شہادت سیدنا حضرت عمرؓ

مصنف : مولانا ابوالکلام آزاد

سلسلہ : گوشہ شہداء

شمارہ : فروری 2005

امام حسنؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا ‘‘جس گھرانے میں عمرؓ کی کمی محسوس نہ کی گئی ہو وہ گھرانا برا گھرانا ہے۔’’

ضرت علی ؓ نے فرمایا‘‘ابو حفصؓ! اللہ آپ کو اپنی رحمت سے نوازے! میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں کہ میں اس کے جیسے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں’’

            معمول کے مطابق سیدنا عمرؓ ۲۳ھ میں بھی حج کو گئے۔ امہات المومنینؓ ہمراہ تھیں۔ جب ارکان حج سے فارغ ہوئے اور منیٰ سے چلے تو ابطح میں اپنااونٹ بٹھایا۔ سنگریزے جمع کرکے ایک چبوترہ سا بنایا اور اس پر اپنی چادر کا کنارہ ڈال دیا۔ پھر اس کے بعد اس پر چت لیٹ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگے: ‘‘یا اللہ ! میری عمر زیادہ ہو گئی ہے، ہڈیاں نرم پڑ گئی ہیں۔ قوتیں جواب دے رہی ہیں اور رعایا پھیل گئی ہے۔ اب مجھے اپنے پاس بلا لے، اس حال میں کہ میرا دامن عجز و ملامت سے پاک ہو!’’

            ابن سعد نے طبقات میں روایت کی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حج سے واپس آتے ہی جمعے کے دن مدینہ میں ایک عام خطبہ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ‘‘لوگو! میں نے ایک خواب دیکھا ہے جسے میں اپنی موت کا پیام سمجھتا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک لال رنگ کے مرغے نے مجھے دو ٹھونگیں ماری ہیں۔ ’’ پھر کہا ‘‘لوگو! تم پر احکام فرض کر دیے گئے، تمھارے لیے قانون حیات مرتب کر دیا گیا اور تمھیں ایک کھلے رستے پر ڈال دیا گیا۔ اب یہ اور بات ہے کہ تم لوگوں کو ادھر ادھربھٹکا دو!’’ اسی طرح اس خطبے کا وہ حصہ بھی وصیت سے مشابہ ہے جس میں انھوں نے فرمایا تھا ‘‘کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ میرے نزدیک کوئی نہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی بار کلالہ کے متعلق گفتگو کی ہے کسی چیز کے متعلق نہیں کی اور میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہنا شروع کیا ہے آپؐ نے جتنی ناراضی کا اظہار کلالہ کے بارے میں فرمایا ہے اور کسی چیز کے بارے میں نہیں فرمایا یہاں تک کہ میرے پیٹ میں انگلیاں چبھو کر مجھ سے فرمایا ‘‘عمر! سورۃ النساء کی آخری آیت کو اپنے لیے کافی سمجھو! اور اگر میں زندہ رہا تو اس کے سلسلے میں ایسا فیصلہ کردوں گا جس سے وہ لوگ بھی جو قرآن پڑھتے ہیں اور وہ بھی جو قرآن نہیں پڑھ سکتے فیصلہ کر سکیں گے۔’’ اس کے بعد فرمایا ‘‘یا اللہ! میں تمام شہروں کے حکام پر تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انھیں صرف اس لیے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کو دین اور سنت رسولؐ کی تعلیم دیں۔ ان سے عدل و انصاف کے ساتھ پیش آئیں، ان میں غنیمت تقسیم کریں اور ان کے معاملے میں اگر کوئی مشکل درپیش ہو ، تومیرے پاس پیش کریں۔’’

            ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ھ کو بدھ کے دن حضرت عمرؓ سورج طلوع ہونے سے پہلے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کاشانہ خلافت سے نکلے۔ انھوں نے مسجد میں کچھ لوگ مقرر کر رکھے تھے جو ہر نماز سے پہلے صفیں درست کیا کرتے تھے جب صفیں درست ہو گئیں تو حضرت عمرؓ آئے اور دیکھا کہ پہلی صف کچھ آگے پیچھے ہے۔ اسے درے سے ٹھیک کیا۔ لوگ اپنی اپنی جگہ قرینے سے بیٹھ گئے تو اذان دی گئی اور حضرت عمرؓ امامت کے لیے آگے بڑھے۔ اس وقت صبح کی سفیدی پوری طرح نمایاں نہ ہوئی تھی۔ ابھی حضرت عمرؓ نے نماز کی تکبیر شروع ہی کی تھی کہ ایک شخص اچانک ان کے سامنے آیا اور اپنے خنجر سے ان پر تین یا چھ وار کئے جن میں سے ایک زیر ناف پڑا۔ حضرت عمرؓ نے دھار دار آلے کی گرمی محسوس کی۔ نمازیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ پھیلا کر کہا ‘‘پکڑو! اس کتے کو، اس نے مجھے قتل کیا ہے۔’’ یہ قاتل جناب مغیرہؓ بن شعبہ کا نصرانی غلام ابولولوء فیروز تھا۔ یہ ایران کا باشندہ تھا جو نہادند کی جنگ میں پکڑا گیا اور اس کے بعد جناب مغیرہؓ بن شعبہ کی غلامی میں آگیا۔ وہ حضرت عمرؓ کو شہید کرنے کی نیت سے منہ اندھیرے مسجد میں آگیا تھا۔ اس نے اپنی چادر میں ایک خنجر چھپا رکھا تھا جس کا دستہ بیچ میں تھا اور دونوں طرف بڑی تیز دھاروں کے پھل تھے وہ مسجد کے ایک گوشے میں چھپ گیا اور جب نماز شروع ہوئی تو وار کر دیا اور اس کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا۔ نمازیوں میں ایک بے چینی سی پھیل گئی۔ بہت سے لوگ اس کتے کو پکڑنے اور سزا دینے کے لیے اس کی طرف دوڑے لیکن فیروز نے ان کا ہاتھ اپنی کمر تک نہ پہنچنے دیا اور دائیں بائیں خنجر کے وار کرنے لگا۔ یہاں تک کہ بارہ آدمی زخمی ہو گئے جن میں سے ایک قول کے مطابق چھ اوردوسرے قول کے مطابق نو جاں بر نہ ہو سکے۔ آخر ایک شخص اس کے پیچھے سے آیا اور اپنی چادر اس پر ڈال کر اسے زمین پر گرا دیا۔ فیروز کو یقین ہو گیا کہ وہ اسی جگہ قتل کر دیاجائے گا چنانچہ جس خنجر سے اس نے امیر المومنین ؓ کو مجروح کیا تھا اسی خنجر سے اپنا کام تمام کر لیا۔

