عرب ممالک کے تیل پر قبضہ!!

مصنف : یاسر محمد خاں

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : دسمبر 2006

ایک افسوس ناک داستان

مسلم دنیا کے خلاف اس بین الاقوامی سازش کا آغاز ۱۹۷۳ء میں اس وقت ہوا جب عربوں نے یورپ اور امریکہ کو تیل کی فراہمی بند کردی۔

اس زمانہ میں عرب اسرائیل جنگ زوروں پر تھی جسے مسلمان ‘‘جنگ رمضان’’ کہتے ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ اور پورا یورپ اسرائیل کے ساتھ تھا اور مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ’ جب اہل مغرب نے مسلم دنیا کی دھمکیوں کے باوجود یہودیوں کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کردیا تو عربوں نے آخری ہتھیار کے طور پر انھیں تیل کی فراہمی روک دی۔ یورپ’ مشرق بعید اور امریکہ کی سماجی اور صنعتی زندگی رک گئی’ یورپ کی تاریخ میں پہلی بار لوڈشیڈنگ شروع ہوئی’ کئی شہر اندھیرے میں ڈوب گئے’ سرکاری ٹرانسپورٹ بند ہوگئی اور کارخانوں میں چھٹیاں ہوگئیں۔

تیل کی اس بندش سے متاثر ہوکر یورپ میں قانون بنا کہ کوئی شخص گاڑی میں اکیلا سفر نہیں کرسکتا’ کیونکہ اس سے پٹرول ضائع ہوتا تھا۔ اس دور میں لوگ گاڑی میں گھر سے نکلتے تو راستے میں دوسرے لوگوں کو ساتھ لیتے ہوئے آگے بڑھتے’ اگر کسی گاڑی میں نشست خالی نظر آجاتی’ تو پولیس گاڑی اور اس کے مالک دونوں کو بند کر دیتی’ ان دنوں سویڈن کے ایک وزیر کو استعفا دینا پڑا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ رات چھپ کر گاڑی پر تنہا نکلا’ پولیس نے پکڑلیا’ تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا وزیر صاحب ڈبل روٹی خریدنے کا جرم کر بیٹھے ہیں۔ بہرحال اس بحران کے بعد اہلِ مغرب نے تین اہم فیصلے کیے:

۱- تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک کا اتحاد پارہ پارہ کرنا۔

۲- پوری مسلم دنیا کو غلام بنانا ۔

۳- یورپ’ امریکہ اور اس کے دوسرے اتحادی ممالک کو تیل پر کم سے کم انحصار کی پالیسی بنانا ۔

اہل مغرب کے پالیسی ساز پھر ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں جٹ گئے۔ اس وقت دنیا کا ۶۰ فی صد تیل عربوں کے قبضے میں ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ باقی دنیا میں تیل کے معلوم ذخائر کی میعاد پچیس سال جب کہ عرب تیل کی زندگی سو سال ہے۔ ہر روز ‘‘ہرمز’’ کی آبی گزرگاہ اور خلیج فارس سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بیرل تیل یورپ جاتا ہے’ اس میں سے چالیس فیصد عرب برآمد کرتے ہیں’ لہٰذا دنیا تیل کی اس طاقت سے انکار نہیں کرسکتی’ اہل مغرب اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں’ لہٰذا انھوں نے یہ طاقت ہتھیانے کا بندوبست کرلیا۔

اہل مغرب نے ‘‘جنگ رمضان’’ کے خاتمے پر چھ بڑے اقدامات کیے:

۱- انھوں نے سب سے پہلے سونے کے بجائے ڈالر کو شرحِ تبادلہ بنا دیا۔ اس جنگ سے پہلے دنیا کے مالیاتی ذخائر سونے سے ناپے جاتے تھے۔ جس ملک کے پاس جتنا سونا ہوتا’ وہ ملک اتنا ہی امیر گردانا جاتا تھا’ اُس وقت سونے کے تمام بڑے ذخائر مسلم ممالک میں تھے’ لہٰذا اہلِ مغرب نے مسلم دنیا کی اس امارت کو غربت میں تبدیل کرنے کے لیے ڈالر کو سونے کی حیثیت دے دی جس کے بعد دنیا کے مالیاتی ذخائر تولوں یا گراموں کے بجائے کروڑوں اور اربوں ڈالر میں ناپے جانے لگے۔

