راستے اور گلیاں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : اگست 2006

            وہ کیا خوبصورت گلیاں تھیں اور وہ کیا خوش بخت لوگ تھے ،کہ جن کے شب و روز محبوب ِ خدا ،سید الانبیا، اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بسر ہوتے تھے!!میں قربان جاؤں ،مدینہ طیبہ کی اُن گلیوں اور شاہ راہوں پر،جن پر فخرِ کائنات گامزن رہتے تھے۔جن ذروں کو آپ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا اور جن راہوں پر آپ ﷺ چلتے تھے،قربان جاؤں ،آپ کی تعلیمات پر ،کہ اُن راستوں اور گلیوں کے بھی حقوق مقرر فرمائے۔اور اپنے ماننے والوں کو ان پر چلنے اور رہنے کے آداب سمجھائے۔لاکھوں درود آپ پر لاکھوں سلام آپ پر!!

            یکے از جان نثارانِ محمد،جناب سیدنا طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں ،کہ ایک دن ہم چند دوست ،مدینہ کی ایک گلی میں زمین پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے،کہ سید ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم گلیوں اور بازاروں کو رونق بخشتے ہماری طرف آ نکلے۔ہمیں یوں بیٹھا دیکھ کر ،ہمارے پاس رک گئے اور استفسار فرمایا کہ تمھیں راستوں پر یوں مجالس منعقد کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟گویا حضور ﷺ نے اِس بات کو نا پسند فرمایا کہ شارع عام پر روزانہ محفل اور بیٹھک منعقد کی جائے۔یہ منظر آج بھی ہم اپنی گلیوں اور محلوں میں دیکھ سکتے ہیں۔لوگ اپنے اپنے گھروں،دکانوں اور مکانات کے باہر ،گلی بازار میں بیٹھ جاتے ہیں۔اوریہ سب کچھ عموماً بے مقصد ہوتا ہے ۔راستہ تنگ ہو جاتا ہے جو کہ آنے جانے والوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ ہمارا دین کب برداشت کرتا ہے کہ کسی دوسرے کے لیے آپ تکلیف اور تنگی کا باعث ہوں۔لہٰذا خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے صحابہ ؓ سے ارشاد فرمایا کہ راستوں میں بیٹھنے اور مجالس برپا کرنے سے اجتناب کرو۔

            سیدناطلحہ ؓ اور ان کے ہم نشینوں نے وضاحت کرتے ہوئے عرض کی ،کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ہم کسی بُرے قصد سے یہاں نہیں بیٹھے۔گھروں میں مردانہ حصہ نہ ہونے کے باعث،ہمارے لیے یوں راستے میں بیٹھنے کے سوا چارہ نہیں اور ہم محض خوش گپیوں اور عام بات چیت میں مصروف تھے۔ہادی عالم ؐ نے اپنے صحابہ کی اِس وضاحت کو تسلیم کیا۔گویا بعض عوامل اور مجبوریوں کے باعث ایسا کیا بھی جا سکتا ہے۔گلیاں اور راستے دراصل انسانوں کی ضرورت ہوتے ہیں۔ان کا اصل مقصد تو بطور گزرگاہ استعمال ہونا ہے۔ان کی اس حییثت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔شاہراہیں کسی کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ سب کے لیے یہ گزر گاہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔اس لیے اِ ن کی اس حیثیت کو برقرار رکھنا اور اِن کے حقوق کی پاس داری کرنا سب کی برابر کی ذمہ داری ہے۔

            خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ اگر تم راستے کے اس استعمال پر مجبور ہی ہو تو پھر راستے کے حقوق ادا کرو اور اِس کے آداب کا لحاظ رکھو۔صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ راستے کے کیا حقوق ہیں؟محسن ِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

            ۱۔ نظر نیچی رکھو۔حیادار اور عفت مآب خواتین کو تکتے نہ رہو۔کیونکہ یہ شارع عام ہے ،یہاں سے خواتین نے بھی گزرنا ہے، اس لیے تم اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو اور انہیں جھکا کر رکھو۔