            جو وار حضرت عمرؓ کے زیر ناف پڑا تھا اس سے صفاق اور آنتیں کٹ گئی تھیں اس لیے وہ مہلک ثابت ہوا۔ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ زخم لگنے کے بعد کھڑے نہ رہ سکے بلکہ فرش پر گر پڑے اور اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو کھڑا کر دیا۔ حضرت ابن عوفؓ نے قرآن کی دو مختصر ترین سورتوں …… سورۃ العصر اور سورۃ الکوثر میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔

            نماز سے فارغ ہو کر لوگ مسجد کے مختلف گوشوں میں منتشر ہو گئے۔ ہر شخص کی زبان پر اسی المناک سانحے کا ذکر تھا جو ان کی آنکھوں کے سامنے پیش آیا تھا۔ یہ خبر بجلی کی سی سرعت سے تمام مدینہ میں پھیل گئی، سونے والے جاگ اٹھے اور سب کے سب …… مرد، عورتیں اور بچے …… دوڑے کہ اس قیامت آفریں حادثے کی تفصیلات معلوم کریں۔ دوسرے زخمیوں کو بھی ان کے گھروں میں پہنچایا گیا۔ ان میں سے کچھ مر چکے تھے، کچھ مرنے والے تھے اور کچھ زخموں کی تکلیف سے کراہ رہے تھے۔ بڑے بڑے اہل الرائے دریافت حال کے لیے حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ حضرت عمرؓ کے ارشاد کے مطابق باہر آئے اور پکار کر لوگوں سے کہا ‘‘لوگو! امیر المومنینؓ دریافت فرماتے ہیں ‘‘کیا یہ واقعہ تم لوگوں کے مشورے سے ہوا؟’’ لوگ یہ دیکھ کر سہم گئے کہ یہ بات ان کی طرف رخ کرکے کہی جا رہی ہے اور یک زبان ہو کر چلائے ‘‘معاذ اللہ! ہمیں اس کا کوئی علم نہیں، ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں!’’ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا ۔ اگر انھیں یہ بات معلوم ہوتی تو وہ اپنی جانیں اور اپنی اولاد فاروقِ اعظمؓ پر سے فدا کر دیتے۔ حضرت ابن عباسؓ نے ان سے پوچھا ‘‘امیر المومنین ؓ پر حملہ کس نے کیا ہے؟’’ لوگوں نے کہا اللہ کے دشمن ابولولوء نے جو مغیرہؓ بن شعبہ کا غلام ہے!’’

            حضرت عمرؓ اپنے بستر پر لیٹے حضرت ابن عباسؓ کے منتظر تھے کہ وہ ان کے سوال کا کیا جواب لے کر آتے ہیں۔ انھیں اس طبیب کا بھی انتظار تھا جو انھوں نے اپنے رشتہ داروں کے ذریعے بلوایا تھا۔ جب حضرت ابن عباسؓ واپس آئے اور لوگوں کی کہن انھیں سنائی اور بتایا کہ ان پر حملہ ابولولوء نے کیا ہے اور دوسرے چند آدمیوں کو زخمی کرکے خودکشی کر لی ہے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ‘‘اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرا قاتل کسی ایسے شخص کو نہیں بنایا جو اس کے حصور اپنے کبھی کے کیے ہوئے ایک سجدے کو میرے لیے حجت بناتا! الحمدللہ! کہ مجھے کسی عرب نے قتل نہیں کیا۔’’

            ایک عرب طبیب آیا اور اس نے نبیذ پلائی وہ نبیذ جب ناف کے نیچے والے زخم سے نکلی تو بالکل خون معلوم ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک انصاری طبیب کو بلوایا پھر بنو معاویہ کا ایک اور طبیب آیا۔ اس نے حضرت عمرؓ کو دودھ پلایا لیکن وہ جوں کا توں زخم سے نکل گیا اور اس کے رنگ میں کوئی تغیر پیدا نہ ہوا۔ طبیب نے کہا ‘‘امیر المومنینؓ! اللہ کو یاد کیجیے!’’ مطلب یہ تھا کہ موت یقینی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ‘‘بنو معاویہ کے بھائی! تم نے سچ کہا۔ اگر اس کے سوا تم کوئی بات کہتے تو جھوٹ بولتے۔’’طبیب کی یہ بات سن کر حاضرین پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور وہ رونے لگے۔

            حضرت عمرؓ کی شہادت ایک سازش کا نتیجہ تھی جس کا پروگرام اس سانحے سے کچھ دن پہلے بنایا گیا تھا لیکن حاضرین مسجد قطعی طور پر اس کے متعلق کوئی علم نہ رکھتے تھے، نہ ان کے پاس اس وقت اس کا کوئی ثبوت تھا۔ یہ ثبوت بعد کو فراہم ہوا اور اس کا جواثر پڑا اس کا حال ہم ابھی آپ کو سناتے ہیں۔