۲- مغرب نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ یورپ’ امریکہ اور مشرق بعید میں ترقی کے نام پر عربوں کے لیے سرمایہ کاری کی خصوصی اسکیموں کا اعلان کیا۔ اسٹاک ایکسچینج کے رجحان کو ترقی دی گئی اور عربوں کو یقین دلایا گیا کہ جس نے اسٹاک ایکسچینج میں ایک ڈالر بھی لگایا’ وہ چند دنوں میں سو ڈالر کے برابر ہوجائے گا۔ اس پُرکشش جھانسے میں آکر عربوں نے کھربوں ڈالر یورپ اور امریکہ کی مارکیٹوں میں جھونک دیئے۔ اس کے جواب میں مغرب نے انھیں کاغذ کے چند ٹکڑے تھما دیئے جن پر منافع اور سود کے اعداد و شمار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس سلسلے کی دوسری کڑی جائداد کی خرید و فروخت تھی۔ یورپیوں نے عربوں کو یقین دلایا کہ اگر وہ یورپ میں زمین جائداد خرید لیں توان کی رقم محفوظ بھی رہے گی اور اس میں روز افزوں اضافہ بھی ہوگا لہٰذا عربوں نے یورپ میں دھڑادھڑ زمینیں خریدیں۔ اس ضمن میں صرف پیرس کی مثال کافی ہے۔ پیرس کی سڑک ‘‘شانزے لیزے’’ دنیا کی مہنگی ترین شاہراہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ سڑک بنیادی طور پر ایک کھلا بازار ہے جس کے دونوں جانب بڑی بڑی دکانیں اور شاپنگ سنٹر ہیں۔ اس وقت سڑک کی نوے فی صد عمارتیں عربوں کی ملکیت ہیں۔ اس کے علاوہ پیرس کے مضافات میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر عربوں کے محلات اور فارم ہیں۔ اسی دور میں یورپ میں جوئے خانوں’ شراب خانوں ’ ہوٹلوں’ ریستورانوں اور ڈسکو کلبوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کاروبار میں بھی عربوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور انھیں اس غلیظ کاروبار میں ملوث کردیا گیا۔ آج کل صرف برطانیہ میں مسلمانوں کے چار ہزار بڑے شراب خانے اور ڈسکو کلب ہیں جب کہ امریکہ کے جوئے خانوں میں عربوں کا حصہ ۷۳ فی صد ہے۔ امریکہ میں عربوں کی کل سرمایہ کاری تین کھرب ڈالر سے زیادہ ہے’ صرف عرب شاہی خاندانوں کے ایک کھرب یعنی ایک ہزار ارب ڈالر امریکہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔

۳- امریکہ اور یورپ نے تیسری چال یہ چلی کہ تیل کا کاروبار آہستہ آہستہ ان سے ہتھیا کر تیل کی کمپنیوں کے حوالے کر دیا۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے دلچسپ کھیل کھیلے گئے۔ مثلاً عالمی سازشوں کے ذریعہ تیل کی قیمتیں کم کی گئیں’ تیل نکالنے کی مشینری اور فاضل پرزہ جات کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی اور تیل کی پیداوار مزید بڑھا کر تیل خریدنے سے انکار کر دیا۔ ان ہتھکنڈوں سے تیل بیچنے والے ممالک کی آمدنی مدوجزر کا شکار ہونے لگی۔ جب وہ بری طرح زچ ہوئے تو تیل کی کمپنیوں کے نمائندے آگے بڑھے۔ انھوں نے عربوں کو پیش کش کی ‘‘آپ ہمارے ساتھ سمجھوتہ کرلیں’ ہمیں تیل نکالنے کے حقوق دے دیں’ تیل کی قیمت کم ہو یا زیادہ’ مشینری ملے یا نہ ملے’ ہمارا تیل بکے یا نہ بکے’ ہم آپ کو ایک مخصوص رقم دیتے رہیں گے’’۔ عربوں کو یہ سودا سودمند لگا’ لہٰذا انھوں نے تیل کمپنیوں سے سمجھوتے کرلیے جس کے بعد تیل کی طاقت پہلے کمپنیوں اور پھر ان کمپنیوں کے پروردہ ممالک کے پاس چلی گئی’ اور مسلم ممالک نادانی اور لالچ کے باعث تیل کی قوت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب یہ عالم ہے کہ پابندی لیبیا پر لگے یا عراق پر’ تیل نکالنے والی کمپنیاں چپ چاپ تیل نکالتی اور بیچتی رہتی ہیں اور سارا نفع امریکی اور یورپی بینکوں میں جاتا ہے۔

