پایا جاتا تو وہ فی الحقیقت نکاح نہیں بلکہ ایک سازش ہے جو ایک مرد اور عورت نے مل کر کی ہے۔ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی اپنی تفسیر تدبّر قرآن میں لکھتے ہیں ’۔

            ,,نکاح کی اصل فطرت یہ ہے کہ وہ زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادہ کے ساتھ عمل میں آئے ۔اگر کوئی نکاح واضح طور پر محض معین ومخصوص مدّت تک ہی کے لیے ہو تو اس کو متعہ کہتے ہیں اور متعہ اسلام میں قطعی حرام ہے۔اسی طرح اگر کوئی شخص اس نیّت سے کسی عورت سے نکاح کرے کہ اس نکاح کے بعد طلاق دے کر وہ اس عورت کو اس کے پہلے شوہر کے لیے جائز ہونے کا حیلہ فراہم کرے تو شریعت کی اصطلاح میں اس کو حلالہ کہتے ہیں اور یہ بھی اسلام میں متعہ کی طرح حرام ہے ۔جو شخص کسی کی مقصد براری کے لیے یہ ذلیل کام کرتا ہے ’ وہ درحقیقت جیسا کے حدیث میں ہے کرائے کے سانڈ کا رول ادا کرتا ہے ایسا کرنے والے اور کروانے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔

طلاق کی عدّت

            سورۃ البقرۃ میں ہے ۔

            ‘‘اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار کروائیں اور اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کے لیے جائز نہیں کہ اللہ نے جو کچھ ان کے پیٹ میں پیدا کیا ہے ’اسے چھپائیں۔ ـ’’(البقرۃ۲’۲۲۸)یعنی طلاق کے بعد تین حیض تک عورت دوسرا نکاح نہیں کرسکتی اس پابندی کی وجہ یہ ہے تاکہ یہ متعیّن کیا جاسکے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں دوسری حکمت یہ ہے کہ ممکن ہے کہ عدّت کے دوران رجوع کا موقع پیدا ہوجائے۔عام حالات میں عدّت یہی ہے ’لیکن عورت اگر اتنی عمر کی ہوچکی ہو جس میں حیض آنا بند ہوجاتا ہے یا حیض کی عمر کو پہنچنے کے باوجود حیض نہ آیا ہو تو اس کی عدّت تین مہینے ہے اور حاملہ عورت کی عدّت بچے کی ولادت پر مکمل ہوگی۔اگر طلاق رخصتی سے پہلے ہوجائے یعنی نکاح تو ہوا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی تو پھر کوئی عدّت نہیں ہوگی کیونکہ عدّت کا اصل مقصد حمل کے بارے میں یقین حاصل کرنا ہے۔سورۃ الاحزاب میں ہے۔’

            ‘‘ایمان والو’تم جب مسلمان عورتوں سے نکاح کرو ۔پھر ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دوتو ان پر تمھارے لیے کوئی عدّت لازم نہیں ہے جس کے تم پورا ہونے کا تقاضا کرو۔’’

            زمانہ عدّت کے دوران میں سورۃطلاق کے احکامات کے مطابق مندرجہ ذیل باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

۱) زمانہ عدّت کے دوران نہ بیوی کو اپنا گھر چھوڑنا چاہیے اور نہ ہی شوہر کے لیے مناسب ہے کہ وہ اسے گھر چھوڑنے کے لیے کہے’شاید ان کے دلوں میں اکٹھے رہنے کی وجہ سے نرمی پیدا ہوجائے اور اجڑتا ہوا گھر پھر سے آباد ہوجائے’ہاں البتہ اگربیوی کسی کھلی برائی کی مرتکب ہوئی ہے تو پھر شوہر سے بیوی کو گھر میں رکھنے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔

۲) مرد کو اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ عدّت کے دوران میں عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق کھلائے پلائے ور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کی عزّت نفس مجروح ہو۔

طلاق کے بعد حسن سلوک کا روّیہ

            عدّت کا دورانیہ مکمل ہوجانے کے بعد شوہر کو حکم دیا گیا کہ یا تو (گھر بسانے کی نیّت سے )بھلے طریقے سے بیوی کو روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کردو۔اور انھیں نقصان پہنچانے کے ارادے سے نہ روکو کہ ان پر زیادتی کرو۔رخصت کرتے وقت جن ہدایات کو پیش نظر رکھنا چاہیے وہ سورۃبقرۃ کی آیت۲۲۹ میں بیان ہوئی ہیں۔

۱) جو تحفے تحائف ’مال ’جائیداد’یا زیورات وملبوسات شوہر صلح کی حالت میں بیوی کو دے چکا ہوخواہ کتنی ہی مالیت کے ہوں ’ان کا واپس لینا جائز نہیں البتہ دو صورتیں اس سے مستثنی ہیں ۔

۱) اگر شوہر صرف اس وجہ سے طلاق نہیں دے رہا کہ اس کا دیا ہوا مال بھی ساتھ جائے گا تو بیوی یہ چیزیں یا ان میں سے کچھ دے کر طلاق لے سکتی ہے۔

۲) اگر بیوی کھلی ہوئی بدکاری کی مرتکب ہوئی ہو تو شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ اس سے اپنا دیا ہوا مال واپس لے سکتاہے لیکن ساتھ ہی قرآن مجید نے متنبہ کردیا کہ کوئی شخص محض مال لینے کی خاطر بیوی پر بہتان لگانے کی کوشش نہ کرے۔

۳) مرد طلاق کے بعد عورت سے مہر کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتا لیکن اگر مہر مقرر کرنے اور رخصتی سے پہلے طلاق کی نوبت آجائے تو مہر کے معاملے میں مرد کی کوئی ذمّہ داری نہیں لیکن اگر مہر مقرّر ہوچکا ہو لیکن رخصتی نہ ہوئی ہو تو پھر مقررہ مہر کا آدھا دینا ہوگاالاّیہ کہ عورت خود مہر چھوڑ دے۔

طلاق کے بارے میں اختلاف رائے

            طلاق کے بارے میں جو نقطہء نظر یہاں پیش کیا گیا ہے وہ استاذ محترم جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی تحقیق پر مبنی ہے۔ اسلاف کا نقطہء نظراس سے مختلف ہے۔ان کے نزدیک ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دینا اگرچہ شریعت کی رو سے سخت گناہ ہے تاہم گناہ ہونے کے باوجود آئمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور شوہر کو حق رجوع باقی نہیں رہتاالبتہ اگر ایک یا دو طلاقیں دی ہو ں تو عدّت کے دوران میں رجوع کرسکتا ہے یا عدّت گزر جانے کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتا ہے جبکہ جاوید صاحب کے نزدیک ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