سید سلیمان ندویؒ اور خطبات اقبالؒ

مصنف : علامہ سید سلیمان ندویؒ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : ستمبر 2006

خطبات اقبال پر سید صاحب کے افادات اورنقد

حضرت اقبالؒ نے خطبات کے مباحث سے رجوع کر لیا تھا

             تشکیل جدید الہیات کی تحریر وتسوید کا کام علامہ اقبال نے ۱۹۲۲ء سے شروع کر دیا تھا ۔۱۹۳۰ء میں خطبات کتابی شکل میں شائع ہوئے ۔ تو علوم اسلامی کے منہاج کی روشنی میں انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔خطبات میں پیش کردہ افکا ر’نظریات اور فلسفے سے اقبال قلبی طور پر مطمئن نہ تھے ۔سید سلیمان ندوی سے ان کی خط و کتابت اسی ذہنی خلجان ’ فکری بحران ’اور روحانی عدم اطمینان کی نشان دہی کرتی ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی سے خط و کتابت ’مولاناماجد دریا آبادی کے اعتراضا ت پر علا مہ اقبال کا تکدر ’تحیر اورتذ بذب دیدنی تھا ۔علماکرام کے شبہات وسوالات کی روشنی میں اقبال تشکیل جدید الہیات اسلامی کے بیشتر مباحث سے رجوع کر چکے تھے۔ اقبال اور نذیر نیازی کی مراسلت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ علامہ اقبال خطبات پر نظر ثانی کر کے اسے دوبارہ لکھنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے انھیں نظرثانی کی مہلت نہ دی ۔سہیل عمر کی تحقیق بھی اس نقطہ نظر کی تائیدو توثیق کرتی ہے ۔

            ان تما م شواہد کے باوجود ابھی تک کوئی براہ راست شہادت میسر نہ تھی جس سے یہ ثابت ہو کہ اقبال نے فی الواقع خطبات کے مباحث سے رجوع کر لیا تھالیکن ڈاکٹر غلام محمد کے امالی سے سید سلیمان ندوی اور اقبال کے مابین گفتگو کا متن یہ شہادت دیتا ہے کہ اقبال خطبات کے مباحث سے رجوع کر چکے تھے۔ خطبات اقبال کے بارے میں سید سلیمان ندوی کا صرف ایک جملہ ملتا ہے کہ کاش’ اقبال’ خطبات شایع نہ کرتے لیکن اس اجمال کی تفصیل ابھی تک میسر نہ تھی ان امالی کے ذریعے پہلی مرتبہ خطبات اقبال کے ضمن میں سید سلیمان ندوی کے خدشات ’وسوسوں ’اندیشوں کا پہلا مفصل جائزہ (بحوالہ ماہنامہ ساحل) پیش خدمت ہے جو اقبالیات کے ماہرین کیلئے فکرو نظر کے نئے دریچے وا کرتا ہے۔ (مدیر)

            علما نے خطبات اقبال مرحوم کی شدید مخالفت کی، کفر کے فتوے بھی دیے گئے لیکن ہم اقبال مرحوم کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے تھے، علمانے کہا کہ خطبات پر نقد معارف میں آنا چاہیے۔ اس ہیچ مداں(سید سلیمان ندوی) نے صرف زبانی اتنا کہا کہ یہ لیکچر شائع نہ ہوتے تو اچھا ہوتا، اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ اقبال مرحوم کی شاعری نے اس ملت کو تازہ خون پہنچایا بلکہ اس ملت کے بچھڑے اور پچھڑے ہوئے قافلے کو کمک پہنچائی ۔جب شاعری پڑھتے ہیں تو ایک آتش فشاں ابلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ اقبال مرحوم کا دلِ دردمند ہے جو شعروں میں ملت کے زخموں کے لیے مرہم بن جاتا ہے۔ اقبال مرحوم کی شاعری اور نثر میں بڑا فرق ہے۔ ایک دل کا معاملہ ہے، دوسرا عقل کا۔

             اسلامی تاریخ و تہذیب میں عقل کا مقام دل ہے جب وہ دل کے مقام سے خطاب کرتے ہیں تو ان کے دل سے نکلی ہوئی آواز ملت اسلامیہ کے دل کی آواز بن جاتی ہے لیکن یہ ہی آواز جب مغرب سے متاثر ہو کر عقل کے ذریعے نثر میں آتی ہے تو ملت اسے مسترد کر دیتی ہے۔ علما نے ان کی شاعری کے بڑے حصے کو قبول کر لیا کہ یہ ٹھیک تھا جو حصہ غلط تھا وہ غلط ہے لیکن نثر کو قدیم اور جدید طبقات نے مسترد کر دیا۔ البتہ مجھے نظر آتا ہے کہ مستقبل میں مغرب فکرِ اقبال مرحوم اور خطبات کو اسلامی معاشروں کو جدید بنانے کے لیے مضبوط آلے کے طور پر استعمال کرے گا۔

            اقبال مرحوم اجتہاد مطلق کے موید تھے یعنی اس درجے کا اجتہاد جو ائمہ اربعہ کی سطح کا ہو یعنی مجتہد فقہ کی سطح سے بلند ہو کر براہِ راست قرآن و سنت سے استنباط کرے ۔یہ خواہش بہت عمدہ ہے لیکن کیا اس درجے کا اجتہاد کرنے کے لیے اس درجے کی شخصیت، وہی تقویٰ، وہی للّٰہیت، وہی زہد ضروری نہیں ہے؟ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اب اجتہاد مطلق کے لیے مغربی فکر وفلسفے جدید سائنس اور یونانی فکروفلسفے کو بخوبی جاننا بھی ضروری ہے۔ اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مجتہد یونانی ، جرمن، فرانسیسی، انگریزی زبانوں پر بھی عبور رکھتا ہو تا کہ کفر کی حقیقت اس کی اصل زبان میں پڑھ سکے۔ مجتہد کی یہ اضافی صفات عہد حاضر کے لیے ضروری ہیں لیکن اجہتاد کی بنیادی صفات وہی رہیں گی جو امام نوویؒ، بیضاویؒ، غزالیؒ، بزودیؒ، شاطبیؒ اور صاحب تفسیر احمد یہ تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔ اگر ایسا کوئی مجتہد پیدا ہوجائے تو وہ ضرور اجتہاد کرے ۔ لیکن ترکی کے کمال مصطفی اتاترک اور ترکی کی پارلیمنٹ جیسے کافرانہ ، ملحدانہ اداروں سے اجتہاد کی توقع کرنا اقبال مرحوم کی فاش غلطی تھی۔ اقبال مرحوم نے نثر اور شاعری کے اشارات میں ان مجتہدین عصر پر لطیف طنز کیا ہے جو علوم نقلیہ میں رسوخ اور رسوخ فی الدین کے بغیر اجتہاد کے علمبردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان کی مذمت کرتے ہوئے اقبال مرحوم خود اپنے مقام کا جائزہ نہیں لیتے۔ کیا وہ ان مباحث کو برپا کرنے کے اہل تھے؟ عربی زبان سے واقفیت کے بغیر اور علوم اسلامی میں رسوخ کے بغیر ایک ایسے منصب پر فائز ہونے کی کوشش جہاں سے وہ ملت اسلامیہ کی تشکیل نو کا فریضہ بھی سنبھال لیتے ہیں اور اجتہاد کا طریقہ کار بھی خود طے کرلیتے ہیں۔

            اجتہاد کی ضرورت سے انکار نہیں لیکن شرائط اجتہاد پر اصرار ہے۔ اجتہاد کرنے کے لیے کم از کم مطلوبہ قابلیت تو پیدا کیجیے اس کے بغیر صرف تمنا کا قدم اجتہاد کا راستہ آسان نہیں کر سکتا۔اجتہاد کی بحث میں اقبال مرحوم یہ نکتہ فراموش کرتے ہیں کہ اجتہاد تو نویں صدی ہجری تک کسی نہ کسی شکل میں ہورہا تھا، لیکن اجتہاد کے دور میں ہی تاتاریوں نے مسلمانوں پر غلبہ کیسے حاصل کر لیا نہ تو وہ کوئی نظریہ حیات رکھتے تھے نہ ان میں وہ حرکت تغیر ارتقا (Dynamism)تھا جو کسی تہذیب و تمدن کے غلبے کے لیے بنیاد کا کام کرتا ہے۔ پھر یہی غلبہ اچانک ختم ہوجاتا ہے اور مسلمان دوبارہ غالب آجاتے ہیں یہ تبدیلی کس اجتہادی قوت کے ذریعے پیدا ہوئی۔ یہاں تو تبدیلی کا عمل صرف دعوت کے ذریعے وقوع پذیر ہوا ہے۔ اگر مسلمان تاتاری غلبے سے اجتہاد کے بغیر نکل سکتے ہیں تو مغربی تہذیب کے غلبے سے نکلنے کے لیے صرف اور صرف اجتہاد پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ابن تیمیہؒ کی تحریک اجتہاد کی اہمیت اپنی جگہ، اس تحریک سے تاتاریوں کی شکست اور مسلمانوں کے غلبے کا کیا جواز مہیا کیا جاسکتا ہے؟ ابن تیمیہؒ کے کس اجتہاد سے تاتاریوں کو شکست ہوئی اور کس اجتہاد نے مسلمانوں کو غلبہ دیا۔

            قرآن کی آیتوں اور حدیثوں کو حرکت و ترقی کا مظہر قرار دینا بڑی عجیب بات ہے۔ یہ فکر تاریخ اسلام کے لیے اجنبی فکر ہے۔ اقبال مرحوم تقلید کے خلاف اٹھنے والی وہابی بابی تحریکوں کو اسلام کے دور جدید میں زندگی کے نئے سر چشموں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ لیکن اس سرچشموں نے عالم اسلام کی قسمت پر کیا اثر ڈالا۔ وہابی تحریک اجتہادی تحریک تھی؟ کیا یہ تحریک اجتہاد کے زور پر پھیلی؟ کیا اس تحریک کی مقبولیت اجتہادی روح کے باعث ہوئی یا اس تحریک نے جبر کے ذرائع پر انحصار نہیں کیا؟ تاریخ کا اس رخ سے جائزہ لیا جائے تو چونکا نے والے حقائق منظر عام پر آئیں گے۔ خلافت عثمانیہ کے خلاف انگریزی استعمار نے آل سعود کو کس طرح استعمال کیا ۔ یہ کیسی اجتہادی حرکت تھی جو طاقت اور جبر کی بنیاد پر اپنا دائرہ وسیع کر رہی تھی۔ اقبال مرحوم وہابی تحریک کے غلبہ کو اجتہاد کا غلبہ اور امت کے لیے نیک شگون تصور کرتے ہیں۔ یہ رویہ دراصل ان کی روحانیت کا نتیجہ ہے جو ملت اسلامیہ کا عروج چاہتی ہے۔ خواہ یہ عروج جبراً ہو جبکہ عروج جبر سے کیسے آسکتا ہے۔ صرف اجتہاد کے جو ش میں تحریکوں کی تعریف و توصیف یک طرفہ نظریہ ہے جو اقبال مرحوم جیسے مفکر کے شایان نہیں ہے۔ انتہا یہ ہے کہ وہ ترکی کی اصلاحات کو بھی اجتہاد کے احیا کی نئی شکلیں قرار دیتے ہیں۔ اور ان شکلوں کی بنیاد پریہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلامی ثقافت اپنی اصل میں حرکت پذیر ہے۔ آج اقبال مرحوم زندہ ہوتے تو اپنے ان مفروضوں کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے، ان کی نظر سے کمال اتاترک کے کمالات نہیں گزرے جب وہ آسمان کی طرف مکے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کو دکھاتا تھا۔ وہابی تحریک نے عصر حاضر کے تناظر میں کیا اجتہاد کیا ہے؟ ہم تو کم از کم اس سے لاعلم ہیں۔

