سوال ، جواب ( ترجمہ ، صدیق بخاری)

مصنف : شہزاد سلیم

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2005

جواب۔ سود لینا بہر حال ممنوع ہے مسلم ملک ہو یا غیر مسلم ملک ۔ اس کی ممانعت کی علت مسلم یا غیر مسلم ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے اند ر موجود اخلاقی قباحت ہے۔جس طرح آپ مسلم ملک میں ہوں یا غیر مسلم ملک میں آپ کو بہر حا ل دیا نتد ار ہونا چاہیے ۔اسی طرح سودسے پرہیز بھی لازم ہے چاہے آپ جہا ں بھی ہوں۔جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے ۔‘‘ حربی کافر اور مسلمان کے درمیا ن کوئی سود نہیں ہے ’’ (بیہقی) یہ حدیث صحاح ستہ میں کہیں نہیں پائی جاتی اور ویسے بھی یہ مستند نہیں ہے ۔ دوسرے یہ قرآن سے بھی متصادم ہے اس لیے اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ اسلام کی روسے قرض خواہ اور مقروض کے درمیان معاہدہ انصاف اور کسی کے استحصال پر مبنی نہ ہونا چاہیے۔ اگر دونوں میں سے کسی ایک فریق کے حقوق زیادہ محفوظ ہوں تو یہ نا انصافی ہو گی۔سودی معاملات میں دونوں فریقین کے درمیان عدل اور انصاف کی قدر مفقود ہوتی ہے۔اس میں عام طور پر قرض خواہ کے حقوق کا خیال کیا جاتا ہے اور مقروض کے حقوق نظر انداز ہوتے ہیں۔یہ حقیقت کہ بعض غیر منصفانہ اقدامات سے معیشت پھل پھول رہی ہوتی ہے ٹھیک ہے لیکن یہ پھلنا پھولنا ان اقدامات کو جائز نہیں بنا دیتا۔بہت سے ایسے معاملات ہیں جو غیر اخلاقی ہیں لیکن جن سے معیشت کو فائد ہ ہوتا ہے مثلا سمگلنگ ’ منشیات وغیرہ کی تجارت’ اس فائدے کی بنا پر ان معاملات کو رائج نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ اخلاقی اقدار کو بچانا بہر حال ضروری ہے۔افریقہ اور بعض مشرق بعید کے ممالک میں غلامی اور بچوں کی سمگلنگ وغیر ہ ہو رہی ہے اور اس سے انہیں بہت معاشی فائد ہ بھی ہو رہا ہے لیکن بہر حال اس فائدے کی بنا پر اس کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ واضح ہوا کہ بظاہر بعض معاملات معاشی طور پر مفید ہو سکتے ہیں لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اخلاقی طور پر بھی درست ہوں گے۔سود اخلاقی قباحتوں کی بنا پر ممنوع ہے نہ کہ معاشی حوالوں سے ۔معاشی بہتری اور ترقی اسی وقت قابل تعریف ہو سکتی ہے جب وہ اخلاقی حدود کی پاسداری کے ساتھ ہو نہ کہ ان کو قربان کر کے ۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ میرا خیا ل ہے کہ سود کے جواز میں یہ پوری مثال ہی درست نہیں ہے۔سودی معاملات یوں کام نہیں کرتے۔اگر فریقین میں یہ پہلے سے طے ہو جائے کہ مقررہ مدت میں ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں یہ یہ جرمانہ ہو گاتو اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سود ی معاملات میں تو مقررہ مدت کے دوران میں بھی سود ادا کرنا ہوتا ہے۔ سود مقررہ مدت کے بعد سے شروع نہیں ہوتا بلکہ اس مدت کا ہی ہوتا ہے۔اس لیے ہمارے خیال میں سود کے حق میں آپ کے دوست کا یہ جوازدرست نہیں یہ سودسے متعلق نہیں بلکہ ایک جرمانے کی نوعیت کی چیز ہے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ اسلام سود کی ممانعت اس لیے کرتا ہے کہ یہ اخلاقی مفاسد کا حامل ہے۔اس لیے ایک شخص کو سود کی رقم استعمال نہیں کرنی چاہیے چاہے وہ اس کے اکاؤنٹ میں زبردستی ہی کیوں نہ کریڈٹ کر دی جائے۔بنک چارجز تو اصل میں بنک کی ان خدما ت کا معاوضہ ہے جو بنک آپ کو فراہم کرتا ہے۔اگر ان خدمات کامعاوضہ زیادہ ہے تواس کامطلب یہ نہیں کہ آپ ان کے لیے سود کی رقم استعمال کرسکتے ہیں۔یہ تو ایک طر ح سے آپ خود ہی اس رقم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہ رقم کسی خیراتی مقصد کے لیے استعمال کر لی جائے۔سود کی رقم اصل میں سوسائٹی کا حق ہوتا ہے جو اس سے چھینا جاتا ہے وہ اسی کو لوٹاناچاہیے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ اسلام میں سود لینا بہر حال منع ہے چاہے یہ بہبود عامہ اور خدمت خلق کے لیے ہی کیوں نہ لیا جائے۔اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی کام کو کرنے کیلئے اس کے مقاصد اور کام کو کرنے کا طریقہ کا ر دونوں ہی ٹھیک ہونے چاہییں۔یعنی مقاصداورذرائع یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔آپ کی تجویز ‘‘روبن ہڈ ’’ قسم کی ہے کہ نیک مقاصد کی تکمیل کے لیے نا پسندیدہ ذرائع استعمال کیے جائیں۔اسلام کا مقصد تزکیہ نفس ہے اور درست سمت میں سفر کرنا ہے چاہے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوں یا نہ لیکن درست راستہ کسی حال میں بھی ترک نہیں کیا جا سکتا۔مقاصد کا حصول صرف انسان کی کوشش اور محنت پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کی منشا پر بھی ہوتا ہے۔ اگر اللہ کی منشا نہ ہو تو ہمیں ہماری کوشش کا ثمر بہر حال مل جائے گا۔اگر ہمارے پاس جائز ذرائع سے حاصل کر دہ رقم موجود نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نا جائز ذرائع سے رقم حاصل کرکے خیراتی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔جب ایک چیز ہمارے پاس ہے ہی نہیں تو ہم سے اس بارے میں مواخذہ بھی نہیں ہو گا۔قرآن مجید کی ایک مثال سے اس مسئلے کو سمجھیے۔

