سرخ لکیر

مصنف : ماسٹر تاج الدین انصاری

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : اگست 2006

قسط ۔۱

قیام پاکستان کے پس منظر میں ایک دل گدازآپ بیتی ۔چشم دید واقعات اور حقیقی تاریخ کا بیان

آپ بیتی

            برطانیہ نے ہندستان چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا،میں نے اس فیصلہ پر متعدد بار غور کیا ، دماغ اس فیصلہ کی تصدیق کرتا تھا، حالات سے تائید ہوتی تھی، مگر دل کہتا تھا برطانیہ ہندستان سے دست بردار ہو رہا ہے! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے دل اور دماغ دونوں کو اکٹھا کر کے غور کیا تو یہ بات سمجھ میں آئی کہ برطانوی حکومت بحالت مجبوری دست بردار ہو رہی ہے، جانے سے پیشتر کوئی گل کھلا کر رخصت ہو گی، بہت ممکن ہے ہماری آزادی کی مٹھاس میں زہر ملا دے۔ چند ماہ بعد میرا قیاس درست ثابت ہوا، لارڈ مونٹ بیٹن نے ہندوستان کو تقسیم کرتے وقت ایسا خط کھینچ دیا جسے سیاہی کی بجائے انسانی خون سے اجاگر کرنا پڑا۔ ہندوستان کی دو قومیں آپس میں دست وگریباں ہو گئیں۔ اس باہمی آویزیش کو دو قوموں کی جنگ کہنا لفظ جنگ کی تو ہین ہے، بھوکے بھیڑیوں نے انسانوں کا لبادہ اوڑھ لیا اور ایک دوسرے کو پھاڑ کھایا۔ یہیں پربس نہیں انسانوں نے انسانیت کی دھجیاں اڑا دیں بربریت کا ایسا مظاہرہ ہوا کہ کائنا ت کانپ اٹھی، شرم وحیا نے منہ چھپا لیا، دریاؤں کی مچھلیاں انسانی گوشت سے اس قدر سیر ہوئیں کہ وہ انسانی لا شیں دیکھ کر نفرت وحقارت سے منہ پھیرنے لگیں۔ زمین نے تمام وسعتوں کے باوجود انسانی لاشوں کو جگہ دینے سے انکار کر دیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب دنیا بزعم خود ترقی کی منزلیں طے کر رہی تھی۔ انسانوں کو نئی روشنی پر فخر تھا۔ اے کاش ہم رجعت قہقہری پرقادر ہوں اور تیرہ سو سال پیچھے پلٹ جائیں، خوشنما عمارتوں اور صاف ستھری گزر گاہوں سے عرب کا وہ ریگزار ہزار درجہ بہتر ہے جہاں انسانیت کو پناہ ملی، خشک پہاڑی کے اس ٹیلے پر جہاں محسنؐ کائنات نے درسِ انسانیت دیا ہزاروں محلات قربان کیے جا سکتے ہیں۔ میری بدنصیب آنکھوں نے مشرقی پنجاب کا ہولناک نقشہ دیکھا ہے۔ میں ان درد ناک نظاروں کو فراموش کر دینا چاہتا ہوں، میں اپنی آنکھیں تو بند کر سکتا ہوں مگر اپنے حافظہ کو کیا کروں ، میں بھولنا چاہوں بھی تو کیسے بھول جاؤں۔