            قدیم علما نے اجتہاد کے لیے جو شرائط طے کیں وہ اقبال مرحوم کو عصر حاضر کے فرد میں نظر نہ آئیں تو انہوں نے اجتماعی اجتہاد اسمبلی کے ذریعے کرنے کا اجتہاد فرمایا، جب شرائط اجتہاد فرد میں نہیں پائی گئیں تو اسمبلی میں کیسے اکھٹی ہو سکتی ہیں، سو صفر اکٹھے ہو کر ایک کیسے بن سکتے ہیں، اسمبلیوں کے انتخابات کا تماشہ ہندستان میں بہت دیکھا جا چکا۔ یہ اسمبلیاں کیسے اجتہاد کر سکتی ہیں، اسمبلی کے انتخابات کی بنیاد مساوات کے نظریے پر ہے، تمام انسان برابر ہیں۔ایک زمانہ تھا جب ہند میں صرف ٹیکس دینے والے ووٹ دے سکتے تھے، وہ زمانہ بھی ختم ہوگیا، ہم پاکستان کی اسمبلی کو اجتہاد کے قابل نہیں سمجھتے۔ اس کے اراکین کا دینی علوم سے کیا تعلق، ایک آدھ استثنا چھوڑ دیجیے۔ اب علامہ اقبال مرحوم اور ایک بقال کا ووٹ برابر ہے اور دونوں یکساں طور پر جمہوری عمل کے ذریعے اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں۔اب بقال، حمال، حجام اور موچی اجتہاد کریں گے، اقبال مرحوم کا یہ نقطہ نظر ان کی سطحیت کو واضح کر تا ہے، اس سطحیت کا احساس انہیں آہستہ آہستہ ہوتا گیا کیونکہ شروع میں خطبات پرعلی گڑھ میں بہت داد ملی اور ہندستان کے پڑھے لکھے جو مغرب سے مرعوب تھے، انہیں اقبال مرحوم کے ذریعے اسلام کی فصیل میں نقب لگانے کا زبردست طریقہ مل گیا تھا۔ لیکن جب گرد بیٹھ گئی تو حقیقت بھی کھل گئی۔ بعد میں اقبال مرحوم ہندستان کے ان پڑھے لکھوں سے بہت متنفر ہوئے اور ان سے مکمل مایوس ہوگئے بلکہ کہتے تھے کہ اگر میں آمر ہوتا تو ان کو ہلاک کر دیتا۔

            اقبال مرحوم مغرب کے Feminismسے شدید متاثر تھے۔ ایک مضمون میں(انہوں نے لکھا تھا کہ‘‘ تعدد ازواج اس عہد کی سیاسی اقتصادی ضرورتوں سے مشروط تھا اور فی زمانہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔( جو علما تعدد ازواج کی اجازت دیتے ہیں وہ امرائے قوم کو زنا کا شرعی بہانہ مہیا کرتے ہیں’’)یہ جسارت مغربی فکرو فلسفے کا نتیجہ اور علوم اسلامی سے عدم واقفیت کے باعث تھی لیکن آخر زمانے میں اقبال مرحوم نے مغرب کی فحاشی عریانی بے حیائی دیکھی تو مجھے لکھا تھا کہ اسلام کے تعدد ازواج کے اصول کی اصل حقیقت تو مجھ پر اب واضح ہوئی ہے۔ اگر شارع علیہ السلام ہوتا تو چار کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عقل اور اجتہاد جب اصول دین بن جائیں تو اسی قسم کی افراط و تفریط لازمی ہے۔ پہلے دوسری کے بھی قائل نہ تھے اب پانچویں کے بھی قائل ہوگئے۔ اسی لیے تقلید اجتہاد سے بہتر ہے اور اگر اجتہاد کرنا ہے تو ان تمام شرائط کا ہونا لازمی ہے جو علما نے بیان کی ہیں۔ بعد میں اقبال مرحوم نے عورتوں کے حدود کار، حجاب، تقسیم کار پر وہی موقف اختیار کر لیا تھا جس پر اجماع امت ہے۔

            فقہ اسلامی میں طلاق کے مسئلے کی تاریخی تحقیق سے بھی اقبال مرحوم گہری واقفیت نہ رکھتے تھے لہٰذا انہوں نے وکالت کے پیشے میں جب طلاق کے مقدمات کثرت سے دیکھے تو اس ضمن میں فقہی احکامات سے متنفر ہوگئے، احکام کی علت اور روح سمجھے بغیر محض چند واقعات و حادثات سے مضطرب ہو جانا دین کا مزاج نہیں ہے۔ عورت طلاق لیتی ہے ،مرد طلاق دیتا ہے۔ یہ فقہ کااصول نہیں قرآن کا حکم ہے۔ اقبال مرحوم کو اعتراض تھا کہ نکاح کے معاہدے میں دونوں فریقوں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں ۔ طلاق دینا حق نہیں ایک ضرورت ہے اور ایسی ضرورت جو انتہائی ناگزیر حالات میں زیر عمل آتی ہے۔ اقبال مرحوم حق اور ضرورت میں فرق نہیں کر سکے کیوں کہ اس باریک فرق کو سمجھنے کے لیے فقیہانہ نظر ضروری ہے۔ ایک بارانہوں نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ ہندستانی معاشرے میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ خصوصاً حنفی فقہ ولی کی شرط عائد کرتا ہے ۔ یہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔ میں نے سوال کیا کہ اس سوال پر تو ہم بعد میں بات کریں گے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو ولی کے بغیر نکاح کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے معاشرے میں لڑکوں کواپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت ہے یا نہیں، وہ چپ ہوگئے۔ میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ کی شادیاں کیا آپ کی مرضی سے ہوئیں ۔ وہ غمگین ہوگئے۔ میں نے عرض کیا جب اس عہد کا اتنا بڑا آدمی اپنی پسند سے شادی تو کیا طلاق بھی نہیں دے سکتا تو یہ کہنا کہ لڑکیوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہ دینا ظلم ہے، خلط مبحث ہے۔ مسئلہ لڑکی یا لڑکے کی پسند نا پسند کا نہیں۔ شادی انفرادی معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک اجتماعی عمل ہے اس کے نتیجے میں صرف ایک لڑکا لڑکی بندھن میں نہیں بندھتے بلکہ ایک خاندان دوسرے خاندان کا حصہ بنتا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کی سینکڑوں نئی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اگر لڑکی مرضی سے شادی کرے اور خاندان کی امان سے محروم ہوجائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ لڑکا اس سے ہمیشہ عمدہ برتاؤ کرے گا۔ پسند کی شادی کے جتنے بھی واقعات میرے علم میں ہیں ان میں سے اسی فیصد طلاق پر ختم ہوئے کیوں کہ لڑکی خاندان کی امان سے محروم ہوئی تو لڑکے کو اپنی مرضی چلانے کی آزادی مل گئی، اگر دونوں میں اختلاف ہوگیا تو لڑکی تنہا رہ گئی، ایسا بھی ہوا ہے کہ نہ لڑکی کے گھر والے راضی تھے نہ لڑکے کے گھر والے ، دونوں خاندان کی امان سے محروم ہوئے۔ حوادث کا شکار ہوئے، معاشی بدحالی میں مبتلا ہوئے یا معاشرتی طور پر تنہا ہوگئے اس مصیبت میں بعض جگہ دہری مصیبت یہ آئی کہ دونوں میں اختلافات ہوگئے، بچے برباد ہوئے، ان کا کوئی والی تھا نہ ولی ۔

             فقہاء دین کے احکامات باریک بینی سے اخذ کرتے ہیں عام آدمی ان کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ فتوے کی مصلحت فقیہہ سمجھ سکتا ہے عامی نہیں۔ اسلام میں رشتہ نکاح کو ہر حال میں برقرار رکھنا ضروری ہے۔ شوہر کی اطاعت کا حکم بلاوجہ نہیں دیاگیا ہے۔ احکام اور فتاویٰ کی مصلحتیں باریک بین نگاہیں سمجھ سکتی ہیں۔ فقہی احکامات بہت گہری مصلحتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ جنہیں مغربی ذہن اور مستشرقین کی تحقیق نہیں سمجھ سکتی۔

            جہاں تک پنجاب کے ان مقدمات کا تعلق ہے کہ خاوند ظالم ہے بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خاندانی نظام ختم ہوگیا ہے معاشرت تباہ ہوگئی ہے۔ یورپ کی طرح ہر شخص آزادہے جو چاہے کرتا پھرے ہمیں اپنی معاشرت اور اپنے خاندان کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ کہ شریعت اور فقہ کی اصلاح کی ۔ اصل معاملے تک پہنچے بغیر ہم فرع پر رک جاتے ہیں فقہ اسلامی پر اقبال مرحوم کی نظر بہت سطحی تھی۔

            اقبال مرحوم کو پنجاب میں ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کے مقدمات کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ بجائے اس کے کہ وہ پنجاب کی مقامی معاشرت، عادات، رسوم و رواج پر غورکرتے تا کہ اتنے بڑے پیمانے پر تنسیخ نکاح کے مقدمات کی توجیہہ کرسکتے۔ انہوں نے اسلامی فقہ اور حنفی فقہ میں خامیوں کی تلاش شروع کردی۔ وہ جزئیات کو لے کر کلیات اخذ کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔ اس کو ہم جدید اصطلاح میں سائنٹفک ذہن کہہ سکتے ہیں۔ اس سائنٹفک ذہن کا اطلاق سائنس پر کیا جاسکتا ہے فقہ میں اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ عالم اسلام کی آبادی تقریباً پچاس کروڑ ہے۔ شادی شدہ عورتوں کی تعداد بھی کم از کم دس کروڑ ہوگی۔ اگر دس کروڑ عورتوں میں سے پنجاب میں دوسو عورتوں نے ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کا راستہ دیکھا تو اس سے فقہ اسلامی کی کمزوری نہیں بلکہ پنجابی معاشرے کی خامیاں سامنے آتی ہیں جو مسلمان تو ہوگئے لیکن عہد جاہلیت کے رسوم و رواج کے دائرے سے نہیں نکل سکے۔ ہمارے یہاں نو مسلموں کی تربیت کا کوئی نظام نہیں رہا۔ لہٰذا ہماری معاشرت قدیم رسومات سے باہر نہیں نکل سکی۔ہندستان میں بھی کم و بیش یہ ہی صورت حال ہے۔ پنجاب میں خاص طور پر اپنی ذاتوں ، برادریوں پر فخر کیا جاتا ہے۔ جزو سے کل تشکیل دینے کا یہ مزاج اقبال مرحوم کے ہاں غالب ہے۔ جس سے بڑے مفاسد پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال مرحوم نے پنجاب کو عالم اسلام کے مساوی سمجھا اور پنجاب کے چند خاص علاقوں کی خاص برادریوں کے سماجی و معاشرتی رویوں کی کمزوریوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل فقہ اسلامی میں موجود نہ پا کرفقہ اسلامی کے ذخیرے کو مسترد کر دیا۔ نئے مسائل کے لیے استنباط کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ اسلامی احکامات اسلامی معاشرے، اسلامی تہذیب، اسلامی تمدن سے پیوستہ ہیں۔ آپ معاشرت، تہذیب، تمدن، غیر اسلامی رکھیں اور اس میں فقہ اسلامی پر عمل نا ممکن سمجھ کر فقہ کو مسترد کر دیں۔ یہ غلط رویہ ہے۔اس طرح کے لوگ عقل کو ذریعہ علم سمجھنے کے بجائے ماخذ علم سمجھتے ہیں اور عقل خود ان کی اپنی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اصلاً دین کا ماخذ ان کا ذہن ہوتا ہے، اسی سے وہ فیصلے کرتے ہیں ۔        

            مغرب سے مغلوبیت نے اقبال مرحوم کو یہ باطل خیال پیش کرنے پر مجبور کیا کہ اسلامی قانون کی روح جمہوری ہے۔ جمہور اور اجماع کی اصطلاحات سے یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ نئے مسائل پیش آنے پر جمہوری طریقے سے لوگوں کی رائے لے کر (ریفرنڈم وغیرہ) قانون وضع کر لیا جائے گا اور غالباً اسمبلی ان کی نظر میں اجماع اور جمہور کا متبادل تھا فقہ اسلامی میں جمہور سے کیا عوام الناس مراد ہیں۔ اقبال مرحوم اس اصول سے تو آگاہ ہوں گے ۔ لیکن اس کی تفہیم انہوں نے مغربی منہاج میں کی تو یہ گمراہی خود بخود پیدا ہوگئی اور اقبال مرحوم کے یہاں ایسی بے شمار گمراہیاں ملیں گی۔ اقبال مرحوم نے یہ اجتہاد بھی فرمایاکہ‘‘ اسلام کے اصولوں کی بنیاد مطلق آزادی اور مساوات پر قائم ہے۔ کسی کو دوسرے پر قانونی یا دینی برتری حاصل نہیں، سیاست اسلامی کا بنیادی اصول انتخاب ہے جو خلافت کو جمہوریت کی شکل دیتا ہے’’۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اس اصول کی صراحت کی گئی ہے۔ اقبال مرحوم کے یہ تمام اجتہادات مغربی فکروفلسفے کی پیداوار ہیں۔ ان اجتہادات سے اسلامی تاریخ و تہذیب کا دامن خالی ہے۔ جمہوریت خالص مغربی فکروفلسفے کی پیداوار ہے۔ لہٰذا اسے اسلامی تاریخ و تہذیب اور فقہ میں ڈھونڈنا درست نہیں ہے۔ جمہوری اداروں کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنا اسلام کی تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں ملوکیت کی مذمت اور جمہوریت کی مدحت کہاں ہے؟ انبیا کی اولاد ان کے بعد ملوک بنی تو ملوکیت قرآن سے ثابت ہے اسے قابل نفرت قرار دینے کی شرعی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ جمہور کو جمہوریت اور جمہوری عمل قرار دینا اسلامی فقہ سے ناواقفیت ہے۔ آزادی اور مساوات کو اسلام میں ڈھونڈنا اسلام سے ناواقفیت ہے۔ یہ تو مغرب کے مسائل ہیں، ہماری کونیات Cosmology میں ماں باپ کے برابر نہیں ہوسکتی۔بیٹا باپ کے برابر نہیں ہوسکتا۔ پیغمبر خدا کے برابر نہیں ہوسکتا۔ تابعی صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ عمرؓ ابوبکرؓ کے برابر نہیں ہوسکتے۔ عام صحابہ عشرہ مبشرہ اور سابقون الاولون کے برابر نہیں ہوسکتے۔ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والوں کے برابر نہیں ہوسکتے۔ متقی ، عابد، زاہد، فاسق فاجر کے برابر نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا مساوات کا اصول تو اسلام میں ممکن ہی نہیں۔ مساوات صرف ان معنوں میں ہے کہ سب اللہ کے عبد ہیں، خواہ وہ عابد ہوں یا زنا کار۔ لیکن اسلامی معاشرے میں زناکار کی گواہی قبول نہیں ہوگی اور اسے کوئی اہم منصب نہیں دیا جائے گا اور کوڑے مارے جائیں گے، رجم بھی کر دیا جائے گا اور جلاوطن بھی کیا جاسکتا ہے۔

