امریکا میں چند روز

مصنف : سید اسد علی شاہ

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : جنوری 2005

قسط ۔اول

امریکا کے تذکرے سے ہمارے ہاں اکثر لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تیز اور قدموں کی رفتا ر تیز ہو جایا کرتی ہے لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے جہاز کی رفتار بھی تیز ہو گئی ہو۔کیونکہ وہ مقررہ وقت سے بھی ۱۵ منٹ پہلے نیو یارک جا اترا تھا۔ہم بھی دھڑکتے دل کے ساتھ ایر پورٹ پر اترے ۔ لیکن ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو نے کی وجہ امریکا کا پہلا سفر نہ تھا بلکہ نائن الیون کے بعد سے سنی جانے والی وہ باتیں تھیں جن میں یہ باور کرا یا جاتا تھا کہ امریکا اترتے ہی امیگریشن کا عملہ آپ پر ٹوٹ پڑے گا اور آپ کے وہ سب کپڑ ے اتروا کر چھوڑ ے گا جو آپ کی سفید پوشی کا بھر م رکھتے ہیں۔مگر ہماری پوری فلائٹ میں شاید کوئی بھی اس قسم کا سفید پوش نہ تھاکہ جس کا بھر م ‘‘بھری محفل’’ میں توڑنامقصود ہوتا۔ اس لئے ہمارے سمیت سب کے سب مسافر منٹوں میں فارغ ہو کر اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔ میں بھی کپڑوں سمیت چند ہی منٹ میں ایر پورٹ سے باہر تھا۔

اپنے ساتھ اس سلوک اور بعض دیگر شواہد اور شہادتوں کی بناپر مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑا کہ اصل میں بعض اوقات ہم اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کسی بھی قانون یا اپنی طبیعت کے خلاف عمل کو اسلام اور پاکستان کے خلاف ایک بھیانک عمل قرار دے کر دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جس طرح اجتماعی طور پر ہم اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ کسی بھی ناکامی پر ہم یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یہ اصل میں ہمارے خلاف بڑ ی طاقتوں کی سازش ہے اور ہم اس سازش کا شکا ر ہوئے ہیں۔پہلے ہمارے خلاف ہر سازش انگریز کیا کرتا تھا اور اب اس کے ساتھ امریکا بھی شامل ہو گیاہے ۔ لیکن ہم یہ کبھی نہیں کہتے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطی ہوئی۔ بالکل یہی جواز میرے بیٹے نے اسوقت پیش کیا تھاکہ جب اس کے امتحان میں کم نمبر آئے ۔ تو بجائے اس کے کہ وہ یہ اعتراف کرتا کہ مجھ سے محنت میں کمی رہ گئی ہے ۔ وہ بھی اسی اجتماعی نفسیا ت کے تحت گویا ہوا کہ ایک تو پیپر بہت مشکل تھے ’ بہت سے سوال آؤٹ آف سلیبس تھے اور دوسرے اس دفعہ تو چیکنگ بھی انتہائی سخت ہوئی ہے ۔ بلکہ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ کسی نے سازش کر کے میرے پیپر ہی تبدیل کر دیے ہیں۔ اور مجھے صاف طور پر محسوس ہورہاتھا کہ اب یہ صاحبزادے اپنی نا اہلی کو دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو مطمئن کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ۔۔

