لارنس آف عریبیہ

مصنف : نوشابہ منظور

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : مئی 2005

            یہ پہلی جنگ عظیم کا زمانہ ہے۔ایک طرف جرمنی اور آسٹریا ہیں اور دوسری طرف روس، فرانس اور برطانیہ ہیں۔ مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ جس کا دارالخلافہ قسطنطنیہ (ترکی) ہے، جرمنی کا حامی اور اتحادی ہے۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ اگرچہ بہت کمزور ہو چکی ہے۔ مگر اس کی سرحدیں بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ شام، فلسطین، اردن، عراق، حجاز اسی سلطنت کے مختلف حصے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہ سلطنت دنیا میں سپر پاور کی حیثیت رکھتی تھی، مگر اب روز بہ روز روبہ زوال ہو رہی ہے۔ برطانیہ اور فرانس کی سربراہی میں یورپی اقوام مسلمانوں کی اس رہی سہی قوت کو بھی ریزہ ریزہ کرنا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کا مستند فارمولا "تقسیم کرو اور پھر حکومت کرو" کامیاب رہا ہے۔

            برطانیہ اور فرانس کا ایک اعلی سطحی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب چونکہ جنگ میں کامیابی بہت صاف نظر آ رہی ہے اس لیے اب جنگ کے ساتھ ساتھ دوسرے منصوبوں کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ ایک بڑے افسر نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا:‘‘مستقبل میں دنیا پر یورپ کے غلبے کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ترکی کی وسیع سلطنت "عثمانیہ" کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ عرب پہلے ہی اپنی خلافت سے بغاوت پر آمادہ ہیں۔ انہی سے اس سلسلے کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔’’

            "عرب جیسے بنجر علاقے کو حاصل کرکے ہم کیا کریں گے؟" ایک افسر نے اعتراض کیا۔

            "عرب بظاہر بنجر اور ریگستانی علاقہ ہے مگر وہ معدنی ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہ علاقہ ہمارے لیے سونے کی چڑیا سے کم نہیں۔" پہلے افسر نے پرزور انداز سے جواب دیا۔"یہ تجویز تو بہت زبردست ہے۔ مگر موجودہ صورت حال میں ہمیں ترکوں سے براہ راست جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے ہماری توجہ بھی بٹ جائے گی اور دنیا کے مختلف خطوں میں پائے جانے والے مسلمانوں کے جذبات بھی ہمارے خلاف بھڑک اٹھیں گے۔ خاص طور پر ہندوستان کے مسلمان جو 1857ء میں آزادی کی جنگ بھی لڑ چکے ہیں وہ ہمیں بہت تنگ کریں گے۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ اگر کسی خفیہ منصوبے کے ذریعے سے حل ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے۔"

            اعلی حکومتی عہدے دارنے بہت مدلل انداز سے تبصرہ کیا۔ وہ اس اجلاس کی صدارت کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ چندلمحوں کی خاموشی کے بعد وہ تجویز پیش کرنے والے افسر سے مخاطب ہو کر بولے:

            "آ پ بہت ذہین ہیں۔ آپ چند روز غور کرکے کوئی زبردست منصوبہ پیش کریں۔"

            اعلی حکومتی عہدے دار کے حکم پر اجلاس ختم ہو گیا۔

            چند روز بعد اعلی سطحی اجلاس کا دوسرا سیشن شروع ہوا۔ مخصوص آفیسر سے تجویز پیش کرنے کے لیے کہا گیا۔ آفیسر نے گفتگو کا آغاز کیا:

            "محترم حاضرین! میں نے گذشتہ دنوں میں اپنا زیادہ تر وقت لائبریریوں ہی میں گزارا ہے۔ اس دوران میں ،میں نے عرب کی قدیم تاریخ، ان کی تہذیب و ثقافت، ان کے قبائلی نظام اوران کی حالیہ سیاسی صورت حال کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اس کے بعد بہت سوچ بچار کرکے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عرب میں کسی ایسے شخص کو بھیجا جائے جو عربوں میں گھل مل سکے، قبائلی سرداروں کو بغاوت پر آمادہ کر سکے اور اپنی کمان میں انہیں ترکوں کے خلاف متحد کر سکے۔"

            "آ پ کی تجویز بہت شان دار ہے، لیکن کیا کوئی ایسا برطانوی آپ کی نظر میں ہے جو یہ مشکل ترین کام کر سکے؟" اعلی حکومتی عہدے دار نے دلچسپی سے پوچھا۔

            "جی ہاں!"