            اسلام اور آزادی دو متضاد نظریات ہیں ۔ اسلام تو اللہ کی غلامی کا نام ہے۔ دنیا میں کوئی بھی آزاد نہیں۔ انسان یا تو اللہ کا غلام ہے یا شیطان کا ۔ لہٰذا آزادی کا فلسفہ تو خالص مغربی فلسفہ ہے۔

            خطبات میں اقبال کا اخلاص موجود ہے ، لیکن اخلاص علم کا متبادل نہیں ہوسکتا۔

            فقہا احناف پر اقبال مرحوم کے تبصرے اس قدر سطحی ہیں کہ انہیں پڑھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اقبال مرحوم کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مختلف متحارب مکاتب فکر اور گروہوں کے لوگوں سے خط وکتابت کرتے تھے اور اس خط و کتابت سے حاصل شدہ معلومات کے تبادلے سے کچھ مفروضات قائم کر کے اپنی ذہانت سے بعض غیر معمولی نتائج اخذ کرلیتے تھے۔ ان میں وہ علمی اہلیت نہیں تھی کہ ان نکات کی تائید و تصدیق متعلقہ کتب سے براہ راست کر سکتے ۔وہ علم کے بجائے تعقلی وجدان کے سہارے دین پر نقد کرتے تھے۔ ہر محقق و مفکر نے اپنے حساب سے اخذ شدہ ادھوری، جانبدارانہ معلومات انہیں مہیا کر دیں۔ انہی معلومات پر انہوں نے اسلامی علوم پر نقد فرمایا ہے۔

            دینی علوم سے کامل بے خبری اور اسلامی فقہ کے عظیم الشان ذخیرے اور علم التفسیر اور علم الحدیث کے اصولوں سے عدم واقفیت کے باعث اقبال مرحوم کے یہاں گمراہیوں کا ایک طویل سلسلہ در آتا ہے۔ معارف میں عموماً ان گمراہیوں پر سکوت کا ایک سبب یہ تھا کہ اقبال مرحوم کی ذات سے اور ان کے شاعرانہ کمالات سے ملت کو جو فائدہ پہنچ رہا ہے اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ مولانا ماجد تو اس معاملہ میں بہت غیرت مند تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال مرحوم کے کفر کے خلاف جو کچھ لاوا ان کے دل میں کے کتابی صورت میں ہے تحریر کر دیں ۔ لیکن ان کو قائل کرنا پڑا کہ صبر سے کام لیں۔ اقبال مرحوم ملت کا اثاثہ ہیں ۔ ان کی شاعری نے زخموں کی رفوگری کی۔ لہٰذا ملت سے اس کا روحانی سہارا چھن نہ پائے بلکہ انہیں آمادہ کیا کہ وہ تحریریں بھی شائع نہ کریں جو اقبال مرحوم نے نام جارحانہ لب و لہجے میں لکھی گئی تھیں۔ ماجد صاحب نے ان کے الحادو کفر کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیا تھا کہ وہ اس دریا کو پایاب نہ کریں ۔ ماجد صاحب اقبال مرحوم کے مداح تھے لہٰذا وہ قائل ہوئے۔ اقبال مرحوم کے انتقال کے بعد بھی ماجد صاحب نے احتیاط کو ملحوظ رکھا البتہ اپنے شذرات میں کبھی کبھی خطبات اقبال مرحوم کی گمراہیوں کے بارے میں دلچسپ اشارے کرتے رہتے ہیں۔ اگر ان اشاروں کو مرتب کر لیا جائے تو خطبات پر ماجد صاحب کا نقد سلیقے سے مرتب ہوسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی قاری نے ان سے استفسار کیا کہ کیا خطبات کا ترجمہ شائع ہورہا ہے، اب کیا ہوگاتو ماجد صاحب نے تیکھے انداز میں صدق میں جواب دیا تھا کہ اقبال مرحوم اور سر سید جب یورپ کے سامنے اسلام پیش کرتے ہیں تو ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی بات بھی زبان سے ایسی نہ نکل جائے جو یورپ کو ناگوار ہو۔ خطبات اگر ترجمہ ہوگئے تب بھی اس کے فروغ کا دائرہ بہت محدود رہے گا اوریہ فتنہ کبھی پھیل نہ سکے گا۔ مولانا دریا آبادی کا یہ اعتماد کتنا درست تھا؟ خطبات کو میں فتنہ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ اقبال مرحوم نے ان مباحث سے رجوع کر لیا تھا اور نظر ثانی کر رہے تھے انہیں اس کا موقع نہ ملا۔

            جہل تو ویسے ہی عذاب ہے لیکن اگر جہل مقدس ہو تو اس کی تباہ کاری بڑھ جاتی ہے۔ مسلم جدیدیت پسند اپنے جہل کو مقدس بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے یہ مسلم لبرل ازم سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ جدیدیت اور اسلام کا کیا تال میل؟ اس کے نتیجے میں جو مرکب وجود پذیر ہوتا ہے اسے دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ نمک اپنا ذائقہ کھوچکا ہے۔

            آخری خطبے Is religion Possible میں اقبال نے مذہبی زندگی کو عقیدے کی شعوری پابندی سے لے کر نفسیات تک کل تین مراحل میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ Faith

۲۔ Thought

۳۔ Discovery

            ان کے خیال میں آخری مرحلے میں فرد absoluteسے ہم آہنگ ہو کر اپنی شخصیت کی تکمیل کر تا ہے۔ اور شریعت کو شعور کی گہرائیوں میں محسوس کر تا ہے۔ سترہویں صدی سے پہلے سائیکالوجی کا کوئی وجود نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سترھویں صدی سے پہلے جو لوگ گزر گئے وہ مذہبی زندگی کے اس تیسرے مرحلے سے محروم رہے۔ ان کی شخصیت نامکمل رہی۔ بلکہ عہدِرِسالت کے صحابہ کرام بھی کیونکہ وہ سائیکالوجی سے واقف نہ تھے۔ LOGOS اور MYTHکی فلسفیانہ بحثیں قدیم ہیں۔ ان بحثوں کو جانتے ہوئے بھی LOGOS سے نکلنے والی LOGYکے منہاج پر علوم اسلامی کو پرکھنا اور مذہبی زندگی کی بنیادرکھنا مغربیت کے سوا اور کیا ہے؟ اقبال پیغمبر کو سائیکو پیتھ کہنے والے مغربی مفکرین پر نقد کیے بغیر ان کے تصور کو قبول کرلیتے ہیں یہ بڑی گمراہی کی بات ہے۔

            شعور، لاشعور، ضمیر کا اطمینان یہ سب مغربی فکر و فلسفے کے مخمصے ہیں۔ نیچر پرستی کے نتیجے میں ادراک الٰہی یعنی مشاہدہ حق کی گفتگو ہی اصل دین بن جاتی ہے۔ جس سے اعمال، عبادات، اطاعت، احسان ، تقویٰ، ایمان، اسلام کی صفات، رخصت ہوجاتی ہیں اور صرف ادارک الٰہی ہی اصل دین ٹھہرتا ہے جو تفکر و تدبر سے اور فکر و شعور کی خاص حالت سے برآمد ہوتا ہے۔ اسی لیے منکرین حدیث تمام زور تدبر و تفکر پر دیتے ہیں ۔ وہ نماز ترک کر دیں گے ، باجماعت نماز سے دانستہ گریز کریں گے اور اوقات نمازمیں تدبر و تفکر قرآنی کو عین دین اور اصل عبادت سمجھیں گے۔ نماز کو محض رسم قرار دیں گے۔ اقبال کا ادراک حقیقت مطلقہ کا فلسفہ اسی مغربی منہاج علم، شک، تحقیق، تجسس، جستجو سے نکلتا ہے جس کا مقصد صرف دریافت حقیقت ہے اطاعت نہیں۔ اس لیے آج تک کسی مغربی سائنس دان نے حقیقت مطلقہ کو مظاہرو آثار کائنات کے ذریعے پہچان لینے کے باوجود عبودیت سرافندگی اطاعت کو اختیار نہیں کیا، کیونکہ اصل عبادت تو ادراک ہے وہ منزل آگئی تو عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ تمام مغربیت پسند، اسی فلسفے کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ قرآن وسنت اور آثار صحابہ سے جو چیز متفق علیہ ہے کہ مذہبی زندگی اطاعت کے منہاج پر منحصر ہے۔ اس زندگی کو اسلامی اصطلاحات یقین، علم ، تقویٰ، احسان، محسن، متقی، مومن، مسلم کی صفات میں تو بیان کیا جاسکتا ہے لیکن اسلامی زندگی کے لیے مغربی الحادی اصطلاحات کا استعمال مغرب سے مرعوبیت اور مغرب کو مذہب پر فائق سمجھنے کے سوا کچھ نہیں۔

                      اقبال مذہب کے امکان کے معاملے کو اعلیٰ ترین روحانی تجربے سے مشروط کرتے ہیں، عقیدے سے عمل اور پھر اعلیٰ ترین روحانی تجربے کے سہ رکنی درجات کی تقسیم، علوم اسلامی کی تاریخ کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ عبادت کا مقصد کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اس بارے میں قرآن و سنت آثار ِ صحابہ ہماری مکمل رہنمائی فرماتے ہیں۔ لیکن اقبال کے خیال میں یہ رہنمائی جدید انسان کے لیے کارآمد نہیں۔ لہٰذا اس خطبے میں رہنمائی کا ایک ایسا تصور پیش کیا جاتا ہے جو علوم اسلامی میں قابل قبول نہیں۔ اقبال نے اس خطبے کے مباحث میں اپنی تقسیم کو مرکزی کردار عطا کیا ہے لیکن تقویٰ، یقین، احسان وغیرہ کی اسلامی اصطلاحات سے کامل بے اعتنائی برتی ہے۔ حیات روحانی کی معراج کیا ہے؟ ایک مومن ایمان کے درجہ کامل پر کب فائز ہوتا ہے۔ جب وہ احسان کے درجے میں ہوتا ہے یا جب وہ فکر و شعور کی اس خاص حالت میں ہوتا ہے کہ اسے absolute reality کا فہم ادراک حاصل ہوجائے اور ذہن کی گہرائیوں سے وہ قانون کی اصل تک رسائی حاصل کرے۔ کیا روحانی زندگی کا حاصل Egoیا Self کی بازیافت ہے؟ کیا ادراک خداوندی کے مرحلے میں داخل ہوتے ہی نفس اپنے کمالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس کی حقیقت اس پر آشکار ہوسکتی ہے۔ اور کیا وہ اس مرحلے میں خودی کی پرورش کا مکلف ہوجاتا ہے؟ اقبال نے یہ تمام مراحل بیان کیے ہیں جو محض مفروضات ہیں ، جن کی کوئی بنیاد نہ دین میں ہے نہ کفر کے فلسفے میں نہ سائنس میں نہ نفسیات میں۔ یہ اقبال کے نفسیاتی وساوس ہیں۔ قلب ماہیت کا عمل ایمان، عقیدہ، تقویٰ سے احسان تک مرحلہ بہ مرحلہ طے ہوتا ہے یا یہ سفر نفسیات کے کفرسے طے کیا جاسکتا ہے۔ اقبال نفسیات کی حدود سے واقف ہیں اس پر نقد بھی کرتے ہیں لیکن اس میں امکانات کی لا محدود صورتیں بھی دیکھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اقبال کے یہاں ایمان کامل کی آخری منزل نفسیات کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔

            کیا اقبال کے یہاں تصوف اور سائیکالوجی ایک ہے یا سائیکالوجی روحانیت کا اعلی ترین علم ہے۔مابعد الطبیعات کو نفسیات سے بدل دینا ذہنی افلاس کی انتہا ہے۔ مغرب نے یہی کیا ہے۔ مابعد الطبیعاتی مسائل فلسفے سے خارج ہورہے ہیں۔

کیا اسلام جمہوری مذہب ہے؟

اقبال مرحوم لکھتے ہیں کہ جمہوریت کا اصل ماخذ تو اسلام اور عہد خلافت راشدہ ہے۔ جمہوریت کی بنیادیں اس زریں عہد میں تھیں۔ امیہ اور عباسی اس میں رکاوٹ بن گئے، اب مغرب میں جمہوریت، پارلیمنٹ کا ظہور ہماری ہی روایت کا ظہور ہے۔ لہٰذا جمہوریت کا خالق مغرب نہیں اسلام ہے یہ بھی بے بنیاد دعویٰ ہے۔

            جمہوریت اور جمہوری عمل کا اسلام سے کیا تعلق اور خلافت اسلامی سے کیا تعلق؟ موجودہ جمہوریت تو سترہویں صدی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ یونان کی جمہوریت بھی موجودہ جمہوریت سے الگ تھی لہٰذا اسلامی جمہوریت ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ شورائیت کہہ سکتے ہیں، قرآن بتاتا ہے کہ فرعون کی بھی شوریٰ تھی اور ملکہ سبا کی بھی شوریٰ تھی۔ جب حضرت سلیمان ؑ کا خط ملا تو سبا نے اپنی شوریٰ سے مشورہ کیا جب حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کو للکارا تو اس نے بھی اپنی شوریٰ سے مشورہ کیا اور اس کی شوریٰ کے ایک رکن نے حضرت موسیٰ ؑ کے حق میں بہت کلمات خیر کہے اور فرعون کو انتباہ کیا۔ شورائیت، نظام استبداد اور آمریت میں بھی رہتی ہے، ملوکیت میں بھی ہوتی ہے اور خلافت میں بھی ملتی ہے۔ مغرب کا یہ تصور کہ ملوکیت، خلافت ، آمریت میں کوئی مشورہ نہیں کیا جاتاتھا۔ فرد واحد حکومت کرتا تھا، محض فریب نظر ہے، اصل اقتدار تو ان لوگوں کے پاس ہوتا ہے جو پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہوتے، یہ اقتدار نوکر شاہی کے پاس ہے۔ تمام قوانین وہی تیار کرتے ہیں، جمہوری نمائندے ان پر صرف دستخط کرتے ہیں اکثر تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس مسودے پر دستخط کر رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ اسلام اور خلافت کا نظام خالصتاً جمہوری ہے۔ تاریخ اسلام کے لیے اجنبی تصور ہے۔

             حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کا اعلان پہلے کیا گیا بیعت بعد میں ہوئی۔ خلیفہ تو انہیں مقرر کر دیاگیا ۔ اس تقرری کا فیصلہ عوام نے نہیں ارباب حل و عقد نے کیا۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا یہ منتخب ہوئے تھے؟ کیا رسول اللہﷺ نے انہیں خلافت کے فیصلے کا اختیار دیا تھا۔ عہد رسالت میں یہی لوگ رسالت مآبؐ کے قریب تھے۔ لہٰذا یہی فطری قائدین تھے ۔ ان کو جمہور سے توثیق و تصدیق کی ضرورت نہ تھی۔ ان کی حیثیت مسلمہ تھی جس طرح اہل عرب اپنی اولاد کو پہنچانتے تھے، اسی طرح ان لوگوں کی اہمیت، حیثیت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ہر کہ و مہ کو خلافت کے فیصلے میں نہ شریک کیا جاسکتا تھا نہ شریک کرنے کی ضرورت تھی۔ اتنے اہم منصب کا فیصلہ ارباب حل و عقد کریں گے یا ہر ایک سے پوچھا جائے گا۔ قرآن کریم اس معاملے میں واضح ہدایات دیتا ہے جس سے جمہوریت کے فلسفہ عوام کی نفی ہوتی ہے۔ قرآن حبل اللہ کے مقابلے پر حبل الناس کی اصلاح استعمال کرتا ہے اور یہودیوں کے ذکر میں اس اصطلاح کا خاص محل ہے کہ یہ ہمیشہ حبل الناس کے ذریعے سامان زندگی مہیا کریں گے اور قیامت تک سہارے کے بغیر دنیا میں کبھی قیام نہ کر سکیں گے۔ خلافت عام آدمی کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے اپنی زندگی میں حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر دیا تھا۔ اس کا جمہوریت سے کیا تعلق تھا؟ یہ تو نعوذ باللہ آمریت تھی۔ حضر ت عمرؓ نے خلافت کے لیے ایک مجلس قائم کر دی ۔ یعنی امت میں سے صرف چند لوگوں کے لیے خلافت کو مخصوص کر دیا۔ اور اس کے انتخاب کی بھی ذمہ داری محدود کر دی۔ یہ کیا جمہوریت تھی۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو جمہوریت کا اس میں کیا عمل دخل تھا؟ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ میں خون عثمانؓ پر اختلافات ہوئے ۔ نوبت جنگ تک آگئی تو مسئلہ جمہوریت سے حل نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں اصحاب کرام نے حکم مقرر فرمائے اور ان کو فیصلے کا اختیار دیا۔ اتنے بڑے مسئلے کا حل صرف دو افراد کے سپرد کردیاگیاکہ یہ دونوں جو کچھ طے کر دیں وہ فریقین کے لیے واجب التعمیل ہوگا۔ اتنے اہم مسئلے میں عوام سے کوئی رائے لی گئی؟ خوارج اسی بنیاد پر تو الگ ہوئے کہ حکم کی تقرری غیر قرآنی ہے پھر قرآن کے ان دعوے داروں نے جو کچھ کیا تاریخ کے اوراق خون سے تر بہ تر ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے لشکر اسامہ روانہ کیا، سب کو اختلاف تھا آپ نے کسی اختلاف کو اہمیت نہ دی۔ فرمایا رسول اللہﷺ کا حکم ہے موخر نہیں ہوسکتا اور خالد بن ولید کی موجودگی میں اسامہ کو سردار لشکر برقرار رکھنے میں کوئی تردد محسوس نہ کیا کہ حکم رسول یہی ہے۔ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کے مسئلے میں تمام صحابہ کی رائے مختلف تھی لیکن حضرت ابو بکرؓ اپنی رائے پر قائم رہے۔ یہ کونسی جمہوریت تھی، ہمیں تو اسلام میں کہیں مغربی جمہوریت نظر نہیں آئی، اور اسلامی جمہوریت تو کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ معلوم نہیں اقبال مرحوم کو اسلام کی روح میں یہ جمہوریت کہاں نظر آگئی۔ حضرت علیؓ کے وصال کے بعد حضرت حسنؓ کوخلیفہ مقرر کیا گیا۔ اس کا فیصلہ کس جمہوریت سے ہوا؟ حضرت حسنؓ حضرت معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے اور فرمایا کہ اگر خلافت معاویہؓ کا حق تھا تو انہیں مل گیا اور اگر میرا حق تھا تو میں اس سے دستبردار ہوگیا۔اس سال کو امت کی تاریخ میں عام الجمع کا سال کہا جاتا ہے۔ جب امت پھر مجتمع ہوگئی تو امت کو حضرت حسنؓ نے مجتمع کیا یا جمہوریت ریفرنڈم ووٹ کے ذریعے یہ اجماع ہوا؟ طالوت کا انتخاب جمہوریت سے تو نہیں ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے داماد حضرت داؤد ؑ بادشاہ بنے۔ ان کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے سلیمانؑ ملک بنے، پھر ان کے صاحبزادے ہوئے۔ قرآن نے طالوت کو ملک کہا، ذوالقرنین کو ملک کہا، کہیں ملوکیت کی مذمت نہ کی۔ بنی اسرائیل کے لیے سورہ مائدہ میں فرمایا کہ ہم نے تم میں ملوک بھی پیدا کیے اور انبیا بھی…… دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن اسلام ملوکیت کے خلاف ہے اور جمہوریت کے حق میں ہے باطل خیال ہے۔ اگر اقبال مرحوم کے جمہوری فلسفے کو مان لیا جائے تو قرآن کریم اور خلافت اسلامیہ کے طرز انتخاب کا انکار کر نا پڑے گا اور اسے غیر جمہوری قرار دینا ہوگا پھر اس بات پر بھی شرمندگی ہوگی کہ دو خلفائے راشدینؓ رسول اللہ ؐ کے داماد تھے اور دو خلفائے راشدینؓ سسر تھے اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سسر کے نواسے تھے ۔ کیا دنیا اس طریقہ کار کو جمہوری مان لے گی۔ مغرب کو خوش کرنے کے لیے جمہوریت کو اسلام سے برآمد کرنے کی کوشش معذرت خواہانہ جدیدیت ہے۔ اقبال مرحوم اسلامی اصطلاح جمہور اور جمہوریت میں فرق نہیں کر سکے۔ ان کا یہ موقف کہ اسلام میں تصور خلافت جمہوریت کی شکل ہے درست نہیں ہے۔ جمہوریت ایک خاص تہذیب و تاریخ کا ثمر ہے۔ اسے اسلامی تاریخ میں ڈھونڈنا معذرت خواہی ہے۔ اگر فی الحقیقت ایسا تھا تو قرآن میں ملوکیت کا تصور اور خلافت راشدہ کے نظائر اقبال مرحوم کے اس موقف کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ اگر اسلام میں جمہوریت تھی تو پارلیمنٹ کیوں نہ تھی؟ اگر پارلیمنٹ عین اسلام ، اجماع کا ادارہ اور اسلام کی فطری روح کے عین مطابق ہے تو عہد رسالت، خلافت راشدہ، قرآن کریم اور انبیا کے معاشرے اس ادارے کے وجود سے ہمیں آگاہ کیوں نہیں کرتے۔ اتنے اہم اسلامی ادارے کا اسلامی تاریخ میں کوئی وجود نہیں ملتا۔ بلکہ دنیا کی تاریخ اس وجود سے خالی ہے۔ اب سترہویں صدی کی خاص تاریخ سے نکلنے والی پارلیمنٹ ہی درست ہے باقی سب غلط ہے، یہ طرز فکر دوسرے لفظوں میں اسلام کی تاریخ اور انبیا کی تاریخ کا انکار ہے۔

                        اقبال مرحوم صاف لفظوں میں کہتے تھے کہ صرف چار مکاتب فکر کے اجماع کے تصور کو ختم کر کے اس تصور کو وسیع کر دیا جائے۔ صرف اقبال کے کہنے سے مکاتب فکر ختم نہیں ہوسکتے۔ اس امت میں بے شمار مکاتب فکر تھے، سب ختم ہوگئے،صرف چار رہ گئے۔ غیر فطری طریقے سے جو مکاتب ابھرے وہ فطری طریقے سے ختم ہوگئے۔ خطبات لکھنے اور تقریر کرنے سے نہ کوئی مکتب فکر وجود میں آتا ہے نہ ختم ہوتا ہے۔

            جمہوریت خواہش نفس کا نام ہے کہ آپ کسے ووٹ دینا چاہتے ہیں، اس کے لیے کوئی شرط نہیں ہر شخص ووٹ دینے کا اہل ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ قرآن وسنت اس کافرانہ تصور کی صریحاً نفی کرتے ہیں۔ جاہل اور عالم، متقی اور فاسق، مشرکین منافقین، منحرفین مختلف طبقات ہیں۔ یہ تقسیم صرف عالم آخرت کے لیے نہیں اس دنیا کے لیے بھی ہے۔ اسلامی ریاست کا سربراہ جاہل شخص نہیں بن سکتا نہ فاسق و فاجر کو امارت مل سکتی ہے کیونکہ فسق و فجور کا خاتمہ ریاست کا بنیادی وظیفہ ہے جب کہ جمہوریت میں کوئی تحدید نہیں ہے۔ اقبال مرحوم نے خلافت کے خاتمے اور ترکی میں لادینی جمہوری حکومت کے آغاز کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعبیر کیا اور اپنے مقالے اجتہاد میں اسے مسلمانوں کی اجتہادی قوت کے نمونے کے طور پر پیش کیا، لیکن یہ اجتہاد جو آغاز میں بھی محض الحاد تھا ، آخر کار الحاد کے سوا کیا نکلا۔ اسلام میں ایسے کسی اجتہاد کی گنجائش نہیں جو بنیادی اصولوں کے بجائے محض نیک خواہشات کے لیے کیا جائے۔ حکومت کی جمہوری شکل کو عین اسلامی قرار دینے کی بات بھی اقبال مرحوم کے مغرب سے متاثر ہونے کی صراحت کرتی ہے۔ اجماع کو پارلیمنٹ کا متبادل سمجھنا اقبال مرحوم کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس خیال سے رجوع کرتے۔

