دینی جماعتیں سیاست کی قربان گاہ پر

مصنف : ابو ساحل

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2006

            ستمبر ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے اخبار نے توہین رِسالت پر مبنی خاکے شایع کیے ان خاکوں پر ڈنمارک میں آباد مسلم اقلیت اور اسلامی ملکوں کے سفیروں میں شدید بے چینی پھیلی۔ مسلم آبادی کے قائدین نے ڈنمارک کے وزیراعظم سے احتجاج کیا، ملاقات کی کوشش کی، لیکن انہیں دھتکار دیا گیا۔ ڈنمارک میں مقیم بیسیوں مسلمان ملکوں کے سفیروں نے وزیراعظم سے توہین رسالت کے مسئلے پر ملاقات کی خواہش ظاہر کی جو رد کر دی گئی ۔ واضح رہے کہ ان سفیروں میں پاکستان کے سفیر بھی شامل تھے۔ پاکستان کے انگریزی اخبار DAWNمیں خاکوں سے متعلق خبریں نہایت تواتر کے ساتھ شایع ہوتی رہیں، روزنامہ جنگ نے اس صورت حال پر اداریہ بھی لکھا۔ ساحل نے نومبر ۲۰۰۵ء کے شمارے میں اس صورت حال پر دینی تحریکوں اور دینی جماعتوں کی توجہ مبذول کرائی لیکن یہ آواز صدابصحرا بن کررہ گئی۔ لیکن اچانک فروری ۲۰۰۶ء میں توہین رسالت کے خلاف تحریک ،پاکستان میں زور و شور سے برپا کی گئی ۔چھ ماہ تک سکون اورخاموشی کے بعد اچانک اس مبارزت طلبی کی وجہ کیا تھی۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے۔ محترم قاضی حسین احمد کی صاحبزادی جو قومی اسمبلی کی رکن ہیں انہوں نے جنگ میں اپنے مضمون میں یہ لکھا‘‘۱۱ نومبر کو کسی نوجوان نے قومی اسمبلی کے احاطے میں ان کی توجہ رسول اللہ کے توہین آمیز خاکوں کی طرف مبذول کرائی ۔میں نے فوراً قومی اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرادی لیکن اسے زیر بحث نہیں لایا گیا۔’’ اس مضمون سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ متحدہ مجلس عمل نے اپنی محترم رکن قومی اسمبلی کی تحریک التوا کو کوئی اہمیت نہ دی اور قومی اسمبلی میں اس مسئلے پر ہنگامی بحث کے لیے کوئی کوشش نہ کی، یہ مجرمانہ غفلت ہے۔ سیاست ، دینی غیرت اور دینی روایات پر غالب آتی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے۔

            فروری میں پاکستان میں توہین رسالت کی تحریک آندھی اور طوفان بن گئی لیکن حیرت انگیز طور پر توہین رسالت کے خلاف نکلنے والے جلوس پر سب سے زیادہ تشدد پشاور میں کیا گیا۔ جہاں متحدہ مجلس عمل کی حکومت ہے۔ اگر یہ تشدد پنجاب اور اسلام آباد میں کیا جاتا تو یہ کہہ سکتے تھے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت مسلم لیگ کی ہے اسلیے تشدد کا ارتکاب کیا گیا۔ لیکن متحدہ مجلس عمل کے صوبے میں اس تشدد کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا نہ ہی اس بہیمانہ تشدد پر معذرت طلب کی گئی، ایسا کیوں ہوا؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے ۔