بہر حال میر ی منزل ریاست کیلیفورنیا تھی ۔ کیلیفورنیا کو بلا شبہ امریکا کی سب سے بڑی اور امیر ترین ریاست ہونے کا شرف حاصل ہے ۔اس تنہا ریاست کا بجٹ ہم جیسے ملکوں کے بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے ۔ہالی وڈ ’ ڈزنی لینڈ ’ اور لاس ویگاس اسی ریاست میں ہیں۔جن کی خود ایک تاریخ اور الگ الگ وجہ شہرت ہے ۔اس ریاست میں لوگ عام طور پر قانون پسند ہیں۔قانون شکنی جیسے چوری ’ قتل وغیر ہ کے واقعا ت اگر چہ ہو جاتے ہیں مگر کبھی کبھار۔ قانون پر عمل اصل میں ان کی تہذیب کا حصہ بن گیا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے ۔ اسی سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ابھی ہمیں کتنا سفر طے کرنا ہے۔جب اقدار تہذیب کا حصہ بن جائیں تو پھر انہیں مٹانا آسان نہیں رہتا۔ اور قوموں کے عروج و زوال کے فلسفے میں مادی طاقت سے کہیں زیا دہ حصہ اخلاقیات اور تہذیبی روایات کا ہوتا ہے ۔ اخلاقیا ت کا فرق اس بظاہر معمولی سی بات سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں آپ کو بات بات پر شکریہthankyou اور پلیز کے الفاظ عام ملیں گے ۔ ایسی ہی خوش گوار حیرت آپ کو اس وقت ہو گی جب آپ کوئی چیز خریدنے کے بعد’ خوا ہ ایک ماہ کیوں نہ گزر چکا ہو’ واپس کرنے جائیں گے تو دکان دار نہ صرف یہ کہ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ شے واپس کر ے گا بلکہ اتنی دفعہ آپ کا شکریہ بھی ادا کرے گا کہ آپ شرمند ہ سے ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہم اصل میں غلط میدانوں میں تقابل کے عاد ی ہو گئے ہیں۔ وہ میدان جس میں ہم ہر لمحے ان کے مقابل آنے بلکہ بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ اخلاقیات کا میدان ہے ۔بات تلخ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ مادی سفرمیں تو اگر ہم کوشش کریں تو شاید جلد منزل کو پا لیں لیکن اخلاقیات میں ان کے مد مقابل آنے کیلئے ہمیں ابھی بہت سفر طے کرنا ہو گا۔اخلاقی اقدار ہمارے اند ر رچ بس جائیں یہ اسوقت ہوتا ہے جب یہ اقدار تہذبی روایت کاحصہ بن جاتی ہیں اور تہذیبی روایت کاحصہ تو بنتے، بنتے ہی بنتاہے یہ ایک دو دن یا شاید سالوں کی بات بھی نہیں بلکہ صدیوں کاقصہ ہوتاہے۔ یقینا آپ کو بھی ،یہاں اپنے ماحول میں، خرید ی ہو ئی چیز واپس کرنے کا اتفاق ہوا ہو گا اور اس موقع کی تلخ یادوں نے بہت دیر آپ کے ذہن کو مسموم رکھا ہو گا۔بس پھر فرق صاف ظاہر ہے۔

 قانون پسند ی کا یہی رحجان آپ کو ٹریفک میں بھی عام ملے گا۔ ہر کوئی اپنی اپنی لین میں سفر کرے گا اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا جنون شاید ہی آپ کو مل پائے گا۔ہر بڑی سڑ ک جس کو free way کہتے ہیں اس پہ آپ کوکاروں کا ایک سمند ر نظر آئے گامگر مجال ہے کہ کوئی قانون شکنی نظر آئے ۔ اشارہ کراس کرنا تو بڑی بات ہے غلط اوور ٹیکنگ بھی تقریبا عنقا ہے ۔وہا ں کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ لوگ اکٹھے سفر کریں اور ہر کوئی اپنی اپنی کار میں سفر کرنے کے بجائے مل جل کر سفر کرنے کو ترجیح دے تا کہ سڑکو ں پر رش کم کیا جا سکے ۔ اس کے لیے حکومت نے ترغیب کا خوبصورت طریقہ اختیار کر رکھاہے۔ ہر فری وے پر انتہائی بائیں جانب ایک لین ان کاروں کے لیے مخصوص ہوتی ہے جن میں دو یا دو سے زیا دہ لوگ سفر کررہے ہوتے ہیں اس طرح وہ لوگ رش سے بچتے ہوئے جلد ی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔اکیلا کار سوار اگر اس لین میں آ جائے تو کم از کم تین سو ڈالر جرمانہ ادا کر نا پڑتا ہے۔ ڈرائیونگ لائسنس ایک سخت امتحان کے بعد دیا جاتا ہے البتہ اس ریاست میں یہ سہولت موجود ہے کہ وزٹ پر آئے ہوئے غیر ملکی بھی امتحان پاس کر کے یہ لائسنس حاصل کر سکتے ہیں۔