            آفیسر نے بہت اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔

            "کون ہے وہ شخص؟"

            "میں نے سوچا کہ اس کام کے لیے کوئی ایسا شخص ہونا چاہیے جس کا تعلق فوج سے ہو۔ کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ اسے کسی موقعے پر عربوں کی جنگی قیادت کرنی پڑے۔ پھر اسے عرب کلچر سے نہ صرف واقفیت ہو بلکہ وہ اس کو پسند بھی کرتا ہو تاکہ وہ عربوں کا اعتماد حاصل کر سکے، پھر وہ اتنا سخت جان ہو کہ برطانیہ کے برفانی علاقوں میں ساری زندگی گزارنے کے باوجود تپتے صحراؤں میں بھی اپنا کام کر سکے۔ وہ اتنا ذہین ہو کہ افراد اور حالات کو پہچان کر صحیح رائے قائم کر سکے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ کوئی ایک معاملے میں کمزور ہے تو کوئی دوسرے میں۔ آخر میں نے ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے جس میں یہ تمام صلاحیتیں موجودہیں۔ اطمینان کے لیے میں نے اس کی پوری زندگی کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں اور میں اس نتیجے پرپہنچا کہ یہی شخص ایسا جان جوکھم میں ڈالنے والا کام انجام دے سکتا ہے۔ اس شخص کا نام لیفٹیننٹ ٹی۔ای۔لارنس ہے۔" آفیسر نے اپنی بات مکمل کی۔

            "ٹی۔ای۔لارنس؟"

            اعلی حکومتی عہدے دار کے بائیں جانب بیٹھا ہوا جنرل بے اختیار ہنستے ہوئے بولا:

            "آپ کی تجویز جتنی شا ن دار تھی، آپ کا انتخاب اتنا ہی بھونڈا ہے۔ میں اس شخص کو براہ راست جانتا ہوں۔ وہ چھوٹے قد اور کمزور جسم کا ایک شخص ہے۔ نہایت بھلکڑ اور فلسفی مزاج کا آدمی ہے۔ اس سے تو یہ ممکن نہیں ہوتا کہ بر وقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچ سکے۔ وہ اتنی بڑی مہم کیسے سر کر سکے گا؟" جنرل نے اپنے جملوں سے طنز کے تیر برساتے ہوئے کہا۔

            مگر آفیسر نے بہت اطمینان سے جواب دیا: "آپ کی ساری باتیں درست ہیں مگر میں اس کے باوجود "لارنس" ہی پر اصرار کروں گا۔ میں نے اس کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا ہے، اس لیے مجھے اپنی رائے پر پورا اطمینان ہے۔"

            "کیا آپ اس کی زندگی کے بارے میں کچھ بیان کر سکتے ہیں؟" اعلی حکومتی عہدے دار نے تذبذب کے ساتھ پوچھا۔

            آفیسر بولا: جناب عالی! ٹی۔ای۔لارنس نے 1907ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے جیمز کالج میں داخلہ لیا۔ وہ وظیفہ یاب طالب علم تھا۔ اس کی دلچسپی کا مضمون جدید تاریخ تھا۔ تعلیمی اوقات کے بعد ہر طالب علم کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لیتا، مگر لارنس کسی ٹیم کا رکن نہیں تھا۔ جب دوسرے لڑکے کھیل رہے ہوتے تو وہ کالج کے کسی کونے میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے گم صم بیٹھا ہوتا اور کبھی کبھی بلاوجہ مسکرا دیتا۔ اسے یونیورسٹی کے امتحان کے لیے اپنا مقالہ تیار کرنا تھا۔ مقالے کے لیے اس نے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ تھا: "یورپ کی فوجی تعمیرات پر صلیبیوں کے اثرات کا جائزہ۔" اس مقصد کے لیے اس نے شام و فلسطین میں صلیبیوں کے تعمیر کردہ قلعوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جولائی1909ء میں ایک روز وہ بیروت جانے والے ایک بحری جہاز پر سوار ہوا۔ اس کے ہمراہ بہت مختصر سامان تھا۔ دو سوٹ، دو جوتوں کے جوڑے، ایک کیمرہ اور ایک ریوالور۔ بیروت سے اس نے اندرون ملک تنہا سفر کرنے کا پروگرام بنایا۔ لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ سلطنت عثمانیہ کے اس الگ تھلگ اور خطرناک علاقے میں سفر کرنا، موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ اس نے عربی زبان سیکھی اور راستے کے خطرات کی پروا کیے بغیر اپنا سفر شروع کر دیا۔ ماہ ستمبر کے آتے آتے اس نے گیارہ سو میل کا سفر طے کر لیا تھا۔ یہ تمام سفر اس نے بنجر پہاڑی علاقوں اور آگ کے مانند جلتے ہوئے صحراؤں میں کیا۔ اس سفر میں اس کے پاس کوئی جیپ یا گاڑی نہیں تھی۔ اس نے سارا سفر پیدل یا اونٹ پر کیا۔ اس کے کپڑے چیتھڑے بن چکے تھے۔ اس کے جوتے گھس کے تقریباً ختم ہو چکے تھے۔ راستے میں کئی بار ڈاکو بھی اس پر حملہ آور ہوئے، مگر اس نے اپنی مہم کو ہر حال میں جاری رکھا۔ اپنے اس سفر کے دوران میں وہ 36 صلیبی قلعوں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوا۔ اس نے ان قلعوں کے نقشے بنائے اور تصاویر اتاریں۔ اس کا یہ کام بہت اہم دستاویز کی حیثیت سے لائبریریوں میں موجود ہے۔" سب لوگ بہت توجہ سے یہ گفتگو سن رہے تھے۔ آفیسر کہہ رہا تھا:

            "میں اس کے سفر کا صرف ایک واقعہ سنا کر اپنی گفتگو کو ختم کرتا ہوں۔

            ایک روز وہ پیاس سے نڈھال صحرا میں چلا جا رہا تھا۔ اچانک اسے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو چند گھڑ سوار اسے اپنی طرف بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ صحرائی ڈاکو ہیں جو اسے لوٹنے کے لیے اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس نے بے اختیار بھاگنا شروع کر دیا۔ مگر وہ گھوڑوں کی رفتار کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ آخر اس نے ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لمحے ڈاکو اس کے سر پر پہنچ چکے تھے۔ ان کے پاس بندوقیں تھیں اور اس کے پاس صرف پستول۔ اس نے انہیں سمجھا بجھا کر معاملہ ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ زبردستی پر مصر تھے۔ آٹھ دس غنڈوں کے مقابلے میں وہ کہاں تک لڑ سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کی قوت کم ہوتی گئی۔ انہوں نے اس کو اتنا مارا کہ وہ گر پڑا۔ ڈاکوؤں نے جو تھوڑا بہت مال اسباب اس کے پاس تھا اسے لوٹا اور اسے مردہ سمجھ کر وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔ چند گھنٹوں بعد جب اسے ہوش آیا تو اس کا جوڑ جوڑ شدید درد کر رہا تھا۔ وہ اسی حال میں اٹھا، کچھ سوچ کر مسکرایا اور لنگڑاتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو گیا۔" آفیسر اپنی بات مکمل کر چکا تھا۔

            "بہت خوب، یہ شخص واقعی اس قابل ہے کہ اسے یہ کام سونپا جا سکے۔’’اعلی حکومتی عہدے دار نے خوش ہوتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا۔

            "اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر عرب علاقے کی تقسیم کی کیا صورت ہوگی؟" فرانسیسی افسر نے معنی خیز انداز سے پوچھا۔

            "ظاہر ہے کہ عرب علاقوں کو فرانس اور برطانیہ میں تقسیم کیا جائیگا۔’’اعلی حکومتی عہدے دار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

            ‘‘مگر میری ایک نہایت ضروری گزارش ہے۔’’آفیسر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔

            "وہ گزارش یہ ہے کہ لارنس کو اس منصوبے کی ہرگز بھنک نہ پڑے۔ اسے یہی بتایا جائے کہ ہم عربوں کو ترکوں سے آزادی دلانے میں ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ آزادی سے محبت کرنے والا اور اپنے خاص اصول رکھنے والا آدمی ہے۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرے گا کہ عربوں کو ترکوں کی غلامی سے نکال کر انگریزوں اور فرانسیسیوں کی غلامی میں دے دیا جائے۔" سب شرکاء نے اس سے اتفاق کیا اور پھر منصوبے کی تحریری منظوری دینے کے بعد اجلاس برخاست ہو گیا۔

٭٭٭

            لارنس ایک برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے پہلے مصر پہنچا، وہاں سے دمشق۔ دمشق سے اس نے ایک مقامی آدمی کو ساتھ لیا اور سیکڑوں میل دور صحرا میں مقیم باغی عرب سرداروں سے ملنے کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس مشکل ترین سفر کے لیے واحد ذریعہ اونٹ تھا۔ دونوں اونٹوں پر سوار ہو کر صحرائی علاقے میں داخل ہو گئے۔ گائیڈ راستوں کا بہت شناسا تھا۔ پھر لارنس کے پاس نقشہ، قطب نما اور دوربین بھی تھی۔ ان چیزوں نے اس کی خاصی مدد کی۔ وہ شریف حسین اور فیصل سے ملنا چاہتا تھا یہ دونوں ایسے لوگ تھے جن کے گرد عرب قوم کو اکٹھا کیا جا سکتا تھا۔ دس دن کے مسلسل صحرائی سفر کے بعد وہ بہت زیادہ تھک چکے تھے۔ فیصل کا ٹھکانا ابھی بھی ایک دن کی مسافت پر تھا۔ راستے میں اچانک انہیں ایک کنواں نظر آیا۔ لارنس کے عرب گائیڈ نے کنویں سے پانی نکالا اور جی بھر کر پیا۔ لارنس اپنے اونٹ کے سائے میں تھوڑی دیر سستانے کے لیے لیٹ گیا۔ اچانک گائیڈ چیخا:

            "کوئی ہماری طرف آ رہا ہے۔"

            لارنس نے دیکھا تو دور ایک ہیولا سا حرکت کرتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ آہستہ آہستہ ہیولا واضح ہونا شروع ہو گیا۔ سیاہ لبادے میں ملبوس اونٹ کو دوڑائے کوئی شخص ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گائیڈ کے منہ سے بے اختیار نکلا: "بدو" یہ کہتے ہی وہ اپنے اونٹ کی طرف دوڑا اور کجاوے میں رکھا ہوا پستول نکال لیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ واپس مڑتا زوردار دھماکا ہوا اور گولی گائیڈ کی کھوپڑی میں سوراخ کرتی ہوئی پار ہو گئی۔ آنے والے نے اسے زندگی سے محروم کر دیا تھا۔ لارنس ہکا بکا کھڑا تھا۔ بدو بولا:‘‘تم کون ہو دوست؟’’