            متحدہ مجلس عمل کی تحریک جاری تھی۔ ہڑتالیں، مظاہرے، ہنگامے، احتجاج ہورہے تھے کہ صدر بش کا بھی( پہلے سے طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق) پاکستان آنے کا اعلان ہو گیا۔ غالباً حکومت نے دورے کی منسوخی کی استدعا کی جو مسترد کردی گئی ۔ حکومت کا خیال تھا کہ مجلس عمل احتجاج کا نشانہ صدر بش کے دورے کو نہ بنا دے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر دس مارچ کے روزنامہ جنگ میں جماعت اسلامی کے نائب امیر ، پروفیسر خورشید احمد کا مضمون شایع ہوا جس میں صدر بش کو یقین دلایا گیا کہ یہ ہڑتال ، ہنگامے ، احتجاج توہین رسالت کے مجرموں کے خلاف ہیں اور پہلے سے جاری ہیں، اس کا آپ کے دورے سے کوئی تعلق نہیں ۔ آپ ہمارے ملک میں مہمان ہیں اور ہم مہمانوں کا بہت احترام کرتے ہیں ۔اس خصوصی مہمان داری کا تحریری یقین دلاتے ہوئے پروفیسر خورشید صاحب ہمسایہ ملک کے سابق وزیر اعظم ‘‘واجپائی’’کے ‘‘عظیم الشان’’ استقبال کی روایت بھول گئے۔واجپائی حکومت پاکستان کے مہمان کے طور پرلاہور آرہے تھے لیکن جماعت اسلامی پاکستان نے ‘‘مہمانوں کے ادب و احترام کے جدید فلسفہ’’ کو اس وقت یکسر فراموش کر دیا اور واجپائی کے استقبال کو بزور قوت ناکام بنانے کی سر توڑ کوشش کی جس کے نتیجے میں جماعت کے مخلص کارکنوں پر بے پناہ ریاستی تشدد کیا گیا، لاتعداد کارکن شدید زخمی ہوئے اور جیلوں میں بہیمانہ رویے کا شکار ہوئے۔ احترام و اکرام اور تعظیم کے یہ فلسفے ہندستان اور امریکہ کے لیے الگ الگ کیوں ہیں؟ اس کے تانے بانے کیسے اور کہاں بنے جاتے ہیں؟یہ سوال بھی ہنوزجواب طلب ہے۔

            افسوس کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اسلامی روایات، قرآن ، سنت اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں صدر بش کے حوالے سے اسلامی روایات ِ مہمان داری کی بہت عمدہ اور زوردار وکالت کر رہے تھے۔ لیکن ہمسایہ ملک بھارت میں جماعت اسلامی ہندستان کے زیر اہتمام صدر بش کے دورہ ہندستان کی شدید ترین مخالفت ہورہی تھی۔ جلوس نکالے جارہے تھے، جلسے کیے جارہے تھے ۔ لکھنو اور حیدرآباد دکن میں صدر بش کے دورہ ہندستان کے موقع پر پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ حیدر آباد دکن میں صدر بش کو اپنا دورہ مختصر بلکہ ملتوی کرنا پڑا۔ بہت سے مقامات تک وہ پہنچ نہ سکے۔ دہلی میں جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے ہند نے مشترکہ جلسہ کیا جس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ جلسے میں صدر بش کے دورے کی شدید مذمت کی گئی۔ دورے کی منسوخی کا مطالبہ کیا گیا اور شدید احتجاج ہوا۔ یہ عجیب اسلام ہے ، عجیب قرآن و سنت اور عجیب اسلامی روایات ہیں جو پاکستان میں کچھ اور ہیں اور ہندستان میں کچھ اورہیں ۔ اگر قرآن وسنت عالمگیراور دائمی ماخذاتِ قانون ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن و سنت سے استنباط سرحد کے اس طرف کچھ اور ہو اور سرحد کے اس طرف کچھ اور ہو۔ اہل دین کے یہ سیاسی اور غیر اخلاقی رویے دین کی تضحیک کا باعث بنتے ہیں۔ غیر مسلم، کفار، مشرکین، جدیدیت پسند دین کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جس قدر نقصان اہل دین اپنی نام نہاد حکمت عملی، منافقت، سیاست اور عارضی منفعت کی خاطر دین کی تصویر کو مسخ کر کے پہنچاتے ہیں ۔ دین کے نام پر اپنی خواہشات نفس کی تشریح و توضیح اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین کام ہے جس پر ہمیں استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ اس قسم کی حرکات سے مکمل گریز کی دعا مانگنی چاہیے اور اس دعا کی قبولیت کے لیے بھی مستقل محوِ دعا رہنا چاہیے۔