اسلام سے قبل عرب میں غربا کی امداد کا ایک طریقہ شراب نوشی اور جوا بھی تھا۔مخیراور فیاض حضرات محفلِ ناؤ نوش منقعد کرتے اور نشے میں جس کا اونٹ ہاتھ آتا پکڑتے اور ذبح کر ڈالتے ۔اس گوشت پر جوا کھیلتے جو شخص جوا جیت جاتا تو وہ یہ سارا گوشت غریبوں میں تقسیم کر دیتا جو اس موقع پر پہلے ہی سے وہاں جمع ہو جاتے۔شراب اور جوئے کا یہی وہ فائد ہ تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے ان کے بارے میں استفسار کیا کہ کیا یہ واقعی ممنوع قرار پائے ہیں جب کہ ان کے کچھ فوائد بھی ہیں۔قرآن نے اس کے جواب میں یہ بتایا کہ یہ تو ایک ضمنی فائد ہ تھا یہ عمل لوگوں میں اخلاقی بگاڑ کا ذریعہ تھا۔اس لیے اس کی ممانعت کی گئی ہے۔

‘‘وہ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ان دونوں چیزوں کے اندر بڑ ا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائد ے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائد ے سے بڑھ کر ہے ۔’’(۲۔۲۱۹)

چنانچہ واضح ہوا کہ باوجود اس کے کہ شراب اور جوابعض فوائد کے حامل تھے انہیں منع قرار دیا گیا کیونکہ وہ اخلاقی مفاسد کے حامل تھے ۔اس لیے آپ کی پیش کردہ صورت حال میں بھی ہمارا مشورہ یہی ہے کہ آپ کوئی اور متبادل سوچیں اور اگر کوئی متبادل ممکن نہیں تو گناہ کا کام کرنے سے بہتر ہے کہ سرے سے فری ڈسپنسری کا خیال ہی ختم کر دیا جائے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ آپ نے صحیح فرمایا کہ اسلام میں سود کی ممانعت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرض خوا ہ اور مقروض دونوں کے حقوق ایک جیسے محفوظ نہیں ہوتے ۔قرض خواہ کو تو اس کے قرض کی واپسی کی محفوظ ضمانت ہو جاتی ہے لیکن مقروض کا اس بارے میں کوئی خیال نہیں کیا جاتا۔یہ بات اصل میں سودی معاملے کو غیر اخلاقی بنا دیتی ہے۔

