حلالہ

مصنف : کوکب شہزاد

سلسلہ : گوشہ خواتین

شمارہ : اپریل 2005

دین کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بعض اوقات جس قسم کے خوفناک واقعات جنم لیتے ہیں اس کی ایک مثال درج ذیل سچی داستاں ہے ۔آپ بھی سنیے۔

 ایک لڑکی کانکاح ٹیلیفون پرہوا۔لڑکا امریکا میں رہتا ہے۔بعد ازاں لڑکی کو معلوم ہواکہ وہاں اس نے پہلے سے شادی کر ر کھی ہے تو اس نے طلاق کا مطالبہ کیا’ لڑکے نے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں اسے طلاق دے چکا ہوں۔ لیکن لڑ کی نہ مانی جس پر لڑ کے نے اسے طلاق دے دی۔ بعد میں لڑکی بہت پچھتائی اور کسی مولوی صاحب سے رجوع کیا مولوی صاحب نے اسے حلالہ کا فتویٰ دیا اور خود کو اس کے لیے پیش کیا ۔لیکن لڑکی نے ایک غریب طالب علم کو، جسے اپنی فیس کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی ،پیسے دے کر اس سے ایک رات کے لیے شادی کر لی پھر اس سے طلاق لے کر امریکہ میں اپنے سابقہ شوہر کو ساری صورت حال بتا کر دوبارہ شادی کے لیے کہا لیکن اس نے صاف جواب دے دیا کہ حلالہ کے بعد وہ اس سے ہرگز شادی نہیں کرے گا لڑکی نے اس کے بعد دو دفعہ خود کشی کی کوشش کی ۔

 یہ نتیجہ ہے دین سے ناواقفیت اورنام نہاد مولویوں سے فتوے لینے کا۔ حلالہ نام کی کوئی چیز اسلام میں نہیں۔ اسلام کا حکم تو یہ ہے کہ مرد جب عورت سے شادی کرے تو ہمیشہ کے لیے گھر بسانے کے لیے کرے۔ محدود مدت کی شادی کا کوئی تصور اسلام میں نہیں البتہ مرد کو زندگی میں دو مرتبہ طلاق دینے کا حق ہے جس میں عدت کے دوران میں وہ رجوع کر سکتاہے۔ زندگی میں تیسری مرتبہ اگر وہ طلاق دے تو پھر اس کی سز ایہ ہے کہ چونکہ اس نے شادی کو مذاق بنا یا لہٰذا اب یہ عورت اس کی زندگی میں نہیں آ سکے گی یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کے لیے گھر بسانے کی نیت سے کسی اور مرد سے شادی کرے اور اتفاق سے وہ وفات پا جائے یا اسے طلاق دے دے تو پھر اتفاق سے پہلے شوہر سے شاد ی ہو سکتی ہے۔ پہلے شوہر کی طرف رجوع کے لیے، پلاننگ کر کے شادی کرنا، اس کا کوئی تصور اسلام میں نہیں ۔

 موجود صورت حال میں چونکہ طلاق رخصتی سے پہلے ہوئی تھی لہذا ایک دفعہ طلاق بھیج دینے سے طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی ’ویسے بھی تین مہینوں کے اندر اندر شوہر طلاق واپس لے کر بیوی کو اپنے پاس بلا سکتا تھااور اگر تین مہینے گزر جاتے اور وہ چاہتا تو دوبارہ اس عورت سے نکاح کرسکتا تھا۔

 طلاق کے سلسلے میں یہ بات جاننابہت ضروری ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو بیشتر اوقات وہ طلاق اس نے جذبات میں آکر دی ہوتی ہے فی الواقع طلاق دینا اس کا منشا نہیں ہوتااس لیے جو بھی اس قضیے کا فیصلہ کر رہا ہو اسے سارے حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ طلاق ہماری سوسائٹی کا ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اس لیے آئندہ کسی شمارے میں ہم طلاق کے بارے میں تفصیل سے لکھیں گے۔