سرخ لکیر

مصنف : ماسٹر تاج الدین انصاری

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2006

(آخری قسط)

قیام پاکستان کے پس منظر میں ایک دل گداز آپ بیتی۔ چشم دید واقعات ۔ حقیقی تاریخ کا بیان

پیش نامہ

            ایک بیوہ ماں جب اپنے اکلوتے جوان بیٹے کی لاش پر ماتم کرتی ہے تووہ یہ نہیں جانتی اور نہ جاننا چاہتی ہے کہ ادب کیا ہوتا ہے ، شاعری کسے کہتے ہیں اور خطابت کس فن کا نام ہے ؟ لیکن اس کے باوجود اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ ادب کی جان ہوتے ہیں ، شاعری کی روح ہوتے ہیں اور خطابت ان پر قربان ہوتی ہے ۔

            یہی اور بالکل یہی کیفیت ان الفاظ کی ہے جن میں ماسٹر تاج الدین نے مشرقی پنجاب کی ہولناک تاریخ میں لدھیانہ اور امرت سر کے بازاروں ، سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے ہو کر پہلے اپنے صفحہ دماغ پر خود بخودابھرتے ہوئے محسوس کیا اور جو اب صفحہ کاغذ پر سیاہ روشنائی کی صورت میں آپ کے سامنے ہیں ۔

            ماسٹر صاحب نے ان اوراق کو ‘‘آپ بیتی’’ کا نام دیا ہے لیکن حقیقت میں یہ ‘‘آپ بیتی’’ نہیں ، قاتل کے حملوں سے گھائل ہونے والی ایک ایسی سسکتی ہوئی روح کی بے ساختہ پکار ہے جس میں نہ کہی ہوئی باتیں ، کہی ہوئی باتوں سے زیادہ ہوتی ہیں ،یہ ‘‘آپ بیتی’’ نہیں ، ان لاکھوں بچوں ، عورتوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں کی زبان بے زبانی کی تڑپتی ہوئی فریاد ہے ، جو لدھیانہ اور امرتسر میں سسک سسک کر دم توڑ گئے ، بھرے گھروں سے نکالے گئے اور بیدردی سے لوٹے گئے ۔

            ماسٹر تاج الدین کی یہ ‘‘آپ بیتی’’ ان واقعات کی تفصیل نہیں ہے جو خود ان کی ذات پر بیتے ، یعنی ان مظالم کی داستان نہیں ہے جو ان کی جان پر توڑے گئے ، بلکہ اپنے ان لاکھوں بھائیوں کی داستان مظلومی ہے جن کی خاطر ماسٹر صاحب اس وقت لدھیانہ اور امرتسر کے خون آلود گلی کوچوں میں گشت کرتے رہے جب تک کہ انہیں ایک ایک کر کے پاکستان نہ بھیج دیا۔ حالات کی یہ ستم ظریفی بھی کتنی عجیب ہے کہ ٹھیک اس وقت جب آگ اور خون کی ہولناک بارش سے بدحواس ہو کر ہر شخص پر نفسی نفسی کی کیفیت طاری تھی اور بڑے بڑے سورما دوسروں سے منہ موڑ کر اپنی جان بچا کر بھاگ رہے تھے ، امرتسر سے لیکر لدھیانہ تک صرف ماسٹر صاحب کی ذات وہ تنہا ذات تھی جو اپنی جان سے بے پروا ہو کر دیوانہ وار ادھر ادھر دوڑ رہی تھی ، اور پروانہ وار اپنے بھائیوں پر نثار ہو رہی تھی۔ جب گولیوں کی بوچھاڑ اور تلواروں کی جھنکار کی آواز سن کر بڑے بڑے مدعیان قیادت اپنی جان کو لیکر بھاگ کھڑے ہوئے تھے ، عین اس وقت ماسٹر صاحب اس ہنگامہ محشر سے دور بھاگنے کے بجائے اسی کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔ بندوق کی گولیاں ان کے پاس سے گزر رہی تھیں ، اوپر سے اینٹوں کا مینہ برس رہا تھا اور لوگ چیخ رہے تھے ، ماسٹر جی ، ماسٹر جی ، بھاگو ، ورنہ جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، لیکن ماسٹر جی ایک ایسے دیوانے کی طرح جسے اپنی جان سے زیادہ اپنے عزیزوں اور بھائیوں کی جان پیاری ہوتی ہے ، بیچ محشر میں کھڑے دوسروں کی عافیت کا بندوبست کر رہے تھے ۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ ان کی جان بچ گئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے اگست سے لے کر اکتوبر تک مشرقی پنجاب کے میدانوں میں ایک بار بھی اپنی جان بچانے کی پروا نہ کی ، اور اس وقت تک اس حشر آفریں سرزمین سے قدم نہ اٹھایا جب تک کہ ایک مسلمان بھی وہاں موجود رہا ۔

            ایک چھریرے جسم کا پتلا دبلا انسان جس کی داڑھی کے سفید بال اس کی عمر اور ضعف کا پتا دیتے ہیں ، ایک ایسے محشر ستان میں یوں دیوانہ وار پھرے اور پھر جب خدا کی قدرت سے زندہ وسلامت لاہور پہنچ جائے ، تب بھی اس خدمت کا کوئی صلہ نہ مانگے ، نہ الاٹمنٹ کی درخواست، نہ نقصانات کے معاوضہ کا مطالبہ اور کرے تو یہ کرے کہ خاموشی کے ساتھ ایک گوشہ میں بیٹھ کر اپنے ان خونی مشاہدات کو دل کے آنسوؤں سے کاغذ پر رقم کرنے بیٹھ جائے ۔ اللہ اکبر! اگر یہ انسان ہے تو پھر فرشتہ کسے کہتے ہیں ؟

            میں نہیں جانتا کہ میرے دل میں گداز ہے یا نہیں ، البتہ اتنا جانتا ہوں کہ کسی سخت سے سخت المناک سانحہ کے موقع پر بھی عموماً میرے آنسو مجھ سے دھوکا کرتے ہیں ، اور ایسا بہت کم ہوا ہے جب کسی حادثہ نے میرے دل کی کیفیت کو آنکھوں سے ظاہر کیا ہو ، لیکن ماسٹر صاحب کے یہ اوراق جن میں شاید رلانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے ، مجھے رلائے بغیر نہ رہ سکے۔

            یہ کوئی افسانہ نہیں ، جس میں لکھنے والا اپنے تخیل کے زور سے المناک واقعات کو جمع کرتا ہے ، لیکن اس کے باوجود لاکھوں المناک افسانے ان اوراق کے آگے ہیچ ہیں ۔ ماسٹر جی نے عبارت آرائی یا انشا پردازی کی کوشش کہیں نہیں کی ، لیکن دل کے سچے جذبات کی سچی ترجمانی اور واقعات کی حقیقی تصویر کی حقیقی عکاسی نے ان کے الفاظ میں وہ بے ساختہ پن پیدا کر دیا ہے جس کے سامنے ہزار عبارت آرائیوں اور لاکھ انشا پردازیوں کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔

             آخر میں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ ماسٹر تاج الدین کا شمار ان بزرگوں میں ہے جو ہندو مسلم اتحاد کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے اور اسی بنا پر غیروں سے زیادہ اپنوں کے مطعون بنے رہے ، اس لیے آج ہندو سکھوں کی درندگی کی جو عینی شہادت ان کے قلم سے آپ کے سامنے ہے ، وہ ایک ایسی قیمتی دستاویز ہے جسے وقت کا مورخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا ۔

            ان سطور کو ان اوراق یا ان اوراق کے مصنف کا تعارف نہ سمجھیے ، یہ صرف میرے جذبہ استعجاب کی ایک جھلک ہیں ، ورنہ اصل تعارف تو خود اصل اوراق ہیں ، آفتاب کا تعارف خود آفتاب ہی ہوا کرتا ہے ۔ابو سعید بزمی مدیرروزنامہ‘‘احسان’’لاہور       

           