۴- شاطرانہ ذہنوں نے چوتھا قدم یہ اٹھایا کہ تیل خریدنے والے ممالک کی انجمن بنا دی’ جس کا نام ‘‘انٹرنیشنل انرجی ایمبیسی’’ ہے۔ یہ ادارہ ۸۰ کی دہائی میں بنا اور اس کا کام تیل کے صارفین میں اتحاد پیدا کر کے تیل کی قیمتوں میں استحکام رکھنا ہے۔ اس کا انھیں یہ فائدہ ہوا کہ اگر کبھی عرب ممالک تیل کی قیمت بڑھانے کے لیے اس کی مقدار کم کرنے کی کوشش کریں تو یہ ادارہ اپنے ارکان کو تیل کی خریداری کم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جس کے بعد تیل کے جہاز کھلے سمندروں میں کھڑے رہتے ہیں اور برآمد کنندہ کو جہاز کے کرائے او ربندرگاہوں کے اخراجات کے سلسلے میں کروڑوں ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔

۵- امریکیوں نے پانچویں سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے تیل پیدا کرنے والے مسلم ممالک کو ایک دوسرے سے لڑوا دیا۔ پہلے عراق کو ایران سے لڑایا اور دونوں ملک ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے تیل کے بدلے یورپ سے مہنگا اسلحہ خریدتے رہے۔ یہ جنگ ختم ہوئی تو امریکہ نے عراق کو کویت پر حملہ کی ترغیب دی’ جنگ شروع ہوئی تو امریکہ اور یورپی ممالک نے خلیج تعاون کونسل بنائی اور عربوں کی حفاظت کے بہانے اپنے ہزاروں فوجی سرزمین عرب پر اتار دیئے۔ اس فوج کے تمام اخراجات نہ صرف عرب ادا کر رہے ہیں بلکہ وہ ہر سال اربوں ڈالر اتحادیوں کو کرائے کی مد میں بھی پیش کرتے ہیں۔ ان فوجوں کی وجہ سے تمام عرب ممالک بری طرح مالیاتی دباؤ میں آگئے۔ سعودی عرب کا بجٹ پچھلے پانچ سال سے مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔ اسے ہر سال ۴۴ ارب ریال کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت چھ بڑے عرب ممالک بری طرح امریکہ کے دست نگر ہیں۔ ان کی بندرگاہوں پر امریکی بحریہ کے جہاز کھڑے ہیں جب کہ ان کے تمام حساس مقامات امریکی فوج کے قبضے میں ہیں۔

۶- آخری اور چھٹا قدم یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ نے عربوں سے ہٹ کر تیل کے نئے ذخائر دریافت کیے’ ان میں کھدائی کی اور پھر بند کردیا۔ یہ ان کے اضافی ذخائر ہیں’ اگر کسی وجہ سے عرب ان سے بگڑ کرتمام تر خطرے کے باوجود مغرب سے ٹکرا جاتے ہیں تو وہ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ان ذخائر کا تیل استعمال کریں گے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں کسی بھی جگہ’ کسی بھی وقت’ کسی بھی قسم کی مالیاتی اور معاشی گڑبڑ ہو’ اس کا براہِ راست اثر عربوں پر پڑتا ہے۔ مثلاً آپ اسٹاک ایکسچینج ہی کو لے لیجیے! اگر امریکہ میں اسٹاک ایکسچینج دیوالیہ ہو تو امریکہ سے ہزاروں میل دُور آباد سیکڑوں عرب خاندان دیوالیہ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ امریکی تجارتی مارکیٹ کے بنیادی حصص رکھتے ہیں۔

۱۱ ستمبر کے واقعے کا سب سے زیادہ نقصان عربوں بالخصوص سعودی عرب کے شاہی خاندان کو اٹھانا پڑا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی چالیس بڑی کمپنیوں میں سعودی شاہی خاندان کے حصص تھے’ اس سلسلے میں یہ دلچسپ بات بھی ملاحظہ کیجیے کہ جس کمپنی نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی انشورنس کر رکھی تھی’ اس کے حصص بھی عربوں کے پاس تھے’ یوں ورلڈ ٹریڈ سینٹر گرنے کا نقصان بری طرح عربوں کو اٹھانا پڑا۔ ۱۱ستمبر کے بعد ہوائی سفر کا رجحان تقریباً ختم ہوگیا’ اس کا نقصان بھی عربوں کو ہوا’ کیوں کہ تمام بڑی کمپنیوں میں ان کے حصص تھے۔ یہ کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں تو شاہی خاندان کے کئی لوگ بھی دیوالیہ ہوگئے۔ اسی طرح ۱۱ستمبر کے بعد کاروبار میں ہونے والے زوال کا اثر بھی براہِ راست عربوں پر مرتب ہوا۔

