پاکستانی معاشرہ اورعورت کی حالت زار

مصنف : محمد عارف جان

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2006

جناب محمد عارف جان اپنی علم دوستی، اپنے درد دل اور اپنے مخصوص اسلوب نگارش کی وجہ سے علمی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی اسی حیثیت کے پیش نظر ہم ان کی زیر نظر تحریر من و عن نقل کر رہے ہیں۔ البتہ اپنے اختلاف کو ریکارڈ کروانا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ہمار ے خیال میں جناب عارف جان کی تحریریں جس خوبصورت توازن کی حامل ہوتی ہیں زیر نظر تحریرنہ صرف اس سے محروم ہے بلکہ ردعمل کی شدیدنفسیات میں بعض نصوص قطعی کا بھی انکار کرتی نظر آتی ہے مثلا عورت کو طلاق کا حق یا نسب کی عورت کی طرف نسبت۔وراثت کے مسئلے میں بھی مذہبی طبقہ ہمیشہ عورت کی حمابت میں رہا ہے ۔ اس میں عورت سے امتیازی سلوک ہماری معاشرتی کمزوری ہے نہ کہ مذہبی اور اسے معاشرتی مسئلے کے طور ہی اجاگر ہونا چاہیے۔ ہماری رائے میں یہ پاکستانی معاشرے کی صحیح تصویر نہیں ہے بلکہ معاشرے کے ایک خاص طبقے کی نشان دہی ہے اور یہ طبقہ صرف پاکستانی معاشرے سے ہی خاص نہیں بلکہ دنیا بھر کے معاشروں میں ایسے طبقات اور علاقے پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اس تحریر کو پاکستانی معاشرے کی تصویر کہنا انصاف نہ ہو گا۔ہمیں جناب عارف جان کی اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ عورت پھولوں سے زیادہ نازک ، خوشبو سے زیادہ لطیف ، پانی سے زیادہ نرم ، قدرتی مناظر سے زیادہ خوبصورت اور سمندر سے بھی بڑے ظرف والی ہے اور یہ کہ ونی ، کاروکاری ، قرآن سے شادی یا وٹہ سٹہ عورت پر ایک ظلم ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے مگر یہ آواز پاکستانی معاشرے کے خلاف نہیں بلکہ اس طبقے کے خلاف بلند ہونی چاہیے جو اس کا ذمہ دار ہے۔بطور ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی ہم عورت کے تقدس کے پوری طرح قائل ہیں اور اسکے حامی ہیں کہ اس تقدس کو بحال ہونا چاہیے لیکن یہ خیال رکھتے ہوئے کہ عورت مرد سے یقینا کمتر نہیں البتہ مختلف ضرور ہے اور اسے مختلف ہی رہنا چاہیے اسی سے کائنات میں حسن ہے ۔امید ہے قارئین سوئے حرم بھی اس تحریر کے بارے میں ہمیں اپنے نقطہ نظر سے آگا ہ کریں گے ۔(مدیر)

 

