سنت یہ بھی ہے!

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : مارچ 2005

سیرت النبی ﷺ کے وہ پہلو جنہیں ہم ‘ جانتے ’ ہیں لیکن ‘ مانتے ’ نہیں

کچھ عرصہ ہوا ہمارے شہر کے ایک مولوی صاحب ،ایک اور عالم دین کی دکان پر ،تشریف فرما،ان سے گپ شپ کر رہے تھے،کہ ان کو پیاس محسوس ہوئی۔اپنی پیاس بجھانے کے لیے وہ دکان میں رکھے واٹر کولر کی طرف گئے۔گلاس میں پانی لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پینا شروع کر دیا۔دکان دار عالم ِ دین،اُسے یوں کھڑے کھڑے پانی پیتا دیکھ کر،غصہ سے لال پیلا ہو گئے۔اوردینی مدارس میں حا صل کی گئی،احترام ِآدمیت کی تمام تر تربیت (اگر یہ تربیت واقعی کہیں ہے تو! ) کو پس ِ پشت ڈال کر ،انہوں نے اس مولوی صاحب کی وہ ڈانٹ ڈپٹ کی،کہ وہ دن اور آج کا دن،یہ مولوی صاحب ان صاحب کی دکان پر دوبارہ حاضری سے توبہ کر گئے۔ان حضرت صاحب کے غصے کی وجہ یہ تھی کہ مولوی صاحب کھڑے کھڑے پانی پی کرخلافِ سنت عمل کے مرتکب ہوئے ہیں ہے ۔اس لیے وہ آنجناب کے غصے کے مستحق ٹھہرے ہیں۔

            محترم عالم دین کا یہ طریق ِ دعوت اور یہ انداز دیکھ کر میری آ نکھوں کے سامنے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اُسوہ مبارک آ گیا ،جب ایک دیہاتی نے مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کو مارنے کو دوڑے،تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا۔جب وہ دیہاتی اپنی حا جت سے فارغ ہوا تو آپ ﷺنے اُسے اپنے پاس بلایا اور اُسے پیار سے سمجھایا کہ مساجد اللہ کا گھر ہوتی ہیں،ان کو ناپاک نہیں کرنا چاہیے۔اور رفع حاجت کے لیے دیگر جگہوں کا استعمال کرنا چاہیے مربی اعظمﷺنے اپنے جاں نثار ساتھیوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ،جس طرح تم لوگ اس کو مارنے کو دوڑے تھے،اس طرح تو خطرہ تھا کہ وہ اپنی حاجت پوری کیے بغیر اُٹھ کھڑا ہوتا ،جس سے اُس کی صحت کے نقصان کا اندیشہ تھا۔’’

            معلوم ہو ا کہ کسی کو غلطی کرتے ہوئے دیکھ کر اُسے پیار سے سمجھانا’ یہ بھی ایک سنت ہے ۔

            میڈیکل کی تعلیم کے دوران میں ہمارے ایک محترم پروفیسر صاحب فرمایا کرتے تھے کہ امتحان میں اکثر اسٹوڈنٹس کے فیل ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اہم اور بڑے عوامل کو یاد رکھنے اور بیان کرنے کے بجائے،غیر اہم اور چھوٹے عوامل کو بیان کرتے ہیں اور ان کی جزیات و تفصیلات تک لکھتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی یہی معلوم ہو رہا تھا کہ یہ مولوی صاحب بھی دین کی بڑی بڑی تعلیمات کو نظر انداز کر کے ،چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔یہ رویہ اگر صرف ان کی ذات تک محدود ہوتا تو کچھ تعرض کرنے کی ضرورت نہ تھی،لیکن بد قسمتی سے یہ بیماری اس طبقے میں با لعموم رواج پا چکی ہے۔سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں ، اونٹ نگلے جا رہے ہیں اور مچھر چھاننے کی تگ و دو ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادہ زندگی پر رواں رہنے کے لیے جو اسوہ عنایت فرمایا تھا اور جو اخلاقی ضوابط عطا فرمائے تھے،ان کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور چند ظاہری آداب و رسومات کو سنت ِ نبوی کا نام دے کر ،اُن پر عمل کرنے پر نہ صرف اصرار کیا جاتا ہے بلکہ گالم گلوچ تک نوبت پہنچا دی جاتی ہے۔مذکورہ واقعہ جہاں ہمارے مزاج کے ایک خاص پہلو کو نمایاں کرتا ہے وہیں اس بات کاغماز بھی ہے کہ ہمارے مولوی صاحبان کی علمی سطح الا ماشاء اللہ مطلوبہ معیار سے انتہائی گر چکی ہے ۔ اگر حضرت صاحب کی علمی روایت پر پوری نظر ہوتی تو انہیں یقینا معلوم ہوتا کہ اگر ایک طرف بیٹھ کر پانی پینے کے بارے میں روایات موجود ہیں تو دوسری طرف کھڑ ے ہو کر پینے کا جواز بھی بہر حال روایات ہی سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً:۔