            ‘‘میں کسی قاتل کا دوست نہیں ہو سکتا۔’’لارنس نے درشتی سے جواب دیا۔

            "تم نے اسے کیوں مارا ہے؟"

            "یہ ہمارے دشمن قبیلے کا آدمی تھا، اس نے میری اجازت کے بغیر میرے کنویں سے پانی پیا ہے۔"

            "صرف اس لیے تم نے ایک شخص کی جان لے لی۔۔۔لعنت ہے تم پر!تم عرب کبھی متحد نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تم برسوں سے ترکوں کی غلامی میں ہو۔ تم اسی کے مستحق ہو۔" لارنس غصے میں پھنکار رہا تھا۔ اس کو اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ ویسی ہی ایک گولی اس کے سر میں بھی سوراخ کر سکتی ہے۔ اس کا غصہ دیکھ کر بدو مسکرا رہا تھا، بولا:

            "تم ہمارے چکروں میں نہ پڑو۔ ہم ذرا مختلف لوگ ہیں۔ اس کے قبیلے نے نہ جانے ہمارے کتنے لوگ مارے ہوئے ہیں۔ غصہ تھوک دو۔ تم ہمارے مہمان ہو۔ بتاؤ، اس ویران صحرا میں تم کس مقصدکے لیے آئے ہو؟"

            بدو کے لہجے میں خاصی نرمی تھی۔

            لارنس کے غصے میں بھی کچھ کمی آگئی تھی۔ اس نے کہا:

            "میں عرب سردار شریف حسین سے ملنا چاہتا ہوں۔"

            "میں تمہیں شریف حسین کے پاس پہنچا دیتا ہوں۔"

            "ہرگز نہیں، میں تم جیسے شخص کا کوئی احسان نہیں لینا چاہتا۔"

            "تم اکیلے کبھی وہاں نہیں پہنچ سکو گے۔"

            "تمہیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔" یہ کہہ کر لارنس اپنے گائیڈ کی لاش کی طرف مڑا اور اس پر ریت ڈالنی شروع کر دی۔ اسے بہت افسو س ہو رہا تھا کہ اس کی وجہ سے ایک شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ لارنس کی بے نیازی کو دیکھ کر "بدو" نے اپنے اونٹ کو موڑا اور واپس روانہ ہو گیا۔

            ہاتھوں سے قبر بنانے میں لارنس کو کافی وقت لگ گیا۔ اس کام سے فارغ ہو کر اس نے نقشے کو اپنے سامنے پھیلایا اور قطب نما کی مدد سے اپنی سمت کا تعین کیا۔ اگلے ہی لمحے اس کا اونٹ کلانچیں بھر رہا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ قطب نما کو نکالتا اور دیکھ لیتا کہ وہ صحیح سمت میں جا رہا ہے یا نہیں۔ تقریباً دس گھنٹے کی مسافت کے بعد چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور چٹانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اچانک اسے یوں محسو س ہوا کہ جیسے اسے کوئی آوازیں دے رہا ہے۔ اس نے دائیں طرف دیکھا تو دور ایک بلند چٹان پر کوئی شخص کھڑا اپنا ہاتھ زور زور سے ہلا رہا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ شخص پتلون شرٹ میں ملبوس تھا۔ وہ اس کی جانب بڑھنے لگا۔ قریب جاتے ہی اسے اندازہ ہوا کہ وہ برطانوی فوج کا کرنل ہے۔ سفر پر نکلتے وقت اسے بتایا گیا تھا کہ حکومت برطانیہ نے پہلے ہی سے ایک فوجی کرنل کو شریف حسین کے پاس بھیجا ہوا ہے۔ لارنس نے اسے سیلوٹ کیا اور اپنا تعارف کرایا۔ کرنل نے اسے بتایا کہ وہ اسی کے انتظار میں یہاں بیٹھا ہوا ہے۔

            "لیکن آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں پہنچ رہا ہوں؟" لارنس نے حیرت سے پوچھا۔

            "پچاس میل کے دائر ے کے اندر ہونے والی ہر حرکت سے شریف واقف ہوتا ہے۔"

            وہ یہ گفتگو کرتے ہوئے اپنے اونٹوں پر سوار چلے جا رہے تھے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد کرنل نے بائیں طرف نیچے وادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیکھو یہ شریف حسین اور اس کے حامیوں کے کیمپ لگے ہوئے ہیں۔ لارنس نے اس طرف دیکھا تو اسے خیموں کا ایک وسیع و عریض شہر نظر آیا۔ وہ ابھی خیموں کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ اچانک فضا میں شور سنائی دیا۔ دو جنگی جہاز انہیں خیموں کی طرف بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ کرنل نے فوراً اسے چٹان کی اوٹ میں ہو جانے کے لیے کہا۔ جہازوں سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ لارنس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ سیکڑوں گھڑ سوار ادھر سے ادھر نہایت بے چینی سے بھاگ رہے تھے۔ وہ عجیب اضطراری کیفیت میں جہازوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہلاک ہو رہے تھے۔

            "کیا یہ ترکی کے جہاز ہیں؟" لارنس نے پوچھا۔

            "ہاں، ہر دوسرے چوتھے روز اس طرح کی کارروائی ہو جاتی ہے۔ آج کل وہ باغیوں کو کافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔"