قسط ۔۴

ہنگامی الجھن

کیا ہوا یہ قفس نصیبوں کو

سب نے منہ آشیاں سے پھیر لیے

            ریلیف کیمپ کا میدانی علاقہ جس میں تقریباً نوے ہزار مہاجر دو ماہ سے پابہ رکاب بیٹھے تھے، بالکل خالی ہو گیا۔ اب میرے ساتھ صرف دس ہزار پناہ گیر مسلمان باقی تھے، اور وہ محلہ چھاؤنی میں یا محلہ کے ملحقہ میدان اور کھیتوں میں دن گزار رہے تھے۔ قافلہ کی روانگی کے دو دن بعد میرے دفتر میں شریف گھرانوں کے لوگ اور پردہ دار بیبیاں آنا شروع ہوئیں۔ ان کے دل اچاٹ ہو چکے تھے، وہ وطن کو خیر باد کہنا چاہتے تھے۔مجھ سے ان کا یہی تقاضا تھا کہ ہمیں جلدی پاکستان پہنچا دیجیے۔ میری بات ان سب کے لیے پتھر پر لکیر کا درجہ رکھتی تھی، میں انھیں تسلی اور تشفی تو دیتا تھا مگر یہ بھی کہہ دیتا تھا کہ بے بس ہوں، خدا سے دعا مانگیے وہ ہم سب کو خیریت سے پاکستان پہنچا ئے۔

            لوگ میرے گرد جمع تھے کہ ایک سکھ میجر صاحب تشریف لائے اور بپھرے ہوئے ہم کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے۔ اس کیمپ کا انچارج کون ہے؟ میں نے کہا فرمایے۔ میجر صاحب نے مجھے خطاب کرتے ہوئے فوجی انداز میں فرمایا کہ تمھارے واسطے اب کوئی سپیشل ٹرین نہ آئے گی، تم لوگ کسی مہربانی کے مستحق نہیں، جب ہم نے قافلے کا بندبست کیا اور بقایا لوگوں کے لیے دو سپیشل ٹرینیں بھی مہیا کر دیں تو تم سب لوگ کیوں نہ چلے گئے، اب تم کو قافلہ کی صورت میں پیدل چلنا ہو گا۔ اور پھر میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا، کیوں جی ان کو سزا کیوں نہ ملے؟ ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ ہونی چاہیے۔

            میرے ساتھ جو لوگ کھڑے تھے سخت پریشان ہوئے۔ بعض کمزور دل لوگوں نے میجر صاحب کے سامنے گڑگڑا کر معذرت کی اور منت سماجت کرنے لگے۔میں اپنے ساتھیوں کی کمزوری سے سخت شرمندہ ہوا۔ میجر صاحب فخر سے پنجوں کے بل ٹہلنے لگے، وہ ایک عجیب دلی مسرت محسوس کر رہے تھے۔میں نے لوگوں کو ڈانٹا اور کہا کہ بیو قوفو بات کو نہیں سمجھتے جاؤ بھاگو یہاں سے مجھے سخت غصہ آرہا تھا، میرے لیے اپنے مجروح جذبات پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔ زندگی سے میں یوں بھی بیزار تھا، میجر ٹہلتا ہوا اپنی کار کی طرف آیا، اس عرصہ میں میں سنبھل چکا تھا۔ میجر کہنے لگا کہ آپ ان لوگوں کو کہہ دیجیے کہ کوئی سپیشل ٹرین نہیں آئے گی، اور ہم ان کو پیدل قافلہ کی شکل میں پاکستان پہنچائیں گے۔میں نے کہا یہ تو ان لوگوں نے بھی سن لیا اور میں نے بھی سن لیا، آپ کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہیں؟ بولے بس ہمارا یہی حکم ہے ان لوگوں کو سزا ملے گی۔ میں نے کہا میجر صاحب کوئی نئی بات کہیے ،یہ تو پرانی ہو گئی، اسے آپ بار بار کیوں دہراتے ہیں؟ ہم نے سمجھ لیا کہ آپ ہمیں پیدل چلانا چاہتے ہیں اورہمیں سزا دینا چاہتے ہیں، کتنی بار آپ یہی رٹ لگاتے رہیں گے۔ میجر صاحب فرمانے لگے تم انچارج ہو؟ تمھارا نام ماسٹر تاج الدین ہے؟ جی ہاں، میں نے خود اعتمادی کے لہجہ میں کہا میجر صاحب کہنے لگے، تمھارے واسطے بریگیڈ یر صاحب کا دوسرا حکم ہے تمھیں کار اور ٹرک مل جائے گا۔ ہاں یہ تو بتاؤ کہ تم جانا کب چاہتے ہو؟ بولو کل بندوبست ہو جائے؟ چند آدمی جو تمھارے ساتھی ہیں تم ان کو بھی ساتھ لے جا سکتے ہو، اب تمھارا ادھر کیا کام ہے؟ ان لوگوں کا ہم خود بندوبست کریں گے۔

            میجر صاحب بات کرتے گئے اور میں ان کے دل کی گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کرتا رہا، میں نے انھیں اچھی طرح پڑھ لیا اور صورتِ حال بھی سمجھ میں آ گئی۔ میں نے ان سے جواب میں کہہ دیا کہ میرے ساتھیوں کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے، یہ لوگ میرے ساتھ ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں، آپ میرے لیے علیحدہ تکلیف نہ فرمائیں۔

            میں نے آداب عرض کرتے ہوئے کیمپ کا رخ کیا اور میجر صاحب کافی دیر سڑک کے کنارے کھڑے سوچتے رہے، وہ شاید مجھے بد تمیز سمجھتے ہوں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ میں نے بہت زیادہ صبر و تحمل اور بردباری سے کام لیا۔ کیمپ میں پہنچا تو کم فہم ساتھیوں نے سکھ میجر کا پیغام دس ہزار کا نوں تک پہنچا دیا تھا، شام تک پردہ دار خواتین گروہ در گروہ روتی ہوئی آتیں اور اپنی بے بسی اور بے کسی کی فریاد کرتیں، ان میں سے اکثر نے کہا کہ ہم نے تو کبھی اپنے مکان کی دہلیز تک نہیں دیکھی ہم کس طرح پیدل چل کر پاکستان پہنچیں گی۔ میں نے انھیں یہ کہہ کر تسلی دی کہ اللہ تمھاری امداد کرے گا۔ گھبراؤ نہیں، میں بھی تمھارے ہمراہ ہوں، مت خیال کرو کہ میں تمھیں دغا دے جاؤں گا، تمھارے ساتھ جیوں گا اور تمھارے ساتھ مروں گا۔ جو کچھ تمھیں بتایا گیا ہے ان شاء اللہ ایسا نہیں ہو گا ۔ میں کل ہی انگریز بریگیڈیئر سے ملوں گا، وہ میرے ملنے والے ہیں ، شریف آدمی ہیں۔ ان شاء اللہ بہت جلد سپیشل ٹرینوں کا بندوبست ہو جائے گا، میرا دل مطمئن ہے گھبراؤ نہیں۔

            میری اس مختصر تقریر سے لوگوں کی ڈھارس بندھ گئی۔ نیک مسلمان عورتیں اور معصوم بچے مجھے محبت اور عقیدت کی نگاہوں سے دیکھتے اور مجھ پر اعتماد کلی کا اظہار کرتے،۔میں نے خود اپنے کانوں انھیں دعائیں مانگتے سنا، وہ مجھ گنہگار کے لیے دعائیں مانگتے تھے، شاید انھیں کی دعاؤں کا اثر تھا کہ میں جو بھی خیال کرتا یا جدھر بھی جاتا کامیابی کی راہیں خود بخود نمودار ہو جاتیں۔