            عورت جس کو صنف نازک کا نام دیا گیا اسی کے وجود سے کائنات کی تصویر میں رنگ ہے مگر پاکستانی معاشرے میں اس کی حالت زار پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ۔ اس کی حالت زار کی ابتدا اس کی پیدائش سے ہوتی ہے جب گھر والوں کو خبر ملتی ہے کہ بیٹی پیدا ہوئی ہے اور تمام لوگ خوشی کی بجائے ناگواری کا اظہار کرتے ہیں یا خاموش رہ کر اللہ میاں کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں ۔ پھر جب وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچ جاتی ہے تو اس موقع پر بھی امتیاز برتا جاتا ہے ۔ بیٹے کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جبکہ بیٹیوں کو پرایا مال سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ پھر جب وہ سکول یا کالج جاتی ہے تو بسوں اور ویگنوں میں ا س کو جگہ نہیں ملتی اور کافی دیر اس کو سٹاپ پر انتظار کرنا پڑتا ہے جہاں آوارہ اور بے حیا لڑکے اس کو تنگ کرتے ہیں اور طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔جب وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی پسند نا پسند کا ہرگز خیال نہیں رکھا جاتا اور اس پر لازم ہے کہ اس کے گھر والے جہاں اس کا رشتہ طے کریں وہ اس کو من وعن قبول کرے چاہے وہ اس سے عمر میں دس سال بڑا ہو یا اس کی شہرت ٹھیک نہ ہو ، اسے ہر صورت اس کو قبول کرنا ہے ۔ پھر شادی کے بعد اگر اس کے گھروالے اس کو کم جہیز دیں تو سالہا سال تک اس کو طعنوں کے نشتر برداشت کرنا پڑتے ہیں اور بعض اوقات تو اس کشیدگی میں اکثر چولہا پھٹ جانے کی وجہ سے جان جان آفرین کے سپرد کر دیتی ہے اور اگر معجزانہ طور پر اس کی زندگی بچ جائے اور کچھ سالوں تک اسکے ہاں اولاد نہ ہو بے شک مرد میں خرابی ہو پھر بھی قصور وارعورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کی زندگی کو اجیرن کر دیا جاتا ہے اور اگر بے چاری کے ہاں اولاد ہو جائے مگر مسلسل بیٹیاں پیدا ہوں تو اس میں بھی قصور وار اسی کو ٹھہرایا جاتا ہے اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور سارے رشتہ دار مرد کو دوسری شادی کی ترغیب دینا شروع کردیتے ہیں ۔ اس طرح ایک سوکن لاکر اس کے سر پر بٹھا دی جاتی ہے اور اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ ساتھ اس سوکن کی بھی خدمت کرے ۔ سارا سارا دن اس سے نوکرانیوں کی طرح کام کروایا جاتا ہے اور بچوں کو سنبھالنا اور پرورش کرنا صرف اور صرف اسی کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے ۔ مرد کو اس ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ تاش کھیلے ، چائے پیے ، کرکٹ میچ دیکھے یا ٹی وی ڈرامے دیکھے ۔ پھر اگر وہ شوہر کو کھری کھوٹی بات کہہ دے تو وہ اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے کہ اس کے چہرے پر تیزاب ڈال کر اس کا حلیہ بگاڑ دے یا اس کے پاؤں کاٹ دے یا اس کی چٹیا کاٹ دے اوراس طرح اپنی مردانگی کا بھرپور ثبوت دے اس عذاب بھری زندگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے عورت کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ مرد کو طلاق دے سکے ۔ ہاں البتہ اگر شوہر صاحب کا دل چاہے تو اس کو طلاق کا حق بھی حاصل ہے اور چار شادیوں کی اجازت بھی اس کو مولوی صاحبان نے دے رکھی ہے مگر افسوس کہ مولوی صاحبان نے اس کو وہ شرائط نہیں بتائیں جو قرآن مجید میں دوسری اور تیسری شادی کے لیے بیان ہوئی ہیں بس وہ تو صرف یہ جانتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی بیوی کو طلاق دیکر دوسری بیوی گھر لا سکتا ہے اور بغیر طلاق دیے بھی چار بیویاں گھر لاسکتا ہے ۔ وٹے سٹے کی شادیوں میں عورتوں کو جس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک المناک داستان ہے اور اگر کسی وجہ سے ایک عورت کو طلاق ہوتی ہے تو لازم ہے کہ دوسری کو بھی طلاق ہو، بے شک اس کا کوئی قصور ہے یا نہیں ۔ اسی طرح عزت کی خاطر قتل کرنا جس کو Honour killing کا نام دیا گیا ہے ہمارے معاشرے میں خاص طور پر دیہاتیوں میں عام ہے اور بدقسمتی سے ہماری عدالتیں بھی ایسے مقدموں میں مجرم کو ریلیف دیتی ہیں جس سے اس رحجان میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے قتل کو مردانگی اور غیرت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ پھر اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے یا کسی عورت کو طلاق ہو جائے تو قصور ہمیشہ عورت کا ہی سمجھا جاتا ہے اور اس کی دوسری شادی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتی ہے اور اگر بے چاری کی شادی نہ ہو سکے تو بقیہ ساری زندگی بہن بھائیوں یا دوسروں کی خدمت کرتے گزارنا پڑتی ہے جبکہ بونس کے طور پر طعنے بھی ساری عمر سننے پڑتے ہیں ۔