            "کیا عرب باغیوں کے پاس جدید اسلحہ نہیں ہے؟"

            "بالکل بھی نہیں، اسی لیے تو بے چارے مار کھا رہے ہیں۔"

            جب وہ کیمپ میں داخل ہوئے تو سورج غروب ہو رہا تھا۔ کرنل، لارنس کو سیدھا شریف حسین کے خیمے میں لے گیا۔ لارنس نے دیکھا کہ شریف حسین نہایت پریشانی کے عالم میں ایک طرف سے دوسری طرف چل رہا تھا۔

            "مجھے بہت افسوس ہے!" لارنس نے شریف حسین کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

            "یہ ہمارا روز کا معمول ہے... کاش ہمارے پاس جدید اسلحہ ہوتا تو ہم ان جہازوں کو ہرگز واپس نہ جانے دیتے۔"

            "میں آپ کی جدوجہد آزادی کی قدر کرتا ہوں، مگر آپ کو بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔" لارنس کا لہجہ بہت دوستانہ تھا۔

            "آپ نے ان کا تعارف نہیں کرایا کرنل!" شریف کرنل سے مخاطب ہوا۔

            "یہ لیفٹیننٹ ٹی۔ ای۔ لارنس ہیں۔ انہیں عربوں کی تحریک آزادی سے بہت دلچسپی ہے۔ حکومت برطانیہ نے انہیں یہ معلوم کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے کہ حکومت برطانیہ عربوں کی آزادی کے لیے کیا مدد کر سکتی ہے۔"

            "کیا آپ خود بھی اس بارے میں کچھ کہیں گے؟" شریف حسین کا رخ لارنس کی طرف تھا۔

            "جناب عالی، میں آزادی سے محبت کرتا ہوں۔ دنیا میں اگر کسی قوم کو زبردستی آزادی سے محروم رکھا جائے تو میں تڑپ اٹھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی ہر قوم کی طرح عربوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن میں اپنی حکومت قائم کریں اور اپنی مرضی سے زندگی بسر کریں۔ حکومت برطانیہ نے مجھے اس کام پر مامور کیا ہے کہ میں عرب جاں فروشوں سے ملوں، انہیں برطانوی حمایت کا یقین دلاؤں۔ اور معلوم کروں کہ ہم کس طرح عربوں کو ترکوں سے آزاد کرا سکتے ہیں۔" لارنس نے پورے جذبات کے ساتھ اپنی بات بیان کی۔ معلوم نہیں لارنس اپنے ملک اور قوم کی تاریخ سے بہت زیادہ ناواقف تھا یا وہ منافقت سے کام لے رہا تھا کیونکہ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہندوستان، افریقہ، آسٹریلیا سمیت کتنے ہی ملکوں کو برطانوی انگریزوں نے آزادی سے محروم رکھا اور ان قوموں کو زبردستی غلام بنائے رکھا۔

            "ہم آپ کی محبت اور جذبے کے شکر گزار ہیں، لیکن کیا یہ جذبات جرمنی اور اس کے حامیوں کی آپ کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد بھی قائم رہیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ ہم ترکوں کی غلامی سے نکل کر انگریزوں کی غلامی میں آجائیں؟" شریف حسین نے بہت تحمل سے پوچھا۔

            "آپ بے فکر رہیں۔ اس خطے سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔ میں حکومت برطانیہ کے ایک با ضابطہ نمائندے کی حیثیت سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ برطانیہ کی فتح کے بعد بھی آپ کی آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔"

            "مرحبا، مرحبا!" شریف حسین کے منہ سے بے اختیار نکلا۔

اچانک خیمے کا پردہ اٹھا اور ایک شخص اندر داخل ہوا۔ لارنس نے اسے دیکھتے ہی منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

            "لارنس یہ علی شریف ہے، میرا بیٹا۔" شریف حسین نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔

            "میں تو اسے اپنے دوست کے قاتل سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔" لارنس نے بے دلی سے کہا۔

            علی نے شریف کو سارا واقعہ سنایا۔ پھر شریف نے دونوں قبیلوں کی دشمنی کی تفصیل بیان کی اور یہ بتایا کہ اگر علی اسے قتل نہ کرتا تو وہ علی کو قتل کر دیتا۔ یہ تفصیل سن کر لارنس کو کچھ اطمینان ہوا۔ اس کے بعد علی بھی سیاسی گفتگو میں شریک ہو گیا۔

            لارنس نے پوچھا: "عرب کے علاقے میں ترکوں کا سب سے بڑا فوجی ٹھکانا کون سا ہے؟"

            "عقبہ۔" علی شریف بولا۔

            "کیا عقبہ پر قبضہ کیا جا سکتا ہے؟"

            ‘‘ہرگز نہیں!’’