             علامہ طبری، ابن اثیر اور دوسرے مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ حج سے واپس آنے کے بعد ایک دن بازار کا گشت لگانے نکلے۔ رستے میں ابولولوء ملا اور ان سے کہنے لگا: ‘‘امیر المومنینؓ! مجھے مغیرہؓ بن شعبہ سے بچائیے! مجھ پر بہت زیادہ خراج ہے۔’’ حضرت عمرؓ نے پوچھا ‘‘تم کتنا خراج ادا کرتے ہو؟’’ بولا: ‘‘دو درہم روزانہ!’’حضرت عمرؓ نے کہا ‘‘اور کام کیا کرتے ہو؟’’ کہنے لگا ‘‘نجاری ، نقاشی اور آہن گری!’’ حضرت عمرؓ نے فرمایا ‘‘تمھارے پیشوں کو دیکھتے ہوئے خراج زیادہ معلوم نہیں ہوتا! میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو کہ ‘‘اگر میں چاہوں تو ہوا سے چلنے والی چکی بنا سکتا ہوں!’’ کہنے لگا ‘‘ہاں!’’ فرمایا ‘‘تو پھر مجھے ایک چکی بنا دو!’’ بولا ‘‘اگر میں زندہ رہا تو آپؓ کے لیے ایسی چکی بناؤں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہو گا۔’’ اور یہ کہہ کر چلا گیا۔ حضرت عمرؓ نے کہا ‘‘اس غلام نے ابھی ابھی مجھے دھمکی دی ہے!’’

            حضرت عمرؓ اپنے گھر میں تشریف لے گئے۔ دوسرے دن کعب احبار ان کے پاس آئے اور کہا ‘‘امیر المومنینؓ! تیار ہو جائیے! آپؓ تین دن میں وفات پا جائیں گے۔ ‘‘کعب عہد رسالتؐ میں یہودیوں کے ایک بہت بڑے عالم تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکثر حاضر ہوتے تھے۔ وہ اپنا میلان اسلام کی طرف ظاہر کرتے تھے لیکن اعلان اس وقت کرنا چاہتے تھے جب ان پروہ تمام علامتیں آئینہ ہو جائیں جو نبی عربی علیہ التحیۃ والتسلیم اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے متعلق انھوں نے کتب یہود میں پائی تھیں۔ چنانچہ جب حضرت عثمانؓ کے حق میں خلافت کا فیصلہ ہوا، تو کعب نے اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے کعب کے اس ڈراوے پر متعجب ہو کر ان سے پوچھا ‘‘تمھارا کیا مطلب ہے؟’’ بولے ‘‘میں نے یہ توریت میں پڑھا ہے۔’’ حضرت عمرؓ یہ بات سن کر حیرت سے رہ گئے اور فرمایا ‘‘اللہ ! عمرؓ بن خطاب کا نام تم نے توریت میں پڑھا ہے۔’’ کعب نے کہا ‘‘آپؓ کا حلیہ اور صفات اور یہ کہ آپؓ کا وقت ختم ہو گیا ہے۔’’ حضرت عمرؓ کو چونکہ کوئی تکلیف یا بیماری نہیں تھی اس لیے کعب کی اس گفتگو سے انھیں اور بھی حیرت ہوئی تاہم انھوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

            دوسرے دن کعب پھرآئے اور کہا ‘‘امیر المومنین!ؓ ایک دن گزر چکا ہے اور دو دن باقی رہ گئے ہیں۔’’ پھر اس کے ایک دن بعد انھوں نے کہا ‘‘دو دن گزر گئے ہیں اور اب صرف ایک دن اور ایک رات باقی ہے۔آپؓ کی زندگی بس کل صبح تک ہے۔’’ اور دوسرے دن صبح ابو لولوء نے حضرت عمرؓ کو کاری زخم لگائے۔ اس کے بعد جب لوگ اور ان کے ساتھ کعب حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور حضرت عمرؓ نے کعب کو دیکھا تو فرمایا:

تو عدنی کعب ثلاثا اعدھا

ولا شک ان القول ما قال لی کعب

            کعب نے مجھے ڈرایا ہے کہ میری زندگی کے صرف تین باقی رہ گئے ہیں اور جو کچھ کعب نے مجھ سے کہا ہے اس میں کچھ شبہ نہیں۔

وما بی جدار الموت الی لمیت

وفکن حذاء رالذنب یتبعہ الذنب

            مجھے موت کا کیا ڈر کہ میں تو مر ہی رہا ہوں۔ البتہ یہ خوف ہے کہ ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ ہوتا ہے۔

            لوگ مسجد میں ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ابو لولوء نے یہ نا شدنی حرکت کیوں کی؟ اور حضرت عمرؓ کا شانہ خلافت میں اپنے بستر پر لیٹے تھے۔ طبیب انھیں سفر آخرت کی تیاری کا مشورہ دے رہا تھا اور سر بر آوردہ مسلمان اس ناگہانی مصیبت کے متعلق ان سے گفتگو کر رہے تھے جو مسلمانوں کے اس عظمت ماب خلیفہ کی وفات کے بعد خطرناک نتائج کا سبب بن سکتی تھی۔ حضرت عمرؓ کے بعد خلیفہ کون ہو خود نامزد کر دینا چاہیے یا انھیں اپنا خلیفہ خود منتخب کرلینے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت سقیفہ بنی ساعدہ میں ہوا تھا۔

             حضرت عمرؓ نے فرمایا ‘‘اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کروں تو کر سکتا ہوں کہ جو مجھ سے بہتر ہے۔ حضرت ابوبکرؓ…… انھوں نے اپنا خلیفہ نامزد کیا تھا اور اگر خلیفہ نامزد نہ کروں تو یہ بھی کر سکتا ہوں کہ جو مجھ سے بہتر تھے۔ سرکار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم انھوں نے اپنا خلیفہ نامزدنہیں فرمایا تھا۔ اس کے بعد فرمایا اگر سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ اور ابو عبیدہ بن جراحؓ میں سے کوئی ہوتا تو میں اسے خلیفہ بنا دیتا، کیونکہ مجھے ان پر اعتماد تھا۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں کسے خلیفہ بناؤں؟ اگر ابوعبیدہ بن جراحؓ ہوتے تو انھیں بنا دیتا! اس شخص نے کہا : امیر المومنینؓ ! آپ عبداللہ بن عمرؓ سے کیوں گریز فرماتے ہیں؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا۔ ‘‘خدا تجھے غارت کرے! واللہ میں خدا کی رضا نہ چاہوں گا کہ ایسے شخص کو خلیفہ بناؤں جو اپنی بیوی کو اچھی طرح طلاق بھی نہ دے سکتا ہو!’’