            ان باتوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور معاشرے کی بے حسی دیکھیں کہ نوکریوں میں بھی تفریق رکھی گئی ہے اور ان کو اعلی عہدوں کے لیے بھرتی نہیں کیا جاتا جبکہ میٹر ک کا رزلٹ ہو یا ایف اے یا ایف ایس سی کا ، بی اے کا رزلٹ ہو بی ایس سی کا ، لڑکیوں کی پوزیشن لڑکوں سے بہتر ہوتی ہے مگر افسوس کہ پھر بھی وہ اپنا مقام حاصل نہیں کر پاتیں ۔ مرد اور عورت کی گواہی میں بھی فرق رکھا گیا ہے حالانکہ شریعت سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ۔ قرآن مجید میں جہاں عورت کی آدھی گواہی کا ذکر ہے وہ صرف مالی معاملات کے متعلق ہے باقی تمام امور میں اس کی گواہی مکمل ہے اور وہ ہر لحاظ سے مرد کے برابر ہے ۔ جہاں مولوی صاحبان نے گواہی کے معاملے کو اچھال کر آدھا کر دیا ہے وہاں اس بات پر زور نہیں دیتے کہ اس کو شریعت کے اصولوں کے مطابق جائیداد میں سے حصہ بھی ملنا چاہیے ۔ ہمارے معاشرے میں اسلامی اصولوں کے مطابق اس کو وراثت میں سے حصہ دینے کا کوئی رواج نہیں اور جو کچھ اس کو دیا جاتا ہے وہ ایک خیرات یا ترس کھا کر دیا جاتا ہے اور وہ اس کے صحیح حصے کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا جبکہ سندھ میں تو جائیداد بچانے کے لیے لڑکیوں کی شادی ہی نہیں کی جاتی ۔ بہت مہربانی کی تو قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے اور اس کو ساری عمر گھر میں کنواری رکھ کر نفسیاتی مریض بنا دیا جاتا ہے ۔

کاروکاری کی رسم سے تو ہم سب بخوبی واقف ہیں جس میں کسی بھی عورت سے جان چھڑانی ہو تو خاموشی سے کاری ہونے کا الزام لگائیں اور اس کو اگلے جہان پہنچا کر خود یہاں گل چھڑے اڑاتے رہیں باقی رہے نام اللہ کا ۔

            ونی کی ظالمانہ رسم بھی عورتوں کا بدترین استحصال ہے جس میں قصور خاندان کا کوئی بھی فرد کرے مگر سزا عورت کو ملتی ہے ۔ یہ قرعہ اس خاندان کے مردوں کی مرضی ہے کہ جس عورت کے نام نکال دیں اس کو وہ سزا ساری عمر برداشت کرنا پڑے گی ۔

            بلوچستان اور سرحد میں عورتوں کو بیچنے کا رواج عام ہے۔ کوئی بھی مرد عورت کے والدین کو اس کی قیمت ادا کرے اور پھر ساری عمر اس کو نوکرانی بنا کر رکھے ۔ پھر اگر کوئی عورت اپنے دیور سے بھی بات کرے تو اس کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور قصور وار ہمیشہ عورت کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔

            جعلی پیر اور نقلی حکیم عورت کے کمزور عقیدے کا فائدہ اٹھا کر اس کا استحصال کرتے ہیں اور وہ بعض اوقات اپنی جمع پونجی بھی لٹا بیٹھتی ہیں ۔ پھر اس کا خاوند جب چاہے ابارشن کرائے اور اگر عورت چاہے تو وہ اپنی مرضی سے ابارشن نہیں کرواسکتی ۔ پھر بعض علاقوں میں کم سنی میں عورت کی شادی کر دی جاتی ہے جبکہ اس کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی ہوتی ہے۔ پھر اس کو یہ باور بھی کرایا جاتا ہے کہ تم اس معاشرے میں بہت سکھی ہو کیونکہ عرب کے جاہلانہ معاشر ے میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا اور ہندستان میں ‘‘ستی’’ کی رسم رہی ہے اور بعض علاقوں میں اب بھی ہے جس میں عورت کو بھی خاوند کے مرنے پر اس کے ساتھ جل کر مرنا پڑتا تھا ۔ لہذا تم خوش نصیب ہو اور خدا کا شکر ادا کرو کہ تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلوک نہیں کیا گیا ۔ حالانکہ یہی عورت ہے جو پورے 9 ماہ نسل آدم کی اپنے پیٹ میں آبیاری کرتی ہے اور اس کی پیدائش کے بعد جب تک اس کو شعور نہیں آتا اس کی پرورش کرتی ہے ۔ سردیوں کی راتوں میں آدھی رات کو بھی وہ پیشاب کرے تو اٹھ کر اس کو پاک صاف کر کے ، اپنی نیند قربان کر کے شفقت ، محبت اور الفت کا ثبوت پیش کرتی ہے اور رات کے دو بجے وہ بھوک سے بیدار ہو کر رونے لگے تو بھی یہی عورت ہے جو اس کو اپنے سینے سے لگا کر اس کی بھوک اور پیاس دور کرتی ہے ۔ یہی عورت ہے جو ہر گھر میں ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے روپ میں مردوں کے دلوں کے لیے طمانیت کا باعث ہے ۔ یہی عورت ہے جو پھولوں سے زیادہ نازک ، خوشبو سے زیادہ لطیف ، پانی سے زیادہ نرم ، قدرتی مناظر سے زیادہ خوبصورت اور سمندر سے بھی بڑے ظرف والی ہے مگر افسوس کہ بے چاری اپنے مستقبل کی ہر گھڑی سے بے خبر اور غیر یقینی صورت حال کی تلوار اس کی گردن پر ہر لمحے لٹک رہی ہے ۔ گینگ ریپ اور فزیکل وائلنس کی اصطلاح ایجاد ہی عورتوں کے لیے ہوئی ہے اور رہی سہی کسر جنرل ضیا الحق کے حدود آرڈیننس نے نکال دی ہے۔ پھر اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان کی 70 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے وہاں گھر کے اندر کے تمام کام ہوں یا باہر کے ، سب عورتیں ہی کرتی ہیں حتی کہ گھاس کاٹنا ، فصل کاٹنا ، پھٹی چننا ، گوبر تھاپنا، چاول صاف کرنا ، گندم صاف کرنا اور جانوروں کا دودھ نکالنا مردانہ کام ہونے کے باوجود بے چاری عورتیں ہی کرتی ہیں ۔ دیہاتوں میں سب مرد اپنا حق سمجھ کر عورتوں سے تمام کام کرواتے ہیں ۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ چوپال میں بیٹھ کر گپیں لگائیں ، درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر لسی کے مٹکے ختم کریں یا چائے کے کپ نوش کریں ، سو ئیں ، فارغ بیٹھ رہیں مگر اپنے گھر کی عورتوں کا ہاتھ بٹانا پسند نہیں کرتے ۔ پھر شہروں میں بھی یہ تصور عام ہے کہ یہ عورت کا اولین فرض ہے کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر پورے گھر میں جھاڑو دے ، ناشتہ تیار کرے ، بچوں کی تیاری کروائے ، خاوند کو دفتر یا دوکان پر بھیجنے کی تیاری کروائے ، اس کے بعد گھر کی جھاڑ پونچھ کرے ، پورے گھر کے کپڑے دھوئے اور اس کے بعد دوپہر کے کھانے کی تیاری شروع کر دے ، گھر والوں کو دوپہر کا کھانا کھلا کر رات کے کھانے کی تیاری شروع کر دے اور پھر رات کو یا تو اپنے چھوٹے بچوں کے رونے یا پیشاب کرنے کی وجہ سے اپنی نیند خراب کرے یاپھر خاوند کی وجہ سے۔ ان تمام کاموں کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ ساس سسر اور نندوں کے نخرے اور طعنے برداشت کرے یا کھانے میں نمک مرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے شوہر کی ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرے یا کپڑے صحیح نہ دھونے کی وجہ سے شوہر کی طرف سے ہونے والا جسمانی تشدد بھی برداشت کرے ۔ پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ کسی عورت کو طلاق ہو جائے یا وہ بیوہ ہو جائے قصور عورت کا ہی سمجھا جاتا ہے اور شادی کے وقت اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اب شوہر کے گھر سے اس کا جنازہ ہی نکلنا چاہیے ۔ یہ سبق سن سن کر وہ اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں کی نوکرانی بن کر ساری زندگی گزار دیتی ہے ۔

