مجھے یاد ہے

مصنف : تحریم سجاد

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : دسمبر 2016

غیر ملکی ادب
مجھے یا د ہے 
I remember by L.Weiss
ترجمہ ، تحریم سجاد

مجھے یاد ہے. مجھے ایسے یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔۔۔.مجھے یاد ہے۔
یہ کرسمس کا تہوار تھا اور میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح کرسمس کی آخری خریداری کر رہا تھا۔میں نے کونے والی عمارت اور کوڑے والے ڈبے کے درمیان سے ایک خناق زدہ کھانسی کی آواز سنی۔ جیسے ہی کوڑے کے ڈبے کے پاس پہنچا تو ایک بوڑھے آدمی کو دیکھا جس نے خود کو گرم رکھنے کے لئے کپڑے کے ایک ٹکڑے سے لپیٹ رکھا تھا۔اس نے ایک پرانا کوٹ پہن رکھا تھا جو مٹی سے اٹا ہوا تھا اور اس میں بہت سارے اخباربھی بھرے ہوئے تھے جو اس کو گرم رکھنے میں مدد کر رہے تھے ۔اس کا پاجاما چھوٹا تھا اور بہت سے سوراخوں سے بھرا ہوا تھا، جوتے بھی پھٹے ہوئے تھے اور اس کے بائیں پاؤں کی انگلی اس میں سے باہرجھانک رہی تھی۔ کمبل جو اس نے اپنے گرد لپیٹا ہوا تھا وہ بھی پھٹا ہوا تھا اور اس کے سوراخوں میں سے آپ باقاعدہ دیکھ سکتے تھے۔
جب میں اسے دکھ کے عالم میں دیکھ رہا تھا، تو اس نے مجھے دھیمے سے اپنے میلے چہرے اور ہلکی رنگت والی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں ادھ کھلی لیکن روشن تھیں۔اس نے خود کو گرم رکھنے کے لئے اپنے ہاتھوں کو اپنے سینے کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔
میں آج تک نہیں جان پایا کہ کس وجہ سے میں نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اس امید سے کہ وہ اس کو پکڑ لے گا، اس نے مجھے اپنی چمکتی انکھوں سے دیکھا جیسے وہ شکریہ کہہ رہا ہو۔اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ پکڑا اور پھراس کو مضبوطی سے تھام لیا۔ اس کے ہاتھ سردی سے پھٹے ہوئے تھے اور اس کی نحیف ہڈیاں اور ابھری ہوئی رگیں صاف نظر آ رہی تھی. میں نے اپنا بایاں بازو اس کو سہارا دینے کے لئے اس کے گرد لپیٹا۔ وہ بہت کمزور تھا اور بمشکل کھڑا ہو پا رہا تھا ۔ میں نے اپنے جسم سے اس کو سہارا دیا۔ ایک دفعہ وہ کھڑا ہو گیا تو ہم نے پناہ ڈھونڈنے کے لئے چلنا شروع کیا۔ایسی پناہ جہاں اسے کچھ کھانے پینے کے لئے مل سکے اورشاید گرم کپڑے اور سونے کے لئے محفوظ جگہ بھی ۔
میں نے دیکھا کہ ایک طعام گاہ ابھی تک کھلی ہے۔ جیسے ہی ہم اندر گئے تو ایک ویٹریس نے ہمیں دیکھا اور پوچھا کہ ہم کیا کھانا پسند کریں گے۔ نہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ آدمی کیا پسند کرتا تھا میں نے اسے چکن سوپ کا ایک پیالہ اور دو کپ کافی لانے کو کہا جو اسے گرم رکھنے میں مدد کر سکتے تھے۔ کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں اس کی مدد نہیں کر سکتا۔ آخریہ آدمی اس حال کو کیسے پہنچا؟ یہ کہاں سے آیا تھا؟ کیا یہ کسی کا شوہر تھا؟ کسی کا باپ؟ کیا کوئی جانتا تھا کہ یہ کون تھا؟ شاید کسی کو اس کی پروا بھی ہے کہ نہیں؟ ہزاروں سوالات میرے دماغ میں گردش کر رہے تھے۔جوں ہی اس نے کھاناشروع کیاتو مجھے لگا کہ اس کے چہرے کی رنگت واپس لوٹ رہی تھی۔
کھانا ختم کرنے کے بعد ہم نے بل ادا کیا اور پناہ ڈھونڈنے کے لئے ایک بار پھر جان لیوا سردی میں نکل پڑے. ابھی ہم زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ وہ بوڑھا آدمی برف سے ڈھکی ہوئی سڑک کے اس پار چرچ کی جانب دیکھنے لگا۔ وہ بڑی مشکل سے سیڑھیاں چڑھا اور لکڑی کے بڑے دروازے سے اندر چلا گیا۔دروازے کے پاس مقدس پانی کا ایک پیالہ تھا، جس میں بوڑھے آدمی نے اپنی انگلیاں ڈبو دیں اور صلیب کا نشان بنا کر جھک گیا۔ میں نے اس کی مدد کی اور ہم اندر جا کر بنچ پر بیٹھ گئے
بوڑھا آدمی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو زور سے جوڑ کر دعا کرنے لگا. جب وہ دعا کر رہا تھا میں نے اس کے گرد اور لوگوں کو بھی دعا کرتے ہوئے دیکھا جو تقریب میں شریک تھے۔
موم بتیاں جلی ہوئی تھیں اور ان کے شعلے ہلکی ہوا میں لوگوں کے گرد رقصاں تھے۔ ہوا ان کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔ بچوں کے گانے کی آوازوں نے دل کو خوشی سے بھر دیا تھا اور روح کو روشن کر دیا تھا۔یہ سب ہمیں یاد دلا رہا تھا کہ آج بہت خاص دن ہے۔ تہواروں کا تہوار یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا جشن تھا۔ میں نے پیچھے مڑ کر اس بوڑھے آدمی کو دیکھا جس کو اٹھنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ میں نے اپنا بائیاں بازو اس کی کمر کے گرد لپیٹا، نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور اْٹھنے میں مدد کی۔
اُدھر میں اس پْرسکون روحانی منظر کو گہری سوچ کے ساتھ دیکھ رہا تھا اور اِدھر میں نے محسوس کیا کہ اس بوڑھے آدمی نے اپنا سر میرے کا ندھے پر رکھ دیا ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرایا جیسے شکریہ ادا کر رہا ہو۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور گہری نیند میں چلا گیا۔
کچھ لمحوں بعد مجھے لگا کہ وہ سانس نہیں لے رہا تھا۔ وہ پْر سکون نیند میں دکھائی دے رہا تھا. نہ اور پریشانیاں، نہ اور سردی، نہ اور بھوک، نہ ہی اور مسائل ۔۔۔ صرف امن.
میں نے دیکھا اس کا سر اب بھی میرے کاندھے پر تھا۔ اس کے چہرے پر بہت سکون تھا. مجھے تب پتا چلا جب پادری آئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھ دیا۔ جیسے ہی میں نے پادری کو دیکھا میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ بوڑھا آدمی بہت اچھی جگہ پر ہے۔ جب پادری اس کی آخری رسوم ادا کر رہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ مجھے تو اس آدمی کا نام تک معلوم نہیں۔ جب میں پہلی بار اس سے ملا تو مجھے لگا تھا کہ میں ایک کھوئی ہوئی روح کی مدد کر رہا ہوں... لیکن یہ تووہ تھا کہ جس نے اپنی گمشدہ روح کی مدد خود کی تھی۔
مجھے یاد ہے ۔۔۔ مجھے ایسے یاد ہے جیسے یہ
کل کی بات ہو۔
***