مصلحت

مصنف : صالحہ محبوب

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : اپریل 2006

            ‘‘ ارے بیگم ! اعلی تعلیم یافتہ اور میٹرک پاس بیوی میں بہت فرق ہے …… فرق صرف شکل و صورت کا نہیں بلکہ عادات، رہن سہن ، اٹھنے بیٹھنے ، سوچ اور بچوں کی تربیت ، ہر بات میں ہوتا ہے ۔ دو چیزیں اگر اچھی ہوں تو مرد کی زندگی بہت آرام سے گزر سکتی ہے ، ایک بیوی اور دوسری ملازمت ۔ ’’ واجد صاحب حسب عادت دبنگ لہجے میں آمنہ بیگم سے مخاطب تھے جو ان کی بات سن کر نوالہ اس زور سے چبانے لگیں کہ لگتا تھا کہ سارا غصہ کھانے پر نکلے گا ۔ ‘‘ پڑھی لکھی بیوی شوہر کے قدم سے قدم ملاکر چل سکتی ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کہاں ، کس سے اور کیسے بات کرنی ہے وہ گاڑی کے دوسرے پہیے کی طرح کا ر آمد اور مفید ثابت ہوتی ہے ۔ مرد اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے غافل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ بیوی انہیں سنبھال لے گی …… بغیر بتائے بھی بہت سی باتیں اسے پتا چل جاتی ہیں ۔ ’’ ‘‘ اچھا اب بس بھی کریں ، بہت ہو گیا لپیٹ لپیٹ کر مارنا۔’’ آمنہ بیگم کے صبر کا پیمانہ خاصہ لبریز ہو چکا تھا ‘‘ کچھ بچوں کا ہی خیال کر لیا کریں ۔ ’’ ‘‘ بچوں کے لیے تو یہ سب جاننا ضروری ہے کیونکہ شادی زندگی میں بس ایک ہی مرتبہ ہوتی ہے ہماری دفعہ تو ابا میاں کو صرف یہ معلوم تھا کہ بیٹے کی شادی اپنے بھتیجی سے کرنی ہے ۔ ہمارے کہنے پر بولے ، لڑکی پڑھی لکھی ہے تو سہی ، اسی سال میٹرک کیا ہے میٹرک نہ ہو گیا ایم بی بی ایس ہو گیا ۔ مجھے اداس دیکھ کر کہنے لگے ، آمنہ سے شادی تمہارے دادا طے کر کے گئے تھے ، ہم اپنے والد سے بھی نہ کہہ سکے کہ اعلی حسب نسب ، تعلیم یافتہ اور بڑے گھرانے کی لڑکی سے شادی ہو جائے ، تو ہماری ترقی کو پر لگ جائیں گے ۔ بہت سے کام خود بخود ہوتے رہیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ ’’ واجد صاحب ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھ ہونی والی زیادتی کا ذکر لے بیٹھے ۔ ‘‘ بابا !اب بس کریں نا ، جب سے ثمرین کے گھر سے آئے ہیں ، آپ لوگ اپنے ہی قصے لیے بیٹھے ہیں ۔ یہ بتائیے کہ وہ لوگ آپ کو کیسے لگے ؟ ’’ عمیر آخر بول پڑا جس نے والدین کو اپنی پسند کی لڑکی کے گھر بھیجا تھا اور اب وہ ان کی رائے سننے کے لیے بے چین تھا ۔ ‘‘ مجھے تو معقول لوگ لگے …… بلکہ خاصے امیر ہیں …… خلیل الرحمان صاحب تو شہر کے جانے پہچانے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ تمہیں ثمرین اس لیے پسند ہے کہ وہ پانچ سال سے تمہارے ساتھ پڑھ رہی ہے۔ مجھے اس لیے اچھی لگی کہ ڈاکٹر ہے ۔ اب تمہاری والدہ کی کیا رائے ہے ، یہ ان سے پوچھ لو ۔ ’’ والد کی رضا مندی نے عمیر پر خوشیوں کے در کھول دیے اب اس نے اپنی ماں کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھا اور پوچھا ‘‘ امی آپ کا کیا خیال ہے ؟’’ ‘‘ بیٹا ! میرے پاس تمہارے باپ جیسی نگاہ تو نہیں مگر میرا مشاہدہ کچھ اور کہتا ہے ۔ شادی دراصل دو افراد کا باہمی رشتہ نہیں بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے ۔ ان کے اور ہمارے رہن سہن اور طور طریقوں میں بہت فرق ہے ۔ ہم ٹھہرے اوسط درجے کے ملازمت پیشہ لوگ اور وہ شہر کے بڑے تاجر ہیں ۔ ہم روپے کی کمی کو سلیقے اور سوجھ بوجھ سے پورا کرتے ہیں ، جبکہ انہیں یہ سب کچھ کنجوسی اور دکھاوا لگتا ہے ۔ ’’ آمنہ بیگم نے نپے تلے لہجے میں اپنی رائے دی ۔ ‘‘ آپ کو پتا ہے لڑکی کا ماموں محکمہ صحت میں اعلی افسر ہے ۔ ملازمت ، تبدیلی اور ترقی ، ان سب میں عمیر کو کتنی آسانی ہو جائے گی ۔ ’’ اب واجد صاحب کچھ غصے میں تھے ۔ ‘‘ عمیر شادی اپنے گھر کے لیے کر رہا ہے ، ملازمت اور گھریلو سکون کو الگ الگ رکھا جائے تو بہتر ہے ۔ مختصر سی ملاقات میں مجھے ان کی بڑی سی کوٹھی میں دولت کی فراوانی کا احساس تو ہوا مگر ان کا ماحول پسند نہیں آیا ۔ وہ مہمانوں کو نظر انداز یا مرعوب کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔ چائے میں تکلف تو بہت کیا گیا مگر پیش کرنا کسی کو یاد ہی نہیں …… خصوصاً اس کی والدہ کا انداز گفتگو عامیانہ تھا ۔ ثمرین شکل و صورت کی اچھی ہے ، باصلاحیت بھی ہے ۔ ظاہر ہے ہر مرتبہ اول آنے کے لیے محنت بھی کرنا پڑتی ہے مگر کیا وہ ہمارے ماحول میں ڈھل سکے گی ؟ ’’ ‘‘ امی! آپ نے محض گھنٹے کی ملاقات میں اتنے اندازے کیسے لگا لیے ، جبکہ میں تو اس کے ساتھ پانچ سال سے پڑھ رہا ہوں ۔ مانا اس سے بے تکلفی نہیں مگر کچھ نہ کچھ اندازہ مجھے بھی تو ہے ۔ ’’ عمیر الجھے ہوئے لہجے میں بولا ۔ ‘‘ بیٹا ! ماں میں اللہ نے ایک خاص حس رکھی ہوئی ہے۔ تمہیں میں نے پالا ہے ، مجھے علم ہے کہ تم کس طرح کا ماحول اور لوگ پسند کرتے ہو ۔ ہم نے کبھی تمہیں منافقت نہیں سکھائی ۔ تمہیں صاف اور اچھا ماحول اور عمدہ اشیا پسند ہیں ۔ دین کے بنیادی اصولوں سے بھی تم واقف ہو …… ہمارے گھر میں نماز کے وقت اور کوئی مصروفیت نہیں ہوتی…… بیٹا ! دین کی سمجھ اور اس سے محبت مجھے ثمرین کے گھر کہیں دکھائی نہیں دی ۔ ’’ ‘‘ واہ …… جی واہ …… تمہاری امی نے تو اتنی سی دیر میں ان لوگوں پر پوری تحقیق کر ڈالی …… ان کے خیال میں تمہارے لیے مناسب ترین لڑکی ان کی بھانجی ہے حالانکہ وہ محض بی اے سیکنڈ ڈویژن اور گھریلو امور میں ماہر ہے ۔ مگر بیگم ! اچھا کھانا تو خانساماں بھی پکا سکتا ہے ۔ گھریلو کام کرنے کے لیے نوکر کیا کم ہیں ؟ ثمرین کی لیاقت ، دولت اور حیثیت ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے لیے بس خواب ہی تھا۔ اگر ہمیں ایسا موقع مل جاتا تو اب ہم بھی بیس گریڈ کے سیکرٹری ہوتے …… برسوں ہماری ترقی رکی نہ رہتی …… رکاوٹیں ہمارا پیچھا نہ کر رہی ہو تیں ۔ یہاں ملازمت کرتے برسوں بیت گئے آج تک کوئی سہولت نہ مل سکی …… ابا کو تو اپنی بھتیجی سے ہمارا بیاہ کرنا تھا ، مگر اب ہم عمیر کے ساتھ ایسی کوئی سختی نہیں کریں گے ۔ ’’ واجد صاحب بیگم کی رائے سے کسی طرح متفق نہیں تھے ۔ ‘‘ میں نے کب راحت کا نام لیا ہے اور اگر وہ میری بھانجی ہے ، تو صرف یہی اس کی خامی کیسے ہو گئی ؟ وہ دیکھی بھالی ہے اور میرے خیال میں ہمارے گھر کے لیے ثمرین سے بہتر ہے ۔ بہرحال میں عمیر کی خوشی میں خوش ہوں ۔’’ آمنہ بیگم کھانا ختم کر کے برتن سمیٹنے لگیں ۔ ‘‘ آ پ کہاں چلیں …… میدان چھوڑ کر کیوں بھاگ رہی ہیں بیگم صاحبہ ؟ ہا ہا ہا …… ’’ واجد صاحب کا قہقہہ ان کا تعاقب کر رہا تھا ۔ ‘‘ نیا دور ہے ، بچے اپنے آپ کو عقل مند سمجھنے لگے ہیں۔ چلو ان کی بات تو سمجھ میں آتی ہے ، یہ آپ ہر بات میں اپنا قصہ کیوں لیکر بیٹھ جاتے ہیں ؟ اتنی ہی زیادتی ہو گئی تھی تو آپ اب دوسری لے آئیے ۔ ’’ آمنہ بیگم باورچی خانے کی طرف جاتے ہوئے بولیں۔ یہ سن کر عمیر منہ چھپائے ہنسنے لگا ۔

 ٭٭٭

            واجد صاحب سرکاری ملازم تھے ۔ تیس سال پہلے ان کے والد مرتے وقت اپنی بھتیجی کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں تھما گئے۔ واجد صاحب کو یہ اچانک فیصلہ پسند نہ آیا ۔ دبلی پتلی، سانولی سی آمنہ بیگم ان کی دلہن تو بن گئیں مگر وہ کبھی انہیں اپنے دل کی رانی نہ بنا سکے ۔ اس زبردستی کے رشتے کو نبھاتے نبھاتے وہ خاصے تلخ اور غصیلے ہو چکے تھے ۔ خدا نے انہیں تین بچوں سے نوازا تھا ۔ سب سے بڑا عمیر ڈاکٹر بن چکا تھا ۔ دوسرا زبیر انجینئرنگ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور سب سے چھوٹی عائشہ ایف ایس سی کے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھی ۔ آمنہ بیگم مکمل طور پر گھریلو خاتو ن تھیں ۔ اچھی آبادی میں مناسب سا گھر ان کی راجدھانی تھا ۔ وہ تمام وقت گھر کے امور نمٹانے میں مصروف رہتیں ۔ بچوں کی تربیت پر ہر لمحہ ان کی نگاہ رہتی ۔ یوں لگتا تھا جیسے بچوں کے بجائے وہ خود تعلیمی اداروں میں پڑھ رہی ہیں ۔ واجد صاحب کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر انہوں نے اپنے رب سے لو لگا لی تھی ۔ جب وہ ان کی باتوں سے دکھی ہوتیں ، جائے نماز پر جا کھڑی ہوتیں۔ رب سے سرگوشیاں کر کے انہیں سکون حاصل ہو جاتا۔ واجد صاحب انہیں ہر معاملے میں نیچا دکھانا چاہتے تھے ۔ برسوں سے بیگم کے ساتھ ان کا یہی رویہ تھا …… بچوں کے سکول کے انتخاب سے لیکر زندگی کے ساتھی کے چناؤ تک آمنہ بیگم کی رائے ان کے لیے بے معنی تھی ۔ شاید وہ دریا کے دونوں کناروں کی طرح ساتھ تو چل رہے تھے مگر محبت اور مصالحت ان کے مقدر میں نہ تھی ۔