آپ صرف ایک مثال دیکھیے جس سے پوری صورت حال کا اندازہ بآسانی کرسکتے ہیں۔ مثلاً ۱۱ستمبر کے بعد امریکہ میں مہنگائی کا سیلاب آگیا’ ڈالر کی قیمت گرگئی اور پیداوار کا عمل تعطل کا شکار ہوگیا۔ اس وقت ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عرب تیل کی فراہمی کم کر کے امریکہ کو مزید دھچکا پہنچاتے’ لیکن اس کے برعکس عربوں نے تیل کی پیداوار میں پانچ لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کردیا۔ اس اضافہ سے امریکہ میں تیل کی قیمت ۲۸ ڈالر سے گر کر بیس ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ ڈالر کی قیمت میں استحکام آگیا’ مہنگائی کا رجحان کم ہوگیا’ امریکی معیشت کو سہارا مل گیا۔ سوال یہ ہے کہ عربوں نے ایسا کیوں کیا؟ جواب بڑا سیدھا ہے’ امریکی صنعتوں میں عرب سرمایہ لگا ہے۔ اگر امریکی کمپنیاں دیوالیہ ہوجاتیں تو عربوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوتا۔ اس لیے مجبوراً انھیں تیل کی پیداوار میں اضافہ کرنا پڑا۔

اب اس صورت حال کا دوسری طرف جائزہ لیجیے۔ عربوں کی ساری دولت یورپ اور امریکہ میں پھنس چکی ہے’ عرب سرمایہ کاروں نے مختلف امریکی کمپنیوں میں سرمایہ لگا رکھا ہے۔ ۱۱ستمبر کا واقعہ ہوا ہے تو امریکہ نے عرب نوجوانوں کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔ افغانستان پر حملہ ہوا تو امریکہ میں آہستہ آہستہ عربوں سے معاوضہ لینے کی آوازیں اٹھنے لگیں۔ ان آوازوں نے مئی’ جون میں اس وقت زلزلے کی شکل اختیار کرلی جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مرحومین کے چند لواحقین نے عدالت میں ایک ہزار ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا’ ان لواحقین کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت رقم عربوں سے وصول کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ امریکہ میں لگے عربوں کے ڈالر ہتھیانے کے لیے رچایا جا رہا ہے۔ عرب بھی آنکھیں میچے نہیں بیٹھے۔ امریکیوں کا کھیل سمجھ کر انھوں نے امریکہ سے سرمایہ نکالنے کا فیصلہ کیا لیکن جب متعلقہ کمپنیوں سے رابطہ کیا تو انھوں نے سرمایہ دینے سے انکار کردیا۔ سفارتی کوششوں سے انھوں نے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالا تو امریکہ نے یہ شرط لگائی کہ سرمایہ امریکہ کے اندر ہی دوسری کمپنیوں میں لگایا جائے گا۔ یوں عرب بمشکل دو سو ارب ڈالر امریکی کمپنیوں سے نکال کر دوسری کمپنیوں میں جمع کرانے کے قابل ہوسکے مگر وہ سرمایہ اپنے ملک واپس نہیں لاسکے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل فلسطینی قیادت کو شہید کردیتا ہے’ امریکہ عراق پر حملہ کر کے اس کی دو کروڑ آبادی کو تہس نہس کردیتا ہے یا ملائیشیا اور انڈونیشیا کی معاشی نس بندی کرتا ہے تو کیا عرب امریکہ کو للکارنے کی جرأت کرسکتے ہیں؟ انھیں امریکہ کو للکارنے کے لیے اپنی ساری دولت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ پیرس کی ‘‘شانزے لیزے’’ ہو’ ہالینڈ کے کلب یا امریکہ کی فضائی کمپنیاں’ عربوں کو کھربوں ڈالر کی قربانی دینا پڑے گی۔

لیکن اگر وہ خدا کی دی ہوئی اس دولت کو خدا ہی کے نام پر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں’ تو نہ صرف یہ کہ امریکہ اور مغرب کے بے رحمانہ تسلط سے آزاد ہوجائیں گے بلکہ اس کے بدلے دنیا کی بے تاج بادشاہی بھی ان کے نام لکھی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ سب کچھ بغیر کسی صلہ کے دیا’ کیا وہ عطیۂ خداوندی کو زبردست منافع اور پُرکشش صلے کی خاطر اللہ تعالیٰ کے نام پر قربان کرسکتے ہیں؟ بس اسی ایک فیصلے پر ان کے اور اُمت مسلمہ کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ (بشکریہ، ماہنامہ نوائے ہادی’انڈیا فروری ۲۰۰۶ء)