            بہت ہی قلیل مدت کے سوچ بچار کے بعد فوراً خلافت کو چھ آدمیوں۔ حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت علیؓ بن ابی طالب، حضرت زبیرؓ بن عوام، حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی مجلس مشاورت پر منحصر کر دیا۔ ان حضرات کی خلافت کے سلسلے میں حضرت عمرؓ کا ایک قول ماثور ہے کہ میں نے ان لوگوں سے زیادہ کسی کو خلافت کا حق دار نہیں پایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاحین حیات ان سے خوش رہے۔ ان میں سے جس کو بھی خلیفہ بنا یاجائے وہی میرے بعد خلیفہ ہو گا۔ اور ان چھ بزرگوں کا نام لینے کے بعد فرمایا: اگر خلافت سعدؓ کو ملے تو انھیں دے دی جائے کہ میں نے سعدؓ کو کسی کمزوری اور خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا۔ بصورتِ دیگر جس کو بھی اس خدمت کے لیے انتخاب کیا جائے، مسلمانوں کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔

            جب لوگوں کو حضرت عمرؓ کے اس فیصلے کا علم ہوا تو وہ مطمئن ہو گئے۔

            حضرت عمرؓ چاہتے تھے کہ ان کے انتقال سے پہلے مشاورت ختم ہو جائے اور مسلمان اپنے لیے خلیفہ کا انتخاب کر لیں تاکہ وہ اپنی جان اسلام اور سلطنت کے انجام کی طرف سے مطمئن ہو کر جان آفرین کے سپرد کریں۔ چنانچہ انھوں نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو ارکانِ شوریٰ میں شامل کر دیا تھا لیکن وہ صرف شوریٰ کے دوسرے ارکان اور حضرت عمرؓ کے درمیان ایک واسطہ تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں ‘‘لوگ کھڑے ہو کر مشورہ کرنے لگے مجھے حضرت عثمانؓ نے ایک یا دو بار مشورے میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن بخدا میں اس میں شامل ہونا پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ ان کے معاملے میں ہو گا وہی جو والد نے کہا تھا اور خدا کی قسم! میں نے بہت ہی کم دیکھا ہے کہ ان کے ہونٹوں پر حق کے سوا کسی بات کے لیے جنبش پیدا ہوئی ہو۔ جب حضرت عثمانؓ نے مجھ سے بہت زیادہ اصرار کیا تو میں نے کہا ۔ کیا آپ لوگوں کو عقل نہیں ہے کہ امیر المومنین زندہ ہیں اور آپ امیر بنا رہے ہیں؟ خدا کی قسم مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں نے حضرت عمرؓ کو مرقد سے جگا دیا۔ انھوں نے فرمایا ‘‘تم لوگ مہلت دو! اگر میں مر جاؤں تو صہیبؓ تمھیں تین دن نماز پڑھائیں گے۔ پھر تم اپنے معاملے میں اتفاق کر لو اور اگر اس کے بعد تم میں سے کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر امیر بنے تو اس کی گردن اتار دو۔’’

            جس دن حضرت عمرؓ پر حملہ کیا گیا ہے حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ مدینہ میں موجود نہیں تھے۔ اس لیے لوگوں سے مہلت طلب کرنے کے بعد کہا۔ ‘‘اپنے بھائی طلحہؓ کا تین دن انتظار کرنا، اگر وہ آجائیں تو فبہا ورنہ اپنے معاملے کا تصفیہ و فیصلہ کر لینا۔

            معلوم ہوتا ہے حضرت عمرؓ ڈرتے تھے کہ لوگ ان کی وفات کے بعد ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے اور ان کی یہ مخالفت شورش کی صورت اختیار کر جائے گی۔ بنو ہاشم حضرت علیؓ کی مدد کریں گے اور بنو ابی معیط حضرت عثمانؓ کا ساتھ دیں گے اور اہل فوج حضرت زبیرؓ یا حضرت طلحہؓ یا حضرت سعدؓ کو چاہیں گے کہ یہ تینوں ممتاز سپہ سالاروں میں سے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے انصار کو بلا کر کہا: ‘‘انھیں تین دن تک ایک گھر میں بند رکھو۔ اگر وہ ٹھیک ٹھیک کام کریں تو خیر ورنہ گھر میں گھس کر ان کی گردنیں مار دینا۔ پھر ابو طلحہ انصاریؓ کو بلایا جو عرب کے گنے چنے بہادروں میں سے تھے اور ان سے کہا جس گھر میں یہ مشورہ کریں اس کے دروازے پر کھڑے ہو جانا اور کسی کو گھر سے جانے نہ دینا۔ دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا: ابو طلحہؓ اپنے قبیلے کے پچاس انصاریوں کو لے کر ارکانِ شوریٰ کے ساتھ رہنا۔ میرا خیال ہے کہ یہ کسی ایک رکن کے گھر میں جمع ہوں گے تم اپنے ساتھیوں کو لے کر اس گھر کے دروازے پر کھڑے ہو جانا اور کسی کو گھر میں نہ جانے دینا! ان لوگوں کو تین دن سے زیادہ مہلت دینے کی ضرورت نہیں۔ اس دوران میں انھیں اپنے میں سے کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لینا چاہیے: یا اللہ میری طرف سے تو ان کا نگران ہے۔