پنجاب میں فسادات کی ابتدا کیسے ہوئی

 امرت سر

            مجلس مرکزیہ کے دفتر میں امرت سر کے احرار کارکنوں نے مسلسل ایسی اطلاعات ارسال کیں جن سے یہ پتا چلتا تھا کہ سکھوں کی طرف سے مسلمانوں پر متعدد حملے ہو چکے ہیں، مسلمان نہتے ہیں سکھ کرپانیں لیے پھرتے ہیں اور مسلمانوں کی خانہ تلاشیاں ہو رہی ہیں، جیبوں سے قلم تراش تک نکلوا لیے جاتے ہیں، ہر مسلمان پریشانی کے عالم میں سوچ رہا ہے کہ کیا کرے۔ حضرت شاہ صاحب، شیخ حسام الدین، آغا شورش، غازی محمد حسین امرت سر تشریف لے گئے۔ شاہ صاحب کے پہنچتے ہی ان کے اپنے محلہ پر سکھوں نے حملہ کر دیا، محلہ والوں کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا، مسلمان نوجوان گو بہادر تھے مگر مسلح گروہ کا خالی ہاتھ کس طرح مقابلہ کرتے۔ حضرت شاہ صاحب نے انھیں بلایا اور کہا کہ ‘‘میں مستقبل کی ہولناکیاں دیکھ رہا تھا اس بڑھاپے میں میں نے اپنے ہاتھ میں وزنی کلہاڑی اس لیے رکھی تھی کہ شاید تم سمجھو۔ میں چیختا چلاتا رہا تم نے میری ایک بات نہ سنی ۔اپنی حفاطت کے لیے اب جو کچھ کر سکتے ہو کرو میں تمھارے ساتھ ہوں۔ بزدلی کی زندگی سے بہادری کی موت اچھی ہے، یہ لو میری کلہاڑی میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ میں اس مورچہ پر خود کھڑا ہوتا ہوں تم دوسری طرف کی حفاظت کرو’’، امرت سر کا مسلمان اللہ کے بھروسہ پر میدان میں نکل آیا، چارپائیوں کی پٹیاں، بانس یا ایک آدھ لاٹھی، بس یہی سامان حرب تھا، دوسری طرف کوئی کمی نہ تھی، پھر خدا جانے کیا ہوا کہ سکھ سو رما جس تیزی سے حملہ آور ہوئے تھے اسی تیزی سے بھاگ نکلے۔ شہر میں مورچہ بندی شروع ہو گئی، پنجاب کے اکثر مقامات پر حالات بگڑ گئے۔ غازی محمدؐ حسین سالار اعظم کے ہمراہ مجھے بار ہا امر تسر جانا پڑا۔ کچھ دنوں تو یہ صورت رہی کہ ہم دونوں صبح کی گاڑی سے امرت سر چلے جاتے اور شام کو سات بجے کرفیولگنے سے پیشتر وہاں سے لاہور آجاتے۔ رات کو اخبار کا کام کراتے اور صبح پھر امرت سر جا پہنچتے۔ ہم محلہ محلہ، مساجد میں اجتماعات کرتے، مشورہ ہوتا تقریر بھی ہوتی، امرت سر کے مسلمانوں نے جس جرأت اور دلیری کا ثبوت دیا یہ انہی کا حصہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے، اکالی سکھوں کا بھرکس نکال دیا۔ بارہ بارہ چودہ چودہ سال کے مسلمان لڑکے گرانڈیل سکھوں کو مار بھگاتے، کرپانیں چھین لیتے، موت ایک کھیل بن کر رہ گئی، سکھ عاجز آگئے۔ گورنر پنجاب مسٹر جنکتر نے سکھوں کی تعریفوں کے پل باندھے انھیں خوب خوب ابھارا مگر سب بے کار ثابت ہوا۔ اکثر ایسا ہوا کہ مسلمان لڑکے نے سکھ سورما سے تلوار چھین لی، سکھ نے کوتوالی پہنچ کر فریاد کی۔ ان واقعات نے سکھوں کی رہی سہی ساکھ بگاڑ دی۔ افسران نے بھی انھیں یہی کہنا شروع کیا کہ ہم تمھاری تلواروں کے لیے محافظ کہاں سے لائیں۔ ہر مسلح سکھ کے ساتھ حفاظت کے لیے ایک سپاہی چاہیے۔ غرضیکہ امرت سر کے مسلمانوں نے میدان مار لیا۔ گورنر اور پولیس کی امداد سکھوں کو راس نہ آئی۔ مگر تقدیر پس پردہ ہنس رہی تھی۔اس وقت کسے معلوم تھا کہ مسلمانوں کو نہ صرف امرت سر بلکہ سارے مشرقی پنجاب سے نکلنا پڑے گا۔

            میں امرت سر سے واپس آیا تو دفتر کے چپراسی نے مجھے اطلاع دی کہ لدھیانہ سے آپ کے نام ٹرنک کال آیا ہے، ٹیلیفون پر پہنچ کر دریافت کیا کون ہے؟ سیکرٹری مجلس اـحرار لدھیانہ نے علیک سلیک کے بعد گھبرا کر کہا کہ شہر میں گڑبڑ ہے۔ ہم نے آپ کے نام سے جلسہ عام کا اعلان کر دیا ہے۔ اب اگر آپ کلکتہ میل سے سوار ہو کر لدھیانہ نہیں پہنچتے تو سمجھ لیجیے کہ آج کل ہی میں فرقہ وارانہ فساد ہوا چاہتاہے۔’’

            شہر کا سارا نقشہ میری سمجھ میں آگیا۔ ڈاکٹر گوپی چند بھارگو کی کانگریس پارٹی اور اکالیوں کاگٹھ جوڑ ہو رہا تھا۔ مجھے اس سازش کی پہلے سے خبر تھی، ان لوگوں نے شہر کی فضا کو مکدر کر دیا تھا۔ میں نے سیکرٹری سے فون پر کہہ دیا کہ میں آرہا ہوں۔ ابھی کلکتہ میل کی روانگی میں آدھ گھنٹہ باقی ہے۔ تمام رضا کاروں سے کہہ دو کہ وردیاں پہن کر جلسہ گاہ میں موجود رہیں۔ میں میل پر سوار ہو گیا، آپ جانتے ہیں میل کس طرح فراٹے بھرتی جایا کرتی ہے مگر مجھے اس کی رفتار سست نظر آ رہی تھی، زیادہ تیز چلانا میرے بس میں نہ تھا، گاڑی جب بھی کسی جنکشن پر ٹھہرتی میں دل میں سوچتا کس قدر بے قوف ہیں یہ لوگ، خواہ مخواہ گاڑی کو روک رہے ہیں۔ لدھیانہ پہنچ کر جس قدر چاہیں دم لے سکتے ہیں، سستا سکتے ہیں، یہ جذبات کی بات تھی۔ میں جلد لدھیانہ پہنچنے کے لیے بے تاب تھا، ساڑھے دس بجے سیدھا جلسہ گاہ میں پہنچا، بے پناہ ہجوم تھا، مسلمانوں میں سخت جوش تھا، ہندو اور سکھ بھی جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ صدرھیانہ کے مسلمان سکھ اور ہندو دونوں پر بھاری تھے، ان کا اچھا خاصا رعب تھا۔میں دل سے چاہتا تھا کہ فساد نہ ہو، مگر میں یہ بات ہرگز پسند نہ کرتا تھا کہ مسلمان بددل یا مرعوب ہو جائے۔ اس جلسہ میں مسلم لیگی حضرات بھی کافی تعداد میں موجود تھے۔ اختلاف رائے کے باوجود وہ مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میں نے دو گھنٹہ وقت کی ضرورت کے مطابق تقریر کی۔ سکھوں اور ہندوؤں کے ان رہنماؤں کو جو آئے دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے تھے، اچھی طرح رگیدار اور ہندو اور سکھ ہموطنوں سے کہا کہ خواہ مخواہ نہ الجھیے۔ آج میں مسلمانوں کو سمجھائے دیتا ہوں وہ تم پر ہاتھ نہ اٹھائیں گے، مگر تم اپنے شرارتی عنصر کو خود سمجھاؤ، ایسا نہ کرو گے تو سخت پٹائی ہو گی۔ جلسہ گاہ میں جذبات کی عجب کیفیت تھی، میں نے تمام مسلمانوں سے پر امن رہنے کے لیے حلف لیا۔ ہاتھ اٹھوائے جلسہ بخیرو خوبی ختم ہو گیا، میں دو دن ٹھہرا رہا، حالات معتدل ہو گئے۔ معاملہ فہم ہندو لیڈروں نے اس وقت تدبر سے کام لیا، اور شرارتی عنصر وقتی طور دب گیا، میں واپس لاہور چلا آیا۔

