آرا و تاثرات

مصنف : خضر حیات ناگپوری

سلسلہ : آرا و تاثرات

شمارہ : نومبر 2007

            امسال تعطیلات گرما سے ابو ظبی واپس لوٹا تو ‘‘سوئے حرم’’ کے دو شمارے ملے ۔حیرت انگیز مسرت اور مسرت خیز حیرت ہوئی ۔تنہا آدمی اور اس قدر بڑا کام۔ پھر خیال آیا کہ اردو والوں کی یہ روایت رہی ہے کہ جو کام دوسرے ملکوں میں اکادمیاں کرتی ہیں وہی کام بلکہ اس سے وقیع کام ہمارے یہاں فرد واحد کر گزرتے ہیں۔ ہم بھی زیر لب بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

            حیرت ومسرت تو آپ کو بھی ہو گی جب آپ ‘‘سوئے حرم’’ کی دونوں اشاعتوں کاخود مطالعہ کریں گے ۔

            ۱۔ دعا نمبر ، سوئے حرم کا ستمبر ۲۰۰۷ کا شمارہ ہے ۱۲۸ صفحات پر مشتمل اس شمارے کی پیش کش کا انداز اتنا خوب صورت اور متاثر کن ہے کہ بے ساختہ دل سے دعا نکلتی ہے ۔ یوں تو سوئے حرم کے ہر شمارے کے ادریے اپنی اثر آفرینی ، خلوص جذبہ اور دلچسپ انداز بیان کی وجہ سے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دعا نمبر کا اداریہ (آواز دوست کے مستقل عنوان کے تحت ہر شمارے میں اداریہ مدیر اعلی کے قلم کا شاہکار ہوتا ہے ) اس قابل ہے کہ اس کو بار بار پڑھا جائے ۔ جب مدیر کے تحریر کردہ اس جملے کی طرف نظر پڑتی ہے کہ ‘‘ دعا پڑھنے کی نہیں مانگنے کی چیز ہے ’’تو بے ساختہ ہم چونک اٹھتے ہیں ۔ ہم کہ دعا صرف پڑھتے رہے ہیں ، کرتے رہے ہیں ، کراتے رہے ہیں، ہمیں اس بات کا احساس کم ہی ہوتا ہے کہ ہم اگر بغیر سوچے سمجھے دعا پڑھتے رہیں تو بھلا اس میں اثر آفرینی کہاں سے آسکتی ہے ۔ دعا تو یقین سے اثر کے آسمان کو چھوتی ہے ۔ بقول ماہر القادری کے

وہ دعا ہاں ! وہ دعا جس میں یقین شامل ہو

کون کہتا ہے کہ محروم اثر ہوتی ہے

            دعا میں یہ یقین ، اثر اور جذب دروں اسی وقت پیدا ہو سکتاہے جب ہم دعا کو سمجھ کر دعا کے الفاظ کے مطالب کو روح و قلب میں پوری طرح سمو کر اللہ سے مانگنے کی طرح مانگیں ۔ اپنے بچے کی گمشدگی اور بازیابی کا دلدوز واقعہ تحریر کرنے کے بعد مدیر اعلی سوئے حرم نے جو پراز حقیقت الفاظ تحریر کیے ہیں اسے آپ بھی ملاحظہ کریں :

            ‘‘اس دن کے بعد سے لے کر آج تک اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اصل میں ہمیں مانگنا ہی نہیں آتا ۔ ہم دعائیں مانگتے نہیں ، پڑھتے ہیں جبکہ یہ مانگنے کی چیز ہے ۔ ہو نہیں سکتا کہ اللہ سے کچھ مانگا جائے اور وہ نہ دے ۔ بچے جب لپٹ کر ماں باپ سے کچھ مانگتے ہیں تو انہیں بھی نہ دیتے ہوئے شرم آتی ہے اور وہ تو اللہ ہے ،خالق اور مالک ، سب کریموں سے کریم اور سب سے زیادہ پیار اور رحم کرنے والا ، وہ کیوں نہ دے گا؟ وہ تو اپنے دشمنوں کو بھی دیتا ہے پھر اپنوں کو کیوں نہ دے گا ۔ لیکن اپنوں کو مانگنے کاطریقہ آنا چاہیے۔’’