            حضرت عمرؓ نے صرف یہی نہیں کیا کہ خلافت کو ان چھ ارکانِ شوریٰ پر منحصر کر دیاجن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاحین حیات خوش رہے بلکہ آئندہ ہونے والے خلیفہ کے لیے کچھ ایسے مستحکم سیاسی اصول بھی مرتب کر دینے چاہے، جن سے سلطنت کے معاملات درست رہیں اور اسلام کی عزت میں اضافہ ہو۔ اس سلسلے میں فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا: ‘‘میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ اللہ سے ڈرتا رہے، مہاجرین اولین کے حقوق کی حفاظت کرے کہ انھوں نے اسلام کی مدد کی ہے، دشمنوں پر غالب آئے ہیں اور مال جمع کیا ہے۔ صرف وہی کچھ ان سے لیا جائے جو ان کی ضرورت سے زائد ہو اور وہ خوشی سے دے دیں۔ انصار کا خاص خیال رکھے کہ انھوں نے بے گھروں کو گھر دیے اور ایمان کی حفاظت کی۔ ان کا احسان مانا جائے اور ان کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کی جائے عربوں سے خوش سلوکی کے ساتھ پیس آئے کہ یہی لوگ اصل عرب اور مادہ اسلام ہیں۔ ان کے مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرکے ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دے۔ ذمیوں کے حقوق کا ہر طرح پاس کرے کہ وہ اللہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری میں ہیں۔ ان سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسے پورا کرے۔ ان کی طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالے اور ان کے دشمنوں سے جنگ کرے۔ اس روایت میں بعض مورخین حضرت عمرؓ کے اس قول کا اور اضافہ کرتے ہیں کہ ‘‘یا اللہ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا! میں اپنے بعد کے خلیفہ کے لیے بہترین اور پاکیزہ ترین راحت چھوڑے جا رہا ہوں۔’’

            حملے کے بعد حضرت عمرؓ مسلمانوں کے انجام ہی پر غور وفکر کرتے رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد ان کی ایسی کوئی اجتہادی رائے باقی نہ رہ جائے جس سے وہ مطمئن نہ ہوں اور جس کی صحت کا انھیں پختہ یقین نہ ہو ۔

             انھوں نے میراث میں دادا کے حصے کے متعلق اپنی ایک اجتہادی رائے اسی رات شانے کی ایک ہڈی پر لکھی تھی جس کی صبح ان پر حملہ کیا گیا۔ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ زخم مہلک ہے تو اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ سے فرمایا ‘‘وہ ہڈی لاؤ! جس پر کل میں نے دادا کے حصے کا مسئلہ لکھا تھا۔ اس سے ان کا مقصد اپنی اس تحریر کو مٹا دینا تھا تاکہ ان کے بعد کوئی اسے حجت نہ بنا لے۔ حضرت عبداللہ نے کہا ۔ امیر المومنینؓ یہ کام آپؓ کی طرف سے ہم بھی کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی آسان بات نہ تھی کہ حضرت عبداللہ اپنے والد کو زخم کی تکلیف میں مبتلا چھوڑ کر تحریر مٹانے بیٹھ جاتے لیکن حضرت عمرؓ نہ مانے اور فرمایا: نہیں! اور وہ اس وقت تک مطمئن نہ ہوئے جب تک ہڈی نہ آ گئی اور انھوں نے اپنی تحریر اپنے ہاتھ سے نہ مٹا دی۔

            پہلے حضرت عمرؓ نے یہ سوچا کہ ان کے بعد مسلمانوں کا انجام کیا ہو گا؟ پھر اپنے اجتہادات پر غور کیا اور اس کے بعد انھیں خیال آیا کہ ان پر قرض ہے جسے ادا کرنے سے پہلے وہ اس دنیا کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ بات اصل میں یہ تھی کہ انھوں نے بیت المال سے چھیاسی ہزار درہم قرض لے رکھے تھے چنانچہ انھوں نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو بلایا اور ان سے اس قرض کا ذکر کرکے فرمایا۔ ‘‘میرا متروکہ فروخت کر دو۔ اگر اس سے ادا ہو جائے تو بہتر۔ ورنہ بنو عدی سے یہ درخواست کرنا اور اگر وہ بھی پورا نہ کر سکیں تو کل قریش سے لیکن قریش کے علاوہ اور کسی کو تکلیف نہ دینا۔’’ چند دوسرے مسلمانوں کی طرح حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کو بھی یہ معلوم تھا کہ حضرت عمرؓ نے یہ رقم قرض لے کر مسلمانوں پر خرچ کی ہے۔ اس لیے انھوں نے کہا۔ آپؓ بیت المال سے لے کر یہ قرض کیوں ادا نہیں فرماتے؟ حضرت عمرؓ نے جواب میں فرمایا ‘‘معاذ اللہ! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم اور تمھارے ساتھی میرے بعد یہ کہیں کہ ہم نے اپنا حصہ عمرؓ کے لیے چھوڑ دیا۔ تم تو مجھے تسلی دے دو مگر ایک مصیبت میرے گلے پڑ جائے اور میں ایک ایسی مشکل میں مبتلا ہو جاؤں کہ اس سے نکلے بغیر میرے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہ ہو۔’’ پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے فرمایا: ‘‘میرے قرض کی ذمہ داری قبول کرو۔’’ اور حضرت عبداللہ نے اس کی ذمہ داری لے لی۔ حضرت عمرؓ ابھی دفن نہیں کئے گئے تھے کہ ان کے صاحبزادے نے ارکانِ شوریٰ اور چند انصار کو اپنی اس ضمانت میں گواہ بنایا اور جمعہ کا دن ابھی گزرنے نہ پایا تھا کہ قرض کی رقم لے کر حضرت عثمانؓ بن عفان کی خدمت میں پہنچے اور چند گواہوں کے سامنے اس بارسے سبکدوش ہوگئے۔

