رونے کا دن

مصنف : اوریا مقبول جان

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : نومبر 2007

            قبر کھودی جارہی تھی۔ وہ اپنے چند وفادار غلاموں کے ساتھ کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ دور کہیں سے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز بھی آرہی تھی جو آہستہ آہستہ قریب ہوتی جارہی تھی۔وہ اپنے ملک کا مطلق العنان فرمانروا تھا۔ لوگ اس کے نام سے کانپ اٹھتے تھے۔ اس نے نیا شہر بسانے کے لیے پورے شہر کو آگ لگا دی تھی اور کنارے بیٹھا بانسری پر طربیہ دھنیں بجاتار ہا تھا۔ لیکن آج سب کے سب اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ پہلے سینٹ کے ارکان، پھر عوام اور آخر میں فوج، تو اسے کوئی جائے پناہ نہ ملی۔

            وہ بھاگ کھڑا ہوا اور شہر سے دور اپنے ایک دوست کے بڑے محل نما گھرمیں اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ چھپ گیا، لیکن ظلم سے تنگ آئے لوگ اس کے تعاقب میں تھے۔ پناہ دینے والے دوست کو بھی اپنی سلامتی کی فکر لگ گئی۔ اس نے اسے بھاگ جانے کو کہا۔ نیرو نے کہا میں کہاں تک بھاگ سکتا ہوں؟ دوست نے کہا‘‘اگر وہ یہاں آگئے تو تمہارے ساتھ مجھے بھی مار دیں گے۔’’اس نے کچھ دیر سوچا اور کہا‘‘ٹھیک ہے میرے لیے ایک قبر کھودو، میں خود کشی کرنا چاہتا ہوں۔’’ قبر تیار ہوچکی تھی۔ اس کے غلام اپنے بدن سے مٹی جھاڑ کر باہر نکلے اور دوست نے ایک تیز خنجر لا کر نیرو کے ہاتھ میں پکڑا یا۔ اس نے خنجر اپنے وفادار غلاموں کی طرف بڑھایا اور کہا‘‘تم بھی میرے ساتھ خودکشی کرو گے۔’’

            غلاموں نے گھوڑوں کی ٹاپوں کی جانب کان لگاتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔ اس نے انہیں ڈانٹ کر مرنے کا حکم دیا، لیکن انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا: ‘‘آج تمہیں اکیلے ہی مرنا ہوگا، اس لیے کہ موت ہمارا نہیں ، تمہارا پیچھاکر رہی ہے۔’’ کہتے ہیں کہ نیرو نے خنجر کو اپنے ہاتھ میں کھولا اور بے بسی سے غلاموں اور اپنے دوست کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے منہ دوسری طرف موڑ لیا ، آنسو اس کی آنکھوں سے پانی کی طرح رواں تھے۔ اس نے خنجر سے اپنے اوپر بھر پور وار کیا اور انتہائی دردناک چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ غلاموں نے جلدی سے تڑپتے شخص کو قبر میں گرایا اور زمین پاٹ دی ۔

٭٭٭

            ایک دن لوگ ،امرا اور فوج اس سے تنگ آگئی،اب وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا۔ ان سب نے مل کر اسے تخت سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ نام تو اس کا جدھ کاشٹر تھا لیکن اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کی وجہ سے اسے اندھ جدھ کاشٹر کہتے تھے۔ جب وہ حکمران بنا تواس نے انصاف اور فلاح و بہبود کے بہت دعوے کیے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ و ہ رذیلوں کی صحبت میں پڑ گیا اور اس کا ظلم و ستم عام ہوگیا۔ وہ دانش مندوں اور علما سے نفرت کرنے لگا اور اوباشوں اور بدمعاشوں کو پسند، رعایا کی بہو بیٹیاں دن دہاڑے اٹھائی جانے لگیں۔