            چند دن بعد کسی جوئے خانہ میں ایک ہندو قتل ہو گیا۔ قاتل کا کچھ پتہ نہ چلا کہ کون ہے، شرارتی لوگوں کو پھر موقع مل گیا، یہ قتل مسلمانوں کے سر تھوپا گیا۔ شہر کی ہوا پھر خراب ہو گئی، اس مرتبہ جذبات بھڑک اٹھے، میں پھر لدھیانہ پہنچا، میں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ ہندو محلوں میں باقاعدہ سازشیں ہو رہی ہیں۔ ایک گروہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو فساد کیے بغیر مانے گا نہیں۔ دوستوں سے مشورہ کیا اور ذمہ دار ہندوؤں سے بات کی انھیں سمجھایا کہ شہر برباد ہو جائے گا۔ چند اوباش شہر کی کو بٹہ لگا دیں گے، دوران گفتگو میں میں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ روگ اب ان شریف ہندوؤں کے بس کا نہیں۔ فسادی عنصر انھیں بھی آنکھیں دکھا رہا ہے۔ دوسرے دن اچانک سر بازار ایک مسلمان شہید کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو اس واقعہ سے سخت اشتعال آیا، مگر وہ میرا منہ تکتے رہے، میں انھیں صبر کی تلقین بھی کرتا تھا اور انھیں یہ بھی سمجھاتا تھا کہ خطرناک راستوں سے پرہیز کرو اور ہندو محلوں میں اکیلے مت جاؤ۔ شہر میں افواہیں پھیلنے لگیں، کبھی ایک محلہ سے جھوٹی افواہ اڑائی جاتی کبھی دوسرے محلہ سے۔ ان افواہوں نے بالآخر خطرناک صورت اختیار کی لی۔ سارے شہر کو یقین ہو گیا کہ فساد ضرور ہو گا، اور بہت جلد ہو گا۔ ایک دن مجھے کسی شخص نے ہانپتے کانپتے آ کر کہا کہ لکڑ بازار میں فساد ہو گیا۔ میں گھبرایا ہوا اس طرف چل پڑا، راستہ میں پتا چلا کہ چوک گوجران میں فساد ہو رہا ہے۔ یہ چوک بہت خطر ناک تھا یہاں ہندو مسلم آبادی کا سنگم تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ فساد ضرور ہو ا ہو گا۔ تانگہ میں سوار ہو کر ادھر روانہ ہو گیا۔گھوڑا سست تھا اور دور فاصلہ پر ہجوم بھی نظر آرہا تھا ۔شور تھی ہو رہا تھا میں تانگہ سے اتر کر جائے وقوعہ کی طرف دوڑا۔ مسلمانوں کا ہجوم راستہ روکے کھڑا تھا، میں نے بلند آواز سے کہا مجھے آگے جانے دو۔ راستہ مل گیا میں بہت جلد چوک میں پہنچ گیا، فریقین میں چند گز کا فاصلہ تھا اور گتھم گتھا ہونے میں صرف دو ایک منٹ کی دیر تھی۔ ہندوؤں کی طرف سے خشت باری ہو رہی تھی، بھالے لاٹھیاں اور چھریاں نکل چکی تھیں۔ ذرا ہمت سے کام لے کر میں فریقین کے درمیان حائل ہو گیا۔ میں نے ہندوؤں کی طرف سے منہ پھیر لیا اورمسلمان نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ‘‘ میرے عزیزو! تھوڑا پیچھے ہٹ کر میری بات سنو۔’’ ایک نوجوان نے جو میرے ایک عزیز دوست کا بیٹا تھا غصہ سے مجھے کہا کہ ماسٹر جی آپ بیچ میں سے ہٹ جائیے۔ ان ہندوؤں نے ہم پر بلا وجہ خشت باری کی ہے۔ آج ہم ان سورماؤں سے نپٹ کر دم لیں گے۔ نوجوان کی آنکھوں میں خون تھا۔ اس گروہ میں جس قدر نوجوان تھے وہ احرار اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے، مگر وہ میری بات کو ٹالنے کی جرأت نہ کر سکتے تھے۔میں نوجوانوں کو ابھی سمجھا ہی رہا تھا کہ ہندو نوجوانوں نے پھر خشت باری شروع کر دی، مسلمانوں نے چلا کر مجھے کہنا شروع کیا،‘‘اگر آپ کو ایک بھی اینٹ لگ گئی تو ہم سارے محلہ کا صفایا کر دیں گے۔’’