            حضرت عمرؓ دنیا کے حساب سے فارغ ہو گئے اور اب اپنی فکر کا رخ اس زندگی کی طرف پھیر دیا جو موت کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ ان کی بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ اپنے محترم رفیقوں حضرت رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہم پہلو حضرت عائشہؓ کے حجرے میں دفن کیے جائیں۔ اس سے پہلے وہ حضرت عائشہؓ سے اس کی اجازت طلب کر چکے تھے اور حضرت عائشہؓ انھیں اجازت دے چکی تھیں۔ لیکن جب حضرت عمرؓ کی وفات کا وقت آیا تو انھوں نے فرمایا: ‘‘جب میں مر جاؤں تو ایک بار ان سے پھر اجازت طلب کر لینا۔ اگر اجازت مل جائے تو بہتر ورنہ اصرار نہ کرنا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں انھوں نے مجھے میرے اقتدار کی وجہ سے اجازت نہ دے دی ہو۔’’ ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ پر حملہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا عبداللہ! ام المومنین عائشہؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو عمرؓ آپ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے …… دیکھو! امیر المومنینؓ نہ کہنا کہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا…… اور مستدعی ہے کہ آپؓ اسے اس کے دو محترم رفیقوں کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت عطا فرما دیجیے۔ حضرت ابن عمرؓ ، حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ بیٹھی رو رہی تھیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے سلام کے بعد عرض کی۔ ‘‘عمرؓ بن خطاب آپؓ سے اپنے دو محترم رفیقوں کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں! حضرت عائشہؓ نے فرمایا خدا گواہ ہے یہ جگہ میں نے اپنے لیے رکھی تھی لیکن آج میں انھیں اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں جب حضرت عبداللہؓ واپس آئے اور حضرت عمرؓ کو بتایا کہ حضرت عائشہؓ نے اجازت دے دی ہے تو فرمایا مجھے اس آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ دیکھو! عبداللہ! جب میں مر جاؤں تو میرا جنازہ لے کر جانا اور کہنا عمرؓ بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو جنازہ اندر لے جانا ورنہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔

            اس کے بعد حضرت عمرؓ اعمال کے سلسلے میں اپنے نفس کا محاسبہ فرمانے لگے۔ انھیں تھوڑی دیر کے بعد ایک نہایت دشوار، نہایت شدید موقف سے دوچار ہونا تھا۔ یہ موقف اپنے پروردگار کی بارگاہ میں ان کی حاضری تھی جو ان سے تقدیم و تاخیر، ترک و اختیار اور ظاہر و باطن کے متعلق پوچھے گا۔ کہیے! ان کے پروردگار نے ان کے لیے کون سا انجام رکھا ہے؟ کیا ان کی نیکیاں ان کی برائیوں کو زائل کر دیں گی یا برائی نیکی پر غالب آجائے گی اور اللہ انھیں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا؟ وہ اس خیال سے بہت بے چین تھے۔ ایک عیادت کو آنے والے نے کہا: خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ آگ آپؓ کے جسم کو مس نہ کرے گی۔ فاروق اعظمؓ نے اس شخص کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر حاضرین کے دل بھر آئے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے کہا۔ اے شخص! اس معاملے میں تیرا علم بہت قلیل ہے اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں زمین کے سارے خزانے آنے والی آزمائش کے خوف پر نچھاور کر دیتا! ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب یہ آخری فقرہ کہا تو حضرت ابن عباسؓ ان کے پاس تھے وہ بولے خدا کی قسم ! مجھے امید ہے کہ آپؓ کو اس سے زیادہ کچھ نہ دیکھنا پڑے گا، جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وان منکم الا واردھا۔

            اور تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا اس پر سے گزر نہ ہو۔

            کیونکہ جہاں تک ہمارے علم کا تعلق ہے۔ آپ امیر المومنینؓ، امین المومنینؓ اور سید المومنینؓ ہیں۔ کتاب اللہ سے فیصلہ فرماتے ہیں اور حصے برابر برابر تقسیم کرتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے، سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا ابن عباسؓ کیا تم میرے لیے اس کی شہادت دو گے؟ حضرت ابن عباسؓ خاموش ہو گئے۔ حضرت عمرؓ نے ان کے شانے پر ہاتھ مار کے فرمایا ‘‘ابن عباسؓ! میرے لیے اس کی شہادت دینا! حضرت ابن عباسؓ نے کہا ہاں میں گواہی دوں گا!’’