            ‘‘دعا نمبر’’ کو بڑے ہی حسین انداز میں ترتیب دیا گیا ہے ۔ مستقل عنوان ‘‘آواز دوست’’ کے تحت مدیر اعلی کے پر اثر رشحات قلم کے بعد ‘‘دعا کے مختلف پہلو’’ کے زیر عنوان دعا کی فضیلت ، آداب دعا ، قبولیت دعا کے مقامات ، اوقات اجابت ، دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں ، وہ لوگ جن کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے اور دعا ذکر کثیر کی بہترین صورت کے ذیلی عنوانات کے تحت دعا کی اہمیت ، افادیت اور ضرورت پر ایک جامع مقالہ سپرد قلم کیا گیا ہے ۔ ‘‘قرآن مجید کی دعائیں ’’ کے تحت پچاس قرآنی دعاؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔ بعد ازاں ص 30 سے ص52 نماز کی دعاؤں اور اذکار کے لیے مختص ہیں ۔ عوام الناس میں عام طور سے یہ خیال رائج ہے کہ نماز کے دوران میں قیام و رکوع و سجود اور قعدہ کی دعائیں مختص ہیں اور ان کے علاوہ کوئی اور دعا کرنا بدعت ہے ۔ صدیق صاحب نے جاوید احمدصاحب غامدی کی کتاب ‘‘قانون عبادات’’ سے ان تمام دعاؤں کو یکجا کر دیا ہے جو رسول اللہﷺ نماز کی مختلف حالتوں میں مانگا کرتے تھے ۔

            احادیث میں منقول سو100 دعائیں ‘‘احادیث کی دعائیں’’ کے زیر عنوان جمع کی گئی ہیں جو اسی شمارے کے ص53 سے ص103 تک محیط ہیں ۔ پھر ص104 سے ص127 تک ‘‘روزمرہ کی دعائیں’’ کے عنوان سے 75 سے بھی زائد دعائیں درج کی گئی ہیں اس میں زندگی کے ہر ہر لمحے سے متعلق دعاؤں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔

            اس دعا نمبر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر دعا کی عربی عبادت پر اعراب لگائے گئے ہیں جس سے میرے جیسے کم علم کے لیے دعاؤں کی صحیح قرات سہل ہو گئی ہے ۔ ساتھ ہی ہر دعا کے تحت اس کا بامحاورہ ترجمہ کر دیا گیا ہے۔ اور اہم ترین خوبی یہ ہے کہ کسی دعا کو بغیر حوالے کے درج نہیں کیا گیا ہے ۔ قرآنی دعاؤں میں سورۃ اور آیت نمبر کا حوالہ حواشی میں درج ہے ۔ اسی طرح احادیث سے ماخوذ دعاؤں میں ان تمام کتب احادیث معتبرہ کا حوالہ دیا گیا ہے جہاں سے ان دعاؤں کو احذکیا گیا ہے ۔ ‘‘فوائد’’ کے زیر عنوان ہر دعا کے ترجمہ کے نیچے حوالوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کے معمولات اور مختلف مواقع پر دعاؤں کی اثر آفرینی کو اختصار مگر جامعیت کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے ۔

            ‘‘دعا نمبر’’ کمپیوٹر کی روشن کمپوزنگ کے ساتھ عمدہ کاغذ پر دیدہ زیب سرورق کے ساتھ شائع ہوا ہے، بیس روپے میں مہنگا سودا نہیں ہے ۔ اے کاش ہمارے وہ تعلیم یافتہ لوگ جو آسودہ حال زندگی گزار رہے ہیں اور جن کے ڈرائنگ روموں میں ٹیبلو میگزین میزوں پر دھرے ہوتے ہیں ۔ ‘‘دعا نمبر’’ جیسے پرچے کو اپنے ڈرائنگ روم کی میز کی زینت بنائیں اور چلتے پھرتے ان دعاؤں کو معنی کے ساتھ سمجھ کر پڑھتے ہی نہیں مانگتے بھی رہیں تو کیا عجب کہ زندگی میں نیا انقلاب آجائے ۔ یاد رکھیے دعا خدا اور بندے کے درمیان بڑا ہی مضبوط بندھن ہے ۔ شعور و احساس کی مکمل گہرائی کے ساتھ صحیح الفاظ میں مانگی ہوئی دعا ا نسان کے اعمال نامے میں ایک مفید اضافہ ثابت ہوتی ہے ۔ راقم الحروف دعا مانگتا ہے کہ اللہ ‘‘دعا نمبر’’ کو ہر گھر میں داخل کر دے اور اس نمبر کے مرتب ، مدیر اعلی اور اس کا ساتھ دینے والے ہر فرد کی کوششوں میں کامیابی عطا فرمائے اور ان کے حسن نیت کا ثمرہ اپنی بارگاہ خاص سے عطا کرے ۔ ایں دعا ازمن و جملہ جہاں آمین باد