            علی الصبح میجر شرما تشریف لائے، میں نے انھیں سب ماجرا کہہ سنایا، وہ سخت برافروختہ ہوئے، اور سکھ میجر کے رویہ کی مذمت کرنے لگے میں نے ان سے کہا کہ میجر شرما اس وقت میری ایک امداد فرمائیے، آئیے میں اور آپ کیمپ میں گھومیں پھریں اور لوگوں کو تسلی دیں، آج آپ میری جگہ میرے ہم وطنوں کی دلداری کریں۔ میجر شرما جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں، شریف ہندو نوجوان تھے، تعصب کا لفظ ان کے دل کی ڈکشنری میں موجود نہ تھا۔ میں اور میجر شرما دو تین گھنٹے مردوں، عورتوں اور بچوں کو تسلی دیتے رہے۔ چونکہ میجر شرما تسلی دیتے وقت دو تین روز میں سپیشل ٹرین کے انتظام کا وعدہ فرما رہے تھے، اس عمل نے انھیں مجبور کر دیا کہ جو کچھ منہ سے نکلا ہے کسی طرح پورا بھی ہو جائے۔ چنانچہ وہ مجھ سے جدا ہوتے ہی ٹیلیفون اور تار کے ذریعہ سپیشل ٹرین کے لیے تگ و دو کرنے لگے۔ دو دن بعد وہ مجھے یہ خوشخبری سنانے آئے کہ ایک کی بجائے دو ٹرینوں کا بندوبست ہو گیاہے۔ پرسوں یا پرلے روز سپیشل ٹرین آجائے گی، لوگوں کو کہہ دیجیے اور پاس اشو کر دیجیے مگر یہ خیال رکھیے کہ سکھ میجر راستہ میں اڑنگالگا رہا ہے، آپ اس عرصہ میں بریگیڈیئر سے ضرور ملیے۔

            دوسرے دن صبح بریگیڈیئر صاحب اور سکھ میجر دونوں فوجی کار لے کر کیمپ میں آموجود ہوئے۔ میں ریلوے لائن کی طرف اپنے کارکنوں کے ہمراہ گشت کر رہا تھا۔ مجھے سڑک تک پہنچنے میں ذر ادیر لگی، اتنے میں میجر صاحب نے بریگیڈیئر صاحب کو اچھا خاصا پمپ کر لیا تھا، میں جو پہنچا تو صاحب بہادر نے خفگی سے کہا، ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ایک گھنٹہ ادھر کھڑے ہو کر تمھارا انتظار کریں۔میں نے دیر ی کے لیے معذرت کی، وہ ذرا ٹھنڈے ہوئے تو میں نے سکھ میجر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو خفا ہیں بریگیڈیئر صاحب کیا آپ بھی خفا ہو گئے ہیں؟ہلکی سی مسکراہٹ بریگیڈیئر کے چہرہ پر چھا گئی ۔میں اور آگے بڑھا اور ان سے کہا کہ آپ کے میجر صاحب نے حکم فرمایا ہے کہ ہم سب کو پیدل چل کر پاکستان جانا ہوگا، آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ سب کو سہولت سے پہنچایا جائے گا۔آپ کا وعدہ سچا ہے یا میجر صاحب کا حکم؟بریگیڈیئر نے میجر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا بات ہے میجر صاحب؟ تاج سے بات کرو ہم سنتے ہیں، یہ کہا اور موٹر کے پائیدان پر پاؤں رکھ کر ہماری طرف دیکھنے لگے۔ میجر کچھ گھبرایا، میں نے میجر سے کہا کہ آپ کا یہ حکم ہے کہ پردہ دار عورتیں، بچے اور بوڑھے اور بیمار سب قافلہ کی شکل میں پاکستان کو جانے والی سڑک پر پیدل چل پڑیں، انھیں اب کسی قسم کی سواری یا سہولت نہیں ملے گی۔ آپ یہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ان دو گاڑیوں میں کیوں سوار نہ ہوئے جو اس مقصد کے لیے دی گئی تھیں، آپ معصوم بچوں اور عورتوں کو سزا دینا چاہتے ہیں، ہم یہ حکم بھی ماننے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ بریگیڈیئر صاحب اپنے منہ سے خود فرما دیں۔میجر صاحب کچھ کہنا چاہتے تھے کہ بریگیڈیئر صاحب بیچ میں بول اٹھے۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہم سپیشل ٹرین کے لیے بندوبست کریں گے، مگر دیکھو تاج اب کوئی باقی نہ رہے۔اتنا کہا اور موٹر کی طرف رخ کرتے ہوئے میجر کی طرف دیکھا اور کہاcome along majer sahibمیجر بے چارے کے چہرے پر ایک رنگ آتا اور ایک جاتا تھا، ایک آدھ دفعہ میری طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھا اور موٹر کی پچھلی سیٹ پر بادل ناخواستہ سوار ہو گئے، بریگیڈیئر صاحب نے موٹر سٹارٹ کی اور تیزی سے سول لائن کی طرف تشریف لے گئے۔

آخری مشکل

            ایک لاکھ کی بجائے صرف دس ہزار آدمی رہ گئے تو کیمپ سمٹ کر بہت ہی مختصر ہو گیا۔ میدانی کھیتوں اور کنوؤں پر جو چھپر یا مکانات بنے ہوئے تھے سکھ پناہ گیروں اور غنڈوں نے ان پر چھینا جھپٹی شروع کر دی۔ کیمپ کے سامنے کئی معرکے ہوئے، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک سکھ پناہ گیر نے دوسرے سکھ پناہ گیر کے کیس پکڑ رکھے ہیں، لکڑیوں کے لیے جنگ ہو رہی ہے، غرضکہ درندگی کا ہلکا سا نمونہ سامنے آگیا۔ مجھے یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ ہم بہت تھوڑے سے رہ گئے ہیں، روزانہ ایک سپیشل ٹرین ملی تو پانچ ہزار روزانہ کے حساب سے لوگ جا سکیں گے۔ دو دن میں کام ختم ہو جائے گا، مگر جس روز ہم پانچ ہزار رہ جائیں گے نصف کیمپ خالی ہو جائے گا، اگر نصب کیمپ باقی رہا تو بڑی مشکل کا سامنا ہو گا، سکھ پناہ گیر ابھی سے گدھوں کی طرح منڈلا رہے ہیں، ایک ہی کیمپ میں دو متحارب عناصر کا اجتماع سخت خطرے کا باعث ہو گا۔

