مسیحیت میں صوفی ازم

مصنف : فادر رحمت راجہ ، او۔ پی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2006

باہر سے بگڑتا ہے تو اندر بن جا

اے قطرۂ نا چیز سمندر بن جا

تجھ کو تیری منطق نے بگاڑا ہے رئیس

بنتا ہے تو بس مست قلندر بن جا

            صوفی ازم کیا ہے؟ صوفی لوگ کون ہوتے ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟کس قسم کے ہوتے ہیں؟ ان کا مزاج کیسا ہوتا ہے؟ صوفی وہ شخص ہے، جس کا توکل خدا پر ہے، وہ روح جو دنیا کے بندھنوں میں گرفتار اور الجھی ہوئی نہیں ہوتی۔ صوفی معرفت حاصل کرتاہے، اس کی روح فضا میں پرواز کرتے ہوئے پرندے کی طرح آزاد ہوتی ہے …… وہ مقامات اور منازل طے کرتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے اپنے باطن کی سیڑھیاں اترتا ہے۔ روح سب سے پہلے تجسس اور جستجو میں برزخ کے مقام سے گزرتی ہے۔ پھر یہ روح تلاشِ بسیار کے بعد روشنی سے ہمکنار ہوتی ہے اور ایک مقام پر پہنچ کر اپنی منزل پاتی ہے۔ وہ خدا میں ایک ہو جاتی ہے۔ تو تو نہ رہے، میں میں نہ رہوں۔ رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی۔ خالق اور مخلوق کا سنگم، گنگا اور جمنا کا ملاپ، جس طرح خوشبو کو پھول سے جدا نہیں کیا جا سکتا اسی طرح صوفی کی محبت، ازلی محبت اور الٰہی محبت سے جلتی ہے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتا ہوا خالق حقیقی سے مدغم ہو جاتا ہے۔

            ہر سادھو، صوفی، درویش اور فقیر اپنے پس منظر، ثقافت اور مذہب کی روشنی میں روح اور بدن نچوڑنے والی روایات، منصب اور تخت طاؤس کو گراتے ہوئے مذہب اور سماج کے جان لیوا قوانین سے بغاوت کرتا ہے۔ صوفی امن پسند ہے وہ مذہب کے سخت قوانین اور آرتھوڈوکسیت سے ماورا ہو جاتا ہے۔ صوفی آفاقی مخلوق ہے، یہ سماج کے ڈھانچوں میں بند نہیں ہوتا۔ صوفی ہر انسان کو گلے سے لگاتا ہے، یہ مذہب، رنگ، نسل، ذات اور رتبے کو لات مار دیتا ہے۔ اس کی محبت عالمگیر ہے یہ درباری نہیں ہوتا …… یہ عالمگیریت اور ہمہ گیریت آج کے انسان کی ضرورت ہے۔

            بائبل مقدس میں گرو، چیلے کا تصور ملتا ہے۔ وعدہ کی سرزمین میں قدم رکھنے سے پہلے حضرت موسیٰ نے اپنی عبرانی چادر جو شوا کے کندھوں پر ڈالی۔ عصا اس کے داہنے ہاتھ میں تھما کر اور کندھے تھپتپاکر پہاڑوں میں کہیں روپوش ہو گیا۔ یہ نبی ہیں …… درویش ہیں …… صوفی ہیں …… حضرت یوحنا اصطباغی جسے قرآن پاک میں یحییٰ علیہ السلام کے نام سے پکارا گیا ہے۔ وہ شہد، گھاس، جڑی بوٹیاں کھایا کرتا تھا۔ وہ پانچ سو سادھوؤں کے ٹولے میں رہتا تھا۔ اسین کمیونٹی سے اس کا تعلق تھا۔ یہ بہت پہنچا ہوا صوفی اور درویش تھا۔ جس کے لفظوں میں کاٹ تھی۔ اس نے ہیرودیس بادشاہ سے کہا کہ ‘‘تجھے اپنے بھائی کی بیوی رکھنا جائز نہیں…… سلومی نے رقص کیا…… رقص پر خوش ہو کر ہیرودیس کے کہنے پر یوحنا کا سر سونے کی طشتری میں رکھ کر ملکۂ عالیہ کو پیش کیا گیا۔ سچائی اس کا دھرم اور عقیدہ تھی جس پر اس نے اپنی جان قربان کر دی۔