            اب میں نے ہندوؤں کے ہجوم کی طرف دیکھا، ان میں کچھ لوگ دوسرے محلوں سے آئے ہوئے تھے ، جنھیں میں پہچانتا تھا، میں نے انھیں ڈانٹا اور کہا کہ میں مسلمانوں کو روک رہا ہوں تم بلا وجہ انیٹیں چلا رہے ہو۔ کم بختو یہ تو ابھی تمھاری تکا بوٹی کر دیں گے۔ میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ ایک بالا خانہ سے اینٹ آئی اور سنسنائی ہوئی میرے سر کے پاس سے گزر گئی۔ مسلمان نوجوان بپھر گئے، وہ مجھے کہتے تھے کہ دیکھ لیا آپ نے؟ آپ پرے ہٹ جائیے ہم ابھی ٹھیک کیے دیتے ہیں۔

            میں صورت حال کی اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔ مسلمان چوک سے آگے بڑھ آئے تھے، مجھے خطرہ بھی تھا کہ یہی راستہ کوتوالی کا ہے، ابھی پولیس کی گارد آ جائے گی، ہندو چونکہ اپنے محلہ میں ہیں وہ گھروں میں گھس کر دورازے بند کر لیں گے۔ مسلمان نہ آگے جا سکے گا اور نہ پیچھے مڑ سکے گا خواہ مخواہ گولیوں کا نشانہ بنے گا۔ میں نے نوجوانوں سے خفا ہو کر کہا کہ میں تم کو آگے نہ جانے دوں گا، پہلے مجھ کو قتل کرو پھر آگے جانے۔ شریف اور بہادر نوجوان ٹھنڈا سانس لے کر پیچھے ہٹے بعض نے مجھے طعنہ بھی دیا اور یہ کہا کہ تم نے ان ہندوؤں کی جان بچا دی، ورنہ لالہ بھائیوں کو پتا چل جاتا کہ اینٹیں کیسے ماری جاتی ہیں۔ ابھی یہ طعنہ زنی ہو ہی رہی تھی کہ دور سے مسلح پولیس کی لاری آتی دکھائی دی۔ میں نے مسلمان نوجوانوں کو ڈانٹ کر کہا کہ ایک دم گھروں کے اندر داخل ہو جاؤ۔ لاری سرپر آ پہنچی، مگر نوجوان میرا کہنا مان چکے تھے، پولیس انچارج نے مجھ سے پوچھا ابھی جو ہجوم کھڑا تھا کدھر گیا میں نے کہا کچھ ادھر اور کچھ ادھر، وہ لڑنا چاہتے تھے میں بیچ میں حائل ہو گیا یہاں خیریت ہے آپ شہر کے دوسرے حصہ کی خبر لیں۔ تھوڑے فاصلہ پر ایک تانگہ کھڑا تھا جس پر لاٹھیوں کی بارش ہو رہی تھی، میں نے تھانیدار سے کہا کہ وہ دیکھو سامنے کسی کو مارا جا رہا ہے لے جاؤ اپنی لاری بچاؤ اگر بچا سکتے ہو۔ لاری کوسٹا رٹ کرنے میں ذرا دیر ہوئی، مارنے والے رفو چکر ہو گئے۔ کرفیو آرڈر کا اعلان ہو گیا، شہر میں سناٹاچھا گیا، مگر فساد رک گیا۔ ایک ہفتہ کے اندر فضا پھر درست ہوگئی، بازار کھل گئے، کاروبار جاری ہو گیا، بطاہر سکون نظر آرہا تھا مگر یہ ایسا ہی سکون تھا جو طوفان آنے سے پہلے سمندر کی سطح پر نظر آتا ہے، حالانکہ سطح کے نیچے خوفناک طلاطم کروٹیں لیتا ہے۔میں پھر لاہور واپس چلا آیا، اور لاہور سے امرت سر چلا گیا۔ امرت سر کے بازار راکھ کا ڈھیر بن چکے تھے، جگہ جگہ آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے مگر اب مسلمان کے دل پر کوئی خوف وہراس نہ تھا، وہ موت سے کھیل رہے تھے، مسلمان کے پاؤں جم چکے تھے سکھ بھاگ رہے تھے، مجھے مرکز میں واپس آنا پڑا، شہر امرت سر کی طرف سے ہم سب کو ایک حد تک اطمینان تھا، البتہ دیہات کے حالات مخدوش ہو چکے تھے۔

٭٭٭

مشرقی پنجاب کے مسلمانوں پر کیا گزری

            عید الفطر سے تین دن قبل لدھیانہ کے احرار دوستوں نے مجھے ایک روح فرسا پیغام بھیجا، جس نے میرے تمام پروگرام کو تہ و بالا کر دیا۔ ان دنوں میں لاہور میں مقیم تھا اور امرت سر کے دیہات کا دورہ کرنے والا تھا۔ امرت سر کے احباب میرے انتظار میں پابہ رکاب تھے ۔ اسی اثناء میں لدھیانہ سے بلاوا آگیا۔ آؤ ورنہ شہر لٹ جائے گا، سکھوں نے اپنی جتھہ بندی مکمل کر لی ہے، ریاست پٹیالہ میں باقاعدہ اڈے بن چکے ہیں، دو چار روز میں سکھ بلوائی شہر پر دھاوا بولنے والے ہیں۔