            میرا خیال درست ثابت ہوا، دو دن بعد مسٹر شرما نے چپکے سے آ کر میرے کان میں کہا کہ صبح گاڑی ملے گی، نصف آدمیوں کو پاس اشو کر دو، میں نے ایسا ہی کیا، پہلی ٹرین میں سبھی جانا چاہتے تھے۔ میں یہ سوچتا تھا کہ آخری وقت میں لوگ مجھ سے خفا نہ ہو جائیں، کسے پاس دوں اور کسے نہ دوں۔تجویز ہوا کہ گھروں میں پھر کر فری پاس دیے جائیں، چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ اپنے اپنے گھروں میں موجود رہو ہم خود آتے ہیں اور سب کو پاس دے دیتے ہیں۔اس طریق کار سے ہمیں کافی سہولت مل گئی، میرے ساتھیوں نے نصف علاقہ میں پاس تقسیم کرنا شروع کئے، میں صرف دستخط کرتا تھا، تاکہ جعلسازی نہ ہو جائے، اور کام نظم و ضبط سے چل سکے۔صبح گاڑی آئی، مسلمان فوجی پہرہ دار موجود تھے، نصف آدمی بہ چشم پرنم پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ہمیں کیمپ میں چھوڑ گئے۔اب کوئی بے صبری نہ تھی، دوسرے دن علی الصبح گاڑی آ رہی تھی اور ہر آدمی مطمئن تھا۔نماز فجر کے بعد میں نے اپنے نئے دفتر سے جو ریلوے لائن کے بالکل قریب تھا دستخط کرنے کا کام خود شروع کیا، ابھی کام کرتے ہوئے آدھ گھنٹہ نہ گزرا تھا کہ لوگ دوڑے آئے اور کہنے لگے سکھ اور ہندو کیمپ میں گھس آئے ہیں، خالی شدہ علاقے کی مسجدوں تک میں جوتوں سمیت داخل ہورہے ہیں، اب فساد کا خطرہ ہے۔میں نے موقع پر پہنچ کر دیکھا تو فریقین میں حد فاصل کھنچ چکی تھی ، اور ذرا سی دیر میں فساد ہوا چاہتا تھا۔ میں اپنے لوگوں کو سمجھا کر ہندوؤں اور سکھوں کے ہجوم میں چلا گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگ میری بات سنیں، اور پھر ایک اونچی دیوار پر کھڑے ہو کر میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات بلا اجازت کیمپ ایریا میں گھس آئے ہیں، ہمارا کیمپ فوج کی حفاظت میں ہے، اگر فوجی افسر ادھر نکل آیا تو گولی چلے گی تم لوگ تو ہماری طرح تباہ حال ہو، مزید تباہی کو اپنی طرف نہ بلاؤ۔ ہم کل سارا کیمپ خالی کر دیں گے، اور سب کچھ تمھارے حوالے کر دیں گے، ایک دن اور صبر کرو۔کچھ لوگوں نے میری بات کو سنا اور کہا کہ ہم چلے جاتے ہیں، آپ نے ہم کو ٹھیک مشورہ دیا ہے ، مگر کچھ شوریدہ سر ایسے بھی تھے جو کہنے لگے، لو جی ، اپنا گھر بار لٹا کر ہم سر چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہے ہیں، یہ ہم کو ڈرانے آئے ہیں، ہم نے گولیاں چلتی دیکھ رکھی ہیں، آ بھئی ہرنام سنگھا تالا توڑیں۔دو چار بد اندیش افراد نے سارے مجمع کو بے وقوف بنا دیا، میں کھڑا دیکھ رہا تھا، میں نے غور کرنا شروع کیا کہ بدی کتنی زود اثر ہے، یہ دل اور دماغ پر کس طرح حملہ آور ہوتی ہے، سارا ہجوم میری بات مان رہا تھا مگر دو چار لفنگوں نے سب کا دماغ خراب کر دیا۔ اتنے میں ایک خالصہ جی کرپان لے کر میری طرف آئے، اور فرمانے لگے، آپ ادھر اب کیا کرتے ہیں، جائیے اپنا راستہ لیجیے۔میں چپ کھڑا رہا۔ سامنے مسجد تھی، خدا کا وہ شاندار گھر جہاں ہم پانچ وقت سربسجود ہوتے تھے، صحن کے علاوہ اس کی چھتوں پر بھی سکھ پھرتے نظر آئے، میں نے ادھر کا رخ کیا، انھیں للکارا اور نیچے اتر آنے کو کہا، ایک موٹے سکھ نے چھت پر سے جواب دیا، اچھا ٹھہر جا خالصہ نیچے آ کر بات کرے گا، اور مجھے دکھاتے ہوئے کرپان پر ہاتھ پھیرنے لگا۔میں مسجد کے سایہ میں کھڑا یہ نظارہ بھی دیکھ رہا تھا، اور کبھی کبھی ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے آسمان کی طرف بھی نگاہیں اٹھ جاتی تھیں۔قبل اس سے کہ وہ بد تمیز سکھ مسجد سے نیچے اترتا، موٹر کی آواز آئی ٹھیک اسی مسجد کے سامنے لاؤڈ سپیکر سے میجر شرما نے کہنا شروع کیا:

            ‘‘سنو ہم کمشنر ہے اور اس کیمپ کا افسر بھی ہے، یہ کیمپ فوج کے سپرد ہے، ہندو اور سکھ پانچ منٹ کے اندر سڑک پار ہو جاؤ ورنہ گولی مار دی جائے گی۔’’

            خالصہ جی کی سنئے، لاؤڈ سپیکر کا اعلان سنا تو نوک دم بھاگے، میں نے کہا خالصہ جی مجھے تو کچھ بتا تے جاتے۔ جانے آپ کیا بتانا چاہتے تھے، وہ اور تیز ہوا اور بہت جلد نظروں سے غائب ہو گیا۔میجر شرما پستول تھامے میرے پاس آگئے اور کہا آئیے تاج صاحب اندر چلیں اور ان پاجیوں کو یہاں سے نکالیں، کچھ فاصلہ پر لوٹ کے مال پر جھگڑا ہو رہا تھادوسری جانب مکان کے قبضہ پر ایک ہندو اور سکھ دست و گریبان تھے۔ پانچ سات منٹ گزر چکے تھے۔ میجر شرما نے پستول کو سیدھا کیا اور ہجوم کی طرف لپکے۔ میں نے دوڑ کر انھیں روکا، وہ سخت غصہ میں تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے شہر میں اور کیمپ کے ملحقہ علاقہ میں کل ہی اعلان کر دیا تھا کہ کوئی غیر مسلم کیمپ کے پاس پھٹکنے نہ پائے۔یہ فوجی ایریا ہے، یہ لوگ کیوں آئے ہیں۔میں نے کہا خدا کے لیے پستول کو جیب میں ڈال لیجیے، دیکھیے آپ کو دیکھ کر ہی لوگ بھاگنا شروع ہو گئے ہیں، بس دس منٹ میں میدان صاف ہو جائے گا۔ بہرحال انھیں غصہ تھا، وہ گشت لگاتے ہوئے جس ہندو یا سکھ کو تالا توڑتے یا مال اٹھاتے دیکھتے اچھی طرح مرمت کر دیتے تھے۔ میجر شرما ضابطہ کے آدمی تھے، انھیں کیا معلوم تھا کہ مسلمانوں کا مال بے ضابطہ لٹے گا، بہرحال فوجی پہرہ دار متعین ہو گئے اور کیمپ خطرات سے محفوظ ہو گیا۔

مسلمانانِ لدھیانہ کا آخری قافلہ

            شام تک میرے تمام ساتھی اور فوجی سپاہی کیمپ کی نگرانی کرتے رہے، حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا۔ کیمپ پر گہری اداسی چھا گئی، رات کے بارہ بجے تک مسلمان فوجی افسر اور میرے اپنے رفیق ہاتھ بٹاتے رہے۔ میں انھیں دستخط شدہ پاس دیتا رہا اور وہ انھیں لوگوں کے مکانوں پر تقسیم کرتے رہے، بارہ بجے کام بند کر دیا۔ اور عوام سے کہہ دیاگیا کہ صبح چار بجے اٹھ کر اپنا اسباب باندھ لو، جن لوگوں کو پاس نہیں ملے وہ نماز فجر کے فوراً بعد دفتر آجائیں اور پاس لے کر ریلوے لائن سے پیچھے ہٹ کر فوجی پہرہ داروں کے پاس بیٹھ جائیں۔