            "کیوں؟"

            "کیونکہ عقبہ کو جانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ سمندری راستہ ہے۔"

            "یہ کیسے ہو سکتا ہے، اگر وہ عرب کا حصہ ہے تو پھر لازماً زمینی راستہ ہونا چاہیے۔"

            "زمینی راستہ ہے تو سہی مگر اس پر سفر نہیں کیا جا سکتا۔"

            لارنس بولا: "ہمیں سمندر سے نہیں بلکہ زمینی راستے سے وادی عقبہ تک پہنچنا ہوگا۔"

            علی شریف نے جواب دیا: "یہ ناممکن ہے، کیونکہ زمینی راستے میں صحرائے نفود آتا ہے۔ انسان تو کیا اسے اونٹ جیسے صحرائی جانور بھی پار نہیں کر سکتے۔"

            "مگر میں اس صحرا کو پار کر سکتا ہوں۔" لارنس پر عزم تھا۔

            علی شریف اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا: "نفود سفر کے لیے دنیا کا مشکل ترین صحرا ہے اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ملتا۔ درخت تو کیا وہاں کوئی جھاڑی تک بھی نہیں ہے۔"

            "میں اس صحرا کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر اپنے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میرے لیے کوئی مشکل، مشکل نہیں... تم مجھے 50 جنگجو اور سر پر کفن باندھنے والے آدمی مہیا کر دو۔ میں تمہیں صحرا پار کرکے بھی دکھا دوں گا اور عقبہ پر قبضہ کرکے بھی دکھا دوں گا۔" لارنس نے بے پروائی سے کہا۔

            علی شریف حیرت سے بولا:‘‘صرف50آدمی؟ کیوں اپنی جان کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو۔ خود کشی ہی کرنی ہے تو یہاں پر اس کی کئی صورتیں نکالی جا سکتی ہیں۔’’

            "مجھے موت سے کبھی خوف نہیں آیا، تم پریشان مت ہو، میں تمہارے آدمیوں کو بھی زندہ بچا لوں گا۔"

            "تمہیں معلوم ہے کہ عقبہ کی چھاؤنی میں توپیں نصب ہیں۔ کیا تم چند بندوقوں سے ان کا مقابلہ کر سکو گے؟" علی شریف اسے چبھتے ہوئے انداز سے دیکھ رہا تھا۔

            "اسی لیے میں نے سمندر کے بجائے خشکی کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں توپوں کی پشت کی طرف سے عقبہ پر حملہ آور ہوں گا۔ ترک یہ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے کہ کوئی صحرائے نفود کو عبور کرکے بھی ان پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔" لارنس مکارانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

            لارنس50نہایت سخت جان عرب سپاہیوں کے ہمراہ صحرائے نفود میں داخل ہو گیا۔ علی شریف نے بھی لارنس کے ہمراہ جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس سفر کو خود کشی سمجھتا تھا مگر یہ بات اسے اپنی عرب شان کے خلاف محسوس ہوئی کہ وہ ہمت کے معاملے میں ایک غیر ملکی سے شکست کھا جائے۔ پورے صحرا میں کہیں بھی پانی کا نشان نہیں تھا۔لارنس نے کئی اونٹوں پر صرف پانی ذخیرہ کرکے لادا تھا۔ اگر روزانہ 18 گھنٹے سفر کیا جاتا تو پھر 20دنوں کے اندر صحرائے نفود کو عبور کیا جا سکتا تھا۔ یہی لارنس کا پروگرام تھا۔ اس نے یہ طے کیا تھا کہ18گھنٹے روزانہ لازماً سفر کیا جائے گا۔ صبح 7بجے ہی سے دھوپ میں بہت شدت آجاتی۔ 12بجے کے بعد تو گویا صحرا جہنم بن جاتا۔ لارنس نے اپنی زندگی میں کبھی اس طرح کی گرمی کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ صحرا میں ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آگے جانا موت کو گلے لگانا ہوگا۔ مگر لارنس نے ان کو حوصلہ دیا:‘‘تم میری طرف کیوں نہیں دیکھتے، میں نے ساری زندگی برفانی علاقے میں گزاری ہے۔ میرا جسم اتنی شدید گرمی کو برداشت کرنے کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ تم تو صحراؤں میں پلنے بسنے والے ہو۔ میں اگر یہ ہمت کر سکتا ہوں تو تم کیوں نہیں کر سکتے؟ میں تو محض تمہاری ہمدردی میں یہ سب کچھ کر رہا ہوں۔ تمہارے لیے تو اپنی قوم کی آزادی کا مسئلہ ہے۔ اگر تم نے یہ ہمت نہ کی تو کیمپ میں پڑے پڑے ہوائی جہاز کی گولیوں کا بن جاؤ گے، کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ تم جدوجہد کرتے ہوئے موت کو گلے لگا لو۔"

            لارنس کی تقریر نے لوگوں کے جذبوں کو پھر سے جوان کر دیا۔ علی شریف بھی اس سے بہت متاثر نظر آ رہا تھا۔