            اقبال مرحوم اپنی فکر کا رشتہ شاہ صاحب کے ساتھ ساتھ سر سید سے بھی قائم کرتے ہیں۔ جب کہ سر سید قرآن کو کلام اللہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے۔ سرسید اور مولوی چراغ علی کی خط و کتابت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ جو شخص قرآن کو کلام اللہ ہی تسلیم نہیں کرتا اس سے اقبال مرحوم کا متاثر ہونا عجیب بات ہے۔ غالباً اقبال مرحوم نے سر سیدکے افکار کا غائر اور تنقیدی مطالعہ نہیں کیا ورنہ اقبال مرحوم جیسے مومن سے اس غلطی کا صدور محال تھا۔

            اقبال مرحوم نے آیات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر مطالب اخذ کیے ہیں۔ ان مطالب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مرحوم کا فہم قرآن نہایت ناقص تھا وہ قرآن کی تشریح و تفہیم پر قادر نہ تھے اور قرآنی الفاظ کا درست مفہوم نہیں سمجھ سکتے تھے۔ کیونکہ ان کی عربی استعداد برائے نام تھی۔ اگر کوئی مفسر یا محقق خطبات کی تمام آیات کو سامنے رکھ کر ان کا تنقیدی جائزہ لے تو ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ اسلام کی تشکیل جدید کا دعویٰ کرنے والے اگر قرآن سے ہی واقف نہیں تو انہیں تشکیل کا کیا حق پہنچتا ہے۔ اپنے نظریہ زمان و مکان کے لیے اقبال مرحوم نے قرآنی آیات سے غلط استدلال کیاہے۔ اقبال مرحوم باطنی تجربے، روحانی وجدان کے ذریعے خدا کے براہِ راست مشاہدے و تجربے کو یقینی قرار دیتے ہیں جب کہ یہ نقطہ نظر گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انسان کے لیے روح کا ادراک ممکن نہیں تو وہ absolute ego کا دیدار کسی بھی ذریعے سے کیسے کر سکتا ہے؟ ایسا ممکن ہوتا تو کیا حضرت موسیٰ دیدارِ خداوندی سے محروم رہتے؟ افسوس یہ کہ دیدارِ الٰہی کی پیغمبرانہ خواہش تو ممکن نہ تھی مگر اقبال مرحوم اپنے فلسفے سے اس کو ممکن بنادیتے ہیں۔ انسان کو اللہ کی صفات کا علم حاصل ہوسکتا ہے یا اس کی ذات کا …… اسلامی تاریخ میں یہ متنازعہ مسئلہ نہیں ہے لیکن اقبال مرحوم فرماتے ہیں کہ ذات خداوندی کا براہ راست مشاہدہ ہوسکتا ہے اور اتنے بڑے دعوے کی کوئی دلیل نہیں۔ ولیم جیمز کی روحانیت میں تو شاید ممکن ہو اسلام میں ایسا دعویٰ ممکن نہیں ، حواس و عقل سے ذات خداوندی کا ادراک ممکن ہی نہیں ورنہ حضرت موسیٰ دیدارِ الٰہی کی نعمت سے محروم نہ رہتے اور جلالِ ربَّانی کا دیدار فرماتے۔ اس فلسفے کی بنیاد پر اقبال مرحوم نے نبی اور ولی کو یکساں مقام پر کھڑا کر کے دونوں کے روحانی تجربات کو یکساں قرار دیا۔ اقبال مرحوم روحانی تجربے کو عقل کے ذریعے ممکن سمجھتے ہیں۔ یعنی وجودِ خدا، خدا سے ملنے والا علم وحی، پیغمبرانہ دعوے کی تفہیم ان سب کی عقلی معیار پر تصدیق ممکن ہے۔ اقبال مرحوم کے خیال میں خدا کائنات سے باہر نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب کائنات ہماری دسترس میں ہے اور دن بدن تسخیر ہوتی جارہی ہے تو ذات خداوندی بھی دسترس سے باہر نہ رہ سکے گی اور باطنی وجدان ، عقلی وجدان، روحانی وجدان کے ساتھ ساتھ آخر کار طبیعات کے ذریعے انسانی ادراک میں آجائے گی۔ یہ نقطہ نظر بہت بڑی جسارت ہے۔ اس طرح کی جسارتیں ان کے یہاں عام ہیں اور مغربی فلسفے نے انہیں یہ اعتماد بخشا کہ وہ اس قسم کے دعوے کر سکیں جو اسلامی تاریخ میں کسی بڑے سے بڑے عالم نے نہیں کیے۔ مثلاً تقدیر کا مفہوم نہ مسلم سمجھ سکے نہ غیر مسلم۔ نبوت محمدی ﷺ کی اصل حقیقت عالم اسلام کے کسی شخص کی سمجھ میں نہیں آتی۔ کسی چیز کی تقدیر خارج میں نہیں بلکہ باطن میں پیوست ہوتی ہے۔ تقدیر کسی بیرونی جبر کے بغیر ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے۔ تقدیر کے تمام ممکنات باطن میں موجود ہوتے ہیں۔ انسان اپنی تقدیر خود بنا سکتاہے اور تقدیر کو جو معنی ، جورنگ دینا چاہے اپنی خودی کے زور پر ہر انسان ہر رنگ اور ہر معنی دے سکتا ہے۔دوسرے لفظوں میں انسان ایک ایسی ہستی ہے جو خود کاتب تقدیر ہے اور لوح تقدیر پر جو چاہے اپنی سعی و جہد سے تحریر کر سکتا ہے۔ دوسرے معنوں میں انسان مخلوق نہیں خالق ہے۔ وہ خودی کے ذریعے خدا بن سکتا ہے۔یہ تصور مغرب کے Humanismکا چربہ ہے اور انسان کے خالق ہونے کا اعلان ہے۔ نطشے کا ابرماش ہو بہو یہی ہے۔ اقبال مرحوم کا یہ تصور تقدیر مغرب کے منہاج علم کے عین مطابق ہے لیکن اسلام میں اس تصور کی کوئی جگہ نہیں ہے۔                         اقبال مرحوم کے یہاں تضادات کا یہ تنوع غالباً اس وجہ سے تھا کہ اقبال مرحوم نے ۱۹۱۲ کے بعد سے مطالعہ کتب ترک کر دیا تھا وہ صرف قرآن پڑھتے تھے یا مثنوی کبھی کبھار کوئی کتاب دیکھ لیتے ۔ لہٰذاصرف قوت حافظہ، سابق مطالعہ اور زبردست قوت مشاہدہ…… کے زور پر وہ علمی و تحقیقی کام کرتے تھے۔

            اگر وہ پہلی صدی ہجری میں تشیع سے خوارج اور معتزلہ تک کی تاریخ کا غائر مطالعہ کر لیتے تو ان ازکاررفتہ مباحث کو خطبات میں جگہ نہ دیتے۔ اب پڑھنے والا سمجھتا ہے کہ کوئی نئی بات لکھی گئی ہے کیونکہ قدیم مباحث سے لوگ واقف نہیں، مغربی فلسفے نے اقبال مرحوم کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ انہوں نے خطبات میں کہیں لکھا ہے کہ اللہ نے اپنی آزادی طاقت حیات قدرت میں انسان کو شریک کر لیاہے۔قرآن کے مطابق اللہ نے اپنے اختیارات میں کسی کو شریک نہیں رکھا۔ حتی کہ پیغمبروں کو بھی نہیں۔ البتہ اس نے کچھ اختیارات دنیا میں انسان کو دیے ہیں اور بتا دیا ہے کہ آخرت میں تمام اختیارات صرف اسی کے پاس ہوں گے کیونکہ وہ مالک یوم الدین ہوگا۔

            اقبال مرحوم فطرت کے سائنسی مطالعے کو عبادت قرار دیتے ہیں لیکن افسوس کہ یہ عبادت آج تک کسی نیچری، کسی سائنس دان کو عابد نہ بناسکی۔ تین سو سال میں ایک بھی عبقری فطرت کی عبادت کر کے فطرت کے مطابق زندگی بسر کرنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ فطرت کے مناظر کا مشاہدہ تجربہ مطالعہ ذات خداوندی کا ادراک مہیا کرتا ہے۔ جب کہ ذات خدا ناقابل ادراک ہے۔

            جن لوگوں نے یہ کہاتھا کہ ری کنسٹرکشن آف اسلامک تھاٹ اسلامی معاشروں میں ماڈرن ازم کی انجیل ہے۔ غلط تو نہیں کہاتھا۔ افسوس یہ ہے کہ اس کتاب پر آج تک بھر پور نقد نہیں کیا گیا۔ اب وقت ہے کہ اس کتاب میں مستور کفر الحاد، لادینیت کو بیان کر دیا جائے۔ کیونکہ اقبال مرحوم کی شاعری مسلم ہوچکی ہے اور ان کی نثر طاق نسیاں میں رکھ دی گی ہے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اقبال مرحوم اب اس نثری حوالے سے بہت بلند ہو چکے ہیں۔آخر عمر میں اقبال مرحوم نے بھی ان نظریات سے رجوع کر لیا تھا۔ ہمارے دوست خواجہ عبدالوحید نے مجھے لاہور کی ایک تقریب کا حال لکھا تھا جہاں اقبال مرحوم نے یہ اعتراف کیا تھا کہ مغربی فکر و فلسفے کو منہاج سمجھ کر اسلام کی توجیہہ و تشریح کا طریقہ ٹھیک نہیں تھا۔ مجھے اس کے برعکس رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ یعنی آخری عمر میں اقبال مرحوم امام غزالیؒ کے منہاج کے قائل ہوگئے تھے کہ حق تو صرف اور صرف کتاب و سنت میں محصور ہے۔ اس کو منہاج بنا کر مغربی فلسفے کا جائزہ لیا جائے۔

            ان تمام حقائق کے باوجود ہمیں مسلم ماڈرن ازم اور مسلم لبرل ازم میں فرق کرنا چاہیے۔ مسلم ماڈرنسٹ نہایت مخلص، دین کے خادم، نیک نیت ، امت کے لیے پریشان لوگوں کا گروہ ہے۔ اس کے سرخیل اقبال مرحوم ہیں یہ معجزات کو بھی مانتے ہیں، اسلام کے ماخذات پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ یہ مسلم جدیدیت پسند مغرب میں ایک روحانی خلا محسوس کر تے ہیں، اس کی مادیت کو سراسر اسلام کا حاصل اور ثمر سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مغرب ناکافی ہے کیونکہ اس نے اسلام سے علوم عقلیہ، سائنس، تجربیت اور دنیا لے کر ترقی کر لی۔ مگر اسلام کی مکمل تعلیم یعنی روحانیت سے استفادہ نہ کیا۔مغرب کے مقاصد درست ہیں لیکن اس کی تکمیل اسلام کے نظام عبادات و روحانیات کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ مغرب کے فلسفے سے اتنے متاثر ہیں کہ اسے بھی اسلام میں یا اسلام کو مغرب میں سمونا چاہتے ہیں۔ مسلم لبرل ازم دوسری شے ہے، جس کی ابتدا کرامت جونپوری، چراغ علی، سرسید نے کی اور مشرقی، نیاز فتح پوری، عبدہٗ، جیراج پوری اور غلام احمد پرویز اس کی علامتیں ہیں۔ یہ نہایت بدنیت اور امت کے مخالف لوگ ہیں، یہ لوگ فکری اور علمی سطح پر نہایت کمزور ہیں۔ سرسید، عبدہٗ تو انگریزی بھی نہیں جانتے تھے۔مجھے اندیشہ ہے کہ مستقبل میں بر عظیم کے مذہبی معاشروں کو تہس نہس کرنے کے لیے خطبات اقبال کو ایک طاقت ور قوت کے طور پر کام میں لایا جائے گا۔ اور اقبال مرحوم کی محبوب دلنواز ہستی کے اس گمشدہ فراموش کردہ نثری گوشے کے ذریعے اسلام کے حصار میں خلل پیدا کر دیا جائے گا۔