تا ہم ایسے شخص کے لیے اس کا متباد ل موجو د ہے جو سود سے رقم حاصل نہیں کرنا چاہتا اور دوسرے کے ساتھ نفع نقصان کا ساتھی بھی نہیں بننا چاہتا اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا اصل زر محفوظ رہے اور وہ قرض دے کر رقم حاصل کر ے۔یہ معاہد ہ اس طرح ہو گا کہ آپ کسی کو قرض دے کر یہ معاہد ہ کریں کہ اگر تم کو اس سے نفع ہوا تو اس میں میرا حصہ ہو گا تا ہم میں نقصان میں شامل نہیں ہوں گا۔اس میں اس کو نفع ہونا شرط ہے ۔ سود اس صورت میں ہوتا ہے جب آپ یہ کہتے ہیں کہ تمہیں نفع ہویا نقصان ہو جو بھی ہو مجھے بہر حال اتنے فیصد ملنا چاہیے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ کاغذی کرنسی کا آغاز تو حالیہ صدیوں میں ہوا ہے۔اور افراط زر اور فرسودگی کا مسئلہ بھی کاغذی کرنسی کے ساتھ ہی متعلق ہے ۔ اس سے قبل بارٹر سسٹم رائج تھا یعنی اشیا کا تبادلہ اشیا سے ہوتاتھا۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ فرسودگی کا سوال ہی نہ تھا۔چنانچہ افراط زر او ر فرسودگی کی وجہ سے رقم کی قد ر میں جو کمی ہوتی ہے اسلامی حوالے سے اس کا لحاظ کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے ۔ تا ہم یہ مسئلہ چونکہ فرد واحد کے اقدام سے حل نہیں ہو سکتا اس کے برعکس اس کے لیے ریاستی اقدام کی ضرورت ہے۔ اور ریاست کو اس سلسلے میں اقدام بہر حال کرنا چاہیے کہ افراط زر اور فرسودگی کی صورت میں لوگوں کی رقوم کی اصل قیمت میں جو کمی ہوتی ہے اس کی تلافی کرنی چاہیے۔ او رجب تک ریاست یہ اقدام نہیں کرتی ہم بہر حال کچھ بھی کرنے سے معذور ہیں۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ اسلامی شریعت کا بنیادی مقصد انسانی نفس کا تزکیہ اور طہارت ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ معاشی سرگرمیاں انسانی کردار پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ایسی تمام سرگرمیاں جن سے آئینہ روح دھندلا جاتا ہو اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ایک جوئے باز کی خصوصیات پر نظر کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ

۱۔ ایک جواری کی تمام سرگرمیاں چانس کے ارد گرد گھومتی ہیں اور اس میں اس کی کوئی فنی صلاحیت یا محنت شامل نہیں ہوتی اور یہ عمل اسے بزدلی اور توہمات کی طرف لے جاتا ہے۔

۲۔ اس میں محنت کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے جس سے اس کے لیے اور اس کے خاندان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔

۳۔ وہ خود غرضی اور کمینگی کا بھی شکار ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی زیاد ہ سے زیادہ حصول کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس کر رہ جاتی ہے اوروہ اسی امید پر نقصان پر نقصان کرتا رہتا ہے کہ شاید اب کے مل جائے اسی شاید شاید میں زند گی ختم ہو جاتی ہے۔

۴۔ وہ اعلی اخلاقی اقدار سے بے بہر ہ ہو جاتا ہے اور زندگی کا کوئی نصب العین نہیں رہ جاتا۔

لازم نہیں کہ یہ تمام خصوصیات ایک ہی وقت میں پیدا ہوں یا کہ یہ اپنی پوری اور مکمل شکل میں ہوں لیکن بہر حال ان کا وجود ظاہر ضرور ہوتا ہے جبکہ اسلام ایسی تمام راہوں پہ قدغن لگاتا ہے جو اس قسم کی صورت حال تک پہنچا سکتی ہوں۔اور عموما اسلام حقیقی برائی کا آغاز ہونے سے بہت قبل ایک لائن کھینچ دیتا ہے تا کہ امکان کے درجے کی چیز بھی باقی نہ رہے۔

ریس میں شرط لگانا بھی جو ا ہے۔انویسٹمنٹ اور شرط بازی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ حقیقی محنت اور سرمائے کے وجود سے معاشی سرگرمی پیداہو اور اس سرگرمی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی رقم مارکیٹ میں آئے جو معاشرے کی اجتماعی بہبود پر صرف ہولیکن ریس میں اس قسم کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔ دوسرے یہ کہ آپ میں ایک گھوڑے کی صلاحیت پرکھنے اور پیشنگوئی کرنے کی کتنی ہی صلاحیت کیوں نہ ہوبے یقینی کا عنصر پوری طر ح موجود رہتا ہے۔

(شہزاد سلیم)

جواب۔ انعامی بانڈ سے حاصل کردہ رقم از روئے اسلام جائز نہیں۔جب آپ انعامی بانڈ خریدتے ہیں تو اصل میں آپ حکومت کو رقم قرض دیتے ہیں اور حکومت اس پر آپ کوسود ادا کرتی ہے۔وہ سود سب لوگوں کو ملنے کے بجائے چند لوگوں کو اکٹھا کر کے دے دیا جاتا ہے اور اس کو انعام کا نام دے دیا جاتاہے لیکن اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔

اس کے علاوہ اس میں جوئے کی قباحت بھی موجود ہے کیونکہ اس میں آپ محنت کے بغیر صرف قسمت اور چانس پر انحصار کرتے ہیں۔

(شہزاد سلیم)