            عمیر اور ثمرین ہم جماعت تھے ۔ رفتہ رفتہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ۔ ثمرین کا اعلی خاندان سے تعلق واجد صاحب کو بہت بھایا ۔ جلد ہی باقاعدہ رشتہ طے ہو گیا اور بہت دھوم دھام سے ثمرین ان کے گھر بہو بن کر آگئی ۔ عمیر کے انگ انگ سے خوشی نمایاں تھی ۔ وہ باپ کا بہت احسان مند تھا کہ انہوں نے اس کی پسند نہیں ٹھکرائی ۔ ثمرین کے جہیز نے سارا گھر بھر دیا ۔ ہر چیز قیمتی او رجدید تھی ۔ عمیر کسی دور دراز گاؤں میں ملازمت کر رہا تھا ۔ ثمرین کے ماموں کی کوشش سے اس کی تبدیلی ثمرین کے ساتھ ہی قریبی شہر میں ہو گئی ۔ بقول واجد صاحب ، عمیر کے لیے ملازمت کا ہر مرحلہ آسان ہو گیا ۔ انہیں سرکاری گھر کی سہولت بھی فورا مل گئی …… رہائش گاہ ملتے ہی عمیر اپنی دلہن کے ہمراہ ادھر منتقل ہو گیا ۔

            آمنہ بیگم بہت دنوں تک ان کی کمی محسوس کرتی رہی ۔ ہر روز کھانے کی میز پر وہ عمیر کو یاد کرتی ۔ اس کی مخصوص کرسی روز خالی ہوتی مگر وہ اس کے سامنے میز پر برتن ضرور رکھتیں کہ خالی کونا انہیں بے چین رکھتا تھا۔ انہی دنوں ثمرین نے انہیں دادی بننے کی خوشخبری سنائی ۔ اس کی طبیعت خاصی خراب تھی ، آمنہ بیگم چاہتی تھی کہ وہ ان کے پاس آجائے مگر بہو کو اپنی نئی نئی ملازمت کی بہت فکر تھی ، اس نے انکار کر دیا ۔ اب آمنہ بیگم اکثر بیٹھ کر ہونے والے پوتے یا پوتی کے لیے کپڑے سینے لگیں۔ ایک سہانی صبح ان کے لیے خوشیوں کی نوید لیکر آئی …… وہ ایک پوتے کی دادی بن گئی تھیں خبر سن کر انہیں یوں لگا جیسے وہ دادی بننے والی دنیا کی پہلی عورت ہیں ۔ وہ زبیر او ر عائشہ سمیت عمیر کے گھر روانہ ہو گئیں۔ چیزوں سے لدی پھندی، وہ پہلی دفعہ اپنے بیٹے کے گھر جا رہی تھیں ۔ دو گھنٹے کے راستے نے انہیں تھکا دیا۔ عمیر بے چینی سے ان کا منتظر تھا ۔ ثمرین فی الحال ہسپتال ہی میں تھی ، اس کی والدہ اس کی دیکھ بھال کر رہی تھی ۔

            عمیر کا گھر خاصا بڑا اور اچھا تھا ۔ باہر باغیچے میں خشک گھاس اور سوکھے پودے گھر کے ویران ہونے کا تاثر پیش کر رہے تھے ۔ قیمتی سامان سے گھر بھرا ہوا تھا مگر مٹی کی موٹی تہہ ہر چیز پر جمی ہوئی تھی ۔ آمنہ بیگم ٹھنڈے پانی کی تلاش میں باورچی خانے جا پہنچیں …… باورچی خانہ کیا تھا گندگی کا منہ بولتا ثبوت تھا ، یوں لگتا تھا کہ کبھی کسی نے گھر کے اس حصے کو استعمال ہی نہیں کیا …… ڈھیروں برتن دھلنے کے انتظار میں بکھرے پڑے تھے ۔ انہوں نے بوتل نکالنے کے لیے فریج کھولا تو اس کا نقشہ بھی باورچی خانے سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا ۔ کالی دیگچیاں شان سے اندر دھری تھیں ۔ ان سے اٹھنے والی بدبو نے انہیں ناک ڈھانپنے پر مجبور کر دیا ۔ بہر حال انہوں نے فریزر سے برف نکالی اور کونے میں پڑا کولر دھو کر پانی بنایا ۔ کام کرنے کے لیے ایک لڑکا موجود تھا مگر گھر کی حالت ملازم کی نالائقی کا ثبوت تھی ۔