            قاضی حسین احمد نے ۱۹ فروری کو اعلان فرمایا کہ تحریک ناموس رسالت حکومت کے خاتمے پر منتج ہوگی۔ جنرل پرویز مشرف کو ۲۳ مارچ کو سلامی نہیں لینے دیں گے۔ یہ بالکل اسی طرح کا بیان تھا جس طرح نعمت اللہ خان نے اچانک کسی کے اشارے پر ایک پریس کانفرنس طلب کر کے اعلان کیا۔‘‘میں نے آج تک کوئی دعویٰ نہیں کیا لیکن آج دعویٰ کرتا ہوں کہ کراچی کا اگلا مئیر میں بنوں گا۔’’ (قاضی حسین احمد صاحب اور نعمت اللہ خان کے ان دعووں کا محرک کیا تھا؟یہ تحقیق کا خاص موضوع ہے۔ ماضی میں اس قسم کے دعوے کیے گئے ہیں جن کا نتیجہ بہت خراب رہا ہے۔) اس دعوے کی کیا ضرورت تھی اس دعوے کی بنیاد کیا تھی؟ ان دعووں کا تصور کر کے مذہبی سیاسی قیادت کی بے بصیرتی پر صدمہ ہوتا ہے۔ ہمارے قائدین کتنے سادہ لوح، کتنے نادان ہیں جو ادھر ادھر سے ملنے والی اطلاعات پر مستقبل کے سیاسی تاج محل تعمیر کرتے رہتے ہیں جو بالآخر ریت کا ڈھیرثابت ہوتے ہیں۔ قاضی حسین احمد کی خطابت اور نعمت اللہ خان کی سیاست صلاح الدین مرحوم کی صحافت سے اوپر نہ اٹھ سکی۔ من گھڑت کہانیوں پر مبنی چونکانے والے انکشافات ، تکبیر کی شناخت بن گئے تھے۔ آج تکبیر کو کوئی نہیں جانتا ۔حکمرانوں کے قصیدے پڑھتے پڑھتے اور اسلامی جماعتوں کی توہین کرتے کرتے یہ رسالہ خود اپنی لحد میں اتر گیا۔

            ستمبر ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک میں رسالت مآب ؐ کے کارٹونوں کی اشاعت کے بعد عالم اسلام کے مفکرین کو ایک سنہری موقع ملا تھا کہ وہ حقوق انسانی کے مغربی فلسفے کی اصلیت و حقیقت سے واقفیت حاصل کرتے اور اس کی بنیادوں میں موجود اصل فکر کا محاکمہ، اپنے عمل کا محاسبہ اور مغرب سے اپنے فکری ، علمی ، جذباتی اور روحانی تعلق پر از سر نو نظر ثانی کرتے۔ لیکن افسوس کہ اس سنہری موقع کو کھودیاگیا ۔ احتجاج کی لہر چار ماہ کی تاخیر سے اٹھی لیکن کسی ٹھوس علمی نتیجے تک پہنچے بغیر دم توڑ گئی۔ پاکستا ن میں متحدہ قومی مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد نے توہین رسالت کے خلاف تحریک کو پرویز مشرف کی برطرفی تک جاری رکھنے کا اعلان کر کے اس عظیم الشان تحریک کی دینی ،اخلاقی اور روحانی اساس کو شدیدطور پر مجروح کیا۔ آزادیِ اظہارِ رائے کے شیطانی فلسفۂ مغرب کے خلاف مجلس کی یہ تحریک کسی فکری انقلاب کا پیش خیمہ بننے کے بجائے مذموم سیاسی مقاصد کی تکمیل کا آلہ کار بن کر خود دم توڑ گئی۔ قاضی حسین احمد نے اعلان فرمایا کہ جنرل صاحب ۲۳مارچ کو سلامی نہ لے سکیں گے ۔ لیکن ان کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ ذاتِ رسالت مآبؐ کے لیے دلوں سے اٹھنے والے اضطراب اور محبت کے سمندر کا سیاسی مفادات کی خاطر استعمال دینی قیادت کا المیہ ہے ۔ توہین رسالت کے خلاف عالمی تحریک نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان عملی طورپر آج بھی مغرب کے فکرو فلسفے کو تسلیم نہیں کرتے ۔ جنرل پرویز مشرف کو خاکوں کے مسئلے پر دو ٹوک لفظوں میں کہنا پڑا:‘‘ خاکوں کے خلاف تمام مسلمان متحد ہیں چاہے کوئی انتہا پسند ہو، اعتدال پسند ہو یا انتہائی روشن خیال ہم سب اس کی مذمت کرتے ہیں۔’’مغرب اسی نقطہ نظر کو بنیاد پرستی قرار دیتا ہے۔ مغرب کے خیال میں مسلمانوں کوTolerantہونا چاہیے۔ جو روادار نہیں وہ انسان نہیں ہے۔ یہی مغرب کا تصور انسانیت ہے جسے بعض جدید علما اسلام سے ثابت کرتے ہیں ۔ آزادی اظہار رائے کا شیطان نقاب الٹ کر باہر آگیا ہے لیکن ہمارے دینی مفکرین آج بھی آزادی اظہار رائے کے ترجمان بنے ہوئے ہیں وہ مغرب کی اس اصطلاح کا حقیقی مطلب آج بھی سمجھنے سے معذور ہیں۔