            میں یہ بات پہلے ہی سے سمجھے ہوئے تھا اور میں نے احباب سے اکثر اس بارے میں اپنی رائے کا بھی اظہار کر دیا تھا کہ لدھیانہ سکھ ضلع ہے، یہ ایک آتش فشاں پہاڑ ہے فساد کی ہلکی سی چنگاری مسلمانوں کی تباہی بربادی کا باعث ہو سکتی ہے۔ مختصر یہ کہ میں حضرت امیر شریعت سے اجازت لے کر لدھیانہ پہنچا شہر پر ہراس طاری تھا، احباب پریشان تھے، مشورہ ہوا اور اللہ کے بھروسہ پر تگ ودو شروع ہو گئی، بد قسمتی سے میرا محلہ سکھ آبادی میں اور دیہاتی شاہراہ پر آبادتھا، اس طرف سے زیادہ خطرہ تھا، میں نے چند دوستوں کو ساتھ لیا اور سکھوں کے مرکز میں عارضی اہتمام مفاہمت کی طرح ڈالی۔ سکھ مسلم مشاورتی کمیٹی بھی بن گئی، مگر میں جانتا تھا کہ یہ خوش فہمی کا مقام ہے، قومیں جب بدی پر اتر آئیں اور تہیہ کر لیں تو کبھی اپنے ارادوں سے باز نہیں آتیں۔ سردار منگل سنگھ ایم ایل اے (سنٹرل) کی پارٹی نمائشی کانگرسیوں اور سیوک سنگھ والوں سے ساز باز کرنے میں مصروف تھی۔ حالات بگڑ نے شروع ہوئے، اکے دکے مسلمانوں پر حملے ہونے لگے، دو تین مسلمان روزانہ موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے۔مسلمانوں نے ہاتھ نہیں اٹھایا، اس حد تک کہ کسی ایک ہندو اور سکھ کو بھی گزندنہ پہنچا۔

            یہ وہ وقت تھا کہ جب مسلم لیگ، احرار اور بعض مخلص کانگریسی کارکن آپس میں دلی تعاون کرتے اور قیام امن کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے تھے۔ عزیز محمود علی عارف مسلم لیگ کی طرف سے پیش پیش تھے، وہ دیوانہ وار میرے ہمراہ متاثرہ علاقوں میں گھومتے، پریشان حال لوگوں کی ڈھارس بندھواتے رہے، عید گاہوں میں پہنچنا شروع کیا، پولیس نے اچھی خاصی نمائش کر رکھی تھی ۔خوشی کا وقت خوف وتشویش کی گھڑیاں بن کر گزر گیا۔ لوگ خیریت سے گھروں میں پہنچ گئے، ادھر اکالی اور سیوک سنگھ کے سورما فساد کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے حملہ کا کوئی جواب نہیں دیا۔ فسادی رہنما ناکامی کا منہ دیکھنے لگے، شہر سے باہر گوردوارے میں مشورہ ہوا، اور یہ طے پایا کہ مسلمانوں پر ہلہ بول دیا جائے۔ جگہ جگہ غیر علاقوں کے سکھ نظر آنے لگے۔ ہمارا محلہ محاذ جنگ بن گیا، کچھ ہندو اور سکھ ایسے بھی تھے جو فساد نہیں چاہتے تھے مگر وہ بے بس تھے ۔ کانگریس کے مخلص کارکن قیام امن کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگے۔ اس نیک کام کے لیے وہ جس قدر آگے بڑھے ہندو اور سکھ قوم نے انھیں اسی قدر پیچھے دھکیل دیا، حتیٰ کہ انھیں اپنی جانوں کے بھی لالے پڑ گئے۔مولوی عبدالغنی جو کل تک ہندوؤں اور سکھوں میں محبوب تھے، کٹر فرقہ پرست سمجھے جانے لگے۔ غرض کہ شہر میں اچانک تبدیلی آگئی۔ ہمارے ہاں شہر سے باہر محلوں کی شکل میں کچھ نئی آبادیاں تھیں، جو سکھوں کے نرغہ میں آگئیں، میں نے آبادیوں میں جا کر مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی، مگر سیل حوادث نے بہت جلد میرے باندھے ہوئے کمزور بند یکے بعد دیگرے توڑ ڈالے۔

