مکاتیب

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آرا و تاثرات

شمارہ : اکتوبر 2006

(۱)

 محترم جناب محمد صدیق بخاری صاحب !

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ سوئے حرم مستقل نظر نواز ہو رہا ہے جس کے لیے ممنون ہوں ۔ معیار اور تنوع ہر دواعتبار سے اس کے مشمولات قابل تحسین ہوتے ہیں البتہ زیر نظر شمارے (جلد ۳ شمارہ ۸،اگست ۰۶) میں ‘فکر ونظر’ کے شعبہ میں محمد عارف جان صاحب کا مضمون ‘‘پاکستان معاشرہ او رعورت کی حالت زار ’’ میری رائے میں اس قدر گمراہ کن ہے کہ اس کی اشاعت (آپ کے اختلافی / تنقیدی نوٹ کے باوجود ) انتہائی نامناسب تھی ۔ اگر شہد کے پیالے میں سے زہر ٹپکنے لگے تو وہ زہر شہد نہیں ہو جائے گا ۔ عین ممکن ہے کہ قاری آپ کا نوٹ نہ پڑھے اور پڑھے بھی تو جس شرح وبسط کے ساتھ مضمون ہے اس کی تردید بھی اسی تفصیل کی متقاضی تھی ۔ بہرحال میں نے اپنا تاثر بیان کر دیا ہے ۔

 یہودی مصنف کی تحریر چشم کشا ہے لیکن اسرائیلی استعمار کا علاج صرف وہ ہے جو ‘حماس’ اور ‘حزب اللہ’ کر رہے ہیں لیکن آپ غالبا حکمت عملی سے متفق نہیں اس لیے وقت کے اس اہم ترین موضوع پر آپ کا قلم خاموش ہے ۔

محترم غامدی صاحب کے دونوں متضاد جواب پڑھ کر بے ساختہ مصرعہ یاد آگیا ۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی ۔

 عنایت علی خان ۔ حیدر آباد

وضاحت ۔اگست کے شمارے میں متضاد جواب محترم قرضاوی صاحب کے ہیں نہ کہ غامدی صاحب کے (سوئے حرم)

(۲)

محترم بخاری صاحب

سلام مسنون: ماہنامہ سوئے حرم موصول ہوا شکریہ!

(شمارہ اگست ۰۶)ص نمبر 48 پر تصویر کے بارے میں جو مسئلہ بیان کیا گیا ہے ۔ اس سے بہت سی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں جس سے عوام اور خواص دونوں کے لیے فتوی کی رو سے گناہ سے دور رہنے کی گنجائش ہے ۔ ص نمبر 42 پر عبارت : ‘‘عبادات کے بعد انسان جس اصل امتحان میں ڈالا گیا ہے وہ اس کے اخلاقی وجود کا امتحان ہے ۔ آپ کے گھر میں ، رشتہ داروں سے ، کاروبار میں کیا معاملات ہیں ۔ آپ کتنے سچے ہیں ، کتنے دیانتدار ہیں ۔ فیصلہ اس پر ہونا ہے نہ کہ داڑھی کے سائز پر ۔ ’’ بلاشبہ یہ فیصلہ کن جملہ ہے ۔ اس سے انکار نہیں لیکن داڑھی سے انکار بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ داڑھی ایک حیثیت رکھتی ہے جس میں سنت رسول کی پابندی شرط ہے ۔ نہ کہ ہر داڑھی جو بطور فیشن اختیار کرنا معمول بن چکا ہے ۔ ص نمبر 41 پر سور کیوں حرام ہے ؟ کے بارے میں جو پس منظر بیان کیا گیا ہے اس کے مطالعہ سے بڑی روحانی راحت ہوئی ۔ ص نمبر 59 پر دینی جماعتوں کا سیاست کی قربان گاہ پر جو تجزیہ روزنامہ ڈان اور ساحل کے حوالہ میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس تجزیہ کے مطالعہ کے بعد کوئی عقل سلیم کاحامل فرد مذہبی ودینی جماعتوں کے چنگل میں نہیں آسکتا ۔ بہت موثر اور نتیجہ خیز تحریر ہے ۔ ص نمبر 64 پر اسرائیلی مظالم کی کہانی ، ایک یہودی کی زبانی : اس کہانی میں جن حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے اس سے کسے انکار ہے ۔ مگر کیا اسرائیلی مظالم کا سلسلہ کم ہو جائے گا ۔ ہر گز نہیں ۔ والسلام