            ۲۔ ‘‘سوئے حرم’’ کا اکتوبر 2007 کا شمارہ نورالقرآن پروجیکٹ کا خصوصی نمبر ہے ۔ ‘‘نورالقرآن’’ کے نام سے صدیق بخاری صاحب نے ایک ایسا عظیم پروجیکٹ شروع کر رکھا ہے جسے مغربی ملکوں میں علما وفضلا پر مشتمل اکادمیاں انجام دیتی ہیں ۔ اردو میں قرآن مجید کے ترجمے اور تفسیر پر عربی کے بعد سب سے زیادہ وقیع اور مستند کام ہوا ہے ۔ بقول مدیر ‘‘نورالقرآن کا مقصد اسی وقیع کام کی تمام تر معتبر روایات کو قاری تک منتقل کرنا اور برصغیر کے تمام علمی دھاروں کو اسی تک پہنچانا ہے ۔ مرتب کے پیش نظر کسی خاص مکتبہ فکر کا ابلاغ یا ترویج نہیں بلکہ خالص علمی انداز میں تعلیم دینا ہے اس لیے مرتب نے کہیں بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کی کوشش نہیں کی ’’ ۔ ‘‘سوئے حرم’’ کی یہ خصوصی اشاعت سورہ فاتحہ اور سورہ بقرۃ کی آیت نمبر 141 تک یعنی پہلے جز (پارے ) کے ترجمے اور تفسیر پر مشتمل ہے ۔ 320 صفحات کی یہ ضخیم کتاب قرآن مجید سے محبت رکھنے والے اصحاب کے لیے تحفتاً دستیاب ہے ۔ صرف ڈاک خرچ بھیج کر منگوا سکتے ہیں

سرمہ مفت نظر ہوں میری قیمت یہ ہے

کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا

            اور صدیق صاحب تو چشم خریدار پر احسان دھرنے کے بھی قائل نظر نہیں آتے بلکہ گڑگڑا کر اللہ کے حضور اپنی اس کاوش و کوشش کی قبولیت کے لیے دست دعا دراز کیے ہوئے ہیں ۔ اس شمارے کی اہمیت ، وقعت اور افادیت کا اندازہ اس فہرست مترجمین و مفسرین سے ہوسکتا ہے جو سرورق پر درج ہے ۔ آپ بھی ملاحظہ کریں ۔

مترجمین : شاہ عبدالقادرؒ ، مولانا تھانویؒ ، مولانا احمد رضا خانؒ ، مولانا محمد جونا گڑھی ؒ، سید ابوالاعلی مودودیؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، جاوید احمد غامدی

تفاسیر: معارف القرآن ، خزائن العرفان ، تفہیم القرآن ، احسن البیان ، تبیان القرآن ، تدبر قرآن ، البیان

            اس کے علاوہ تفسیر ماجدی ، ضیاالقرآن ، تفسیر عثمانی وغیرہ کے حوالے بھی جگہ جگہ ملتے ہیں ، غرض یہ کہ سوئے حرم کا یہ شمارہ قرآن کے ہر طالب علم کے لیے تفسیری خزانوں کو ایک ہی جگہ مہیا کر دیتا ہے ۔ اس نمبر کو بھی ایک مخصوص انداز میں ترتیب دیا گیا ہے ۔ اول آیات کا ترجمہ مختلف مترجمین کے حوالے سے درج کیا گیا ہے پھر متعلقہ آیات کی تفاسیر کوسلسلہ وار درج کیا گیا ہے ۔ تفاسیر میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ذیلی عنوانات کے تحت مختلف تفاسیر کی اہم باتوں کو شامل کر لیاگیا ہے ۔ اس طرح قاری کے لیے مطلوبہ موضوع تک پہنچنا اورموضوع سے متعلق ایک مخصوص مفسر کی رائے سے آگاہی کا حصول آسان اور ممکن ہو جاتا ہے ۔

            بہرحال مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطارگوید کے مصداق آپ سوئے حرم کی اس اشاعت خاص کا خود مطالعہ کریں ، دوسروں کو مطالعہ کرنے کی سفارش کریں اور اس کتاب کو اپنی ذاتی لائبریری میں نمایاں مقام پر رکھیں جہاں سے آپ روزانہ کم از کم ایک آیت کا ترجمہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرنے کے لیے اسے بآسانی نکال سکیں۔