ڈپٹی کمشنر اور سپر نٹنڈنٹ پولیس کے خوفناک ارادے

            اکالی رہنما اور بلوائیوں کے سرکردہ کو توالی کے چکر کاٹنے لگے، ہم فریادی کی حیثیت سے افسران کی کوٹھیوں پر اور کوتوالی میں پہنچتے تو سب سے پہلے ہمیں انھیں لوگوں سے دوچار ہونا پڑتا جن کے خلاف ہمیں فسادات کو ہوا دینے کی شکایت ہوتی۔ہم نے کانگریسی رہنماؤں سے کہا کہ وہ صحیح حالات کی اطلاع ہائی کمانڈ تک پہنچائیں اور انھیں بتائیں کہ کانگریسی حکومت میں اندھیر گردی ہو رہی ہے اور کانگریس کے نام کو بٹہ لگ رہا ہے۔ مولوی عبدالغنی اور سردار بچن سنگھ ایم ایل اے کئی بار دہلی پہنچے، مگر نیچے کی تمام مشینری سازش میں شریک ہو کر من مانی کارروائیاں کر رہی تھی۔ حکومت نے اعلان کیا کہ جیپ کاریں جن سے بلوے منظم کیے جاتے ہیں ضبط کر لی جائیں، مگریہی کاریں ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی اور کوتوالی میں بلوائی رہنماؤں کو لے کر پہنچتی رہیں۔ سردار بچن سنگھ ایم ایل اے نے ایک روز ہماری موجودگی میں سپر نٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی کمشنر سے صاف صاف کہہ دیا کہ فسادات میں آپ کا ہاتھ ہے۔ آپ کے ہاں بلوائی رہنما آتے ہیں، جیپ کاریں نہ صرف بازاروں میں بلکہ کوتوالی میں ہو کر دیہات کو جاتی ہیں۔ آپ انھیں پٹرول کے پرمٹ بھی دیتے ہیں، ہمارے پاس ثبوت موجود ہے۔ افسران گھبرائے تو بہت مگر نہایت بے حیائی سے باتیں بناتے رہے۔ مجرم ضمیر انھیں اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ بہر حال ہمیں مستقبل کی ہو لناکیاں صاف نظر آنے لگیں۔ ہم نے ان کانگریسی دوستوں کو دہلی اور لاہور بھجوا دیا، تاکہ وہ کانگریسی رہنماؤں کو تبدیلی حالات کے لیے کچھ کرنے پر مجبور کریں، اور ان غیر ذمہ دار افسروں کو تبدیل کرادیں، مگر ہماری تمام کوششیں ناکام رہیں۔ ہونے والی بات ٹل نہ سکی اور ہمارے بنائے کچھ نہ بنا، آخر ہمیں سکھ سورماؤں کے مظالم کا شکار ہونا پڑا۔

پہلا حملہ

            صبح سویرے گھر سے نکلا، محلہ سے باہر چوک پر پہنچا، چند مسلمان دوستوں سے بات کر رہا تھا کہ ایک سکھ سارجنٹ موٹر سائیکل پر سوار چوک میں پہنچا، چوک میں سکھ سارجنٹ کو کھڑا دیکھ کر ارد گرد کے تمام سکھ باہر نکل آئے، گویا انھیں اس جرنیل کی آمد کا پہلے سے انتظار تھا، سکھ سارجنٹ نے باآواز بلند کہا:‘‘ہوشیار ہو جاؤ، تیار ہو جاؤ۔’’اتنا کہا اور موٹر سائیکل کا رخ پھیر کر واپس ہو گیا، میں معاملہ کو بھانپ گیا، اور آگے جانے کی بجائے محلہ ہی میں رک گیا، پانچ منٹ بعد ایڈیشنل پولیس کے سکھ سپائی آئے اور بلا وجہ فائر کرنے شروع کر دیے۔ لوگوں پر دہشت چھا گئی، تمام لوگ اپنے گھروں میں دبک گئے، فائرنگ کے ساتھ ہی بلوائی سکھوں کا گروہ جیل روڈ پر نکل پڑا تالے توڑے جانے لگے، ایڈیشنل پولیس کے سکھ سپاہی جن کے رنگ سیاہ تھے اور غالباً یہ لوگ بھنگی یا چمارتھے، مگر اب تازہ سکھ بن کر منگل سنگھ کی سفارش سے پولیس میں بھرتی ہو گئے تھے، لوٹ مار میں برابر کے شریک تھے، اور مال لوٹ لوٹ کر لے جا رہے تھے میں نے کچھ دیر محلہ کے نوجوانوں کا انتظار کیا۔ آدھ گھنٹہ میں میرے مکان کے قریب مخلص اور بہادر نوجوانوں کا ایک گروہ جمع ہو گیا، وہ نوجوان کوچہ سے باہر ایڈیشنل پولیس کے مسلح سپاہیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ سب نہتے ہیں۔ رائفل کا مقابلہ لاٹھی سے کب تک ہو گا، جب ان سے دریافت کیا کہ اس علاقہ میں کوئی بندوق یا رائفل ہے تو جواب نفی میں ملا۔ مشورہ ہو ا اور طے پایا کہ ہمیں باہر کا میدان کھلا چھوڑ دینا چاہیے، جب بلوائی محلہ میں داخل ہوں تو ان پر پتھراؤ کیا جائے اور پھر ایک دم ہلہ بول کر ایک آدھ رائفل چھین کر کام لیا جائے، ہم نے محلہ کے اندر چوراہے پر ایک مضبوط مورچہ سنبھال لیا۔ ہمارا خیال درست ثابت ہوا، ایڈیشنل پولیس کے چند مسلح سپاہی تھری ناٹ تھری کی رائفلیں سنبھالے محلہ میں داخل ہو ئے اور فائر کرنے لگے۔ ہمارے چند نوجوانوں نے عجلت سے کام لیا اور راستہ ہی میں ان پر اینٹیں برسانی شروع کر دیں۔ مسلح سپاہی آگے بڑھنے سے رک گئے اور پوزیشن لے کر فائرنگ شروع کر دی۔ ہمارے لیے مورچہ چھوڑ کر پیچھے ہٹنا خطرناک تھا۔ گولیوں کے جواب میں ہمارے پاس صرف اینٹیں تھیں، یہ سکھ سپاہی بزدل تھے، اور آگے بڑھنے سے گھبراتے، ہماری اینٹیں بمشکل ان تک پہنچتی تھیں۔ وہ ہمارے نوجوانوں کو زخمی کرنے لگے، دو نوجوان دیکھتے ہی دیکھتے شہید ہو گے، کچھ زخمی ہوئے، یہ صورت حال نقصان دہ تھی، ہمارے نوجوان اپنے ساتھیوں کی شہادت سے سخت مشتعل ہو گئے، مجھ سے کہنے لگے، اگر ہم چھت سے کود کر حملہ کر دیں تو شاید ایک آدھ رائفل چھین سکیں گے، میرے منہ سے ‘‘بہت اچھا’’ کا نکلنا تھا کہ نوجوانوں نے نعرہ تکبیر بلند کر کے چھلانگیں لگا دیں، اور ہلہ بول دیا، مگر سکھ سپاہی رائفلیں سنبھال کر بھاگ نکلے، ہمیں پھر اپنے مورچہ پر ان کا انتظار کرنا پڑا، تین دفعہ ایسا ہی ہوا سپاہی آتے مگر نوجوانوں کی یلغار انھیں بھگا دیتی۔ مسلسل تین گھنٹے یہ مقابلہ جاری رہا، شہر والوں کو اطلاع مل چکی تھی کہ فیلڈ گنج پر حملہ ہو رہا ہے۔ مگر وہ امداد بھیجنے کی بجائے اپنے اپنے محلوں میں بندوقیں سنبھال کر بیٹھے رہے۔ اسی اثنا میں ایڈیشنل پولیس کے سپاہیوں نے عقب سے حملہ کر کے ہمارے چند نوجوانوں کو شہید کر دیا۔