 فضل احمد حبیبی ۔ گجرات

(۳)

محترم ومکرم جناب مدیر ‘‘سوئے حرم ’’ لاہو ر ۔ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الحمدللہ سوئے حرم کے مضامین اور سلسلے پڑھنے کے لائق ہوتے ہیں مجھے اس کا انتظار رہتا ہے اور واقعتا سوئے حرم اپنے طے شدہ مقاصد کے مطابق مضامین کا انتخاب کرتا ہے (امن ومحبت کا نقیب ، رواداری کا پیامبر ، فرقہ واریت سے بالاتر ، علمی تعلیمی ادبی اصلاحی دعوتی اور معاشرتی مجلہ ) لیکن کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوئے حرم کے مقاصد میں خدانخواستہ جماعت اسلامی کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے پلیٹ فارم کی فراہمی ہے ۔ (اللہ کرے ایسا نہ ہو ) ۔ میرے خدشے کی وجہ ڈاکٹر الیاس صاحب کا انٹرویو ہے جو پچھلے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا ۔ اس میں بعض سوالات کا انداز اور الفاظ بتاتے تھے کہ مدیر اعلی زبردستی جماعت اسلامی کا ذکر اس انداز سے لانا چاہتے ہیں کہ جس سے جماعت اسلامی سے نفرت کا اظہار ہو۔ آج پھر ماہ اگست کا سوئے حرم میر ے سامنے ہے ۔ اور اس میں ‘‘ماہنامہ ساحل ’’اپریل 2006 کا ایک مضمون کاپی کیا گیا ہے ۔ اس مضمون کے حوالے سے بہت سی چیزیں تو مضمون نگار سے تعلق رکھتی ہیں مثلا عنوان تو ‘‘دینی جماعتیں سیاست کی قربان گاہ پر ’’ رکھا ہے لیکن بات صرف جماعت اسلامی کی ہے اور اس میں انداز انتہائی کرخت اور عدوانہ اختیار کیاگیا ہے ، شائستہ انداز میں بھی یہ ساری بات ہوسکتی ہے ۔ (سارے اعتراضات کا جواب موجود ہے اور بعض کا شائع بھی ہو چکا ہے ) مثلا آپ الفاظ پر غور فرمائیں ۔ یہ مجرمانہ غفلت ہے ۔ سیاست، دینی غیرت اور دینی روایات پر غالب آگئی ۔ اہل دین کے یہ سیاسی اور غیر اخلاقی رویے دین کی تضحیک کا باعث بنتے ہیں ۔ غیر مسلم ، کفار ، مشرکین ، جدیدیت پسند دین کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جس قدر نقصان اہل دین اپنی نام نہاد حکمت عملی ، منافقت ، سیاست اور عارضی منفعت کی خاطر دین کی تصویر کو مسخ کر کے پہنچاتے ہیں ۔ دین کے نا م پر اپنی خواہشات نفسی کی تشریح وتوضیح اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین کام ہے ۔ ان دعووں کا تصور کر کے مذہبی سیاسی قیادت کی بے بصیرتی پر صدمہ ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ سنت نبوی اور سنت خلفا کو ترک کرنے کا الزام ۔ زیادہ سے زیادہ دنیاوی مفادات سمیٹنے کا الزام ۔ ذاتی مادی وسائل میں اضافے کا الزام ۔ دنیا پرست دنیا کا طالب ہونے کا الزام ، یہ اچھے رائٹر اور قلم کی حرمت کا پاس ولحاظ رکھنے والے صاحب فکر کا انداز نہیں ہو سکتا ۔