            ‘‘ بیگم ! آپ ٹھنڈا پانی لینے گئی تھیں یا ہانڈی بھوننے ؟ ’’ واجد صاحب جو خاصی دیر سے پانی کے انتظار میں تھے ، انہیں آتا دیکھ کر بولے ۔ ‘‘ آپ پانی پی لیں اور تازہ دم ہو جائیں ، پھر پوتا دیکھنے چلتے ہیں ۔’’ آمنہ بیگم بات بدلتے ہوئے بولیں ۔ گھر کا ہر کمرہ اپنی بدحالی کی داستان سنا رہا تھا ۔ آمنہ بیگم کو توقع نہ تھی کہ عمیر گھر کا ایسا حلیہ برداشت کر لیتا ہو گا ۔ ‘‘ امی چلیں ……’’ عمیر اور زبیر نے آکر کہا ۔ ‘‘ چلو بیٹا ۔’’ وہ سب ننھے مہمان کو دیکھنے چل دیے ۔ بچہ روئی کے گال کی طرح نرم اور خوب صورت تھا ۔ دادا دادی نے اسے خوب پیار کیا ۔ ثمرین بستر پر دراز تھی ، وہ ان سے محبت سے ملی ۔ اس کے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی ۔ چند گھنٹے بعد ڈاکٹر نے ثمرین کو چھٹی دے دی ۔ آمنہ بیگم پوتے اور بہو کو لیکر گھر روانہ ہو گئیں ۔ عمیر نے راستے میں ایک ہوٹل سے کھانا کھا لیا ۔ آمنہ بیگم نے گھر پہنچتے ہی ثمرین کو بستر پر لٹایا اور پھر باورچی خانے کی طرف چل دیں ۔ ملازم کو ساتھ لگایا ، باورچی خانہ صاف کرنے میں انہیں کافی وقت لگا ۔ لگے ہاتھوں نے انہوں نے فریج بھی دھو دیا ۔ سارے قیمتی برتن دھو کر الماریوں میں رکھے اور پلاسٹک کے برتن عام استعمال کے لیے نکال لیے ۔ لڑکے سے دیگچیاں خوب صاف کروائیں ۔ اس کے بعد انہوں نے سارے گھر کی صفائی بھی کر دی ۔ شام تک گھر کی حالت بدل چکی تھی ۔ جب بچہ گہری نیند سے اٹھا تو انہوں نے اسے نہلایا اور صاف ستھرے کپڑے پہنا کر اسے ثمرین کے ساتھ لٹا دیا ۔ شام کو جب سب لوگ واپسی کی تیاری کرنے لگے تو آمنہ بیگم کا دل کسی طور پر دلہن او ربچے کو تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا ۔ عمیر کے اصرار پر اور ثمرین کی حالت نے انہیں وہیں رکنے پر مجبور کر دیا ۔ یوں زبیر ، عائشہ اور واجد صاحب گھر روانہ ہو گئے ۔ گھر پہنچ کر واجد صاحب کو شدت سے سکون کا احساس ہوا۔ سفید چمکتا ہوا دروازہ ، دیواروں پر چڑھی بیلیں اور چھوٹے سے برآمدے میں نفاست سے لگے پودے ، ہر چیز سے شادابی عیاں تھی ۔ آمنہ بیگم اس سلیقے سے گھر بند کر کے گئی تھیں کہ ہر شے کی چمک دمک معمول کے مطابق تھی۔ واجد صاحب کو نجانے کیوں ہر چیز میں نفاست کا احساس ہوا ۔ اگلے روز صبح سویرے معمول کے مطابق ان کی آنکھ کھل گئی۔ نماز پڑھ کر حسب عادت انہوں نے میز پر چائے کا پیالہ پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا …… برسوں سے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ میز خالی ہو ۔ اپنے کپڑے نکالنا اور استری کرنا انہیں بہت مشکل لگا ۔ انہیں ہر شے روزانہ تیار ملتی تھی۔ بہر حال وہ تیار ہو کر ناشتے کی میز پر پہنچے ۔ دونوں بچے کسی بحث میں مصروف تھے ۔ معلوم ہوا آملیٹ پر اظہار خیال ہو رہا ہے ۔ زبیر کے خیال میں آملیٹ جل گیا تھا ، عاشی کی رائے میں صرف اس کا رنگ گہر اہوا تھا مگر کھانے کے قابل تھا ۔ توس بھی کچھ زیادہ سکے ہوئے تھے ۔ ٹھنڈی چائے پیتے ہوئے واجد صاحب کو بیگم کے ہاتھ کا ناشتا بہت یاد آیا …… خستہ پراٹھے اور گرم گرم آملیٹ۔ چلتے چلتے انہیں یاد آیا کہ گھڑی اور دھوپ کا چشمہ تو انہوں نے لیا ہی نہیں مگر ڈھونڈنے کے باوجود نہ مل سکے ۔ گھر کو تالا لگا کر تینوں اپنے اپنے کام پر چل دیے۔ عاشی کا آج پریکٹیکل تھا ، اس لیے اسے شام پانچ بجے آنا تھا ۔ یہ ذمہ داری زبیر کے سپرد ہوئی کہ وہ اپنی موٹر سائیکل پر بہن کو لیتا آئے ۔ حسب عادت واجد صاحب دوپہر دو بجے کھانا کھانے آئے مگر وہاں تالا لگا ہوا تھا …… اوہو ، آمنہ بیگم تو ہیں ہی نہیں ! انہوں نے گاڑی ایک ہوٹل کی طرف موڑ لی۔ آدھ گھنٹے کے بجائے ڈیڑھ گھنٹے میں کھانا کھا کر جب انہوں نے تین سو روپے کا بل دیا تو اندازہ لگایا کہ ایک ہفتے میں تو خاصی رقم اللے تللوں میں خرچ ہو جائے گی ۔ صبح دونوں بچوں کو بھی کھانے کے لیے پیسے دیے تھے ، جبکہ آمنہ بیگم انہیں روز گھر کی بنی ہوئی صاف ستھری غذا بنا کر ساتھ دیتی تھیں ۔ شام تک معمولات تلپٹ رہے۔ رات کو بھی آمنہ بیگم ہی ان کے اعصاب پر سوار تھیں …… انہیں دودھ پیئے بنا سونے کی عادت نہیں تھی ۔ نیند نہ آنے پر جب وہ باورچی خانے میں آئے تو زبیر اور عائشہ بھی وہیں بیٹھے ماں کو یاد کر رہے تھے ۔ صبح نو بجے گھر بند ہونے کی وجہ سے دودھ والا بھی واپس چلا گیا تھا ، گھر میں دودھ بھی نہ تھا ۔ واجد صاحب بدمزہ ہو کر اپنے کمرے میں چلے آئے ۔ آج خبریں سننے میں بھی لطف نہ آیا ، بکھرا ہوا گھر انہیں بے سکون کر رہا تھا ۔ کمرے میں سب گھروالوں کی وہ تصویر بڑی شان سے لگی تھی جو عمیر کی شادی کے موقع پر کھینچی گئی تھی ۔ پرسکون مسکان لبوں پر سجائے آمنہ بیگم انہیں یہ کہتی ہوئی محسوس ہوئیں …… ‘‘ کیسے ہو میرے بغیر ؟ ’’

            ایک ہفتہ کیسے گزرا ، اس کا ایک ایک پل واجد صاحب کو یاد رہا ۔ آخر کا رآمنہ بیگم حسب وعدہ عمیر ، دلہن اور بچے کو لیکر آپہنچیں ۔ گھر میں پہلے جیسی رونق اور ہنگامہ رہنے لگا ۔ خاص طور پر ننھا منا بچہ سب کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔ ثمرین کو انہوں نے شہزادی بنا ڈالا ، اس سے کوئی کام نہیں کروایا جاتا تھا ۔ عمیر اپنے گھر واپس چلاجاتا پھر ہفتے کے آخر میں ان کے ساتھ ہوتا …… واجد صاحب سوچتے تھے کہ ان کے لیے بیگم کے بغیر ایک ہفتہ گزارنا مشکل ہو گیا تھا ، عمیر پھر اتنے دن بیوی بچے کے بغیر کیسے گزارتا ہے ؟

            اس ہفتے ثمرین کا سوا مہینا پورا ہونے والا تھا ۔ عمیر بھی دو دن سے ان کے ساتھ تھا ۔ اس خیال سے سب اداس تھے کہ اب بچہ چلا جائے گا ۔ اس کی دودھ کی بوتل ابالتے ، کپڑے دھوتے اور نہلاتے آمنہ بیگم کو بچے کی جدائی کا خیال بے چین رکھتا ۔ شام کو وہ عمیر کا پسندیدہ کھانا پکا کر میز پر بیٹھی سلاد بنا رہی تھیں ۔ واجد قریب بیٹھے اخبار پڑھتے ہوئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں ضرورت رشتہ کے اشتہار سنا رہے تھے ۔ اسی وقت عمیر کمرے میں داخل ہوا ، وہ خاصا الجھا ہوا اور پریشان لگ رہا تھا ۔ آتے ہی بولا : ‘‘ امی ! کیا آپ احمد کو اپنے پاس رکھ سکتی ہیں ؟’’ یہ سن کر ان کے ہاتھ سے چھری گر گئی ۔ ‘‘ ماں کے بغیر میں اتنے چھوٹے بچے کو کیسے رکھ سکتی ہوں ؟ ثمرین اس کی ماں ہے ، کیا وہ اسے میرے پاس چھوڑ دے گی ؟ ’’ انہوں نے حیرت سے پوچھا ۔

            ‘‘ میں یہ بات اسی کے کہنے پر تو پوچھ رہا ہوں ۔ وہ بچے کو اپنے ساتھ لیکر نہیں جانا چاہتی …… اسے ہسپتال سے مزید چھٹیاں نہیں ملیں گی ۔ ایمرجنسی میں ہمیں کسی بھی وقت بلایا جاسکتا ہے ۔ پھر قابل اعتماد آیا کا ملنا بھی ایک مسئلہ ہے ۔ یہ آپ کے پاس ہو گا تو ہمیں اطمینان رہے گا ۔’’ ‘‘ نہیں بیٹا ، اصل بات یہ نہیں ، کیا سب ڈاکٹر مائیں اپنے بچوں کو دوسروں کے سپرد کر دیتی ہیں ؟ اصل بات بتاؤ ۔ ’’ ‘‘ امی ! ثمرین ابھی پڑھنا چاہتی ہے ۔ وہ سمجھتی ہے کہ ایم بی بی ایس کا کوئی مستقبل نہیں ۔ اس کے ماموں ہم دونوں کو وظیفہ دلانے پر راضی ہیں ۔ اب بچے کے ساتھ پڑھائی کیسے ہو سکتی ہے ؟ ’’ عمیر اپنی ماں سے آنکھیں نہیں ملا رہا تھا ۔ ‘‘ نہیں بیٹا ، تم اب بھی سچ نہیں بول رہے ۔ بتاؤ اصل معاملہ کیا ہے ؟ میں تمہارے گھر ایک ہفتہ رہ کر آئی ہوں ۔ تم دونوں کے درمیان کوئی مسئلہ تو ہے ؟’’ آمنہ بیگم سختی سے بولیں ۔ ‘‘ امی کیا بتاؤں ، آپ کی رائے بالکل ٹھیک تھی …… ثمرین اچھی لڑکی ہے مگر اچھی بیوی نہیں ۔ جماعت میں اول آنا الگ بات ہے اور گھر چلانا بالکل مختلف ! اسے گھر داری حتی کہ کھانا پکانے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ۔ میں نے تو ہمیشہ دیکھا ہے کہ گھر کے ہر کام کی ذمہ دار آپ رہی ہیں ۔ ہم بھائی بہن اپنی پسند کا ناشتہ کیے بغیر سکول نہیں جاتے تھے ۔ مجھے تو ہوٹل کے کھانے کی عادت اور نہ ہی وہ کھانا پسند ہے مگر ثمرین کو باورچی خانے کے کاموں سے نفرت ہے ۔ ہم نے اچھے سا اچھا باورچی رکھا مگر …… میرے گھر کا حشر آپ دیکھ چکی ہیں ۔ وہاں ہر چیز موجود ہے مگر سلیقہ ، طریقہ اور ترتیب نہیں ۔ میں کہاں تک ہر جگہ کی ذمہ داریاں پوری کرتا پھروں …… آپ نے ہمیں پاکیزگی ، طہارت اور صفائی سکھائی ہے مگر ثمرین کو ان تمام باتوں کا کوئی علم نہیں۔ جانے یہ کاہلی ہے ، سستی ہے یا ہٹ دھرمی ہے مگر اس عورت نے میری زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ ‘‘ امی! ثمرین کو ابھی مزید پڑھنا ہے ، میرا گھر اس کی منزل نہیں اور وہ بچے کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بنانا چاہتی ۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا بچہ کوئی محرومی لیکر بڑا ہو ۔ اگر اسے صبح و شام یہ بتایا جائے کہ وہ اپنی ماں کے ‘‘ بلند مقاصد ’’ میں دیوار کی طرح حائل ہو گیا تو اس کی شخصیت مسخ ہو جائے گی۔ میں چاہتا ہوں جیسے ہمیں اس گھر سے سکون اور اطمینان جیسی نعمتیں ملی ہیں ، میرا بیٹا بھی ایک مکمل انسان بن کر معاشرے کا حصہ بنے ۔ امی ! خدا کے لیے آپ اسے رکھ لیں ، میری طرح اسے بے سکون نہ ہونے دیں ۔’’ ‘‘ بیٹا یہ تو انتہائی قدم ہے …… بچہ یہاں چھوڑنے سے تم دونوں میاں بیوی کے درمیان ایک رابطہ اور تعلق اور بچے سے محبت کا احساس سب ختم ہو جائے گا ۔ ایک مرتبہ پھر سوچ لو …… بچے ماں باپ کے تعلق کے درمیان پل کا کا م دیتے ہیں ، یہ تو وہ طاقت ہیں جن سے مرد اور عورت معاشر ے کی مضبوط اکائی بن کر سامنے آتے ہیں ۔’’ اب واجد صاحب نے عمیر کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ ‘‘ ابو ! آپ کی بات ٹھیک ہے کیونکہ آپ کے اور امی کے درمیان اختلافات تھے ، دوریاں تھیں مگر ہم بچوں کے باعث وہ ماند پڑ گئیں مگر اس گھر کو محبت او رخلوص سے بھر دینے میں امی کا کمال زیادہ شامل ہے ۔ امی نے اس گھر کو ہمیشہ اپنی پناہ گاہ سمجھا اور آپ کو اپنی ڈھال ! انہوں نے آپ کو عزت دی اور ہمیشہ ہر کام مجبوری سمجھ کر نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا ۔ مگر ثمرین میں ان جیسی کوئی خوبی نہیں ، وہ میرے ساتھ شادی ہونے کو ہی اپنا احسان سمجھتی ہے ۔ اسے اپنی اور میری حیثیت کا اچھی طرح اندازہ ہے ۔ جب اسے میری ضرورت نہیں رہے گی تو شاید وہ مجھے پھینکنے سے بھی دریغ نہیں کرے گی ۔ ہم دونوں کے تعلقات میں پہلے دن سے مصلحت موجود تھی ، محبت نہیں ۔ ’’ ‘‘ ابو ! امی نے ہمیں کبھی اندازہ ہی نہیں ہونے دیاکہ دنیا کی سرد اور گرم ہوائیں کیسی ہوتی ہیں ۔ انہوں نے گھر کا نظام ایسے سنبھالا کہ ہمیں معاشی دباؤ کا پتا ہی نہ چلا ۔ ابو ! گھر عورت سے بنتا ہے ۔ ہسپتال کو کئی لیڈی ڈاکٹر مل جاتی ہیں مگر گھروں کو مائیں نہیں۔ میری ماں بہت عظیم ہے ، گھر صحیح طریقوں سے چلانے کے لیے ڈگریوں کی نہیں سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ گھر والے خوش ہوں تو گھر جنت لگتا ہے ۔ دیکھیے آپ کے گھر میں تو تروتازہ پودے بھی بڑے خوش ہیں ۔ ’’ جانے عمیر کتنے دنوں سے دل میں غبار بھرے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں موتی جھلملا رہے تھے اور گلا رندھ گیا تھا ۔ ‘‘ امی دیکھیں ، احمد کتنا شرارتی ہے ۔’’ عاشی کمبل میں لپیٹے احمد کو اٹھائے چلی آئی ۔ ‘‘ زبیر کی گود میں خوش رہتا ہے مگر میرے پاس آتے ہی منہ بنانے لگتا ہے ۔’’ آمنہ بیگم نے ننھے احمد کو عاشی سے لے لیا …… اپنا بیٹا بنانے کے لیے …… محبت ، پیار او رشفقت کے سب رنگ ان کے چہرے پر عیاں تھے ۔

            واجد صاحب یہ دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے آخر ان کو بھی اپنے رب کا شکر ادا کرنا تھا کہ انہیں اتنی بہترین بیوی ملی جس کی اہمیت کا اندازہ برسوں بعد آج ہوا تھا۔

(بشکریہ : ماہنامہ اردو ڈائجسٹ ،لاہور)