            صحرا میں چلتے ہوئے انہیں سولہواں دن تھا۔ اب صرف چار دن کا سفر باقی رہ گیا تھا۔ وہ سب اس بات پر حیران تھے کہ انہوں نے صحرا کے زیادہ تر حصے کو پار کر لیا تھا اوراس کے باوجود وہ زندہ و سلامت تھے۔ سب لوگ اپنے اپنے اونٹوں پر بے سدھ، ڈھلکتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ لارنس اور شریف باری باری قافلے کی رہنمائی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ہر تین گھنٹے بعد باری تبدیل ہو جاتی۔ لارنس کی جب اگلی باری شروع ہوئی تو سورج بالکل سر پر آ چکا تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک اونٹ پر پڑی اس پر سوار موجود نہیں تھا۔ وہ پریشان ہو گیا۔ اس نے قافلے کو رکنے کا حکم دیا۔

            ‘‘یہ کس کا اونٹ ہے؟’’لارنس نے پوچھا۔

            ‘‘قاسم کا۔’’مختلف آوازیں آئیں۔

            "قاسم کہاں ہے؟"

            جواب میں ہر طرف خاموشی تھی۔

            "تم بولتے کیوں نہیں، قاسم کہاں ہے؟" لارنس نے چیخ کر پوچھا۔

            "لگتا ہے وہ بے ہوش ہو کر راستے میں کہیں گر گیا ہے۔" علی شریف بولا۔

            "اسے واپس ڈھونڈنے کے لیے کون جائے گا؟" لارنس نے سب لوگوں پرنظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔

            کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔

            بالآخر علی شریف نے کہا:

            "اب واپس جانے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ اب تک مر چکا ہوگا۔ ہمیں اپنی جان بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔"

            "کیا میرے ساتھ اسے ڈھونڈنے کے لیے کوئی جائے گا؟" لارنس چلایا۔ سب خاموش تھے۔

            لارنس نے ایک نظر قافلے پر ڈالی اور اپنے اونٹ کا رخ پیچھے کی طرف موڑ دیا۔

            ‘‘لارنس تم بے وقوفی کر رہے ہو۔’’علی شریف دھاڑا۔"اس کی جگہ تم بھی ہو سکتے تھے علی شریف!’’ لارنس نے آہستگی سے کہا اور اونٹ کو واپسی کی طرف دوڑا دیا۔

            تقریباً چارگھنٹے چلنے کے بعد اسے دور ایک ہیولا سا نظر آیا۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔ قاسم زمین پر بے سدھ پڑا ہوا تھا۔ لارنس نے فوراً اس کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ زندہ تھا۔ لارنس بہت خوش ہوا۔ اس نے قاسم کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ وہ ہوش میں آگیا۔ لارنس نے پانی کا گلاس اس کے منہ سے لگا دیا۔ پھر اسے اپنے پیچھے بٹھایا اور واپس روانہ ہو گیا۔

            علی شریف قافلے کو لے کر صحرا عبور کر چکا تھا۔ انہوں نے وادی میں اپنا پڑاؤ ڈالا۔ وہاں خاصی مقدار میں پانی موجود تھا۔ علی شریف بہت پریشان تھا۔ اسے افسوس ہو رہا تھا کہ ایک عرب کی جان بچانے کے لیے کسی عرب نے نہیں بلکہ ایک انگریز نے اپنی جان کی بازی لگا دی تھی۔ اسے یقین تھا کہ تھکن اور کمزوری سے لارنس کی جو حالت ہو رہی تھی، وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ مگر پھر بھی اس نے ایک دن انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے دو افراد کو اونچی چٹان پر بٹھا کر یہ کہا تھا کہ جیسے ہی کوئی سایہ نظر آئے تو اسے مطلع کیا جائے۔ شام ہوئی، رات آئی اور پھر دن طلوع ہوگیا۔ علی شریف اب مکمل طور پر مایوس ہو چکا تھا۔ اس نے اعلان کر دیا کہ قافلہ دو گھنٹے مزید انتظار کے بعد یہاں سے روانہ ہو جائے گا۔ وہ ابھی مزید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ چٹان پر کھڑے دونوں آدمیوں نے چلانا شروع کر دیا:

            "کوئی آ رہا ہے، کوئی آ رہا ہے۔"

            "علی شریف سمیت سارے لوگ بھاگ کر مختلف چٹانوں پر چڑھ گئے۔ دور اونٹ پر سوار کوئی آتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ سب دل ہی دل میں دعا مانگ رہے تھے کہ یہ لارنس ہی ہو۔ چند منٹوں بعد لارنس ان کے درمیان تھا۔ وہ قاسم کو زندہ سلامت واپس لے آیا تھا۔ ہر طرف مرحبا مرحبا کے نعرے گونج رہے تھے۔ علی شریف آگے بڑھا۔ اس نے لارنس کو گلے لگا لیا۔

            "تم عربوں کے عربوں سے بھی بڑھ کر ہمدرد ہو، عرب قوم تمہارے احسانات کبھی نہ بھلا سکے گی۔’’علی شریف کی آواز گلوگیر تھی۔ علی شریف پیچھے ہٹا تو لارنس چکرا کر زمین پرگر گیا۔شریف نے جھک کر دیکھا۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔

            علی شریف نے لارنس کو بتایا کہ عقبہ کی چھاؤنی سے کچھ پہلے عربوں کا ایک بڑا قبیلہ "اجیل" آباد ہے۔ وہ لالچی لوگ ہیں۔ ترک انہیں کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہیں، اس لیے وہ ان کی مخالفت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ لارنس نے کچھ سوچنے کے بعد اجیل قبیلے کے سردار سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ سردار سے ملاقات میں لارنس نے اس کی عرب محبت کو ابھارنے کی کوشش کی، مگر کچھ خاص کامیابی نہ ہو سکی۔ لارنس ہر قیمت پر اس قبیلے کی طاقت کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتا تھا تاکہ عقبہ پرقبضہ یقینی ہو جائے۔ اس نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے سردار کو بتایا کہ عقبہ کی چھاؤنی میں سونے کی اشرفیوں کا بڑا خزانہ موجود ہے، اگر وہ عقبہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ سارا خزانہ اجیل قبیلے کی ملکیت ہوگا۔سردار کے لیے یہ بہت بڑا لالچ تھا۔ وہ فوراً آمادہ ہوگیا۔

            لارنس کی قیادت میں300سوار بندوقوں سے لیس ہو کر عقبہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے میں قافلہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے رکا۔ لارنس بھی سستانے کے لیے اپنا کمبل بچھا کر لیٹ گیا۔ اچانک اس نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ وہ دوڑتے ہوئے خیموں کے درمیان گیا تو اسے معلوم ہوا کہ علی کے ایک بدو سپاہی نے قبیلہ اجیل کے ایک آدمی کو گولی سے مار دیا ہے۔قبیلہ اجیل کے لوگ اس کی لاش کے گرد کھڑے چیخ چیخ کر خون کے بدلے میں خون کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دوسری طرف علی شریف اور اس کے لوگ قاتل کو حوالے کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ لارنس نے سوچا کہ اگر یہ دونوں قبیلے آپس میں لڑ پڑے تو عقبہ کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ اس نے بلند آواز سے کہا:‘‘قاتل کو سامنے لایا جائے۔’’

            علی شریف کے اجازت دینے پر قاتل درمیان میں آگیا۔ لارنس حیران رہ گیا کہ یہ وہی قاسم تھا جس کی جان اس نے صحرائے نفود میں بچائی تھی۔ وہ گڑگڑا کر زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔

            ‘‘علی شریف !کیا تمہارے قانون میں قتل کا بدلہ قتل ہے؟’’لارنس پستول نکال کر سپاٹ لہجے میں بولا۔

            ‘‘ہاں’’علی شریف تاسف سے بولا۔

            لارنس نے اپنا پستول اوپر کیا اور قاسم پر فائر کر دیا۔ گولی قاسم کا سینہ چیرتی ہوئی نکل گئی۔ قاسم کے زمین پر گرتے ہی لارنس خود بھی زمین پر گر گیا۔ وہ بہت افسردہ اور پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ فوج کی ملازمت کے باوجود کسی انسان کو جان سے مارنے کا یہ اس کے لیے پہلا موقع تھا۔ وہ غم سے اتنا نڈھال ہو گیا کہ لوگوں نے اسے پکڑ کر اونٹ پر سوار کرایا۔

            عقبہ کی فوجی کمان بالکل بے خبر تھی جب لارنس نے ان کے فوجی ٹھکانے پر حملہ کر دیا۔ اہل عقبہ یہ سو چ بھی نہیں سکتے تھے کہ باغی صحرائے نفود عبور کرکے ان کی پشت کی طرف سے بھی حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ وہ اپنی نصب شدہ توپوں کو بھی استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ ان کا رخ سمندری راستے کی جانب تھا۔ لارنس کو عقبہ فتح کرنے میں چند گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں لگا۔

            لارنس نے عقبہ کی فتح کے بعد ترکوں کے خلاف گوریلا کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس نے دمشق کو مدینہ منورہ سے ملانے والی ریلوے لائن کو تباہ کر دیا۔ اس تباہی کے بعد ترکوں کی عرب میں نقل و حرکت ناممکن ہو گئی۔ اس نے دو سال تک یہ کارروائیاں جاری رکھیں اور بالآخر جنرل ایڈمنڈ الن بی کی زیر قیادت برطانوی فوجوں کے ہمراہ ایک فاتح کی حیثیت سے دمشق میں داخل ہوا۔ اس نے عربوں کو ترکوں کی حکومت سے الگ کر دیا تھا۔

            عربوں کی آزادی اس کی زندگی کا ایک اہم مقصد تھا۔ مگر جب 1918ء میں برطانیہ اور فرانس کے مابین طے پانے والا معاہدہ "سائیکس پیکٹ ایگریمنٹ" منظر عام پر آیا تو لارنس کو شدید صدمہ پہنچا۔ اس معاہدہ کے مطابق شام فرانس کے حوالے کیا جا رہا تھا اور عراق و حجاز اور فلسطین برطانیہ کی تحویل میں دیے جا رہے تھے۔ لارنس ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا۔

            وہ اپنے عرب دوستوں سے بہت شرمندہ تھا۔ اس نے بکنگھم پیلس کی ایک شاہی تقریب میں فوجی اعزاز قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا کہ میرے جذبات و احساسات کی جس طرح تحقیر کی گئی اس کی بنا پر میں عزت و احترام کی کسی پیشکش کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتا۔

(بشکریہ ہم سب دوست ڈاٹ او آر جی)