              مولانا مودودی کی خامیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ ،انبیا کے سوا کون خامیوں سے مبرا ہے۔ میں نے معارف میں ان کے فکر کا سخت محاکمہ کیاہے اور ان کی غلطیوں پر بار بار گرفت کی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اقبال مرحوم کی نثر کے منفی اثرات کو جدید تعلیم گاہوں میں مولانا مودودیؒ کی کتابوں نے زائل کر دیا بلکہ سنا ہے کہ جماعت کے یہاں اہل علم خطبات کا تنقیدی مطالعہ کرتے ہیں۔

            اقبال مرحوم پر تمام تر نقد کے باوجود ان کے کارناموں کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ ہم نے کیا پوری امت نے اقبال مرحوم کی لغزشوں اور خطاؤں کے عظیم مجموعے خطبات کو بھلا دیا اور ان کے خیر مسلسل کلام اقبال کو روح میں بسالیا۔ اقبال مرحوم کا یہ کم کارنامہ ہے کہ انہوں نے اردو کو فاسقوں وفاجروں سے چھین کر اسے ایسی مذہبی شناخت عطاکر دی جس کی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ دنیا کی کسی زبان میں اتنا بڑا شاعر پیدا نہیں ہوا جس نے لوگوں کی سمت سفر موڑ دی اور زبان کو تہذیبی و تمدنی سطح کا اعلیٰ ترین ترجمان بنا دیا ہو۔ غلطیاں اپنی جگہ اس سے ان کے مرتبے میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ آخرت میں فیصلہ میزان کے ذریعے ہوگا۔ وہاں نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا یا برائیوں کا۔ مجھے یقین ہے کہ اقبال مرحوم کا نیکیوں کا پلڑا سب سے بھاری ہوگا۔ اقبال مرحوم نے ایسے ایسے مسلمانوں کے دل میں دین کی محبت جگا دی اور انہیں سچا مسلمان بنا دیا جنہیں علما بھی تبدیل نہ کر سکے۔ لیکن کلام اقبال مرحوم نے ان کی زندگی بدل دی جس نے ایک ملحد کو مسلمان بنادیا وہ کتنا بڑا شخص ہے لیکن جس نے لاکھوں کو اسلام کی محبت میں مبتلا کر دیا اس کے درجات کا کیا کہنا۔

            اقبال مرحوم یہ بات نہ سمجھ سکے کہ ابن تیمیہؒ و دیگر نے اگر تقلید کی مخالفت کی تو اس کا مقصد ماضی کا انکار، ماخذات دین کی نئی تعبیرو تشریح ، فکر اسلامی کی تشکیل نو، ماخذات دین کا انکار نہیں تھا بلکہ ماضی کی طرف بالکل صحیح طریقے سے لوٹنا اور دین کو خالص کر کے عہد رسالت کی بازیافت کرنا تھا۔ اس میں دنیا کی لذتیں ، حرص و طمع ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی اور خواہش دنیا تو کم از کم شامل نہ تھی۔ لیکن افغانی سرسید عبدہٗ کے نزدیک تقلید کی مخالفت اس لیے ضروری تھی کہ یہ مغربی اقوام سے حاصل ہونے والے منافع میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھی۔ تقلید جدید طرز زندگی اس کے سائنسی مظاہر سے بلا روک ٹوک استفادے میں سنگ گراں تھی۔یہ تقلید اسلام اور مغرب میں واضح فرق محسوس کرتی تھی۔ یہ دارالحرب دارالاسلام کی اصطلاحات میں گفتگو کرتی تھی۔ یہ مغرب سے آنے والی ہر چیز کو مباح نہیں سمجھتی تھی اور اس کا نہایت باریک بینی ، نکتہ چینی کے ساتھ جائزہ لیتی تھی۔اقبال مرحوم کا خطبہ اجتہاد اور ان کے خطبات کیا قرون اولیٰ کے عہد کوتازہ کرنا چاہتے ہیں یا ان کی نظر اسلامی تہذیب و تمدن، بیت الحمرا کے محلات، باغاتِ اور اندلس کے کتب خانوں میں ڈھونڈتی ہے اور مغرب کی معمل گاہوں میں وہ روحانیت تلاش کرتے ہیں یعنی سارا زور تو مادیت پر ہے وہ جن لوگوں کے اجتہاد سے اپنے اجتہاد کا استدلال فرما رہے ہیں مثلاً ابن تیمیہؒ، شاہ ولی اللہؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ان میں سے کسی ایک کی بھی نگاہ اس دنیا اور مادہ پرستی پر نہیں تھی۔ یہ مادیت تو ان کے اجتہادات سے خارج رہی۔ ان کی نظر میں تو قرن اول ہی مقصود اور محبوب تھا۔ اقبال مرحوم کے اجتہاد اور ان اکابرین کے اجتہاد میں یہ بنیادی فرق ہے۔ ان کا مرجع سابقون الاولون تھے اور سر سید، مصطفی کمال، عبدہٗ افغانی کا مرجع مغرب، سائنس، مادہ پرستی، دنیا ،آرام و آسائش وترقی تھے لہٰذا دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔اقبال مرحوم کا یہ فرق نہیں سمجھ سکے۔

             تقلید تاتاری یلغار کے بعد امت کو علمی و فکری یلغار سے بچانے کے لیے حصار مہیا کرتی تھی۔ استاذ مرحوم مولانا شبلی نعمانیؒ کو لوگ معتزلی کہتے ہیں وہ پکے حنفی تھے کئی بار میں نے کریدنے کے لیے تقلید پر اعتراض کیے۔ استاذ مرحوم مولانا شبلیؒ نے جوجوابات دیے وہ حیران کن تھے۔ انہوں نے کہا کہ معتزلہ کی طرف عقلی میلان کے باوجود میرا قلبی اور روحانی میلان احناف کی تقلید کو تسلیم کرتا ہے۔ کیونکہ یہ بند ایک بار ٹوٹ گیا تو کچھ نہیں بچے گا اور اجتہاد کے نام پر الحاد کے دروازے، چوپٹ کھل جائیں گے، اس لیے اجتہاد وہی معتبر ہے جو تقلید کے حصار میں رہ کر کیا جائے۔ یہ جو آج کل تقلید کو جمود، عقل دشمنی، رجعت پسندی اور جہالت کہا جاتا ہے اس میں قصور دونوں کا ہے۔ یعنی ہمارا طبقہ مولوی جو اب علم سے کم بہرہ رکھتا ہے اور دوسری جانب مغرب کو جاننے والے جو صرف مغرب کو جانتے ہیں بلکہ یہ بھی مغرب کو کامل طور پر نہیں جانتے اور انہیں اسلام حقیر نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس جلیل القدر علما آج تعداد میں کم ہیں لیکن وہ اسلام کو مکمل جانتے ہیں۔ سر سید کو دیکھیے کیسی کیسی باتیں لکھتے ہیں۔ لندن کی خادمہ انہیں ہندستان کی اعلیٰ سے اعلیٰ خاندان کی بیٹی سے بہتر نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ اجتہاد کریں گے تو کیا کریں گے۔ مولوی نذیر احمد نے اسی لیے سرسید کی تفسیر پر سخت تبصرہ کیا ہے۔

            میرے مشورے سے اقبال مرحوم نے ماجد صاحب کو خطبہ اجتہاد اور دیگر خطبات ارسال کیے تھے ماجد صاحب نے نہایت سخت رائے دی انہوں نے اقبال مرحوم کو یہ بھی لکھا کہ علوم اسلامی پر عبور کے بغیراسلام پر نقد بہت بڑی جسارت ہے آپ عربی زبان سے بھی کما حقہ واقف نہیں اور صرف ترجموں سے مدد لے کر یا اہل علم کی معاونت سے اسلام کے مسلمات، قرآن و سنت اور تعامل امت ثابت شدہ امور، حتی کہ عقائد جنت و دوزخ کے بارے میں بھی آپ آزادانہ رائے قائم کرتے ہیں ۔ قرآن وسنت کو منہاج نہیں بناتے ۔یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے کہ آپ تلاش حقیقت میں سرگرداں ہیں لیکن اس تلاش کے دوران تشکک اور ریب کی اس کیفیت میں آپ کی جانب سے ان مہمات مسائل میں اس رائے کا تحریری اظہار سیدھے سادھے لفظوں میں کفر ہے۔ یہ ماجد صاحب کا انداز تھا، دین کے معاملے میں وہ مداہنت برداشت نہ کرتے تھے۔ ان کے خط سے اقبال کو شدید ذہنی دھچکہ پہنچا۔ انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ کی علمی الجھنیں بجا ہیں لیکن آپ الجھن سوال کی صورت میں جید علما کے سامنے پیش کیجیے پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو توقف کیجیے۔ اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ آپ دین میں تضاد تلاش کر رہے ہیں۔ یہ اسلام کی خدمت نہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دوسری صلاحیتیں دی ہیں ان سے کام لیجیے، فقہ اور اجتہاد آپ کے دائرہ علم سے باہر کی چیزیں ہیں۔ ان امور پر صرف وہ شخص کلام کرے جس نے اپنی عمر ان معاملات کی تہ تک پہنچنے میں بسر کر دی ہو اور صدر اول سے لے کر آج تک کے تمام فقہی ذخیرے، اختلافات ائمہ، اختلافات مجتہدین، پوری اسلامی تاریخ اس کے مختلف ادوار وغیرہ پر اس کی فقیہانہ نظر ہو۔

            جس طرح آپ نے مغرب میں جاکر مغربی فکر و فلسفے کی تعلیم حاصل کی بالکل اسی طرح آپ کی یہ اولین ذمہ داری ہے بلکہ ذمہ داری نہیں آپ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ علوم اسلامی کی تحصیل بالکل اسی طرح اس کے مراکز میں جاکر کریں۔ جب مغربی فلسفے کے لیے مغرب اور جرمنی جاسکتے ہیں تو اسلامی علوم کے لیے اس کے مراکز و مصادر سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے اقبال کو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ علامہ انور شاہ کشمیری سے علوم اسلامی کی تحصیل کریں پھر خطبات پر نظر ثانی کرکے شائع کریں۔

            اقبال مرحوم جدید علم کلام اور کسی عبقری فقیہہ کی ضرورت کے قائل تھے لیکن خود ان صفات سے متصف نہ تھے ۔ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کام ان کے تو کیا اور کسی کے بس کا بھی نہیں ہے لہٰذا وہ اجتماعی اجتہاد کی ضرورت کے قائل ہوگئے تھے۔ لیکن افسوس کہ اسمبلی اورترکی انہیں اس کی علامتیں نظرآئیں۔ اقبال ترکوں کے الحاد کو اجتہاد کا ہم معنی سمجھتے تھے اور اسے بڑا کارنامہ قرار دیتے تھے اس موضوع پر ان سے بہت تند و تلخ تبادلہ خیالات بھی ہوا اور آخر میں وہ اس سے رجوع کر چکے تھے لیکن اس رجوع کا اظہار تحریری طور پر کرنے کی مہلت نہ ملی۔

            امام غزالیؒ سے سخت نالاں تھے اور سمجھتے تھے کہ غزالی اور قدیم متکلمین اور فقہا نے فلسفے کی مذمت کر کے مسلمانوں پر ترقی ،ارتقا اور سائنسی انقلاب کے دروازے بند کر دیے ہیں۔اگر یہ فقہا اور خصوصاًامام غزالی ؒ نہ پیدا ہوتے اور عالم اسلام میں فلسفے کی موت واقع نہ ہوتی تو مسلمانوں پر زوال نہ آتا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے پاس تو کوئی فلسفہ نہ تھا لیکن قیصر و کسریٰ کیسے فتح ہوگئے تھے ۔ لیکن اقبال مرحوم کا خیال تھا کہ فلسفے کے بغیر سائنس میں آگے بڑھنا مشکل ہے اور سائنس کے بغیر مغرب پر فتح پانا ممکن نہیں ہے۔ مادی اسباب ان کے یہاں اہم تھے۔ وہ مغرب کی تمام تر ترقی کو اسلام کا ہی اثاثہ سمجھتے تھے جو بہت بڑی غلط فہمی تھی اور رفتہ رفتہ یہ غلط فہمی دور ہوگئی تھی۔ ان سے بار بار یہ پوچھتا تھا کہ اگر قرآن نے تفکرون تدبرون تعقلون کی دعوت دے کر تجربیت ، حواس کے استعمال کے ذریعے مغرب کی اس ترقی کوممکن بنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے ہی مغرب مغرب ہوگیا اور اسلام نے ہی تجربیت Impresicim، عقلیت Rationality، ترقیDevelopment، ارتقاprogress کا درس دیا اور قرآن وسنت و خلافت راشدہ کا عہد اسی لیے زرین دور تھاتو خود عہد اسلامی میں سائنس کا وہ ارتقا کیوں نہ ہوا جو مغرب میں ممکن ہوا۔ کیا کسی پیغمبر نے ایجادات سے انقلاب برپاکیا یا دعوت سے اور دعوت بھی ازل سے ابد تک ایک ہی رہی تھی تو حید خالص ۔اگر سائنس ترقی کی اصل اساس ہے تو انبیا کم از کم سائنس داں تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے لیکن تاریخ اس تصور سے خالی ہے۔