بہرحال سوئے حرم سے درخواست اتنی ہے کہ اگر مضامین کو کاپی ہی کرنا ہو تو دنیا میں شائع ہوئے مثبت اور انقلابی مضامین کی کوئی کمی نہیں ہے آخر آپ کی نظر انتخاب ایسے مضامین پر جا کر ہی کیوں ٹھہر جاتی ہے ؟ آپ کا غصہ تو شاید ٹھنڈا ہو جائے اور جذبات کو تسکین مل جائے لیکن کم از کم سوئے حرم کے بہتر Image اور مقصد سے مطابقت نہیں ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ سوئے حرم اس میدان میں ذاتی لڑائیاں لڑنے والے منفی مجلات میں ایک اضافہ ہر گز ثابت نہیں ہو گا ۔ دنیا اور خاص کر اسلامی دنیا کو بے شمار خالص علمی اور تحقیقی مسائل کا سامنا ہے ، ان میں رہنمائی کی تشنگی کو پورا فرمائیں ۔ والسلام

 محمد اقبال ۔ انگلینڈ

 وضاحت ، معذرت اور گزارش

محترم بھائی اقبال صاحب نے جن مضامین کے حوالے سے اپنے خدشات اور تحفظات کااظہار فرمایا ہے انہی مضامین کے حوالے سے سوئے حرم کو بعض تعریفی خطوط بھی موصول ہوئے ہیں لیکن انہیں شامل اشاعت کرنے سے اس لیے گریز کیا گیا ہے کہ سوئے حرم کی پالیسی میں صرف انہیں خطوط کوشایع کرنا شامل ہے جن میں کسی بھی حوالے سے(خواہ اشارۃ ًہی سہی) کوئی مثبت تنقیدموجودہو۔اس سے قبل کہ بھائی اقبال صاحب کے بعض خدشات پر اظہار رائے کیا جائے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کو پھر واضح کر دیا جائے کہ سوئے حرم کسی بھی فرد ، گروہ ، جماعت یامسلک کانمائند ہ ہر گز نہیں۔سوئے حرم ایک آزاد جریدہ ہے اور اسے کسی کا نمائند ہ کہنا لازم ہو تو البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پوریً مذہبی دنیا کا نمائند ہ ہے قطع نظر مسالک ،جماعتوں اور گروہوں کے ۔سوئے حرم کو ہر اس فرد اور ہر اس جماعت سے محبت ہے جس کی کسی بھی حوالے سے کوئی دینی شناخت ہو ، جو دین پرعمل پیرا ہو یاجوکہیں بھی اور کسی بھی حوالے سے دین کی سر بلندی کے لیے سرگرم عمل ہو۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سوئے حرم کو ان لوگوں سے نفرت ہے جو دین سے دور ہیں ۔ سوئے حرم ان کا بھی ہمدرد ہے اور پورے خلوص سے اس بات کاخواہاں ہے کہ کاش وہ بھی دین کی لذت اوراہمیت کو سمجھ پائیں،اورانہیں لوگوں کے حوالے سے بعض اوقات سوئے حرم ایسے مضامین کو بھی جگہ دیتا ہے جن پر یہ گمان گزرتاہے کہ یہ تو اصلاً دین ، دینی افراد یا دینی جماعتوں پراعتراض یا ان کی تحقیر ہے ۔ ان کی اشاعت سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ دینی افراد اور جماعتوں کی طرف سے ان کامدلل جواب موصول ہو تو اسے بھی شایع کیا جائے تا کہ مثبت مکالمے کاماحول پیداہواور غلط فہمیوں کے بادل چھٹیں۔لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم ایسی تحریر کی راہ ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