            لوگ دیگر مظالم تو برداشت کرتے رہے لیکن عزت و عصمت پر حرف ان کے لیے ناقابل قبول تھا، اس لیے ۲۵۰ قبل مسیح میں ہندستان کے اس عظیم راجہ کو معزول کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ اسے اپنے باج گزاروں سے مدد کی توقع تھی۔ اس نے راتوں رات محل چھوڑا اور بڑے دروازے سے اپنے چند وفا دار وں کو ساتھ چلنے کو کہا، لیکن کوئی تیار نہ ہوا۔اس نے محل کی طرف دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر روپڑا اور تیزی سے نکل گیا۔ وہ تنہا تھا مگر راستے میں اس کے ظلم سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے اسے پہچان لیا اور قتل کر دیا۔ لاش دفن ہوئی نہ جلائی گئی بس پاؤں کی ٹھوکر بن گئی۔

٭٭٭

            یہ مہر آباد کا ہوائی اڈہ ہے جہاز روانگی کے لیے تیار کھڑا تھا۔ شہر بھر میں کوئی سڑک ایسی نہ تھی جہاں سے اس کی گاڑی گزرسکتی۔ پورا تہران مرگ برشاہ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ فوج بھی لوگوں کے لاشے گراتے تھک چکی تھی لیکن احتجاج تھا کہ روز بروز بڑھتا جارہا تھا۔ لوگ لاشیں اٹھاتے، پیاروں کو دفن کرتے اور پھر نعرے بازی کے لیے تیار ہوجاتے۔ ادھر شاہ کی تقریریں اور بیانات بھی زوروں پر رہے، یہ سب لوگ ایران کی ترقی کے دشمن ہیں۔ یہ اس ملک کو ایک ہزار سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ کامیاب ہوگئے تو پورے ایران کے لیے رونے کا مقام ہوگا۔

            لیکن کوئی اس کی باتوں پر غور تک نہیں کرتا تھا۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ اقتدار چھوٹنے کے غم میں شا ہ بوکھلا گیا ہے، پاگل ہوگیا ہے۔ پھر وہ ایک دن اپنے محل سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے مہرآباد کے ہوائی اڈے تک آیا۔ اسے دنیا میں سوائے مصر کے کوئی پناہ تک دینے کو تیار نہ تھا۔ چند وفادار ساتھیوں کی ایک قطار اسے خدا حافظ کہنے کے لیے موجود تھی۔ اس نے فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملایا۔ ملکہ فرح ساتھ کھڑی تھی۔اتنے میں ایک وفا دار جرنیل نے جھک کر اس کے پاؤں چھونے کی کوشش کی تو شاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے رخ موڑا اور سیڑھیاں چڑھنے لگا لیکن جہاز کے دروازے تک پہنچتے پہنچتے اس کی آنکھوں سے نکلنے والی آنسوؤں کی قطار اس کے چہرے کو بھگو چکی تھی۔ جہاز فضا میں بلند ہوا، نیچے پورا تہران ایک ہجوم کی طرح اس کی رخصت پر خوشی کے نعرے بلند کر رہا تھا۔

٭٭٭

            رونے کا دن دنیائے آفرینش میں ہر اس ظالم اور آمر کی زندگی میں ضرور آتا ہے، جس کا ظلم اس حد تک بڑھ جائے کہ اسے اپنا کوئی ہمدرد، کوئی جانثار تک نظر نہ آئے۔ یہ دن فلپائن کے مارکوس، چلی کے بنوشے، اور یوگنڈا کے عیدی امین سے لے کر شاہ فاروق، زار روس اور چیانگ کائی شیک تک سب کی زندگی میں آیا۔ بس ان لوگوں کی زندگی میں کبھی نہ آسکا جو لوگوں کے دلوں میں بستے رہے، اس لیے کہ لوگ ان کا ایک آنسو گرنے سے پہلے اپنے ہزار آنسو نچھاور کرنے کو تیار کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن جب ایسے لوگوں پر رونے کا دن آئے جو ظلم وجبر سے برسر اقتدار تھے تو جتنے آنسو ان کی آنکھوں سے گرتے ہیں، عوام کے نعرے اور خوشی کے غلغلے اتنے ہی بلند ہوتے چلے جاتے ہیں۔

(بشکریہ ،اردو ڈائجسٹ)