امریکا میں چند روز

مصنف : سید اسد علی شاہ

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : فروری 2005

آخری قسط

            وطن کی خوشبو کی بات ہو رہی تھی ۔ یہ بھی عجب چیز ہے ۔ اللہ تعالی انسانوں کو جہاں پیدا کر دیتے ہیں وہاں کی محبت بھی اس کے دل میں ڈال دیتے ہیں دوسرے مقام پر انسان کو ہزار سہولت مل جائے لیکن وطن کی یاد بہر حال اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ اور یہ اتنی طاقتور چیز ہے کہ اللہ کے نبیﷺ بھی بوقتِ ہجرت وطن کی جدائی سے مغموم تھے اور آپﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم اس طرح سے ہے کہ اے مکہ تو مجھے سب جگہوں سے زیاد ہ پیا راہے مگر کیا کروں تیرے باسی مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے ۔انسا ن جہاں بھی چلا جائے سکون اسے وطن کی مٹی ہی سے ملتا ہے ۔ ایک دوست کہنے لگے کہ میں عمرے کے لیے سعودیہ گیا وہاں اتنی صفائی کہ مٹی کا نام ونشان تک نظر نہ آیا۔ ایسے میں کہتے ہیں کہ صرف دو ہی ہفتوں میں لاہور کی گردو غبار سے بھر پور سڑکوں کی یاد ستانے لگی۔

             امریکا جانے والے پاکستانیوں کا عجیب المیہ ہے کہ وہ ساری عمر اس بات کی کاوش کرتے رہتے ہیں کہ اس قسم کی فطر ی محبتوں کا دروازہ کبھی کھلنے نہ پائے ۔ اس کاوش میں عام طور پر وہ ناکام رہتے ہیں اور پھر اپنی اس ناکامی کو چھپانے کی بھی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسی بے سود کوششیں انہیں اعلی انسانی جذبا ت سے عام طور پر محروم کر جاتی ہیں۔اور وہ ساری عمر مشین بن کر گزار دیتے ہیں ۔جب واپسی کا خیال آتا ہے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتاہے۔مشینی زندگی اورمسابقت کا یہ عالم ہے کہ عمریں گزر جاتی ہیں نیویارک میں رہنے والا کیلیفورنیا نہیں جا سکتا اور وہاں کا رہنے والا نیویارک نہیں جا سکتا وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں پیسہ اور وقت خرچ ہوتا ہے او ر اتنا پیسہ اور وقت ان کے پاس ہوتا نہیں۔ اتنا پیسہ اور وقت ملنے ملانے کو دے دیں تو پھر شاید روٹی سے بھی ہاتھ دہونے پڑیں۔ماسوائے چند استثنائی مثالوں کے پاکستانیوں کی اکثریت اسی دال روٹی کے چکر میں اگلے جہاں سدھا رجاتی ہے ۔ وہا ں تو دال روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں اور ادھر پاکستان میں سٹیٹس بھی قائم رکھنا ہوتا ہے ۔ بیوی بچوں اور والدین نے اس کا بھی بھر م رکھنا ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا’ ان کا باپ امریکا میں رہتا ہے۔اور یہ رہنے والا بہت کچھ کھو کے انہیں بہت کچھ دے رہا ہوتا ہے۔ مگر لینے والوں کو اس سے کیا؟ خیر اس وعظ کو ہم کسی او روقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں فی الوقت تو ہم بات کر رہے تھے امریکی ماحول اور تہذیب کی ۔ ان کے ہاں جانوروں خصوصا کتوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ کتوں کا اتناخیال رکھنے والی قوم سے آخر ‘‘ابوغریب’’ جیسے واقعات کیسے رونما ہو جاتے ہیں۔حالات و واقعات بہر حال اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ قوم دہر ے معیار پر عمل پیرا ہے ۔ اپنے اند راو ر’ اور باہر اور۔ایسی ہی ایک دلچسپ بات کی طرف اشارہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے بھی کیا تھا۔وہ لکھتے ہیں‘‘ جون ۱۹۹۱ میں ایک بین الاقوامی سیمنار کے ضمن میں مجھے سان فرانسسکو جانے کا موقع ملا ۔ سیمنار سے قبل میں نے ٹیلی وژن آن کیا تو ایک دلچسپ خبر مع تبصر ہ سننے کو ملی۔ کیلی فورنیا کی ریاست میں جنگلات کے وسیع ذخیرے پائے جاتے ہیں۔ خبر یہ تھی کہ کٹائی کے دوران میں ماہرین جنگلات کو اچانک پتا چلا کہ اس جنگل میں ایک الوصاحب نے اپنامستقل گھر بنا رکھا ہے اور جب سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے’ الو صاحب اداس رہنے لگ گئے ہیں۔الو کی اداسی کی خبر سے اس علاقے میں احتجاج ہوا اور کیلی فورنیا کی حکومت نے جنگل کی کٹائی روک دی جس سے لکڑی کی قیمت میں اضافہ ہو گیا۔ میں نے یہ ساری خبر اور تبصرہ ٹیلی وژن پر سنا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اگلے دن سیمنار کے دوران میں چائے کا وقفہ ہوا تو میں نے ممتاز امریکی پروفیسر صاحبان سے اس خبر کا تذکرہ کیا۔ وہ پہلے ہی سے اس سے آگاہ تھے لیکن جب میں نے ان سے ذکرکیا تو ان کے چہرے خوشی سے گلاب کی طرح کھل گئے ۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے یہ سوال داغ دیا کہ آپ نے ایک پرندے کی اداسی کی خاطر جنگل کی کٹائی روک کر لکڑی کی قیمت میں اضافہ برداشت کر لیالیکن چار پانچ ما ہ قبل جب عراق کے معصوم شہریوں پر بموں کی بارش جاری تھی ’ تو آپ کیوں خاموش رہے ؟ کیا آپ کو ایک جانور کی زندگی مسلمان کی زند گی سے زیاد ہ عزیز ہے ؟میرے اس سوال سے چہروں کے رنگ اڑ گیے’’