            حق یہ ہے کہ حساب سے حضرت عمر کا یہ خوف ان کے ایمان کے استحکام ان کے یقین کی قوت اور ان کے اس خوف الٰہی کی شہادت دیتا ہے جو ہر انسان کا سرمایہ حیات ہے جس نے اپنے ہر کام میں خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھا۔ جب ان پر حملہ کیا گیا۔ تو لوگ ان کے پاس آئے۔ وہ ان کو خراج تحسین پیش کرتے، انھیں الوداع کہتے اور امیر المومنینؓ کے لقب سے مخاطب کرتے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم امارت کو میرا توشہ آخرت بنا رہے ہو؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کی اور جب اللہ نے آپؓ کو یاد فرمایا تو آپؓ مجھ سے خوش تھے۔ اس کے بعد میں ابوبکرؓ کے ساتھ رہا۔ ان کا حکم مانتا رہا لیکن اب تمھاری یہ امارت ہی میرے لیے خوف کا سبب بن گئی ہے۔ زخموں کی تکلیف چونکہ شدید تھی اس لیے حاضرین ان کی تعریف و توصیف کرکے اسے بھلانے لگے اور اس پر فرمایا ‘‘جو عمرؓ کو بہکانا چاہتا ہے، وہ خود فریب خوردہ ہے۔ خدا کی قسم! میری تو یہ خواہش ہے کہ جیسا میں یہاں آیا تھا ویسا ہی یہاں سے چلا جاؤں۔ نہ مجھے کچھ دینا ہو۔ نہ لینا ہو۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہاحملے کے بعد عمرؓ بن خطاب کے پاس سب سے پہلے میں پہنچا تھا۔ میں نے ان سے کہا جنت کی بشارت قبول فرمائیے! آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی اور آخر تک خدمت رسالت ؐ میں حاضر رہے۔ پھر آپؓ کو مسلمانوں کی حکومت سونپی گئی اور آپؓ نے اسے طاقتور بنایا اور امانت کا حق ادا کر دیا۔ فرمایا: ‘‘تم مجھے جنت کی بشارت دے رہے ہو لیکن خدا کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں اگر میرے اختیار میں ہو تو میں اس سے پہلے کہ مجھے حقیقت کا علم ہو پیش آنے والے خوف پر دنیا و مافیہا نچھاور کر دوں۔ رہا وہ ذکر جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کے سلسلے میں کیا ہے وہ درست ہے۔’’ لوگ جتنی ان کی تعریف کرتے تھے اتنا ہی ان کا خوف بڑھتا جاتا تھا۔ روایت ہے کہ انھوں نے ایک تنکے کی طرف ہاتھ بڑھایا جو ان کے بستر کے قریب زمین پر پڑا تھا اور اسے اٹھا کر اپنی آنکھوں کے سامنے لے گئے۔ اور کہنے لگے ‘‘کاش میں یہ تنکا ہوتا! کاش! میں پیدا ہی نہ ہوتا! کاش میری ماں مجھے نہ جنتی! کاش میں کچھ بھی نہ ہوتا! کاش میں نسیا منسیا ہوتا۔

            یہ حال صدق ایمان پر دلالت کرتا اور اس عظیم انسان کی اس جلالت شان کا احساس دلاتا ہے جو مسلمانوں کی امارت کا بار اٹھا کر اس گراں قدر ہستی نے ظاہر کی۔ فاروق اعظمؓ ان فتوحات پر نازاں نہیں ہوئے جو ان کے عہد میں تکمیل کو پہنچیں۔ نہ ایران و روم کی تسخیر نے انھیں نا شکرا بنایا اور نہ وہ لوگوں کی تعریف و تحسین سے مغرور ہوئے بلکہ انھیں یہ خوف تھا کہ اگر کبھی انھوں نے کسی کم زور پر ظلم کیا ہو گا اور اس کمزور کی فریاد آسمان پر پہنچی ہو گی تو عمر کی تمام عمر کی نیکیاں صاحب عرش کے حضور بے وزن ہو جائیں گی۔

            یہی خشیت تھی جس کی بنا پر وہ اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہؓ کو تکنے لگے جو روتی اور یہ ماتمی الفاظ کہتی ہوئی اپنے والد کے پاس پہنچی تھیں: اے رسول اللہ کے دوست! اے رسول اللہ کے خسر! اے امیر المومنینؓ! یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے ان سے کہا میں اپنے حق پدری کی بنا پر تم سے کہتا ہوں کہ اس کے بعد مجھ پر ماتم نہ کرنا البتہ تمھاری آنکھوں پر مجھے اختیار نہیں ہے۔ جس میت پر بین کیا جاتا ہے، فرشتے اس سے نفرت کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنے رشتہ داروں کو گریہ و زاری سے روک دیا اور وہ نوحہ و ماتم کی بڑی شدت سے ممانعت فرماتے تھے۔ حضرت صہیبؓ نے زخم سے دودھ خارج ہوتے دیکھا تو بے اختیار چیخ اٹھے: ہائے! عمرؓ ہائے! برادر آپؓ کے بعد ہمارا کون ہے؟ حضرت عمرؓ نے سنا تو فرمایا بھائی! صبر سے کام لو!

            حضرت عمرؓ کو یہ اندیشہ ہوا کہ ان کے عزیز و اقارب ان کے مرنے کے بعد تجہیز و تکفین میں غلو سے کام لیں گے۔ اس لیے وصیت فرمادی کہ نہ انھیں مشک سے نہلایا جائے نہ مشک ان کے قریب لایا جائے …… عرب میں دستور تھا کہ جب ان کا کوئی ممتاز فرد مرتا تھا، تو اسے مشک سے نہلاتے تھے …… اور اپنے بیٹے سے فرمایا: مجھے اوسط درجے کا کفن دینا کیونکہ اگر اللہ کے نزدیک مجھ میں کوئی بھلائی ہو گی تو وہ اسے اچھے لباس سے بدل دے گا اور اگر میں اس کے برعکس ہوا تو وہ مجھ سے چھین لے گا اور بہت تیزی سے چھین لے گا۔ میری قبر بھی معمولی ہونی چاہیے۔ عورتیں میرے جنازے کے ساتھ نہ چلیں اور میری تعریف میں وہ باتیں نہ کہی جائیں جو مجھ میں نہیں ہیں۔ اس لیے کہ اللہ مجھے زیادہ جانتا ہے۔ جب تم میرا جنازہ لے کر نکلو تو تیزتیز قدم چلنا۔ کیونکہ اگر مجھ میں اللہ کے نزدیک کوئی بھلائی ہے، تو تم مجھے اس جگہ جلدی پہنچا دو گے جو میرے لیے زیادہ بہتر ہے اور اگر میں اس کے برعکس ہوں تو تم اپنے کندھوں سے وہ برائی جلدی اتار پھینکو گے جو تم اٹھائے ہوئے ہو۔