                سب سے مشکل کام انسان کو بدلنا، اسے تیار کرنا ہے۔ انبیا مشکل ترین کام کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں۔ اقبال مرحوم اتفاق کرتے تھے ۔

            ان سے کسی نے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا مغربی سائنسی ترقی کو براعظموں کی لوٹ مار، کالونیل ازم، افریقی غلاموں سے بیگار کے بغیر ممکن بنایا جاسکتا تھا؟ اقبال مرحوم نے اس پہلو سے بھی مغرب کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ لوٹ کے مال، افریقی غلاموں سے بیگار کے بغیر سائنسی انقلاب برپا ہونا ممکن نہ تھا۔ کیا خلافت اسلامیہ یہ کام کرسکتی تھی؟ اندلس کی ریاست نے یورپ میں لوٹ مار کے ذریعے سائنس اور عیش و عشرت کی ثقافت تعمیر کی، مناظر گیلانی صاحب نے اس موضوع پر معارف میں مضامین لکھے ہیں جس میں بتایا ہے کہ کس طرح لوٹ مار کی جاتی تھی۔ لوٹ کے مال سے اسپین کی سائسنی ترقی ہوئی، انجام کیا ہوا؟ آج وہاں کوئی مسلمان باقی نہیں رہا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے سامنے عاد ، ثمود، اہرام مصر موجود تھے تو مسلمان قرآنی تجربیت کے ذریعے ان جیسی عمارتیں چودہ صدیوں میں کیوں نہ بنا سکے۔ یعنی ان میں نقل کرنے کی صلاحیت بھی نہ تھی۔اس طرح پوری امت ایک ناکام امت ٹھہرتی ہے۔ سائنسی ترقی کے اس فلسفے کے نتیجے میں رسول اللہ پر زد پڑتی ہے کہ نعوذ باللہ اس پیغمبر کے زمانے میں تو کچھ نہ تھا۔ رسول اللہ کا گھر، مسجد نبوی، مدینہ النبی کے گھرعاد ،ثمود اور اہرام مصر کا عشر عشیر بھی نہ تھے۔ لہٰذا عہد رسالت سائنسی نقطہ نظر سے دنیا کا ناکام ترین معاشرہ تھا۔ جو ماضی کے علوم و فنون کا احیا کرنے سے قاصر رہا اور چٹائی، پتوں، ٹاٹ، جھونپڑی کی ثقافت سے اوپر نہ اٹھ سکا۔ کیا کسی معاشرے کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ صرف مادی پیمانے سائنسی ترقی اور عروج ہے۔ اقبال مرحوم سے میں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر مغرب کی ترقی اسلام اور قرآن سے ممکن ہوئی تو روم ، ایران، مصر، چین، یونان، موئن جودڑو اور ہزاروں مدفون تہذیبوں کی ترقیوں کو آپ کس پیغمبر اور کس کتاب سے منسوب کریں گے؟ اقبال مرحوم کے پاس ان سوالوں کے جواب میں گہری خاموشی تھی۔ کہتے تھے کہ بات اہم ہے، غور کی ضرورت ہے۔ اندلس ان کے یہاں اسلام کا استعارہ تھا بار بار پوچھا کہ اندلس جس پر آپ کو بہت ناز ہے اور جس کا نوحہ آپ نے درد سے لکھا ہے کیوں مٹ گیا؟ اس کی وجہ سائنس اور دنیا میں حد سے زیادہ استغراق تو نہیں تھا اور وہ جدیدیت تو نہیں کہ وہاں نماز بھی مقامی زبان میں پڑھائی جانے لگی تھی۔ نہ اندلس رہا نہ نمازی رہے، نہ مساجد رہیں۔ اسلامی عبادات میں مقامیت سمونے کا یہی انجام ہوتا ہے۔اس معاشرے کی روحانیت کیا تھی کہ مسلمان اقلیت میں رہے تو ابن حزم کے حوالے سے کہتے تھے کہ ہاں مسلمانوں کی آبادی کی قلت مسئلہ بن گئی تھی۔

             اندلس کا مٹنا بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے کہ کیا سائنس اور ترقی مذہب و ریاست کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ کیا صرف سائنسی و معاشی برتری بقا و غلبے کے لیے کافی ہے۔ کیا غلبہ صرف مادی ارتقا ، مادی شان و شوکت کا نام ہے؟ اندلس میں تو ابن عربیؒ جیسے صوفی بھی موجود تھے لیکن اندلس بچ نہیں سکا۔ المقری نے اندلس والوں کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کا ذکر کیا ہے۔ قصر زہرہ پر کتنا خرچ ہوتا تھا ، یہ لوٹ مار کا پیسہ کہاں سے آتا تھا؟ کیا اس کا نام ترقی ہے؟ اسلام اس لیے نہیں آیا ۔ کیا اسی لیے اندلس مٹا دیاگیا؟ اگر سائنس اور معاشی ترقی تحفظ کے ضامن ہیں تو اندلس، یونان ، مصرکے فرعون، چینی تمدن، عاد وثمودو سبا کیوں تباہ ہوئے۔تباہ کرنے والے تو سائنس و ٹیکنالوجی میں نہ ان سے آگے تھے نہ ان کے برابر تھے۔ اقبال مرحوم نے مجھ سے ایک مرتبہ خود کہا کہ کبھی کبھی اپنی شاعری کا جائزہ لیتا ہوں تو یہ سوال پریشان کر دیتا ہے کہ مسلمانوں نے جب قیصر و کسریٰ کو فتح کیا تو ان کے پاس ایک کتاب بھی نہیں تھی۔ ڈھنگ کی کوئی عمارت بھی نہیں تھی ان سے اچھے گھروں میں تو ہم رہتے ہیں۔ اس لیے نظریے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ایک طاقت ور نظریہ سائنس اور اسباب دنیا سے زیادہ قوت رکھتا ہے۔ خصوصاً وہ نظریہ جو اسباب کے بجائے مسبب الاسباب پر یقین رکھتا ہو ۔ اس یقین نے ہر دور میں دنیا بدل ڈالی ہے۔ مسلمانوں کا زوال اس یقین سے محرومی کے باعث ہوا۔ یقین طاقت ور ہوتو تاتاریوں سے شکست کا انتقام انہیں مسلمان کر کے لیا جاسکتا ہے۔ عروج کا واحد طریقہ صرف جنگ، جدال، سائنسی ترقی نہیں ہے۔ خصوصاً اس وقت جب ترقی کے لیے مطلوب شے کسی اور کی ملکیت ہو اور اس غیر کی مرضی کے بغیر ہمیں مل نہ سکتی ہو۔ مسلمانوں نے تاتاریوں کو عسکری شکست تو نہیں دی ان کو یقین ،دعوت اور تہذیب سے شکست دی۔ کیا وجہ ہے کہ ہم مغرب کو ان ہتھیاروں سے شکست دینا ناممکن سمجھتے ہیں، لیکن مغرب کے ہتھیار ان سے خرید کر یا اس کا علم ان سے سیکھ کر ان ہتھیاروں سے ہی مغرب کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظریہ کتنا کمزور ہے۔ کیا مغرب آپ کو اپنے سائنسی علوم غلبے کے لیے دے دے گا؟ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں۔ لہٰذا آپ کا عروج اور ارتقا مشروط ہوگیا۔ مغربی علوم سے جب تک مغرب وہ علوم نہ دے آپ پسماندہ رہیں گے ۔ اسلام خارج کا محتاج ہوگیا۔ لہٰذا اقبال مرحوم کے اس فکر کے نتیجے میں عالم اسلام کا مقصد مطع نظر ہدف صرف اور صرف مادیت رہ گیا ۔ انقلاب اسلامی ایک روحانی انقلاب ہے لیکن یہ مادی ذرائع کے بغیر برپا نہیں ہوسکتا ۔ کتنی عجیب بات ہے

            اقبال مرحوم نے بتایا تھا کہ وہ بعض مقامی علما سے عربی کتب کا متن پڑھوا کر سنتے ہیں پھر وہ علماان عبارتوں کا ترجمہ و تشریح کر دیتے ہیں، پھر اقبال مرحوم ان کی سماعت کے بعد سوالات در سوالات کے ذریعے ان مباحث و مسائل کو سمجھنے کی سعی فرماتے ہیں۔ لیکن ان علما کا مغربی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ اقبال مرحوم کے فلسفیانہ سوالات کے تسلی بخش جوابات دینے کی اہلیت بھی نہ رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ فلسفیانہ مباحث سے واقف نہ تھے۔ لاہور کے ایک عالم مولانا غلام مرشد سے بھی ا ن کے استفادے کی اطلاع تھی۔ مگر مرشد صاحب خود مغرب سے شدید طور پر متاثر ہیں۔ ان کے بعض بیانات اور درس کی تفصیلات بہت افسوس ناک ہیں۔ لاہور کے علمی حلقوں میں ان کی شہرت بھی بہت اچھی نہیں تھی۔ ماجد صاحب کی تنقید کے بعد اقبال مرحوم نے خطبات کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ انہیں احساس ہوگیا کہ یہ مباحث اس قدر سادہ نہیں کہ انہیں امہات کتب کے تراجم کی سماعت کے ذریعے طے کر دیا جائے۔ غالباً کسی بیان میں اقبال مرحوم نے یہ کہا ہے کہ میں Islam as i understand it کے نام سے کتاب لکھ رہا ہوں وہ تمہید الفرقان کے نام سے تعارف قرآن لکھنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔ لیکن اس کا سراغ نہیں ملا۔ میرے خیال میں خطبات اقبال مرحوم کا نام اگر تبدیل کر دیا جائے بلکہ خطبات اقبال مرحوم کا بہترین نام میری نظر میںIslam as I understand it ہونا چاہیے۔ کیونکہ خطبات میں صرف وہی کچھ پیش کیا گیا ہے جو اقبال مرحوم سمجھتے تھے۔ خود اسلام کو علوم اسلامی، علما اسلام اور تعامل امت کے ذریعے سمجھنے کی روایت اقبال مرحوم نے ترک کر دی لہٰذا قدم قدم پر ٹھوکر کھائی۔اسلام کو ذات رسالت مآبؐ اور صحابہ کرامؓکی سیرت اور اجماع امت کے بغیر محض اپنی خودی اور عقل کے بل پر سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ماجد صاحب کے خط نے اقبال مرحوم کی ہمت شکستہ کر دی تھی۔ انہوں نے اس تنقید کی روشنی میں خطبہ میں بہت سی ترامیم، تغیرات کیے، نظر ثانی کا یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلا، لیکن ماجد صاحب کی خواہش کے باوجود اقبال مرحوم نے انہیں نظر ثانی شدہ ارسال نہیں کیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ ماجد صاحب اس سے بھی مطمئن نہ ہوں گے۔ مجھے یہ مسودہ ارسال کیا گیا تھا۔ اس پر میرے کچھ تحفظات تھے اور تنقید بھی، اقبال مرحوم کو قلق تھا کہ علما نے ان کے خطبات کا خیر مقدم نہیں کیا ۔وہ علما کی طاقت سے بخوبی واقف تھے اور تن تنہا ان سے مقابلہ کی سکت نہ پاتے تھے۔ انہیں ملال تھا کہ سرسید نے علما کا جو اثر کم کر دیا تھا وہ خلافت کمیٹی کی سیاست کے باعث دوبارہ بحال ہوگیا ہے اور اسی اثرسے وہ خائف تھے۔ ماجد صاحب کی تنقید نے اقبال مرحوم کو بہت محتاط بنادیا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے ورنہ اقبال مرحوم جیسی قیمتی شخص کے قلم سے دشمنا ن اسلام کو بہت مہمیز مل سکتی تھی۔