            بہر حال یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ امریکا کا تعلیمی نظام بلاشبہ دنیا کا بہترین نظام ہے اور میری رائے میں جو قوم اپنا تعلیمی نظام بہتر بنا لیتی ہے رفتہ رفتہ اس کی ہر چیز بہتر ہو جاتی ہے۔سکولوں میں داخلہ بہت آسان ہے ۔اگر ایک سکول میں جگہ نہ ہوتو وہ خود ہی نزدیک والے سکول میں بندوبست کر دیتے ہیں۔اگر ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہو تو اس کابھی بندوبست کر دیتے ہیں اورساتھ ہی سو دفعہ معذرت بھی کر تے ہیں۔بچوں کی تعلیمی کارکرد گی پر روزانہ نظر رکھی جاتی ہے ۔ روزانہ کلاس میں جو بچہ بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کرے اسے ایک ٹکٹ دیا جاتا ہے اور ہر ماہ کے آخر پر ٹکٹوں کی گنتی کر کے انعام دیا جاتا ہے۔

            پٹرول کو گیس کہتے ہیں۔ ڈیزل اور پٹرول کی قیمت برابر ہے ۔ ہر پٹرول پمپ پر قیمت مختلف ہوتی ہے اور پٹرول خود ڈالنا پڑتا ہے۔

            موسم کے اعتبار سے کیلی فورنیا گرم او ر خشک ہے۔نمی بالکل نہیں۔ پہاڑیاں مٹی کی ہیں اور بالکل بنجر ۔ البتہ اس ریاست میں جنگلات بھی خوب ہیں۔فروری میں شدید بارشیں ہوتی ہیں۔Big Bear پہاڑی مقام ہے جہاں سردیوں میں برف باری ہوتی ہے اور لوگ اسکینگ کرتے ہیں۔