            مجھے ایک لڑکے نے بتایا کہ دوسرے مورچہ پر غلام محی الدین کو ایک سکھ انسپکٹر نے گولی مار کر زخمی کر دیا ہے، زخم کاری ہے غلام محی الدین کی حالت نازک ہے، وہ آپ کو بلا رہا ہے میں مورچہ سے پیچھے ہٹا۔ ابھی پانچ سات قدم چلا تھا کہ میرے ساتھی بھی پیچھے ہٹنے لگے، اس صورت حال کو دیکھا تو میں پھر مورچہ پر واپس آگیا، کبھی غلام محی الدین کا خیال آتا تو میں مورچہ چھوڑ کر اس کے پاس پہنچنا چاہتا تھا، پھر جب ساتھیوں کی گھبراہٹ دیکھتا تو انھیں حوصلہ دلانے کے لیے مورچہ پر جم کر کھڑا ہو جاتا۔اب ہمارے لیے مورچہ سنبھالے رکھنا مشکل تھا، شام ہو گئی، اندھیرا چھا گیا، ساتھ ہی پولیس ریڈ (Raid) بھی بند ہو گئی۔ رات پریشانی میں گزری، کرفیو آرڈر نے راہیں مسدود کر رکھی تھیں، صبح ہوئی تو میں نے کوتوالی کا رخ کیا، افسران موجود تھے، شہر کے دوسرے معززین پہنچ چکے تھے، شہر کے مسلمانوں پر ہراس چھا چکا تھا۔لیگ کے رہنماؤں نے بھی کافی دوڑ دھوپ کی، دوپہر بعد افسروں سے ملاقات کر کے لوٹے تو حالات پھر خراب ہونے لگے، اس مرتبہ ایڈیشنل پولیس والوں کی تعداد بڑھ چکی تھی اور سکھ بلوائی باہر سے زیادہ تعداد میں آچکے تھے میں چونکہ مدافعت کرنے والوں میں پیش پیش تھا، اس لیے مجھ پر خاص توجہ مبذول کی گئی، میرے وارڈ میں دکانیں کھلی تھی مگر جگہ جگہ لوگ ٹولیوں میں بٹ چکے تھے، اور پولیس کی جانبدارانہ پوزیشن زیر غور تھی۔اسی وقت مجھے ایک ہندو سپاہی نے اطلاع دی کہ آدھ گھنٹہ بعد حملہ ہو گا، بندوبست کر لو۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بلوایا، اور ان سے کہا کہ قریب کے محلوں میں سے جہاں زیادہ خطرہ ہے عورتوں اور بچوں کو فوراً نکال لو، صرف مرد رہ جائیں،اور اس علاقہ کو نصف کے قریب خالی کر دو، ابھی عورتیں اور بچے نکل ہی رہے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گیا اس دفعہ بلوائیوں کا رخ میرے مکان کی طرف تھا، میرے کوچہ کے تمام لوگ عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچا کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ ‘‘ماسٹر تاج کا مکان کہاں ہے؟’’ میرے بھتیجے نے دورڑ کر مجھے اطلاع دی اور کہا کہ آپ کو قتل کر دیں گے، آپ یہاں سے ہٹ جائیں، میں نے اس کو سر سری طور سے سنا اور کہا کہ گھر سے عورتوں اور بچوں کو بہت جلد نکال کر لے جاؤ۔گھبراہٹ میں کسی کو پردے تک کا خیال نہ تھا، برقعہ سنبھالے بغیر عورتیں اور بچے نکل کھڑے ہوئے، میں مکان کے اندر تھا کہ بلوائیوں نے میرے مکان کو گھیر لیا، میں چھت پر آگیا، اور دوسرے مکان کی دیوار پھاند کر اس مکان میں داخل ہو گیا۔بلوائیوں نے مجھے موجود نہ پا کر کچھ دیر اندر باہر دیکھ بھال کی، اتنے میں چھتوں پر سے مجھ پر فائر ہونے شروع ہو گئے، میں اس مکان سے نکل کر دوسرے کوچہ کے ایک مکان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا میرا ہندو ہمسایہ جو کانگریسی ہونے کا مدعی تھا بے ساختہ شور مچانے اور بلوائیوں سے کہنے لگا، ‘‘کم بختو! شکار تو نکل بھی گیا۔’’ بہر حال میں دوسرے مورچہ پر پہنچ گیا، جہاں بلوائیوں کو آنے کا حوصلہ نہ ہوا۔