            حضرت عبداللہ بن عمرؓ یہ وصیت سن رہے تھے۔ وہ اپنے والد کے بستر کے قریب بیٹھے تھے اور حضرت عمرؓ کا سر ان کے زانو پر تھا۔ جس وقت حضرت عمرؓ نے محسوس فرمایا۔ کہ لقائے ربانی کا وقت قریب آگیا ہے۔ تو بیٹے سے فرمایا ‘‘میرا رخسار زمین پر رکھ دو!’’ حضرت عبداللہ نے کہا۔ ‘‘کیا میرے زانو اور زمین میں کوئی فرق ہے؟ فرمایا: تیری ماں نہ رہے! میرا رخسار زمین پر رکھ دے!’’ جب بیٹے نے باپ کا رخسار زمین سے ٹکا دیا تو اپنے دونوں پاؤں ملائے اور فرمانے لگے۔ افسوس ہے مجھ پر اور میری ماں پر! اگر مجھے اللہ نے معاف نہ کیا!’’ وہ یہی فقرہ دہراتے رہے۔ تاآنکہ روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔

            فاروق اعظمؓ کی روح قفس عنصری سے نکل کر اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس روح کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ دنیا کو اس طرح چھوڑے کہ نہ انعام کی مستحق ہو نہ سزا کی۔ اس وقت لوگ مسجد میں بیٹھے آپس میں ان کی شہادت کے متعلق باتیں کر رہے تھے اور ڈر رہے تھے کہ ان کے بعد مسلمانوں اور نوزائیدہ سلطنت کا حشر کیا ہو گا؟ مسلمانوں کا یہ خوف اپنی جگہ بالکل درست تھا بھلا کون تھا جو فاروق اعظمؓ کے بعد ان اہم ذمہ داریوں سے انھیں کی طرح عہدہ برآہو سکتا! اور کون تھا جو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کو فراموش کرکے اپنے آپ کو محض اللہ کے لیے وقف اور مسلمانوں کی خدمت اور ان کے درمیان عدل و مساوات قائم کرنے کے لیے مخصوص کردیتا! جس وقت حضرت عمرؓ نے اپنے عہد کا آغاز فرمایا ہے ان کی حکومت صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود تھی لیکن جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو ایران، عراق، شام، اور مصر اسلامی سلطنت میں شامل ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے زہد و تقشف، ان کی سادہ زندگی اور ان کے اپنی جان پر ستم جھیلنے میں کوئی فرق نہ ایا۔ اقتدار نے انھیں اپنی زندگی کی عام روش سے نہیں بھٹکایا اور انھوں نے کبھی اپنے اور تمام مسلمانوں کے درمیان کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ ان کی وفات پر بے حد مغموم تھے اور ان کی یادمیں تمام اہل اسلام کا برا حال تھا۔ حضرت ابوطلحہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ اہل عرب کا کوئی گھر، خواہ وہ شہر میں ہویا دیہات میں ایسا نہیں جس کے دین و دنیا میں عمرؓ کے قتل سے کوئی کمی پیدا نہ ہو گئی ہو۔ ’’امام حسنؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا ‘‘جس گھرانے میں عمرؓ کی کمی محسوس نہ کی گئی ہو وہ گھرانا برا گھرانا ہے۔’’ جس دن حضرت عمرؓ شہید ہوئے حضرت حذیفہؓ نے کہا: ‘‘آج لوگوں نے اسلام کا دامن چھوڑ دیا۔ خدا کی قسم! یہ لوگ اپنے مقصد سے ہٹ گئے اور ان کی بصیرت پر پردے پڑ گئے۔ اب یہ دیکھتے تو ہیں مگر حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہوتی۔’’ حضرت سعدؓ بن زید اس دن رو رہے تھے۔ لوگوں نے پوچھا۔ ‘‘آپ کیوں رو رہے ہیں؟’’ کہنے لگے ‘‘میں اسلام پر رو رہا ہوں کہ عمرؓ کی موت نے اس میں ایک ایسا رخنہ ڈال دیا ہے جو قیامت تک پر نہیں ہو سکتا۔’’ جب عرب کے عقل مندوں اور ممتاز لوگوں کا یہ حال تھا تو کوئی تعجب نہیں کہ محتاجوں اور کمزوروں کو اس قیامت کا احساس اور بھی شدید ہو جو ان کے سروں پر ٹوٹ پڑی تھی، کیونکہ حضرت عمرؓ ان کے لیے باپ اور بھائی تھے۔ ایک مضبوط قلعہ اور پر امن جائے پناہ تھے۔

            یہ دیکھ کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مورخین نے حضرت عمرؓ کی شہادت کے دن اہل الرائے کے تعزیتی اقوال اتنی کثرت سے نقل نہیں کیے جتنے حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے سلسلے میں نقل کیے ہیں۔ حضرت علیؓ بن ابی طالب سے بس اتنا ہی منسوب ہے کہ وہ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد تشریف لائے۔ انؓ کی میت کمرے کے ایک گوشے میں رکھی تھی اور اس پر چادر پڑی تھی۔ حضرت علیؓ نے فاروق اعظمؓ کے چہرے سے چادر ہٹائی اور فرمایا: ‘‘ابو حفصؓ! اللہ آپ کو اپنی رحمت سے نوازے! میرے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدآپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں کہ میں اس کے جیسے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔’’ ایک متواتر روایت میں ہے کہ جب حضرت عمرؓ کو نہلایا اور کفنایا جا چکا اور ان کی میت اٹھائی گئی تو حضرت علیؓ تشریف لائے اور فاروق اعظمؓ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: ‘‘بخدا! کفن میں لپٹے ہوئے اس شخص سے زیادہ مجھے روئے زمین پر اور کوئی پسند نہیں ہے کہ اس کے نامہ اعمال کے ساتھ میں اللہ سے ملوں!’’