            لاس ویگاس وہ مقام ہے جہاں جوئے اور روشنیوں کا راج ہے۔پہلے یہ علاقہ اٹلی کے مافیا کے انڈر تھا۔ اب گورنمنٹ نے صفائی کر کے فیملی پوائنٹ میں بدل دیا ہے۔جتنی بجلی اس چھوٹے سے مقام پر پیدا ہوتی ہے پورے پنجاب میں بھی نہ ہوتی ہو گی۔ڈزنی لینڈ او ر والٹ ڈزنی بھی’ جو بچوں کے تفریحی مقامات ہیں اور جن میں بڑ ے بھی اتنی ہی دلچسپی لیتے ہیں’ یہیں ہیں۔ پچھلے دنوں ایک خریدار نے اس کی قیمت ۶۵ ارب ڈالر لگائی تھی۔شہرہ آفاق ہالی وڈ جس کی فلموں کے سحر نے پوری دنیا کو جکڑ رکھا ہے بھی یہاں ہے۔ یہاں کام حاصل کر نے کی تگ و دو میں لوگوں کی عمریں بیت جاتی ہیں۔چند’ اپنی کاوش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں جبکہ اکثر ناکام ہی لوٹتے ہیں۔یونیورسل سٹوڈیو بھی اسی کا حصہ ہے جو سیاحوں کے لیے کھلا ہے۔ ٹکٹ پچاس ڈالر ہے ۔ یہاں فلموں کی تیاری کے مختلف مراحل دکھائے جاتے ہیں۔مشہور فلموں کے سیٹ بھی لگے ہوئے ہیں جن میں سیاح بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ مثلا ٹین کمانڈمنٹس’ بیک ٹو دا فیوچر’ جراسک پارک’ کنگ کانگ وغیرہ۔یونیورسل سٹوڈیو کی سیر کے دوران میں انسان یہ بات شدت سے محسوس کرتا ہے اور بعض اوقات اپنی حماقت پر ہنستا بھی ہے کہ ہیں! یہ ہیں وہ سیٹ جن کے سحر نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔جبکہ مجھے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی شدت سے یاد آیا کہ بعینہ موت کے بعد جب دنیا کی حقیقت انسان پر واضح ہو گی تو وہ کہے گا کہ ہیں یہ ہے وہ دنیا جس کے سحر میں ساری عمر گرفتا ر رہا۔اس بات کی معمولی سی جھلک دیکھنی ہو تو امریکا جانے والوں کو اس سٹوڈیو کی سیر ضرو ر کرنی چاہیے۔

            یاد رہے کہ کیلیفورنیا وہ ریاست ہے جسے امریکیوں نے کوڑیوں کے بھاؤ میکسیکو والوں سے خریدا تھا۔ قدرتی عوامل تو موافقت میں تھے ہی مگر میکسیکو والے اس سے فائدہ نہ اٹھاسکے ۔ اس قوم نے اپنی محنت سے اس ریاست کو اس قابل کر دیا کہ آج دنیا کے چند بہترین مقامات یہیں پائے جاتے ہیں اور امریکا جانے والے سیاحوں کی اکثریت بھی اسی جانب رخ کرتی ہے۔

            اصل میں مسلسل محنت اور لگن ہی قوموں کی تقدیر بدلا کرتی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو ہزار مسائل اور اختلافات کے باوجود مجھے اس قوم سے ملا ہے اور یہی سبق اپنے ہم وطنوں تک پہنچانا ان سطور کامقصد ہے ۔اس سبق کو حاصل کر نے کے لیے امریکا ضرور جائیے البتہ رہنے اور بسنے کے لیے اپنا وطن ہی اچھا اور سب سے اچھا ہے کیونکہ اپنا ’ اپنا ہی ہوتا ہے۔