            ناصرت کاربی لمبا چولہ پہنے، خدا کی بادشاہی کی تعلیم بستی بستی، نگر نگر، شہر شہر، ملک ملک دیتا ہے۔ جس کا پیغام محبت ہے۔ جوت سے جوت ملاتے چلو، پریم کی گنگا بہاتے چلو…… یسوع مسیح میں صوفیانہ رنگ بہت نمایاں ہے۔ وہ ساری ساری رات اپنے باپ (خدا) سے گفتگو اور سوچ بچار میں گزاردیتا ہے۔ وہ نورانی ہے، وہ مسیحا ہے …… شفا دیتا ہے۔ امن ، انصاف، آزادی، محبت، معافی ، صلح اس کی تعلیم کی خصوصیات ہیں۔

            ہر مذہب، دین اور عقیدے کے صوفی میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے محبت۔ اسے ہم کیتھرین آف سی اینا، مولانا جلال الدین رومی، ہندو عالم سوامی دیویکا نند، بدھ مت اور ٹیگور میں دیکھ سکتے ہیں۔ بائبل مقدس میں مریم اور مارتھا دو شخصیات نہیں بلکہ دو رویے اور دو رجحان ہیں۔ مارتھا اپنی گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف ہے جبکہ مریم یسوع کی باتیں بغیر آنکھیں جھپکے پورے انہماک سے سن رہی ہے ان پر اپنے دل میں غور و خوض کرتی ہے۔ صوفیوں میں مراقبہ کی روح ہوتی ہے۔ مراقبہ کے ذریعہ جذب و استغراق ، ڈوب جانے کی کیفیت، خلوت اور جلوت، مخلوق کی خالق کے لیے تڑپ، بے قراری ، خدا میں ایک ہو جانے کی شدید آرزو صوفی میں پائی جاتی ہے۔ اللہ ہودا آوازہ آوے، قلی نی فقیر دی وچوں ۔ ‘‘ذکر’’ صوفیانہ تعلیم کا بہت اہم جزو ہے۔ ذکر کا حوالہ ہم لطانیہ، روزری اور تسبیح پڑھنے کے عمل میں دیکھ سکتے ہیں۔ یوحنا عارف کا تخیل بلا کا ہے۔ اسی عارفانہ روح کی بدولت وہ رویا دیکھتا ہے۔ آسمانی دنیا کی سیر کرتا ہے۔ یہ عارفانہ روحی ہی ہے جو اسے کشاں کشاں لیے پھرتی ہے۔ مقدس پولوس رسول روح سے معمور ہو کر کہتا ہے کہ ‘‘اب میں زندہ نہ رہا بلکہ یسوع مجھ میں زندہ ہے۔’’

            کلیسا اور مسیحیت کے اندر صوفی ازم کی بڑی توانا روایت رہی ہے۔ آبائے صحرا (The Father's of Desert) نے صوفیانہ تعلیم کو بہت تقویت دی ۔ مسیحیت کے ابتدائی دور میں، آبائے کلیسا پر یونانی تعلیم کا اثر بہت نمایاں رہا۔ افلاطون کی تعلیم کا سحر ان پر طاری رہا۔ نتیجتاً انھوں نے دنیا کو تیاگ دیا۔ مقدس آگسٹین پر یونانی فلسفی افلاطون کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ مقدس بینڈکٹ اور ان کی راہبانہ جماعت نے صوفیانہ تعلیم کو پروان چڑھایا۔ یورپ میں خانقاہیں (Monestries) ہر طرف نظر آنے لگیں۔ جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا تو ان Monksاور راہبوں نے گیان و دھیان، سوچ بچار اور تحریروں کے ذریعے روحانیت اور صوفیانہ تعلیم کو عام کیا۔ یہ درویش اور صوفی گوشۂ تنہائی، خامشی میں مسلسل دعا کا ورد کرتے تھے۔جدید روحانی لکھاری، ہیزی جے۔ ایم۔ نووین، چارلس ڈوفوکو، کاریوقوریتو، آبائے کلیسیا سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ آبائے کلیسیا کی تعلیم کے خدوخال کچھ یوں پیش کیے جا سکتے ہیں:

            کسی کے منصف نہ بنو۔ سچا امن، تابعداری، مرید، شاگرد اور چیلہ کیسے بننا ہے۔ عاجزی، غریبی، باہمی زندگی، خامشی، اپنے ہی باطن میں بادشاہی دریافت کرنا، مہمان نوازی، شرافت، مقدسین، خوشی، محبت اور خدا سب کے لیے ہے۔ یہ تمام خصوصیات دوسرے انسانوں سے محبت کرنے میں ہیں۔ خدا کی محبت، دعا، سفارش ، حجرہ ، چلہ، مسلسل دعا، استحکام پذیری، یکسوئی، سچی تعلیم، صحائف مقدسہ، صلیب، آنسو، موت، توبہ اور معجزات میں پوشیدہ ہے۔

            صوفیوں کی روح آزاد ہوتی ہے۔ وہ خدا کی بے پایاں محبت کا مزہ چکھتے ہیں۔ ان کی روح خدا کی محبت اور پیار سے جل تھل ہو جاتی ہے۔ وہ دنیا میں ہوتے ہوئے بھی دنیا کے نہیں ہوتے۔ یہ تارک الدنیا فقیر اور نئی افلاطونی تعلیم کے سحر میں ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو راگ ملہار کی سر لگاتے ہیں تو سرمئی بادل جھوم کر آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بستی یا محل میں داخل ہوتے ہیں تو بجھے ہوئے چراغ راگ دیپک کی آمد سے جل اٹھتے ہیں۔ ان کی نظر میں روحانی مقناطیسیت ہوتی ہے، وہ انسانوں کو قیامت اور نئی زندگی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ صوفی اور روحانی لوگوں کی شخصیت شفاف ہوتی ہے۔ ایکاٹ، تھامس اکیوائینس اور کیتھرین آف سی اینا جیسے لوگ خدا سے محبت کرنے والے صوفی اور عارف ہیں۔ تھامس اکوائینس لکھتا ہے:

            ‘‘الٰہیات کا جام لبریز ہو کر روحانی زندگی سیراب کرتا ہے۔ الٰہیات کا مطالعہ ہمیں ایک قدم اور آگے لے جاتا ہے جہاں ہم تصوف اور روحانیت کے میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ پھر خدا کے ساتھ ایک ہوتے ہیں۔’’

            مائیسٹر ایکارٹ (جرمن مسٹک) Detachment پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے:

            ‘‘اپنے خیالات اور نظریات کو جھٹک دینا ہے۔ تمام امیجیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ اپنے ذہن کو خالی اور آزاد کر دینا ہے۔ خدا کے بارے میں شبیہہ سے رہائی لازمی ہے تاکہ سچائی پر انحصار کیا جا سکے۔ سادہ طریقے سے خدا کی موجودگی کا ہر لمحہ احساس رہے۔ اپنے جذبات میں ٹھہراؤ اور استحکام پیدا کرنا۔ تمام قسم کے بندھنوں ، غلامیوں، جاگیروں اور قبضوں سے دستبردار ہونا۔ صوفی اور یوگی تقسیم کے عمل کو بھی خدا حافظ کہتا ہے۔ اس کی شخصیت تقسیم شدہ نہ ہو اور خود اپنی ذات کے حصار سے رہائی اور خلاصی حاصل کرنی ہے۔ تاکہ خدا اور پڑوسی کی محبت میں بے لوث طریقے سے قائم رہا جا سکے۔ رحم اور فضل کا کام کرتے ہوئے خدا میں پیوست زندگی گزار دی جائے۔’’

            کیتھرین آف سی ایناایسی عارفہ ہے جو خدا کی محبت میں ڈوب کر باہر نکلتی ہے۔ پھر اسی محبت کی چھاؤں میں لوگوں کی خدمت کرتی ہے۔ اس ایک اقتباس میں جہاں خدا کیتھرین سے ہمکلام ہوتا ہے، ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ زاہدہ بھی ہے اور عارفہ بھی ہے۔ وہ ایکشن سے بھی بھرپور ہے اور وہ کرشماتی شخصیت کی مالک بھی ہے:

            ‘‘اے بیٹی! کیا تم جانتی ہو کہ تم کون ہو اور میں کون ہوں۔ اگر تم یہ دونوں چیزیں جانتی ہو تو مبارک پن تمھاری رسائی میں ہے۔ کیتھرین! تم وہ ہو جو نہیں ہو۔ تم نیستی ہو اور میں وہ ایک ہوں جو ہے۔ میں ہستی ہوں۔ اس سچائی کے ساتھ روح کو غور و خوص کرنے دو اور پھر تمھیں دشمن گمراہ نہیں کر سکتا۔’’

            گیارہویں بارہویں صدی کی پیلادی گارڈ صوفی خاتون ہے۔ وہ خود کو خدا کی سانسوں کے سامنے ایک ‘‘پر’’ سے تشبیہ دیتی ہے۔ اس کی تعلیم میں ‘‘خدا’’ محبت اور خدا کی چمک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح مقدس فرانسس آف اسیسی اور مقدس دومینک کی سادگی، غریبی اور محبت بہت متاثر کن ہے۔ گیارہویں اور بارہویں صدی کے یہ دو درویش، صوفی اور اللہ لوک تھے۔ چودھویں صدی کا ہیزی سو سو کہتا ہے کہ ‘‘تصوف شعور کی کیفیت کا نام ہے۔’’ روحانیت کا اظہار آرٹسٹوں نے اپنی تصاویر سے ظاہر کیا ہے، عشقِ حقیقی ان کی تخلیقات سے چھلکتا ہے۔ اس سلسلے میں اطالوی آرٹسٹ چیم بوئیے، گابیرتی، البیرتی، دونائیلو، رافائیلو، لیوناردوونچی اور مائیکل اینجلو جیسے عظیم لوگ قابل ذکر ہیں۔

            سولہویں صدی کے دو صوفی ٹریضہ آف آویلا اور جان آف دی کراس ہیں وہ روحانیت اور تصوف میں گندھے ہوئے تھے۔ وہ بہت گہرے ہیں، ان کی فکری وسعت کا اندازہ کرنا ہو تو ٹریضہ کا Interier Castleاور جان آف دی کراس کا The Mount Carminپڑھ لیجیے۔ پھر آنے والی صدی میں سپین ہی کا ایگنیشئیس آف لائیلولہ ہے۔ ان کی تعلیم کا جوہر ہم ان کے اس قول میں دیکھ سکتے ہیں، وہ Self abandonment to God پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے:

            ‘‘خدا کا علم جو خدا کے تجرباتی علم سے حاصل ہوتا ہے۔ محبت کے ذریعے اور محبت ہی میں اپنی معراج کو پہنچتا ہے۔ تجربہ اسی وقت وقوع پذیر ہوتا ہے، اسی لمحے اپنی اصلی شکل اختیار کرے گا جب ہم مسیح میں ایمان اور محبت کے ذریعے اپنے آپ کو کلی طور پر خدا کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں۔’’

            این میری شمل جرمن سکالر ۱۲۰ کتابوں کی مصنف ہیں وہ مشرقی علوم پر دسترس رکھتی ہیں اور خاص طور پر شیراز کے صوفیوں سے بہت متاثر ہیں۔ صوفیانہ تعلیم سے آگاہی کے لیے ان کی شہرہ آفاق کتاب The Mystical Dimension of Islamکون فراموش کر سکتا ہے۔ فادر بیڈگریفن جو بینڈکٹین راہب، درویش اور صوفی ہیں جنھوں نے مغرب سے آ کر ہند میں آشرم کھولا ، کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ فادر لاسال کو جنھوں نے مغرب سے آ کر جاپان میں Zenمراقبہ میں کمال حاصل کیا۔

            تھائی لینڈ میں قیام کے دوران میں بدھ مت راہبوں سے ملا وہ ہمیں فلسفے پر لیکچر دینے آئے تھے۔ ایک پروفیسر اپنے لیکچر کے دوران بتا رہا تھا کہ ہم صبح اٹھ کر مانگنے کے لیے جاتے ہیں۔ سب راہب کھانا اور بھوجن لا کر میز پر رکھ دیتے ہیں۔ پھر ہم سب ناشتہ کرکے یونیورسٹی پڑھانے جاتے ہیں۔ ان کا درویشانہ رنگ مجھے بہت بھلا لگا۔ مولانا جلال الدین رومی شیراز کی صوفی حکایت بیان کرتے ہیں:

            ‘‘اندھے آدمیوں کے سامنے ہاتھی کھڑا کر دیا گیااور انھیں کہا گیا کہ وہ ہاتھی کو چھو کر بتائیں کہ وہ کیسا ہے۔ ہر اندھے نے ہاتھی کے جسم کے جس جس حصے کو چھوا اسی کے مطابق بیان کر دیا۔ ایک کے نزدیک ہاتھی تخت کی طرح ہے۔ دوسرے کے نزدیک ہاتھی ہوا جھلنے والے پنکھے کی مانند ہے۔ تیسرے نے کہا کہ وہ پائپ کی طرح ہے۔ چوتھے نے کہا کہ ہاتھی ستون کی مانند ہے۔ ان میں سے ایک بھی مکمل ہاتھی کا تصور ذہن میں نہ لا سکا۔’’

            تصوف اور عارفانہ زندگی بھی اسی طرح ہے کہ تصوف میں پراسراریت ہے۔ تصوف اور عارفانہ منازل عام طریقے اور عقلی کوششوں سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ یہ مسلسل ریاضت اور قربانی سے حاصل ہوتی ہیں۔ تصوف کا تصور تمام مذاہب میں بہت وسیع معنوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ واحد حقیقت کا شعور ہے، چاہے ہم اسے فرد کا نام دے دیں، روشنی، محبت یا پھر کسی ہستی کا نام دے دیں۔ صوفی کی منزل خرد، وجہ، دلیل اور فلسفہ آشکارا نہیں کر سکتے۔ اسے صرف دل کی حکمت اور معرفت ہی بیان کر سکتی ہے۔ یہ ایک خالص روحانی تجربہ ہوتا ہے جو برسوں کی ریاضت کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ اس عرصے میں صوفی روحانی مراقبوں اور تپسیا کی بدولت تانبے سے سونا اور سونے سے کندن بن کر نکھرتا ہے۔ وہ جنگلوں ، پہاڑوں اور صحراؤں میں قیام کرتا ہے پھر حقیقی روشنی اور جوگ حاصل کرنے کے بعد صوفی کہہ اٹھتا ہے:

سارے انسان تجھ کو مانیں

اللہ، باپ اور رام ہے تو

            صوفی اور عارف کئی علامتیں استعمال کرتے ہیں مثلاً کیتھرین آف سی اینا، سمندر، پل کے سمبل استعمال کرتی ہے۔ طریقت اور حقیقت مقامات اور منازل کا ذکر کرتے ہیں۔صوفی اور عارف کی معراج خدا میں ایک ہونا ہے۔ ‘‘تصوف سے مراد کوئی چیز تمھارے قبضے میں نہ ہو اور نہ ہی تم کسی کے قبضے میں ہو۔’’ کسی نے مولانا رومی سے پوچھا کہ صوفی ازم کیا ہے؟ تو حضرت نے جواب دیا کہ ‘‘دل اس وقت خوشی محسوس کرتا ہے جب غموں کے بادل آئیں۔’’ ہم جو صوفیانہ ذوق رکھتے ہیں ہمارے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم مشرق کی روحانیت کو راہبانہ اور روزمرہ زندگی کی لڑی میں پروئیں۔

            خدا، مسجد، مندر، گردوارہ اور گرجا گھر تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اس لیے آج کی دنیا میں قتل و غارت ہے، انتہا پسندی ہے، تہذیبوں کے مابین ٹکراؤ ہے اور خاندانوں اور برادریوں کے درمیان بحران اور انتشار ہے۔ مادیت کی دوڑ میں ہم پاگل ہو گئے ہیں اس لیے ذاتی رشتے کچی تند کی طرح ٹوٹ رہے ہیں۔ انسان اندر سے پیاسا ہے وہ شہر میں رہ کر بھی صحرا میں ہے۔ ہمیں حقیقی خوشی، سکون، طمانیت، استحکام صرف صوفیانہ تعلیم اور مزاج ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مذہب سے سیکھنا ہے، ایک دوسرے کو برداشت اور قبول کرنا ہے۔ آئیے ہم زمانے کے تیور سمجھنے کی کوشش کریں اور بقول یسوع المسیح ‘‘وقت کے نشانوں کو پہچانو۔’’

(بشکریہ: المشیرجلد ۴۷،شمارہ نمبر ۱، ۲۰۰۵ء)