کیلیفورنیا میں پاکستانی اپنی شناخت برقرار رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور شاید اس میں کامیاب بھی ہیں مگر معاف کیجیے گا منفی طور پر۔ ایک دوسرے کے مال پر جھپٹنا پلٹنااور پلٹ کر جھپٹنا ان کی زند گی کا حصہ بن گیا ہے۔ مال آتاہوا نظر آرہا ہو تو پھر اپنوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی چاہے کتنی ہی گردنوں کو کیوں نہ پھلانگنا پڑ ے۔ یہ اس میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے ۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی وہ بڑ ے فخر سے کہہ رہے تھے کہ میں نے تو داڑھی بھی اسی لیے رکھی ہے کہ لوگ میرا زیاد ہ اعتبار کریں یعنی مجھے زیادہ آزادی سے ڈنگ مارنے کاموقع ملے۔ مستثنیات بہر حال ہر جگہ ہوتی ہیں اور اس معاملے میں بھی ہیں۔

عام طور پر مقامی لوگ سچ بولنے کے عاد ی ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع کرتے ہیں اوراسی لیے کسی کے بیان پر اعتبار بھی کرلیتے ہیں جب تک کہ وہ دیگر ذرائع سے غلط ثابت نہ ہو جائے ۔

کیلیفورنیا میں میکسیکو کے لوگ کافی تعداد میں آباد ہیں اور یہ شباہت کے لحاظ سے پاکستانیوں کے کافی قریب ہیں۔ پاکستانیوں نے بھی کافی تعداد میں میکسیکن لڑکیوں سے شادی رچا رکھی ہے ۔ غالبا اسی لیے یہ لوگ بھی پاکستانی اور اسلامی طور واطوار سے کافی واقفیت رکھتے ہیں۔ میرے بھانجے کے سٹور پر ایک میکسیکن عیسائی کام کرتاہے اس نے اپنی بیٹی کا نام عائشہ رکھا ہے وجہ یہ ہے کہ کہتا ہے کہ بس مجھے یہ نام اچھا لگتا ہے۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد اکثر علما مسائل کو حالات حاضرہ کے تناظر میں دیکھنے لگ گئے ہیں اور کافی سمجھ بوجھ کامظاہر ہ کر رہے ہیں مگر جو علما وہاں پاکستان سے برآمد کیے گئے ہیں وہ ابھی وہیں کے وہیں ہیں۔ یہاں نمازوں میں سر ڈھانپنے کا کوئی رواج نہیں ۔لوگ نماز بھی پینٹ میں ادا کرتے ہیں۔ امام صاحب بھی اکثر اوقات بغیر داڑھی کے ہوتے ہیں اور انہوں نے بھی پینٹ اور ہاف سلیو شرٹ پہن رکھی ہوتی ہے۔میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمارے ہاں نماز کے دوران میں لباس کے بارے میں جو پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور جس طرح ان مخصوص پابندیوں کو گویا نماز کی قبولیت کاحصہ سمجھا جاتاہے اس اعتبار سے تو تین چوتھائی اسلامی دنیا کے باشندوں کی نمازیں تو ہمیشہ ہی شرفِ قبولیت سے محروم رہتی ہوں گی۔

وہاں پاکستانی کمیونٹی کے اندر ایک امر البتہ قابل تعریف ہے کہ اگر کسی کی آٹھ بیٹیاں بھی ہیں تو ان کی شادی کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ جہیز کے نام پر جو لعنت ہمارے ہاں ہے وہاں اس کاکوئی وجود نہیں۔دولہا دلہن کوجو کچھ ملتا ہے وہ سب تحائف کی شکل میں ملتا ہے۔ہر کوئی بقدر قرابت داری اور حسب استطاعت دیتا ہے۔