            توہین رسالت کے مسئلے پر عالم اسلام کے جدیدیت پسند مفکرین وحیدالدین خان ، ڈاکٹر منظور احمد اور جاوید غامدی کو بھی جرات نہ ہوئی۔ ذرائع ابلاغ نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس نازک موضوع پر گفتگو سے انکار کر دیا۔

            عالم اسلام کا المیہ یہ ہے کہ وہ مغربی فکر و فلسفے سے بے حد مرعوب ہے لیکن اس کی اصلیت ، حقیقت، حیثیت، ماہئیت، سے واقف ہونے کے لیے تیار نہیں۔ بنیادی حقوق کے فلسفے کو عالم اسلام میں عمومی مقبولیت حاصل ہے۔ جبکہ یہ فلسفہ اسلام کی مابعد الطبیعات، علمیات، وجودیات اور کونیات کا خاتمہ کردیتا ہے۔ عالم اسلام فکری طورشدید خطرے میں ہے۔ کفر کو اسلام کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اس غلطی کی اصل وجہ کفر کی حقیقت سے ناواقفیت ہے۔ عالم اسلام ابھی تک غزالی جیسی کسی ہستی کا منتظر ہے۔ جو مغربی فکر و فلسفے کا حقیقی تجزیہ پیش کرسکے۔

            متحدہ مجلس عمل نے تمام مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ خاکے چھاپنے والے ممالک سے سفارتی اور معاشی تعلقات ختم کر دیں اور ان ملکوں کی مصنوعات کا مقاطعہ کر دیں لیکن متحدہ مجلس عمل نے یہ نہیں بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین جو اس طرز عمل کی سرپرستی کر رہے ہیں ان سے تعلقات رکھے جائیں یا نہیں؟ کیا مجلس عمل کی قیادت خود قربانی دینے پر تیارہے یا اس نے عوام کو روحانی طور پر اتنا بلند کر دیا ہے کہ وہ مغرب کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے مغرب کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں۔ ظاہر ہے مجلس عمل نے ایسی منصوبہ بندی نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی تیاری۔آج سے ستر سال پہلے گاندھی جی اور مسلمان قومی قیادت نے بدیسی مال کا بائیکاٹ کر کے ہندستان میں انگریزوں کے خلاف روح پھونک دی تھی اس زمانے کی قیادت چرخہ چلا سکتی تھی اور کھدر پہن سکتی تھی۔ لیکن کیا آج ہماری قیادت اور ہمارے عوام قربانی دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جمہوری سیاست نے عوام کو تعیشات، عیش و عشرت ، آرام دہ زندگی کا عادی بنادیا ہے۔ یہ ہی ہماری قیادت کاالمیہ بھی ہے جو دنیا سے بہ قدر ضرورت استفادہ کی سنت نبویؐ اور سنت خلفائے راشدینؓ کو ترک کر کے دنیا سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کو عین دین اور ترقی کو (یعنی ذاتی مادی وسائل میں مسلسل اضافے کو) اسلامی قدر کے طور پر متعارف کرا کے عوام کو محبت دنیا میں مبتلا کر چکی ہے۔ لہٰذا عوام کسی قربانی کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتے۔ توہین رسالت کرنے والے ممالک سے ہمارے تجارتی روابط بہت محدود ہیں لہٰذا اس طرح کی جذباتی باتیں کی جاسکتی ہیں لیکن اگر جاپان یا چین توہین رسالت کا ارتکاب کریں تو کیا ہم، ہماری قیادت اور عوام اپنے گھروں سے چینی یا جاپانی مصنوعات نکالنے پر آمادہ ہوں گے، جذباتیت سے ہٹ کر ٹھنڈے دل سے سوچیے ۔ یقینا ایسا ہوسکتا ہے لیکن ایک دنیا پرست ترقی کا طالب جاپانی و چینی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کر سکتا، یہ کام محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت میں مبتلا سچا مومن کر سکتا ہے، ایسے مومن ہماری مذہبی جماعتوں میں کتنے رہ گئے ہیں؟ یہ سوال بھی ہنوزجواب طلب ہے ؟

