مکاتیب

مصنف : محمد عبداللہ بخاری

سلسلہ : آرا و تاثرات

شمارہ : جولائی 2006

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جناب محمد صدیق بخاری ، مدیر ماہنامہ سوئے حرم !

ماہنامہ سوئے حرم میں سیاسی ، مذہبی ، ادبی اور معاشرتی و سماجی برائیوں پر مبنی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ میں آپ کی اس کوشش کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کیونکہ موجودہ رسالوں میں سوئے حرم اس حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

اپریل 2006 کا شمارہ کئی روز قبل موصول ہوا اس میں عورت کی قربانی کے حوالے سے جناب محمد ارشد وڈالوی صاحب نے چند معاشرتی برائیوں اور وحشیانہ رسوم کا تعارف کرایا ہے ۔ سب سے پہلے ارشد صاحب نے ونی کا تعارف کرایا ہے ۔ اس میں چند مندرجات ایسے بیان ہوئے ہیں جن کو سن کر جسم کے رونگٹے کھڑ ے ہو گئے کیونکہ ارشد صاحب کے بقول اس میں ایک عورت اپنے باپ بھائیوں کے جرم کی پاداش میں متاثرہ خاندان کی لونڈی اور کنیز بن جاتی ہے۔ وہ سارا دن اس خاندان کی خدمت کرتی ہے اور رات کو اس خاندان کے مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہے ۔ میں اس سے پہلے سمجھتا تھا کہ ونی کی رسم میں ایک خاتون جب متاثرہ خاندان میں چلی جاتی ہے تو یہ باقاعدہ نکاح کے ذریعے ایک مرد کی بیوی بن جاتی ہے ۔ مزید لکھتے ہیں کہ کبھی کبھار تو ایک شادی شدہ خاتون مخصوص وقت کے لیے ونی بن جاتی ہے یعنی ایک منکوحہ عورت ونی کی جاتی ہے ۔ لعنت ہے ، ایسے لوگوں پر۔ مزید لکھتے ہیں کہ معاشرے کے ڈر سے ونی شدہ خواتین کے نکاح کا راستہ بھی اختیار کیا جاتا ہے لیکن ایک باقاعدہ منکوحہ خاتون کا درجہ حاصل نہیں ہوتا ہے ۔

جناب مدیر صاحب مجھے ارشد صاحب کی ان تفصیلات پر شبہات ہیں کہ آیا یہ صحیح ہیں ؟ آپ کو خود ہی اس کے متعلق صحیح بات مہیا کرنی چاہیے ۔ آپ کو مضمون کی طباعت سے پہلے اس کے مندرجات کی صحت کے متعلق جاننا چاہیے کہ انکی باتوں میں کتنی صداقت اور صحت ہے ۔

دوسری رسم جس کے متعلق ارشد صاحب نے لکھا ہے وہ کاروکاری جو سندھ میں پائی جاتی ہے ۔ اس میں ایک خاتون کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتاہے ، ارشد صاحب نے یہاں بھی کچھ ایسی تفصیلات فراہم کی ہیں کہ ان کی صحت کے متعلق شکوک اور شبہات پیدا ہوتے ہیں ، کامن سینس Common sense اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ظالم ہو یا مجرم ، مسلمان ہو یا غیر مسلم ، کوئی شخص بھی اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنی ماں ، بہن یا بیٹی کے ساتھ اس طرح کی حرکت نہیں کر سکتا ۔ چہ جائیکہ وہ یہ کریں کہ ایک شخص کو باہر قتل کر کے گھر لا کر اپنی ماں ، بہن ، بیٹی کو اس کے ساتھ قتل کردے ۔ لوگ تو ایسے شخص کو قتل کر کے گھر سے بھی دور پھینک دیتے ہیں ، ارشد صاحب اس کو گھر میں لانے کی بات کر رہے ہیں ۔

ارشد صاحب سورہ کی رسم کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس رسم میں ایک معقول رقم کے عوض لڑکی کا نکاح عمر کا حساب رکھے بغیر کر دیا جاتا ہے۔، یہ بے جوڑ شادی عورت کی زندگی میں تلخیاں بھر دیتی ہے ۔ ارشد صاحب کو سورہ کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں کہ سورہ کیا ہے اور یہ کس لیے کیا جاتاہے ۔ سورہ اس رسم کو کہتے ہیں کہ ایک شخص قتل کے جرم میں یا ایک خاتون کسی غیر مرد کے ساتھ چلی جائے تو اگر وہ شخص صلح کرنا چاہتا ہو تو بعض اوقات متاثرہ خاندان بدلہ چکانے کے لیے صلح میں یہ شرط لگا دیتا ہے کہ تم ہمیں ( یعنی مجھے یا میرے بھائی یا بیٹے) کو اپنے خاندان کی کوئی خاتون بیا ہ دو تاکہ معاشرہ اور برادری میں ہم سر اٹھا کر چل سکیں ۔ یہ رسم پیسے یا رقم کے عوض نہیں ہوتی یہ اس وقت ہوتی ہے جب جرم قابل دست اندازی پولیس ہو تووہ قاتل یا وہ مرد جس نے کسی خاتون کو اغوا کیا ہو ، وہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنے خاندان کی خاتون دیتا ہے یا متاثرہ خاندان اپنا نام اونچا رکھنے کے لیے یہ مطالبہ کر دیتا ہے ۔ باقی رہی یہ بات کہ اس سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو یہ بالکل صحیح بات ہے اور اس پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ کوئی خاتون کسی اور کے جرم کی پاداش میں قربان نہ ہو سکے ۔

جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ ارشد صاحب نے اپنے پڑھے لکھے دوستوں سے پوچھا اور اس پر انہوں نے دلائل بیان کیے تو میرے خیال میں ان لوگوں کو بھی سورہ کے متعلق کچھ علم نہیں ۔

 والسلام

 عبدالحمید

 ضلع چار سدہ