            یہ رات میرے ہم وطنوں کی آخری رات تھی، وہ سب صبح کی گاڑی سے پاکستان جا رہے تھے، میں دو گھنٹے کے لیے سو گیا، تقریباً چار بجے میں دوبارہ کام کرنے بیٹھ گیا۔ ابھی چند منٹ گزرے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی، میرا ساتھی رضاکار جاگ رہا تھا، میں نے اسے دروازہ کھولنے اور دریافت کرنے کے لیے کہا، وہ پلٹ کر آیا اور کہنے لگا، دوعورتیں جو کسی گاؤں کی رہنے والی ہیں اندر آنا چاہتی ہیں، میں نے کہا دریافت کرو کتنے افراد کا پاس چاہتی ہیں۔ انھیں دروازے ہی پر پاس دے کر واپس کر دو، تاکہ میں اطمینان سے سورج طلوع ہونے سے پیشتر کام سے فارغ ہو جاؤں۔رضا کار نے واپس آ کر کہا کہ ایک عورت کہہ رہی ہے کہ مجھے ان سے ملنا ہے، ضروری کام ہے۔ میں نے کہا بھائی پاس کے سوا اور کیا کام ہے، خواہ مخواہ وقت ضائع نہ کرو، انھیں سمجھا بجھا کر واپس کر دو اور کہہ دو صبح گاڑی کے وقت سے پہلے آجانا۔جھگڑالو عورت نہ مانی، رضاکار نے ہر چند روکنا چاہا مگر وہ اندر آ ہی گئی اس کے ہمراہ اس کی ہمسائی تھی، یہ وہی عورت تھی جو ہمیشہ مجھے گالیاں بھی بکا کرتی تھی اور پھر رونے بیٹھ جاتی تھی۔میں نے اسے دیکھتے ہی کہا، کیوں بہن آج تو سورج بھی نکلنے نہیں دیا، ابھی تو نور کا تڑکا ہے، گالیاں دو گی کیا؟وہ چپ چاپ کھڑی رہی، میں نے کہا، بتاؤ کیسے آئی ہو حکم کرو پاس چاہیے؟ کتنے آدمیوں کا؟وہ چپ تھی ، اس کا رنگ سرخ ہو گیا، آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو جاری ہو گئے، میں دیکھتا رہ گیا وہ آگے بڑھی اور میرے پاؤں پر گر پڑی، روتے ہوئے کہنے لگی،میں معافی مانگنے آئی ہوں، تم میرے باپ ہو، میں نے تم کو بہت گالیاں دیں ، مگر میں کیا کرتی، مجھے جب بھی گھر بار کی بربادی اور عزیزوں کی موت کا خیال آتا تھا، میں تمھارے دفتر میں آ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتی تھی۔میں نے اسے بٹھایا اور کہا کہ وقت گزر گیا، آج سب لوگ چلے جائیں گے، تم بھی پاکستان چلی جاؤ گی ، کچھ دنوں بعد نہ یہ باتیں یاد رہیں گی، نہ یہ کیمپ رہے گا، ہم سب ایک دوسرے کو بھول جائیں گے۔کہنے لگی بابا تم قسم کھا کر بتاؤ، کیا تم نے مجھے معاف کر دیا، میں نے اسے یقین دلایا تو اس کا دل بھر آیا، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور کہنا شروع کیا۔‘‘بابا ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ ہمارے ہرے بھرے کھیت ہمارا مال مویشی ہم نے اپنے مکان میں کچھ روپے بھی گاڑ رکھے تھے، ہمارے رشتہ دار ، خدایا ہم کدھر جائیں؟’’میں نے اس دیہاتی عورت کو بہت تسلی دی، اس کی ہمسایہ عورت بھی جو ہمراہ تھی ایک طرف بیٹھ کر رو رہی تھی، طلوع سحر کا وقت تھا، سورج طلوع ہونے کی اور مسلمانوں کے دل ڈوبنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ میں نے انھیں پاس بنا کر دیے، خود وضو کرنے بیٹھ گیا، دل پر بوجھ محسوس ہو رہا تھا، نماز سے فارغ ہو کر پھر کام شروع کیا، چھ بجے تک ہم فارغ ہو گئے، میں نے اپنی میز کے تمام کاغذات اٹھا کر پھینک دیے، جس طرح ایک مزدور شام کی چھٹی کے وقت پھاؤڑا اور کدال پھینک کر اپنی جھونپڑی کا راستہ لیتا ہے، میں نے بھی اپنا بوجھ ہلکا کر لیا۔

            گاڑی کیمپ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی، لوگ آرام سے سوار ہو گئے ، لمبی گاڑی تھی اور لوگ زیادہ نہ تھے، اس لیے سب کو اچھی طرح جگہ مل گئی، ہمارے کچھ کارکن بھی سوار ہو گئے، میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا، کوئی رہ تو نہیں گیا، چاروں طرف آوازیں دے کر دریافت کر لیا گیا، گاڑی نے وسل کیا، میں اور میرے چند رفیق گاڑی کے پاس الوداع کہنے کے لیے صف بستہ ہو گئے، فوجی افسر اور سپاہی ہمارے پاس کھڑے تھے، گاڑی چل پڑی، بعض احباب نے جو گاڑی میں سوار تھے ہاتھ بڑھا کر مجھے پکڑ کر سوار کرانا چاہا، میں ہنستا ہوا پرے ہٹ گیا، میری یہ ہنسی ہنسی نہ تھی، اس میں بہت کچھ بناوٹ تھی، مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گاڑی کے بھاری بھرکم پہیے میرے دل پر سے گزر رہے ہیں۔ سب مسافروں کی آنکھوں میں آنسو تھے، میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، میرے ساتھیوں نے آمین کہی، دیکھتے دیکھتے گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی، کچھ دیر ہم وہیں کھڑے رہے، میں تھا اور میرے چند ساتھی۔

            شام کو بریگیڈیئر کا پیغام آیا کہ میں کوئٹہ جا رہا ہوں، میرے ساتھ چلو تمھیں لاہور اتارتا جاؤں گا۔ میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کرتے ہوئے جواب بھیجا کہ میرے ساتھ چند رفیق بھی ہیں، مجھے کل نہیں جانا میں پرسوں جاؤں گا، آپ ٹرک اور جیپ کار کا بندوبست کرتے جائیں شام ہوئی تو میں نے اپنے دوچار ساتھیوں کو کہا کہ محلوں کے اندر گھوم پھر کر دیکھیے کوئی مسلمان رہ تو نہیں گیا، آدھ گھنٹہ بعد میرے ساتھی ایک بوڑھے آدمی کو کندھوں پر اٹھا کر لے آئے ، اولاد نے ناکارہ سمجھ کر بوڑھے باپ کو تن تنہا چھوڑ دیا تھا، اسے ہم اپنے دفتر میں لے آئے، پھر میں خود بعض گلی کوچوں میں اسی غرض سے گیا۔ ایک مکان کے پاس سے گزرا تو اسے اندر سے بند پایا، میں نے محسوس کیا کہ اندر کوئی ہے، دروازہ پر دستک دی، تو پاؤں کی چاپ سنی، میں نے کنڈی کھٹکھٹائی اور کہا کہ میں ہوں تاج الدین، اگر کوئی مسلمان ہے تو باہر آجائے۔عورت نے اندر سے آواز دی ماسٹر جی میں آئی۔ دروازہ کھلا تو ایک ادھیڑ عمر کی عورت جس کے بشرے سے پتا چلتا تھا کہ کسی اچھے گھرانے کی ہے، آموجود ہوئی وہ بھوکی بھی تھی اور پیاسی بھی۔ میں نے اسے بیٹھ جانے کو کہا، اور خفگی سے کہنا شروع کیا کہ:‘‘گاڑی کا ایک ڈبہ خالی گیا ہے اور تم دروازہ بند کیے اندر کیوں بیٹھی رہی ہو، اب تمھیں کون لے جائے گا۔’’عورت نے کہا کہ میرے پاس پندرہ ٹرنک ہیں اور ان میں قیمتی سامان ہے، مجھے کوئی شخص ایسا نہ ملا جو میرے سامان کو اٹھا کر مجھے سوار کرا دیتا۔میں نے کہا، بہن تم پاگل ہو، لوگوں کو اپنی تنہا جان لے جانا مشکل تھا، تمھارا اتنا اسباب کوئی کیونکر اٹھا کر سوارکراتا، تم اس سامان کی خاطر کیا جان دو گی؟ دیکھو باہر شور ہو رہا ہے، سکھوں کا ہجوم مکانوں پر قبضہ کر رہا ہے، لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں، بتاؤ اب کیا فیصلہ ہے چلتی ہو؟عورت نے لجاجت سے کہا اور میرا سامان؟میں نے کہا سامان کو پھینکو بھاڑ میں، تم خود چلتی ہو کہ نہیں؟اس نے سر ہلا دیا، میں ناراض ہو کر واپس ہوا، ابھی مکان سے باہر نہ نکلا تھا کہ اس عورت نے ٹھنڈا سانس لیا، میرے پاؤں رک گئے، کوئی غیر مرئی طاقت مجھے پیچھے کی طرف دھکیلنے لگی۔اتنے میں دو فوجی سپاہی آگئے، میں نے انھیں آواز دی آؤ بھائی ذرا ہاتھ بٹاؤ، اس شریف عورت کا سامان میرے دفتر تک پہنچاؤ، اس سامان کو فوجی سپاہی خدا ان کا بھلا کرے کتنے اچھے مسلمان تھے، فوراً اٹھانے لگے میں نے ساتھیوں کو بھی آواز دی، ہاتھوں ہاتھ سامان کو دفتر پہنچا دیا گیا اور پھر میں اس عورت کو اٹھا کر آہستہ آہستہ جائے قیام پر لایا، وہ ضعف سے بیکل ہو رہی تھی۔ چائے پکوائی ، کچھ ناشتہ کرایا تو اس کی جان میں جان آئی۔اب چار پانچ کی بجائے آٹھ دس ساتھی ہو گئے، کچھ ان کا سامان اور پندرہ بھاری ٹرنک اس عورت کے، مجھے ایک کی بجائے دو ٹرک کا بندوبست کرنا پڑا، بہرحال میرے ذمہ کوئی کام نہ تھا، میں تھا اور میرا وطن، جسے میں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