جماعت اسلامی بلا شبہ اس وقت دینی سیاسی جماعتوں میں ایک منفرد مقام کی حامل ہے اور اس جماعت کے بانی تو ایسی تاریخی شخصیت ہیں کہ آج کی دنیا میں ہر مسلم تحریک شعور ی یا غیر شعوری طور پر ان کے افکار سے متاثر ہے۔ہم صدق دل سے اس جماعت اور اس کے اکابرین کااحترام کرتے ہیں۔ ہم تو ہر مسلم جماعت سے حسن ظن رکھتے ہیں، جماعت تو بدرجہ اولی اس بات کی مستحق ہے کہ اس سے حسن ظن رکھا جائے ۔سوئے حرم میں کسی تحریر کی اشاعت سے اگر ایسا کوئی تاثر پیدا ہوا ہے تو ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں اور اپنے تمام قارئین کو یقین دلاتے ہیں کہ ایسا کوئی بات سہواً تو ہو سکتی ہے عمداً ہر گز نہیں اور سہو ، نسیان وخطا کا امکان تو بہر حال رہتا ہے۔ آخر ہم بھی انسا ن ہیں اور پھر انسان بھی وہ جو تن تنہا سارا کام سر انجام دے رہا ہو۔

جہاں تک ڈاکٹر الیا س صاحب کے انٹرویو کاتعلق ہے تو اس میں بعض سوالات اس نیت سے پوچھے گئے تھے کہ ڈاکٹر صاحب ان کی وضاحت کریں گے تو عوام میں موجود غلط فہمی دور ہوگی مگر ڈاکٹر صاحب ان کی کما حقہ وضاحت نہیں کرسکے ۔ اب جماعت کے کارکنوں کا حق تھا کہ وہ شایستہ اور مدلل تحریر ارسال کرتے تا کہ اسے بھی شایع کیاجاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔اسی طرح ساحل کے حوالے سے شایع ہونے والی تحریر پر بھی ہمیں یہی امید تھی کہ ہمیں بھر پور مضامین موصول ہو ں گے مگر پھر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ البتہ اقبال صاحب کے علاوہ اور بہت سے احباب نے بھی اپنے تاثرات سے آگاہ ضرور فرمایا بلکہ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ نے تو محض اس ایک تحریر کی اشاعت پر یہ تک ارشاد فرما دیا کہ سوئے حرم کا رخ سوئے حرم نہیں کسی اور طرف ہے۔کسی ایک جز کو لے کر کل کاانکار ، تحقیر اوراستخفاف ہمارا عمومی رویہ ہے اس لیے ہم اس محترم شخصیت کے حضور بھی خاموش رہے ۔ہم نے ہمیشہ اس بات کی دعوت دی ہے کہ سوئے حرم کے مندرجات سے کوئی بھی اختلاف ہو تو ہر گز خاموش نہ رہیے ہمیں اختلافی تحریر ارسال کیجیے ہم اسے بھی پورے احترام سے شایع کریں گے مگر ایسا ہوتا ہی نہیں۔سوئے حرم ایک تعلیمی مشن بھی ہے ۔ اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ تصویر کے دونوں رخ واضح ہو ں تا کہ قارئین خود فیصلہ کر سکیں۔سوئے حرم کا پالیسی بیان تو ہر شمارے میں موجود ہوتاہے جس میں یہ واضح لکھا ہے کہ ‘‘سوئے حرم میں کسی تحریر کی اشاعت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ادارہ اس سے متفق ہے ۔ کسی بھی مضمون ، نقطہ نظر ، خیال یا معلومات کی اشاعت کی وجہ کسی پہلو سے ان کاا ہم ہونا ہے تا ہم کسی بھی تحریر سے مدلل اور شایستہ اختلاف کو بھی جگہ دی جاتی ہے ۔’’

ہمیں اقبال بھائی کا جذبات کا احترام ہے ہم ان تمام قارئین سے ایک بار پھر معافی کے خواستگار ہیں جن کے جذبات کو اس مضمون کی اشاعت سے کوئی ٹھیس پہنچی ہو۔البتہ ہم امید یہی رکھتے ہیں کہ آیندہ بھی کسی بھی اختلاف کی صورت میں ،وہ مدلل تحریر ضرو ر ارسال فرمائیں گے۔

محمد صدیق بخاری