حلا ل و حرام کا مسئلہ یہاں بہت ٹیڑھاہے ۔ مسلمانوں نے حرام کھانے کے لیے مختلف تاویلیں اور حیلے اختیار کر رکھے ہیں۔ایک گروہ نے یہ تمیز ہی چھوڑ رکھی ہے جو ملتا ہے کھا لیتا ہے۔ ایک قلیل گروہ البتہ حلا ل کی تلاش کرتا ہے۔کئی پاکستانی حلال کے نام پر مشکوک چیزیں بیچتے ہیں اور مقصد صرف پیسا اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ ایک صاحب سے پوچھا کہ میاں گوشت کا کیا کرتے ہو ۔ کہنے لگے کہ یہاں دور دور تک حلال گوشت دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے حرام ہی استعمال کرلیتا ہوں۔ اس لیے کہ شریعت نے بہ امر مجبوری حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کے علم میں ہے کہ اس مجبوری سے کیا مراد ہے۔ یہ مجبوری وہ ہے جب جا ن بھوک کی وجہ سے خطر ے میں ہو۔ اور دیگر کوئی چیز ملنے کی کوئی امید نہ ہو۔ تو جان بچانے کے لے بقد ر ضرورت استعمال کیا جا سکتاہے۔ آپ کے ہاں تو ماشاء اللہ سبزیاں ’ پھل ’ اناج ’ چاول اور دیگر کئی انواع و اقسام کھانوں کی دستیاب ہیں اور جان کو بہر حال کوئی خطر ہ لاحق نہیں اور ویسے بھی گوشت کے بغیر صحت خراب ہونے کے امکانا ت بھی کوئی خاص نہیں۔ بہر حال وہ اپنی تاویل پر مصر رہے۔‘‘عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے’’ انسان اپنے کو رعایت اور الاؤنس دینے میں خاصا کمزور واقع ہوا ہے۔ لیکن خطرے کی بات تو یہ ہے کہ اسی انسان کو ایک دن اللہ کے حضور اپنے ہر عمل کا جواز پیش کرنا ہوگا۔ اور اگر کوئی معقول عذر نہ پایا گیا تو ابد ی ناکامی کا خطرہ بہر حال موجودہے۔عین ممکن ہے کہ آج جس عذر کوہم اپنی طفل تسلی یا دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کر رہے ہوں وہ اللہ کے ہاں جھوٹ قرارپائے ۔

چند سال پہلے تک دیسی ورائٹی یہا ں عنقا تھی مگر اب ہر جگہ مہیا ہے۔حتی کہ آپ کو پاکستان کے فروزن پراٹھے’ کلچے’ اور شیرمال تک مل جاتے ہیں۔قلفی ’ پان ’ سپاری’ اور مصالحہ جات ملنے میں تو کوئی دقت ہے ہی نہیں۔ہر پھل ہر سبزی ہر موسم میں مل جاتا ہے مگر وطن کی خوشبو اور ذائقے سے

 محرو م ہے اوریہ عقیدت نہیں حقیقت کی بات ہے۔وہاں کا بہترین آم بھی یہاں کے دیسی آم کا مقابلہ کرنے سے عاجزہے۔مجھے کینیڈا کے ایک ہوٹل کا واقعہ یاد آیا۔وہاں کھاناسرو ہونے سے قبل مینیجر نے اعلان کیا کہ حضرات آج ہم نے آپ کے لیے ایک خصوصی ڈش تیار کی ہے ۔ اور وہ ہے پاکستا ن کے چاول۔ یہ سنتے ہی میرا سر فخر سے بلند ہو گیا اورجوں ہی ان چاولوں کی ایک ڈش ہال میں لائی گئی پورے ہال میں ایک خاص قسم کی خوشبو پھیل گئی۔وطن کی مٹی کی خوشبوکا پہلا اورانوکھا تجربہ مجھے وہیں ہوا تھا۔کاش کہ وطن میں رہتے ہوئے بھی یہ خوشبو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہاکرے۔(جاری ہے )