چیلنج

            میری طبیعت قدرے حساس ہے، میں نے محسوس کیا کہ جن اکالی سکھوں نے اڈیشنل پولیس کی معیت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرکے انھیں وطن عزیز سے جدا ہونے پر مجبور کیا ہے، میں انھیں چیلنج کرتا جاؤں۔ اسی خیال سے میں نے فوجی نگہبانوں سے بات کی اور انھیں آمادہ کیا کہ وہ مجھے تنہا چھوڑ دیں اور کچہری کے احاطہ تک جانے کی اجازت دیں، جہاں سکھ اکالی لیڈر روزانہ جمع ہوتے ہیں۔ بمشکل تمام چار فوجی سپاہی میرے ہم خیال ہو گئے، وہ مجھے مشروط اجازت دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ساتھ چلیں گے۔ آگے آپ چلے جائیے گا، ہم کچھ فاصلے پر کھڑے رہیں گے، اگر اکالیوں نے آپ پر حملہ کیا تو ہم بھی تیار رہیں گے۔میں نے انھیں سمجھایا کہ مجھے حملہ وغیرہ کی امید نہیں، میں انھیں خوب جانتا ہوں۔ جنھیں میں ملنا چاہتا تھا وہ سردار منگل سنگھ تھے، ہمارے ضلع کے سب سے بڑے اکالی لیڈر۔ میری ان کی ایک بار کوتوالی میں گفتگو بھی ہوئی تھی۔ اس وقت دوسرے درجہ کے اکالی تین کرسیوں پر بیٹھے سرگوشیوں میں مصروف تھے، میرے فوجی ساتھی احاطہ کے باہر رک گئے۔ میں جلدی جلدی قدم بڑھاتا ہوا ان کے سر پر جا پہنچا، میں نے آگے بڑھ کر کہا: ‘‘لو خالصہ جی میں پھر آگیا۔’’وہ بھونچکے ہو کر مجھے دیکھنے لگے ، اور ایک دم گھبرا گئے۔میں نے انھیں کہا کہ سنو ایک بات کہنے آیا ہوں، تمھیں اور تمھارے لیڈروں کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں ا س غلط فہمی کو نکالنے کے لیے چوبیس گھنٹے زائد ٹھہر گیا ہوں، میرے کیمپ کے تمام ساتھی روزانہ ہو چکے، اب میں تنہا ہوں اور دیکھو تمھارے سامنے کھڑا ہوں، فلاں مکان میں رین بسیرا ہے، اب توتمھیں کوئی ڈر نہیں، سب مسلمان چلے گئے، مجھے آج زبردستی نکال کر دکھاؤ، کل اپنی مرضی سے جاؤں گا۔گھبرائے ہوئے اکالی دانت کھول کر رہ گئے اور کھسیانے ہو کر کہنے لگے، اجی نہیں ماسٹر جی، ہم آپ کو جانتے ہیں، ہم بھلا آپ کو کچھ کہہ سکتے ہیں، ہمیں تو دکھ ہے، ہمارا تو دیس اجڑ گیا۔میں نے انھیں ہنستے ہوئے کہا، یہ باتیں حلق سے اوپر کی ہیں، جو کچھ دل میں تھا وہ تم کر چکے ہو، اور تم اس کا خمیازہ بھگتو گے، انتظار کرو، وہ دن دور نہیں ، دیکھو خالصہ جی ہم اپنی مرضی سے جاتے ہیں اور ان شاء اللہ اپنی مرضی سے آئیں گے، اس وقت تم نے جو نقشہ دیکھا ہے مستقبل اس سے بالکل مختلف ہو گا۔ میں نے کہا تم تو بت بن گئے ہو، کچھ بولتے بھی نہیں، لو میں جا رہا ہوں۔میں آہستہ آہستہ وہاں سے باہرآگیا، میرے فوجی ساتھی باہر میرا انتظار کر رہے تھے، ان کے ہمراہ اپنی قیام گاہ پر آگیا۔شام کے وقت مسلمان فوجی افسر آیا اور کہنے لگا کہ ہم جا رہے ہیں، ہمیں حکم ملا ہے کہ رات سے پہلے فوجی ہیڈ کوارٹر پر پہنچ جائیں، میں ان سے اٹھ کر ملا، اور انھیں شکریہ ادا کرتے ہوئے مکان کے باہر تک چھوڑ آیا۔اسی شام ڈپٹی کمشنر نے مجھے فون پر بلا بھیجا اور فرمانے لگے، فوجی پہرہ دار تو رخصت ہو گئے اب تمھاری حفاظت کون کرے گا۔میں نے کہا وہی خدا جو برستی گولیوں میں سے زندہ نکال لایا۔

            ڈپٹی کمشنر نہایت شریف آدمی تھا، تھوڑی دیر بعد رائفل اٹھائے پولیس کاہیڈ کانسٹیبل اور دو سپاہی آگئے، مجھے کہنے لگے صاحب کا حکم ہے، ہم یہاں پہرہ دیں فرمائیے کوئی حکم؟میں نے ان سے کہہ دیا کہ مجھے کوئی خطرہ نہیں، آپ کا دل چاہے تو تشریف رکھیے دل چاہے تو گھر تشریف لے جائیے، میرے لیے ایک برابر ہے۔ہیڈ کانسٹیبل تھا تو سکھ مگر آدمی شریف تھا، مجھے ایک رات اورٹھہرنا تھا اور دوسری صبح روانگی کا دن تھا۔ علی الصبح وہی سکھ میجر صاحب دو ٹرک لے کر آگئے، اور حکم ہوا کہ اسباب لادو اور فیروزپور کے راستے پاکستان چلے جاؤ۔ میں سڑک پر پہنچا اور میجر صاحب سے کہہ دیا کہ میں جی ٹی روڈ سے سیدھا لاہور جاؤں گا، میں فیروز پور کے راستے جانانہیں چاہتا، مجھے بریگیڈیئر صاحب نے کہا تھا کہ تمھیں سیدھا لاہور پہنچا دیا جائے گا۔میجر صاحب تو پہلے سے کافی مہربان تھے، غصہ میں فرمانے لگے، اچھا تو چلتے ہو کہ نہیں؟ میں نے کہا، نہیں۔میجر صاحب بگڑ کر فرمانے لگے، اب کوئی ٹرک نہیں ملے گا، نہیں جاتے تو نہ سہی، ڈرائیور واپس لے جاؤ ٹرک۔سخت غصہ میں میجر اپنی کار لے کر واپس ہو گیا۔ سڑک پر مسلمان فوجی کھڑے تھے، میجر کے چلے جانے کے بعد کہنے لگے، بڑا بے ڈھب آدمی ہے، اب آپ کیسے جائیں گے، بڑے افسر چلے گئے، اب یہی انچارج ہے۔میں نے کہا کوئی ہرج نہیں ، میرا اپنا شہر ہے یار لوگ تو یہیں دندنائیں گے، گھبرانے کی بات نہیں۔اتفاق کی بات ہے کہ میجر شرما جو ہمارے لیزان آفیسر تھے باہر دورہ پر چلے گئے، ڈپٹی کمشنر صاحب بھی ہیڈ کوارٹر میں موجود نہیں تھے۔ ایک دن اسی طرح گزر گیا، تیسرے دن ڈپٹی کمشنر نے مجھے بلا بھیجا، ایک فوجی آیا اور مجھے موٹر میں بٹھا کر ڈپٹی کمشنر کے بنگلہ پر لے گیا، میں نے ان سے کل کیفیت بیان کر دی، اور صاف صاف کہہ دیا کہ یہ میجر صاحب تو مجھے خراب کرنا چاہتے ہیں، میں ان کے جھانسے میں نہیں آ سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ فیروز پور کے راستے مجھے کیوں لے جانا چاہتے ہیں۔ڈپٹی کمشنر نے میری روانگی اپنے ذمہ لے لی، اور مجھے واپس بھیجتے ہوئے کہہ دیا کہ کل تیار رہیے میں دو ٹرک بھیجوں گا، رات کو دیر تک نیند نہ آئی۔ وطن چھوٹ رہا تھا، خدا جانے ہم کو دوبارہ دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ ان خیالات نے مضمحل کر دیا، صبح ہوئی پاس ہی ایک چھوٹی سی مسجد تھی میں نے وضو کیا اور مسجد میں اذان کہی، غم و اندوہ نے میرا گلا دبوچ لیا، آواز گلوگیر ہو گئی، مجھے مسجد بھی روتی ہوئی نظر آئی، بمشکل تمام اذان ختم ہوئی، مسجد کے مینارمسجد کے در و دیوار یوں معلوم ہوتا تھا انھیں قوتِ گویائی مل گئی ہے اور وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں، نماز پڑھی اور دعا مانگتے ہوئے سجدہ ریز ہو گیا، میں نے اپنے پروردگار سے گلہ شکوہ شروع کر دیا کہ اے مولا ہم یہاں پانچ وقت تیرا نام بلند کرتے تھے، اب تو یہاں کوئی بھی کلمہ گو نہیں رہ سکتا، تو نے یہ کیسے برداشت کرلیا۔ ہم سے اس قدر خفا کیوں ہے۔ معاً مجھے استغفار پڑھتے ہوئے اپنے ہی گریبان کی طرف جھانکنا پڑا سخت شرمندگی میں گڑ گڑا کر دعا مانگی، خدایا تو ہمیں معاف کردے، ہم بے حد گنہگار ہیں، اللہ بہتر جانتا ہے کہ میں کیا کہتا رہا اور کتنی دیر مسجد میں بیٹھا رہا، بادلِ ناخواستہ اٹھا، حسرت بھری نگاہوں سے مسجد کو دیکھا اور چپکے سے مسجد سے نکل کر قیام گاہ کی طرف چل پڑا، لوگ بیدار ہو رہے تھے، یہ میرے ہم مذہب نہ تھے، بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے۔میں مکان پر پہنچ گیا، سارجنٹ مجھے تلاش کر رہا تھا، مجھے دیکھا تو اسے اطمینان ہوامیں نے اپنے رفیقوں سے کہا، اسباب درست کر لو تھوڑی دیر میں ٹرک آجائیں گے، سڑک پرٹرکوں کی آواز آئی، میں ادھر پہنچ گیا، مسلمان فوجی جن سے میری جان پہچان تھی، ہمارے ہمراہ چلنے کے لیے آموجود ہوئے۔