دوسرے دن

            رات جس طرح کٹی اس کو وہی لوگ جانتے ہیں جو اس وقت دشمنوں کے نرغہ میں پھنسے ہوئے تھے، علی الصبح ہم نے محلہ کا یہ حصہ بھی عورتوں اور بچوں سے خالی کر دیا۔ شہر کے دوسرے حصوں پر بھی اکے دکے حملے ہونے لگے، ہمارے محلہ پر بھی کبھی کبھی حملہ ہوتامگر ہمارے ساتھی برابر جواب دیتے رہے، اب ہم محلہ کے ایک کنارے پر پہنچ چکے تھے، آدھی رات کے وقت جب دشمن جا چکا اور گلی کوچوں میں سناٹا تھا، تو میں نے محلہ والوں سے کہا کہ سورج نکلنے سے پیشتر مستورات کو محلہ اڑی میں جو ملحقہ محلہ تھا پہنچا دیا جائے۔دو گھنٹہ میں تیاری مکمل ہو گئی اور صبح کے وقت عورتیں اور بچے محفوظ مقام پر جا چکے تھے۔ہمارا محلہ دری اور کپڑے کا مرکز تھا اور لوگ مالدار تھے۔ اس بھاگڑ میں وہ نقد روپیہ تک نہ سنبھال سکے، لکھ پتی لوگ دوسروں کے دستر خوان کو تکنے لگے۔ محلہ اڑی میں پہنچ کر ہم نے چودھری عبدالرحیم اور عارف نے حوصلے سے کام لیا، اور یہ طے پا گیا کہ اب اگر پولیس بلا وجہ ہمارے محلہ پر فائر کرے تو باقاعدہ جواب دیا جائے۔ پولیس کو بھی ہمارے ارادہ کا علم ہو گیا، میں نے ایک بار پھر اپنے وارڈ کا رخ کیا اور بقایا لوگوں کو جمع کیا، جن کو چوں میں خیال تھا کہ مسلمان چھپے بیٹھے ہوں گے ایک ایک کر کے دیکھا اور جو مسلمان بھی ہمیں ملا اسے نکال لائے۔

            ہمارے محلہ کے اختتام پر جرنیلی سڑک اور ریلوے لائن شروع ہو جاتی ہے، ریلوے لائن کے اس پار تین محلے آباد تھے، یہ تینوں محلے سکھوں کے نرغہ میں تھے، راستہ بھی مخدوش تھا، کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ کر انھیں مضبوطی سے جمے رہنے کا مشورہ دیا اور وعدہ کیا کہ میں ان شاء اللہ تمھیں حفاظت سے نکال کر لے جاؤں گا، ایک محلہ پر میری واپسی کے فوراً بعد حملہ ہو گیا، مگر دشمن کوئی جانی نقصان نہ پہنچ سکا، اور سب لوگ گھر بار چھوڑ کر خالی ہاتھ باہر نکل آئے۔ دوسرا محلہ رات کی خاموشی میں شہر کے آباد حصوں میں پہنچ گیا مگر تیسرے محلے کے لوگ بالکل گھر چکے تھے۔

            میں نے کوتوالی پہنچ کر کوتوال شہر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو حالات سے با خبر کیا اور ان سے کہا کہ آپ گارڈ بھیج کر یا تو محلہ والوں کو ہمارے پاس پہنچائیے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہاں پہرہ بٹھا دیجیے، کہ وہ لوگ محفوظ رہ سکیں، ہمیں تسلی تو دے دی گئی، مگر انتظام نہ کیا گیا۔

حکام وقت کی عیاری

            پولیس افسران خصوصاً سپرنٹنڈنٹ پولیس صبح وشام مسلمانوں کی تباہی کے منصوبے باندھتا ۔اس نے نہایت کامیاب طریقہ اختیار کیا، جس محلے پر حملہ کرانا مقصود ہوتا وہاں کے معززین اور نوجوانوں کو علی الصبح گرفتار کر لیتا، محلہ کی تلاشی لی جاتی، لاٹھی، کلہاڑی، جو کچھ بھی سامان مدافعت سمجھا جاتا ضبط کر لیا جاتا، اور دو گھنٹہ کے بعد ایڈیشنل پولیس کے ہمراہ بلوائیوں سے حملہ کرا دیا تھا یہی طریقہ شہر کے باہر محلہ عبداللہ پور میں جہاں مسلمان سکھوں کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے اختیار کیا گیا، وہاں کے بہادر نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

            جونہی یہ اطلاع میرے کانوں تک پہنچی، میں معاملہ کو بھانپ گیا اور سمجھ گیا کہ اب عبداللہ پور کی خیر نہیں، میں نے کوتوالی پہنچ کر سپرنٹنڈنٹ پولیس سے برملا کہہ دیا کہ آپ اس تمام فساد اور مسلمانوں کی بربادی کا باعث ہیں، اور خود فساد کرا رہے ہیں، آپ کو ایک دن اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔

            میرا اس قدر کہنا تھا کہ سپر نٹنڈنٹ پولیس آگ بگولا ہو گیا، مجھ پر برس پڑا اور رعب جمانے کے لیے کہنے لگا کہ جانتے ہو کہاں کھڑے ہو اور کس سے بات کر رہے ہو؟(جاری ہے)