            ۲۔ تکلیف دہ چیز کو دور کرو۔یعنی راستے میں ایسی کوئی رکاوٹ ہے جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو رہی ہے یا تکلیف ہونے کا کوئی اندیشہ ہے،اُسے ہٹا دینا چاہیے۔یہ راستے کا حق ہے ایک اور موقع پر ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ راستے پر پڑی کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ راستوں کو صاف ستھرا رکھنا بھی نیکی کا کام ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر انسان کے ذمہ ہے کہ ہر دن جس میں سورج نکلتا ہے اپنے بدن کے ہر جوڑ کی طرف سے( اس کی سلامتی کے شکرانے میں )ایک صدقہ ادا کرے۔فرمایا کہ تمھارا دوآ دمیوں کے درمیان انصاف کر دیناصدقہ ہے۔کسی آ دمی کواُس کی اپنی سواری پر بٹھانے میں یا اُس کا سامان اٹھا کر اس پر رکھوانے میں اس کی مدد کرنا صدقہ ہے۔اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔ہر وہ قدم جو نماز کے لیے اُٹھاؤ صدقہ ہے۔اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دویہ بھی صدقہ ہے۔(مسلم ،باب صدقہ) اسی طرح ترمذی میں ہے کہ خیر البشر ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر ذرا سا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے۔

            ۳۔ سلام کا جواب دینا۔یعنی راہ گزرنے والوں سے لا تعلق نہ بیٹھیں۔اُن کی اور اپنی سلامتی کی فکر میں رہیں اور اس فکر کے عملی اظہارکے طور پرآنے جانے والوں کو سلام کریں اور ان کے سلام کا جواب بھی دیں۔گویا آپ نے راستے میں محفل لگائی ہے تو عملاًیہ ثابت بھی کریں کہ اس سے کسی دوسرے کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین عطا فرما یا ہے اُس میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کو خاص اہمیت دی ہے۔

            ۴۔ اچھی بات یا نیکی کی بات کرنا یا فرمایا کہ اچھی بات کا حکم دینا اور بُری بات سے روکنا بھی راستے کا حق ہے۔گویا راستے میں بیٹھے ہوئے بھی آپ ایک اخلاص بھرے داعی اور اخلاق بھرے راعی کا کردار ادا کریں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی کو اچھی بات کہہ دینا بھی صدقہ ہے اور اسے کسی برائی سے آگاہ کرنا اور روکنا بھی صدقہ ہے۔

            حقیقت یہ ہے کہ سید الرسلؐ کا ماننے والا جہاں کہیں بھی ہو دوسروں کا خیر خواہ اور ان کی سلامتی کا طالب ہوتا ہے۔یہی پیارے نبی ﷺ کی سنت ہے۔اُس کی یہ حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھ سے یا زبان سے کسی دوسرے مسلمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔یہی خیر البشر ﷺ کا پیغام ہے۔

            بخاری شریف میں کم و بیش یہی مضمون سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہوا ہے ۔وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ،تم راستوں میں نہ بیٹھا کرو۔ہم نے عرض کیا،یارسول اللہ،ہمارے لیے راستوں میں بیٹھنامجبوری ہے ۔ہم وہاں بیٹھ کر اپنی باتیں کرتے ہیں۔آپ نے فرمایا ،‘‘(ٹھیک ہے اگر) بیٹھنا( کوئی مجبوری) ہے تو پھر بیٹھو ،لیکن راستے کے حقوق بھی ادا کرو۔’’ہم نے عرض کیا ،یا رسول اللہ ! راستے کے حقوق کیا ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،‘‘نگاہوں کو نیچا رکھنا،تکلیف دہ چیزوں کو راستہ سے ہٹا دینا (گویا خود بھی تکلیف پہنچانے سے باز رہنا)،سلام کا جواب دینا،نیکی کی نصیحت کرنا اور برائی سے روکنا’’۔

لاکھوں درود آپ پر ، لاکھوں سلام آپ پر ، اللہم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم علیہ