روانگی

            میرے ساتھیوں نے اپنا اور اس عورت کا سامان ٹرکوں پر لادنا شروع کیا، سامان لد گیا، ساتھی سوار ہو گئے۔ دوسرے ٹرک میں خواجہ عبدالحمید جو میرے مخلص ساتھی تھے میرا انتظار کر رہے تھے، میں سڑک پر کھڑا تو تھا مگر میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نہ تھا، میری نگاہیں گشت کر رہی تھیں، میں اپنے وطن کے درودیوار دیکھ رہا تھا، وہ مجھے بلاتے تھے ، وطن کا ذرہ ذرہ مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا، ہوا کے جھونکوں سے درختوں کی ڈالیاں ہلتیں اور پتے تالیاں بجا کر مجھے متوجہ کر رہے تھے، مجھے کیا ہو گیا ،کیا میں پاگل ہو جاؤں گا۔اچانک مجھے خواجہ عبدالحمید نے آواز دی، خیالات کی دنیا اجڑ گئی، میں سڑک کے کنارے خاموش کھڑا تھا۔ آہستہ آہستہ ٹرک کی طرف آیا اور بادلِ ناخواستہ سوار ہوگیا فوجی ڈرائیور نے کہا مجھے ہیڈ کوارٹر سے راہ داری کا پاس لینا ہے، چلیے پہلے سول لائن چلیں۔ ٹرکوں کا رخ پھیر دیا گیا اور چند منٹ میں ہم سول لائن کے چوک میں تھے۔اس چوک سے ڈپٹی کمشنر کا بنگلہ بہت قریب تھا، میں ٹرک سے اتر کے مسٹر سہگل سے ملنے کے لیے ان کے بنگلہ پر پہنچ گیا، ساتھیوں کو کہا میرا انتظار کریں۔دو گھنٹے گزر گئے راہ داری نہ ملی اور نہ فوجی ڈرائیور واپس آئے، دل پر غم و اندوہ کا بوجھ تھا۔ خدا خدا کرکے راہ داری آئی، مجھ پر وہی کیفیت طاری تھی، میں چاہتا تھا کہ اس ماحول سے جلدی نکل جاؤں۔میں نے ڈرائیور سے کہا جلدی چلو، سب ساتھی سوار ہو گئے۔ ڈرائیور نے ٹرک کو سٹارٹ کیا، بھاری مشین تھی، ٹرک کی دھڑکن سے میرا دل بھی دھڑکنے لگا، مجھے اس وقت ان مظلوم مسلمان لڑکیوں کا خیال آیا جو ظالم اکالیوں کے قبضہ میں مصیبت کے دن گزار رہی تھیں۔ میرا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ میں نے اس درد کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں۔

            مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میر ے کانوں میں دردناک چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں، میں تصورات کی دنیا میں کھو گیا۔میں اس فریاد کو سمجھنے لگا یہ مسلمان لڑکیاں تھیں جو مجھے کہنے لگیں اے پاکستان کے راہی تم بھی جا رہے ہو، جاتے تو ہو ہمیں کس کے سپرد کرچلے ہو؟ دیکھو ہم اسلام کی بیٹیاں ہیں، ہماری آبرو لٹ رہی ہے، کیا تم رک نہیں سکتے؟ بہت اچھا تم بھی جاؤ، مگر ہمارا ایک پیغام لیتے جاؤ، ہمارے نوجوان بھائیوں سے کہنا تم زندہ ہو تمھیں خدا سلامت رکھے، کیا تم ہمیں بھلا بیٹھے ہو؟ کیا تمھاری غیرت رخصت ہو گئی، ایک مسلمان عورت کی فریاد پر خلیفہ وقت نے کراچی کے ساحل پر غازیوں کو بھیج دیا تھا۔ ہم ہزاروں کی تعداد میں موت کی گھڑیاں گزار رہی ہیں، ہمیں ظالموں کے پنجہ سے رہائی دلاؤ۔

            اچانک ٹرک نے جھٹکا کھایا، میری آنکھ خود بخود کھل گئی۔ میں ستلج کے پل پر تھا، اور ٹرک آہستہ آہستہ چل رہا تھا، دریا بہہ رہا تھا لہریں اٹھتیں اور گم ہو جاتی تھیں، میرے خیالات کی دنیا بھی انہی لہروں میں گم ہو گئی۔ میں نے سر اٹھا کر ستلج کے کنارے دیکھا جہاں ہم نے ان سینکڑوں شہیدوں کو دفنایا جنھیں اکالیوں نے تہ تیغ کیا تھا۔ کچھ فاصلہ پر مسلمانوں کے اجڑے ہوئے گاؤں تھے۔ ان دیہات پر اداسی چھا رہی تھی، ٹرک کی رفتار تیز ہو گئی۔ اب ہم پل کے دوسرے سرے پر تھے۔ اس پار جالندھر کا ضلع شروع ہوتا ہے، پانی کے کنارے پر سست پرواز بگلے اڑتے نظر آئے۔ میں نے اس سے پیشتر سینکڑوں مرتبہ ان بگلوں کو دیکھا ہے، مجھ پر کبھی کوئی اثر نہیں ہوا، ان کا ہل بگلوں میں کوئی خاص کشش بھی نہیں، مگر انسان ہر شے کا اپنی ذہنی کیفیت اور ماحول کے مطابق مشاہدہ کرتا ہے۔میں نے ان بگلوں کو ہوا میں سست رفتاری سے پرواز کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے اس طرح محسوس ہوا کہ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے پانی کے کنارے پر رہنے کے عادی ہیں، دریا ان کا بہترین مسکن ہے، کسی چیل یا باز نے ان پر حملہ کیا ہے اور بادل ناخواستہ انھیں کنارے سے دور ہٹنا پڑا ہے۔ یہ اڑ تو رہے ہیں مگر دریا کا کنارہ انھیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔شاید یہ پرندے بھی میری ہی طرح سفر کر رہے ہیں۔ یہ بے بسی اور بے دلی کی پرواز ہے تبھی تو پرواز میں سستی ہے، مجھے ان چھوٹے پرندوں پر ترس آ رہا تھا۔