۱۔ ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چلتے پھرتے کھا لیتے تھے۔ اور کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے۔(جامع ترمذی مترجم،جلد دوم،ص:۴۴۴ترجمہ از ابو انس محمدیحییٰ گوندلوی)

۲۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہو کر بھی اور بیٹھ کر بھی پیتے تھے۔ (ایضا)

۳۔ حضرت نزال بن سبرہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پانی منگوایا اور اُنہوں نے کھڑے کھڑے پانی پی لیا۔اور فرمایا بعض لوگ اس کو بُرا خیال کرتے ہیں۔بلاشبہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا،جس طرح کہ تم نے مجھ کو دیکھا ہے۔ (بخاری،کتاب الاشربہ،سنن ابو داؤد مترجم،جلد سوم،صفحہ نمبر ۱۳۶)

۴۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے۔ (نسائی)

۵۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم(ہمارے گھرمیں )داخل ہوئے۔ ایک مشک لٹکی ہوئی تھی ،آپﷺنے کھڑے ہو کر مشک کے منہ سے پانی پیا۔ اسی طرح کی بات سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی والدہ سے بھی روایت ہوئی ہے۔

 (شرح صحیح مسلم از علامہ سعیدی صاحب،جلد ششم،صفحہ ۲۷۷ بحوالہ مسند احمد)

٭٭٭

            سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔یہ حضور اکرمﷺکے ذاتی خادم تھے۔جس وقت سید عالمﷺہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس وقت یہ دس سال کے ننھے بچے تھے۔ان کی والدہ محترمہ شہر کی ایک معروف خاتون تھیں۔سیدہ امِ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا،اس چھوٹے بچے کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں اور عرض گذار ہوئیں کہ آپ میرے اس بچے کو اپنی خدمت گزاری کے لیے رکھ لیں۔یوں سیدنا انس ؓ دس سال تک حضور کے خادم خاص رہے۔ہونہار انس نے نہ صرف خدمت کی،بلکہ رسول اللہ ﷺ سے دین بھی سیکھا اور پھر اس دین کو امت میں منتقل بھی کیا۔یہی وجہ ہے کہ ذخیرہ احادیث میں بہت سی روایا ت ہیں کہ جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کی گئی ہیں۔ان میں سے ایک روایت ملاحظہ کریں۔

            حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا،‘‘ اے بیٹے!اگر تجھے قدرت حاصل ہو ،تو اپنے صبح شام اس طرح بسر کرو کہ تیرے دل میں کسی کے لیے بد خواہی نہ ہو۔یوں ہی کر یعنی یوں ہی زندگی بسر کر۔’’پھر ارشاد فرمایا ،‘‘ اور یہی میری سنت ہے یعنی یہی میرا طریقہ ہے۔( کہ میرے دل میں کسی کے لیے کھوٹ نہیں ۔)اور جس نے میری سنت ( طریقہ ) سے محبت کی تو بلا شبہ اُس نے مجھ سے محبت کی ۔اور جس نے مجھ سے محبت کی ،وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔’’(راہ عمل بحوالہ مسلم،صفحہ۳۴،جامع ترمذی حوالہاز شرح سحیح مسلم ،جلد اول ص:۴۳۴)

            معلوم ہو ا کہ لوگوں کی خیر خواہی اور کسی کے لیے دل میں کھوٹ نہ رکھنا یہ بھی ایک سنت ہے۔