            علامہ کے مقالے اجہتاد پر ماجد صاحب اور بے شمار لوگوں نے اپنے اپنے طریقے سے نقد کیا، اگر اقبال مرحوم اس نقد کو قبول کرلیتے تو ان کا پورا خطبہ یکسر بدل جاتا۔ جن اکابر علما نے اس خطبے پر نقد کیا ان کے خطوط کبھی شائع نہیں کیے گئے۔ شاید ابھی تک ماجد صاحب کا خط بھی شائع نہیں ہوا۔ اقبال مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے ورثا نے بھی اس کی اشاعت کا اہتمام نہیں کیا ورنہ بہت عمدہ مباحث سامنے آتے ۔اجتہاد پر اقبال مرحوم کا خطبہ جو شائع ہوچکا ہے۔ پہلے متن سے بہت مختلف ہے اس میں بھی انحرافات کے بہت پہلو ہیں لیکن پہلا متن تو بے حد غلط سلط تھا۔ اقبال مرحوم نے یہ بات سمجھ لی ۔ دینی مسائل میں ان کی دخل اندازی ان کے بس کی بات نہیں، لہٰذا وہ شاعری کریں اور ان امور تک محدود رہیں جن پر انہیں عبور حاصل ہو ورنہ دین چیستاں بن جائے گا۔ صرف دین کی خدمت کا ارادہ کافی نہیں ہے، اس کے لیے مطلوبہ اہلیت بھی ضروری ہے۔ اخلاص اور علم دو الگ راستے ہیں دونوں مل جائیں تو بڑی برکت ہوسکتی ہے۔ لیکن صرف اخلاص سے علم کی کمی پوری نہیں ہوسکتی۔

            عہد حاضر میں اجتہاد پہلے کی نسبت زیادہ مشکل ہے کیونکہ اب ہمارا سامنا ایک ایسے فلسفے سے ہے جو یونانی فلسفے کی طرح مغلوب نہیں بلکہ دنیا میں غالب ہے۔ اس فلسفے نے علوم نقلیہ کا انکار کر دیا ہے اور عقل کو واحد ماخذ علم تسلیم کیا ہے۔ یہ فلسفہ مابعدالطبیعات سے واقفیت کے لیے طبیعات کو بے اثر پاتا ہے اور حقیقت تک عقل کے ذریعے پہنچنا چاہتا ہے۔ جب کہ یونانی عقل کے ذریعے یہ ہفت خواں سر نہ کر سکے لہٰذا اب جو مجتہد ہو وہ صرف علوم اسلامی سے ہی واقف نہ بلکہ اسے مغربی فلسفے اور جدید سائنس کے مباحث سے بھی کما حقہ، واقفیت ہو اس کے بغیر اجتہاد کرنا محال ہوگا۔ کیونکہ جدید مغرب نے جو سوالات پیدا کیے ہیں ان کا محرک ایجادات ہیں ۔ ایجادات کا محرک سرمایہ خواہش نفس، برتری، غلبہ اور انسان کے خدا ہونے کا دعویٰ ہے۔ لہٰذا جدید مسائل کا فقہی جواب اس وقت تک نہیں دیا جاسکتا جب تک علوم نقلیہ کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ و حاضرہ پر ہماری نظر نہ ہو۔ مثلاً آج کل نیا رحجان جائیداد کی فروخت ہے۔ لوگ دکانیں خرید کر رکھ لیتے ہیں، منڈی میں جب طلب بڑھتی ہے تو قیمتیں بڑھا کر بیچ دیتے ہیں اس کے نتیجے میں مکان جو بنیادی ضرورت ہے، اس قدر گراں ہوگیا ہے کہ عام آدمی مکان خریدنے کا تصور نہیں کر سکتا ۔ یہ بھی احتکار کی شکل ہے ۔ جس طرح گندم وغیرہ روک لینا اور پھر مہنگا بیچ دینا جرم ہے، تو اس سے زیادہ سنگین جرم میری نظر میں یہ کام ہے۔ یورپ وغیرہ میں تو اب مکان خریدنا لوگوں کے لیے ممکن نہیں، کچھ عرصے بعد یہی صورت حال پاکستان میں ہوگی۔ یہ کیپٹل ازم کا نتیجہ ہے۔ اب اگر ہمارے مولوی صاحبان سے کوئی فتویٰ لے تو نہایت سادگی سے فتویٰ دے دیں گے کہ جائز ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ لوگوں کو بنیادی ضرورت سے محروم کرنے والا کاروبار کیسے حلال ہوسکتا ہے۔ حسب ضرورت جائیداد بنانا تو ٹھیک ہے لیکن اسے کاروبار بنالینا اور ایسا کاروبار کہ عام آدمی کے لیے مکان خریدنا محال ہوجائے شریعت میں جائز نہیں۔ یہ مسئلہ عصر حاضر کا ہے لہٰذا کیپٹل ازم سے ناواقف علما یقینا اس کے جواز کا فتویٰ دیں گے اس لیے یہ ہیچ مداں کہتا ہے کہ علوم عقلیہ حاضرہ پر بھی مجتہد کی گہری نظر ہو۔ وہ اس عہد کی باریکیوں سے بخوبی واقف ہو۔ اقبال مرحوم کا المیہ یہ تھا کہ وہ علوم حاضر سے واقف تھے لیکن علوم قدیم اورعلوم نقلیہ سے سراسر ناواقف ۔ اس کا ثبوت خطبات میں قرآنی آیات سے غلط استنباط ہے۔ خطبات میں نوے فی صد آیات کو کھینچ تان کر سیاق و سباق سے کاٹ کر مطالب اخذ کیے گئے ہیں۔ علمائے کرام کا المیہ ہے کہ وہ دینی علوم سے بخوبی واقف اور فلسفہ مغرب و سائنس سے قطعاً ناواقف ہیں۔ ندوہ بنایا گیاتھا کہ فلسفہ سائنس پڑھایا جائے گا۔ شاہ سلیمان ؒ پھلواری کا خطبہ وضاحت کرتا ہے جو ندوہ کی تاسیس میں پڑھا گیا تھا لیکن عملاً کچھ نہیں ہوا۔ لہٰذا علما اور جدیدیت پسند مفکرین کی حالت یکساں ہے جو صرف ایک دنیا سے واقف ہیں دوسری سے ناواقف۔ جس طرح علماجدید دنیا کے بارے میں جہل کا شکار تھے اقبال مرحوم دینی علوم میں جہل سے قریب تھے۔ دونوں دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھ رہے تھے۔ ندوۃ العلما میں مغربی فلسفہ و سائنس نہیں پڑھایا جاسکا تو باقی دینی مدارس سے کیا شکایت ۔عالم عرب میں بھی یہ ہی حال ہے۔فلسفہ دراصل الہامی مذہب کا اصل مدمقابل ہے ۔اسے ہم عقلی مذہب کہہ سکتے ہیں لہٰذا اس مد مقابل مذہب سے واقفیت کے بغیر جدید مسائل کے سلسلے میں اجتہاد اگر کیا گیا تو وہ الحاد کے دائرے میں اضافے کا سبب بنے گا اس سے مسلمانوں کو اور اسلام کو فائدہ پہنچانا مشکل ہے ۔ لہٰذا ان حالات میں قدیم فقہا کا نقطہ نظر صادق آیا کہ اجہتاد کا دروازہ بند ہے۔ معاشرہ اور علما جب وہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں جو اجتہاد کی لازمی شرائط ہیں تو ان کا خاموش رہنا بہترہے کیونکہ لوگ اگر کسی چیز کو اختیار کریں گے تو دل میں شک اور وسوسہ بہرحال رہے گا کیونکہ اس عمل کی دینی توثیق و تائید تو نہیں ملی یہ کھٹک اور چبھن ایمان کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کیونکہ دل کا مفتی مطمئن ہوجائے گا تو یہ چبھن خود ہی ختم جاتی ہے۔ اگر علما نے مغرب کو جانے بغیر محض چند باتوں کے ذریعے جزئیات پر فتویٰ دیا اور کلیات سے تعرض نہ کیا تو الحاد کو اجتہاد کے دائرے میں پناہ ملے گی جس سے حلت و حرمت کے پیمانے بدل جائیں گے اور الحاد کو اسلامی حصار میسر آجائے گا۔ یہ خطرناک ترین صورت ہوگی۔ فی الحال تو مجھے ایسا عالم نظرنہیں آتا جو اجتہاد کا اہل ہو کیونکہ مغرب سے واقف علما آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ چند علما نے انگریزی سیکھ لی ہے لیکن انگریزی سیکھنا اور فلسفہ جاننا دو مختلف دنیاؤں کا سفر ہے۔ ہمارے علما کو جرمن اور فرانسیسی زبان سیکھنی چاہیے، فلسفے کے تمام امام ان زبانوں میں ملیں گے، انگریزی ترجموں کے ذریعے بھی فلسفہ پڑھا جاسکتا ہے لیکن مجھے اس میں شک رہے گا کہ اصل متن کیا تھا؟ مسلم فلاسفہ پر اس سلسلے میں مغرب نے نقد کیا ہے کہ وہ جن افکار کو افلاطون سے منسوب کر رہے تھے وہ فلاطینوس کے تھے، ان کا اعتراض ہے کہ عرب افلاطون کے افکار ارسطو کے نام سے بیان کر رہے تھے۔ کیونکہ فلسفہ یونان ترجمے کے ذریعے سیکھا گیا۔ لہٰذا یہ غلطی ہوئی ہوگی لہٰذا فلسفہ کو اس کی اصل زبان میں پڑھنا ضروری ہے۔ استاذ مرحوم مولانا شبلی نعمانیؒ آخر عمر میں فرماتے تھے کہ صرف انگریزی سے کام نہیں چلے گا۔ علما کو کم از کم دو یورپی زبانیں سیکھنا ہوں گی تا کہ فلسفہ کے ماخذات کا براہ راست مطالعہ کر سکیں۔ ندوہ میں انگریزی پڑھائی گی لیکن یورپی زبانوں کی تدریس کا خیال کسی کو نہیں آیا۔

                      اقبال مرحوم نے خطبات کا نام Re-Construction رکھا، مجھے اس پربھی اعتراض تھا، تعمیر نو یا تشکیل نو کا کیا مطلب؟ کیا عمارت منہدم ہوگئی۔ تشکیل نو کا مطلب دین کی از سر نو تعمیر کے سوا کیا ہے یعنی اسلام کی اصل شکل مسخ ہوگئی۔ اب اسے ازسرنو تعمیر کیا جائے۔ یہ دعویٰ پوری اسلامی تاریخ کو مسترد کرنے کے سوا کیا ہے؟

            اقبال مرحوم اپنے عہد کے اسالیب میں گفتگو کر سکتے تھے ۔ انہوں نے اپنی غلط سلط بات بھی نہایت سلیقے اور تہذیب سے کہی بلکہ خطبات میں اسلام کے نصوص پر بھی نقد اس قدر گھما پھرا کر کیا ہے کہ دس پندرہ مرتبہ پڑھنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ اس اسلام کے عقب میں توصرف مغرب کا فلسفہ ہے۔ ان کی تحریر نہایت گنجلک ہے اور میرے خیال میں اقبال مرحوم نے ماجد صاحب کی شدید تنقید کے بعد احتیاط کے طور پر اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ طرز ایجاد کیا تھا تا کہ بات کہہ دی جائے اور گرفت بھی نہ ہو۔ اقبال مرحوم اسلام پر نقد کرتے ہوئے علما و فقہا اسلام سے حوالے لانے کے بجائے کفار محققین و مستشرقین کے حوالے اپنے موقف کی تائید پیش کر تے ہیں جو نہایت غیر ذمہ دارانہ عمل تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ علوم اسلامی سے بالکل واقف نہ تھے ۔ مثلاً حدیث کی حجت اور سنت کے مقام کے موضوع پر وہ حدیث کی تنقید میں J Schacht اور گولڈز بہر وغیرہ کے حوالے دیتے ہیں اور ان پر تنقید بھی نہیں کرتے۔ یعنی دین کے دوسرے ماخذ سنت کی حیثیت مستشرقین کے ذریعے متعین ہوگی۔ علما نے اسی لیے اسے کفر سے تعبیر کیا تھا۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اقبال مرحوم سے ملاقات میں انہیں مشورہ دیا تھا کہ آپ دینی علوم کی تحصیل کریں جس طرح آپ نے مغربی علوم کی تحصیل کی ۔ ماخذات کے متن خود علما کی رہنمائی میں ان علوم کے اصولوں کے تحت مطالعہ کریں اور علما سے مذاکرہ کے بعد اپنی آرا کا اظہارکریں۔ جب آپ سات سمندر پار سفر کر کے کفرکے علوم حاصل کر سکتے ہیں تو اسلامی علوم کے حصول میں وہی مشقت اٹھایے۔ اس کے بغیر سکوت اختیار کرنا بہتر ہے۔

( بشکریہ ماہنامہ ساحل )