            رسول کریم ؐ کی زندگی سادگی سے عبارت تھی ۔ آپ ؐ کی سادگی کا عالم یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی پوری زندگی ایک ایسے حجرے میں بسر کی جس میں صرف تین قبریں سما سکتی تھیں۔ ایک ذات ِ رسالت مآب ﷺ کی اوردو ابوبکرؓ اور عمرؓ کی۔ حکمرانوں کی رہائش کے سلسلے میں حضورؐ کی یہ سنت وہ سنت ہے جس پر آپؐ نے ساری زندگی تواتر سے عمل فرمایا۔ کبھی وسیع و عریض کشادہ گھر میں قیام نہیں کیا ۔ یہ سنت امت مسلمہ کے اکابرین بھلاچکے ہیں۔ رسالت مآبؐ نے امت مسلمہ کے علما کو انبیائے بنی اسرائیل کے مساوی قرار دیا ہے۔ انبیا کا طرز زندگی کیا ہوتا ہے۔ انبیا اس دنیا میں مسافر کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں وہ دنیا سے صرف اتنا ہی لیتے ہیں جتنا ذات ِ رسالت مآبؐ نے لیا ہے ۔ وہ دنیا کو اس طرح برتتے ہیں جس طرح رسالت مآبؐ نے برتا تھا۔ آپ ؐ نے پانی میں انگلی ڈبوئی اور باہر نکال لی اور بتایا کہ مومن دنیا سے کتنا متمتع ہوسکتا ہے۔ یہ تشبیہہ یا استعارہ دنیا سے مومنین ، صالحین ، اکابرین اور علما کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔

            دینی قیادت ، پرتعیش طرز زندگی میں مبتلا ہو اس کا شبستاں مٹی کے دیے سے محروم ہو تو یہ امت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روشنی سے محروم رہے گی۔ مٹی کا دیا…… دنیا سے بے رغبتی، آخرت پر یقین، عیش و عشرت کی زندگی سے اجتناب کی علامت ہے۔ انقلاب مٹی کے دیے کی روشنی سے وابستہ ہے جب تک ہماری دینی قیادت مٹی کے دیے کی روشنی سے محروم رہے گی یہ امت اسلامی انقلاب سے محروم رہے گی۔

            مجلس عمل کے حافظ حسین احمد نے کارٹونسٹ اور اطالوی وزیر کے قتل پر انعام دینے کا اعلان کیا۔ بھارت میں یو پی کے وزیر برائے اقلیتی امور یعقوب قریشی نے خاکے بنانے والے کو قتل کرنے پر ۵ء۱۱ملین ڈالر انعام کا اعلان کیا ۔ اے این پی مالاکنڈ ڈویژن نے قاتل کے لیے پانچ کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔ لیکن کسی ایک نے بھی بنیادی حقوق کے فلسفے، مغربی تہذیبی اقدار کا خاتمہ کرنے والے کے لیے کسی انعام کا اعلان نہیں کیا۔ کیا مغربی تہذیبی فلسفے کو اس طرح کے جذباتی اعلانات کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں یا اسے مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ توہین رسالت کی اجازت مغربی تصور اظہار رائے کی آزادی کا نتیجہ ہے۔ اس آزادی کے خلاف پورے عالم اسلام سے آج تک ایک آواز بھی نہیں اٹھی یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔

            ڈنمارک کا عظیم حادثہ بھی سر سے گذر گیا لیکن مغرب کی فکری بنیادوں پر آج تک کوئی مضمون شایع نہیں ہوا۔اسوقت نہیں ہوا توآیندہ کیا توقع کی جا سکتی ہے؟(بشکریہ، ماہنامہ ساحل اپریل۲۰۰۶)

            پھر اسپتال بھی چلی جاؤں گی۔ وہ بیچارہ پریشان ہوتا ہوگا’’۔مگر یہ کہتے ہوئے میں تکلیف کی شدت سے سڑک پر گر پڑی تھی۔۔۔۔۔ ۔

            اسد کے ساتھ میرے اس مکالمے کو کئی دن بیت چکے ہیں مگر میں اب بھی اپنے بازو پر لگے ٹانکوں کو گھورتے ہوئے یہ سوچتی ہوں کہ اس دن اسد کی بات سن کر میں جب بیڈ پر گری تھی تو مجھے یہ کیوں محسوس ہوا تھا کہ میں جیسے بیڈ پر نہیں بلکہ سڑک پر گر پڑی ہوں۔