            ٹرک کی رفتار اور تیز ہو گئی، وطن اور دور ہو گیا، ہم پھلور پہنچ گئے، یہاں فوجی سپاہیوں نے سگریٹ وغیرہ خریدے، تھوڑی دیر میں ہم جالندھر چھاؤنی پہنچ گئے۔مجھے مسٹر سہگل ڈپٹی کمشنر لدھیانہ نے کرنل عطا محمد کے نام ایک سفارشی خط دیا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو ٹرک میں چھوڑا اور خود اتر کر کرنل صاحب سے ملنے چلا گیا۔ کرنل عطا محمد بہت بھلے آدمی تھے مگر ان کے پہرہ دار نے میرے میلے کپڑے دیکھے تو کہہ دیا کہ وہ کسی سے باتیں کر رہے ہیں، تم پھر آنا، میں نے کہا میرے پاس ان کے نام ایک خط ہے، سپاہی نے کہا کہ خط بھی صبح لیتے آنا۔ میں نے کرنل صاحب سے ملنے کے لیے اصرار کیا، اس عرصہ میں کوئی فوجی افسر اندر سے باہر آگیا، پہرہ دار اٹنشن ہو گیا اور مجھے انگلی کے اشارے سے پرے ہٹ جانے کا حکم دیا، پرے ہٹنے کی بجائے میں نے آگے بڑھ کر اس افسر سے پوچھا:‘‘آپ کرنل عطا محمد صاحب ہیں؟’’‘‘نہیں، وہ تو اندر ہے، کیا بات ہے؟’میں نے بتایا کہ میرے پاس ان کے نام کا خط ہے، ڈپٹی کمشنر لدھیانہ نے مجھے یہ خط دے کر بھیجا ہے۔ یہ فوجی افسر جو سرحدی پٹھان تھا مجھے کرنل صاحب کے کمرے میں لے گیا، کرنل صاحب نے خط تولے لیا مگر میری طرف توجہ نہ کی۔ میں تھا بھی ایسی بری حالت میں کہ مجھ پر کوئی کیا توجہ کرتا، ہڈیوں کا ڈھانچہ ،کپڑے میلے، خوف و ملال کی تصویر میرے سامنے کرنل موصوف نے خط پڑھنا شروع کیا، پھر نظر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ مجھے کرسی پر بیٹھ جانے کو کہا، پھر خط پڑھنا شروع کیا، پھر حیرانی سے پوچھا، آپ کا نام تاج الدین ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں، پھر فرمایا سہگل صاحب میرے دوست ہیں۔ بہت اچھے آدمی ہیں، انھوں نے لکھا ہے کہ میں آپ کے لیے دو ٹرک مہیا کروں اور آپ کو سہولت سے لاہور پہنچا دوں، آج تو ایسا نہیں ہو سکے گا، اول تو کل ورنہ پرسوں ان شاء اللہ علی الصبح بندوبست ہو جائے گا۔

            کرنل صاحب نے اپنا اردلی میرے ہمراہ بھیج کر رہائش کا بندوبست کر دیا، دو تین دن کا راشن مسٹر سہگل نے ٹرک میں رکھوا دیا تھا، میرے ساتھیوں نے اسباب اتروا کر کمرے میں رکھ لیا، ہمیں دو کمرے مل گئے، صبح اٹھے تو خواجہ عبدالحمید نے مجھے بتایا کہ صوبیدار رنگین خاں اسی چھاؤنی میں ہماری بیرک کے بالکل قریب موجود ہیں اور تھوڑی دیر میں ہمیں ملنے کے لیے آ رہے ہیں۔رنگین خاں کیمبل پور کے فوجی پٹھان بہت ہی خوش خلق اور ملنسار آدمی ہیں۔ وہ لدھیانہ ریلوے اسٹیشن پر تعینات تھے، ان کے ہمراہ دو جمعدار اور تیس چالیس فوجی سپاہی تھے، اپنی ڈیوٹی کے علاوہ وہ ہمارے کیمپ کی ہر ممکن امداد پر کمر بستہ رہتے تھے۔ ہم آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ صوبیدار رنگین خاں ہنستے ہوئے میری طرف آئے اور بڑی گرمجوشی سے بغلگیر ہو کر کہنے لگے، آپ آگئے ماسٹر صاحب؟ کیمپ بخیریت ختم ہو گیا؟خدا کا شکر ہے! پھر وہ میری تعریف کرنے لگے، مجھے پکڑ کر اپنی بیرک کی طرف لے گئے، وہیں میں نے اور خواجہ عبدالحمید نے چائے پی، ناشتہ کیا، کافی دیر گپ بازی ہوتی رہی۔ دوسرے دن وہ میرے ہمراہ کرنل صاحب کے پاس گئے، کرنل صاحب نے پریشانی کے عالم میں معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کوئی ٹرک خالی نہیں، کل بڑی مشکل سے ایک ٹرک مل سکے گا۔میں نے کہا ایک ہی سہی، ہمارے پاس کچن کا کچھ سامان ہے، وہ ہم فوجی بھائیوں کو دیے دیتے ہیں، البتہ ایک عورت کا سامان ایسا ہے جسے بہرحال لاہور تک پہنچانا ازبس ضروری ہے۔کرنل صاحب خود ہی ہماری بیرک میں تشریف لائے اور سامان اور ساتھیوں کو دیکھ کر واپس چلے گئے، دوسرے دن علی الصبح ہمیں ٹرک مل گیا، راہ داری وغیرہ بننے اور نئے فوجیوں کو ٹرک کے ہمراہ بھیجنے میں کچھ دیر لگ گئی۔دوپہر بعد ہم جالندھر چھاؤنی سے روانہ ہوئے، واہگہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہم نئی دنیا میں ہیں، یہاں کوئی غیر مسلم نہ تھا۔ چاروں طرف سے تکبیر کے نعروں اور پاکستان زندہ باد کے غلغلوں سے فضا گونج رہی تھی۔ میں نے اپنے ہمراہیوں کی طرف دیکھا، مسرت اور انبساط کے جذبات انھیں بار بار سڑک کی طرف دیکھنے پر مجبور کر رہے تھے۔ شاید وہ سڑک پر پیدل چلنا چاہتے تھے۔ تین ماہ بعد انھیں اطمینان سے چلنے پھرنے کا موقع میسر آیا۔ ہم لاہور شہر کی حدود میں داخل ہوئے تو مغرب کی نماز ہو چکی تھی۔ دفتر احرار کے سامنے ٹرک کھڑا ہوا تو میں احباب کے ہجوم میں تھا۔میرے دوست خدا انھیں خوش رکھے حلقہ باندھ کر گرد پربیٹھ گئے۔ بعض کی آنکھوں میں محبت کے آنسو تھے۔

            آغا شورش نے کہا ماسٹر جی آپ بیتی لکھیے، میں نے کہا میں تو ختم ہو چکا ہوں، شورش مجھ سے کچھ نہ لکھا جائے گا۔ مجھے سب کچھ بھول جانے دو۔ اچھی اچھی باتیں کرو سناؤ بیٹی کیسی ہے؟ تم اچھے تو رہے۔ بھلا وہ شورش ہی کیا جو مان جاتا۔ آپ بیتی میں نے خود نہیں لکھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عزیز شورش نے تقاضا ہی ایسا سخت کیا کہ لکھے بغیر نہ چارہ تھا اور نہ چھٹکارا۔

٭٭٭