            یہی عورت جس کی پیدائش پر کوئی خوش نہیں ہوتا ماں باپ کے بڑھاپے کے وقت زیادہ مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ یہی بیٹی جس کو پرایا دھن سمجھا جاتا ہے اور کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور جن بیٹوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ بڑھاپے کا سہارا بنیں گے مگر افسوس کہ وہ بڑھاپے کا سہارا بننے کی بجائے والدین کی پوری جائیداد بھی ہڑپ کر جاتے ہیں اور والدین کو گھر سے نکال دیتے ہیں یا اولڈ ہوم بھجوا دیتے ہیں یا گھر کے ایک کمرے میں قید کر دیتے ہیں ۔ اس مشکل وقت میں یہی بیٹیاں کام آتی ہیں اور اپنے منہ سے نوالہ نکال کر ماں باپ کے منہ میں ڈالتی ہیں ۔ پھر والدین کو احساس ہوتا ہے کہ جس پھول جیسی 20 سالہ بیٹی کو چند ٹکوں کے لالچ میں 60 سالہ بوڑھے سے شادی کر کے جس ظلم وستم کا ارتکاب کیا تھا آج بھی وہ اس ظلم کے باوجود اپنے والدین کو سینے سے لگانے کے لیے تیار ہے ۔ عورتوں کے ساتھ یہ ظلم اور زیادتی صرف ایشیا میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں روا رکھا جارہا ہے ۔ امریکہ میں آج تک کسی خاتون کو صدر نہیں بنایا گیا ۔ صدر تو بجا کسی کو نائب صدر تک نہیں بنایا گیا ، اس کے علاوہ اعلی عہدوں پر عورتوں کا تناسب تقریبا 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہے جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت ذہانت اور انتظامی خوبیوں کے لحاظ سے کسی بھی مرد سے کم نہیں ہے ۔ آج جب میٹرک ، ایف ایس سی ، بی ایس سی ، پی سی ایس ، سی ایس ایس کا رزلٹ نکلتا ہے تو اخبارات کی سرخیاں چیخ چیخ کر اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ تمام ٹاپ پوزیشن خواتین نے حاصل کی ہیں اور میڈیکل کا لجز ہوں یا دیگر تعلیمی ادارے جہاں خواتین پر داخلہ لینے کی پابندی نہیں ہے وہاں آج زیادہ تعداد خواتین کی نظر آتی ہے ۔ قرآن مجید میں جہاں مردوں کا ذکر آیا ہے وہاں عورتوں کا ذکر برابری کی بنیاد پر آیا ہے ۔ جہاں عبادات مردوں پر فرض ہیں عورتوں پر بھی فرض ہیں ۔ جہاں کوئی تفریق یا امتیازی بات کا ذکر ہے تو وہاں جسمانی ساخت یا ذمہ داریوں میں فرق ہونے کی بنا پر ہے مگر افسوس کہ ہم نے ان آیات سے اپنی مرضی کے مطلب نکال نکال کر عورت کو ایک حقیر ، مردوں کی جنسی تسکین کا سامان ، بچہ پیدا کرنے والی مشین اور ایک خدائی خدمت گزار کنیز سمجھ کر جب چاہے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیتے ہیں اور جب چاہے نام نہاد حلالہ کروا کر دوبارہ حرم سرا میں داخل کر لیتے ہیں ۔ پھر ظلم یہ ہے کہ زچگی کے دوران ہزاروں عورتیں مر جاتی ہیں اور 9 ماہ اپنے پیٹ میں بچہ پالنے کے باوجود نسل اور ذات مرد کی گنی جاتی ہے اور ماضی میں تو دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے بھی کنواری خوبصورت دوشیزاؤں کو ذبح کر دیا جاتا تھا یا دریاؤں کی تند لہروں کے حوالے کر دیا جاتا تھا ۔

            بدقسمتی یہ ہے کہ عورت کو اپنا حق مانگنے کا بھی حق نہیں ۔ اس کو اپنے حقوق کے لیے تحریک چلانے کا کوئی حق نہیں ۔ اس کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کرنے کا کوئی حق نہیں ۔ اس پر لازم ہے کہ وہ پیدا ہوتے ہی مر جائے یا پھر اس گلے سڑے حیا سوز معاشرے میں ایک درد بھری طویل اور المناک زندگی گزارنے کے لیے اپنی کمر کس لے ۔