٭٭٭

             ہمارے ہاں کے مذہبی طبقے دین کو جس طرح پیش کرتے ہیں اُس میں ایک طرح کی کرختگی پائی جاتی ہے۔مذہب نام ہی سختی، پابندی اور آدم بیزاری کا بن چکا ہے۔مذہبی لوگ اپنے ماحول اور قریبی لوگوں کے لیے بجائے رحمت کے زحمت بنے ہوئے ہیں۔‘یہ کرو،یہ نہ کرو،یوں اُٹھو اور یوں بیٹھو’ ان کا تکیہ کلام ہوتا ہے۔ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ،غصہ و جھنجھلاہٹ اور عدم التفات ان لوگوں کا وطیرہ بن چکاہے۔تقویٰ کا ایک مصنوعی خول ہوتا ہے جو ان مقدس لوگوں نے اپنے اوپر چڑھا رکھا ہوتا ہے۔ان کے ہاں عام لوگوں کے لیے شفقت،رافت،اخلاص و محبت،دل سوزی اور رحمدلی کے جذبات اپنا اظہار نہیں پاتے،البتہ گروہی اور مسلکی کارکنوں میں کسی حد تک باہمی التفات پایا جاتا ہے۔عامۃ الناس کے لیے مسکراہٹ ،قہقہہ،گرم جوشی اور اظہار ِ خوشی کے دیگر مظاہر مفقود نظر آتے ہیں۔صرف مذہبی طبقات پر ہی کیا منحصر دیگر لوگوں میں بھی یہ بیماریاں عام پائی جاتی ہیں۔طبائع میں سنجیدگی اور وقار کا ہوناکوئی عیب نہیں اور نہ ہی حالات کے باعث وقتی طور پر معاملات میں نیم دِلی اور بیزاری کا پا یا جا نا کوئی قابل ِ گرفت بات ہے۔لیکن عمومی رویہ کرخت ہو،تقویٰ کا خول چڑھا ہو اور انسان ہر وقت بندوں کے عیوب پر ہی نظر رکھے ہوئے ہو،یہ چیز بہر حال لائق ِ مذمت ہے ۔ اس حوالے سے بھی سیرت النبیﷺ میں اسوہ موجود ہے۔

            سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چپل کو خود درست فرما لیا کرتے تھے۔اپنے کپڑے خود سی لیتے اور اپنے گھر میں اسی طرح سب کام کاج خود کر لیا کرتے تھے جس طرح تم سب لوگ کر لیتے ہو۔اپنی بکری کا دودھ نکال لیتے اور اپنی ضروریات کو خود انجام دے لیتے تھے۔ (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ ۲۳۶بحوالہ ترمذی)

            سیدنا اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا، آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں آ کر کیا کیا کرتے تھے۔انھوں نے فرمایا ،(آپ گھر تشریف لا کر) اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری فرماتے تھے۔مگر جہاں نماز کا وقت آتا بس اسی وقت نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ۲۳۷بحوالہ بخاری )

            سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی نے جن کے مزاج میں ظرافت تھی،ایک دن اپنی بات کرتے ہوئے بیان کیا کہ ایک بار میں لوگوں کو ہنسا رہا تھا اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے درمیان موجود تھے۔ اس اثنا میں آپ نے ایک لکڑی ( بے تکلفی میں ) میری کوکھ میں ذرا سی چبھو دی۔تومیں نے کہا کہ میں تو بدلہ لوں گا۔آپ نے فرمایا اچھا لے لو۔انہوں نے کہا ،آپ ؐکے جسم پر تو قمیص ہے جب کہ میرے جسم پر قمیص نہ تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنی قمیص اُٹھا دی۔پھر کیا تھا وہ آپؐ سے لپٹ گئے۔اور آپ کے پہلو کو بوسہ دیتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے یا رسول اللہ میری دیرینہ تمنا تو بس یہ تھی۔’’ (ترجمان السنہ،جلد سوم،صفحہ ۳۹۹،بحوالہ ابو داؤد)

            معلوم ہو ا کہ اپنے گھر کے کام کاج اپنے ہاتھ سے کرلینا ’ اہل خانہ اور دیگر سب سے شگفتگی سے پیش آنا ’ یہ بھی ایک سنت ہے۔

            کیا ہم اس طرف بھی توجہ کریں گے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو رسول اللہﷺ کے تمام ماننے والوں کو بالعموم اور ‘‘میٹھی میٹھی’’ سنتوں کے داعیان کو بالخصوص دعوت فکردے رہا ہے۔

٭٭٭