سیپ کا موتی

مصنف : منزہ اکرم

سلسلہ : افسانہ

شمارہ : اگست 2007

            ماہا نے گھر میں آفت مچا رکھی تھی ۔ موصوفہ پر ماڈلنگ کا بھوت سوار تھا ۔ ویسے وہ تھی بہت پیاری ! بلند قامت، گوری رنگت ، بڑی بڑی آنکھیں ، نازک اندام اور اٹھارہ بیس سال عمر ، ماڈلنگ کے لیے اور بھلا کیا چاہیے؟ مگر اس کے دل میں شاید یہ خیال کبھی جنم نہ لیتا کیونکہ اس کی تربیت ہی اس انداز سے ہوئی کہ وہ غلط اور صحیح میں خود فرق کر سکتی تھی ۔ اس کی ماں سمجھ دار اور تعلیم یافتہ تھی جس نے بچوں کو دوست بنا کر زندگی کی اونچ نیچ سکھائی۔دراصل اس کی سہیلی فائزہ نے اسے ورغلایا۔ پہلے تو ماہا نے انکار کیا لیکن جب وہ اس کے حسن کی تعریفیں کرتی اور کہتی رہی کہ تم بہت خوبصورت اور با صلاحیت ہو، تمہیں ضرور ماڈلنگ کرنی چاہیے، تو وہ بہک گئی۔ فائزہ نے یہ بھی کہا ‘‘کسی دن میرے ہاں آنا، میرا بھائی ایک اشتہاری ایجنسی میں ملازم ہے۔ وہ تمہیں موقع دلوا سکتا ہے۔ تم جیسے حسین خدو خال کی مالک ہو، راتوں رات چھا جاؤ گی۔’’ در اصل وہ ماہا کو کالج کے فینسی ڈریس شو میں ماڈلنگ کرتے دیکھ چکی تھی، اسی لیے اس کے پیچھے پڑ گئی ۔ ماہا کالج سے آکر ماں کی منت سماجت کرنے لگی کہ اسے ماڈلنگ کرنے کی اجازت مل جائے لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا‘‘یہ نہیں ہو سکتا۔’’ ‘‘کیوں امی؟ ہزاروں لڑکیاں اس شعبے میں آچکی ہیں، اگر میں تعلیم مکمل کر کے کہیں ملازمت کرنا چاہوں، تو کیا تب بھی آپ مجھے روکیں گی؟ ماڈلنگ بھی تو مَیں ایک پیشے کے طور پر اپنانا چاہتی ہوں۔’’ لیکن ماں اسے سمجھاتی کہ جہاں اپنی مذہبی روایات اور اقدار کا سودا کرنا پڑے، وہاں قطعاً ملازمت نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘تو کیا میں گھر بیٹھ کر اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر لوں؟’’ ماہا نے کہا۔

            امی کہنے لگی‘‘اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے کیا تمہارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ؟ کیا چوراہوں پر بڑی بڑی تصویریں آویزاں کروا کر اور دوسروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر ہی اپنی صلاحیتوں کا اظہار ممکن ہے؟’’ ماہا بولی‘‘ میں تو صرف ایک رسالے کے لیے کپڑوں کی نمائش کرنا چاہتی ہوں اور بس۔’’ لیکن اس کی ماں نہ مانی۔ اسی شام پھر فائزہ کا فون آیا، پوچھنے لگی‘‘کیا تم نے امی کو منا لیا؟ ایک ڈیزائنر تم سے ملنا چاہ رہا ہے۔’’ ماہا نے مایوسی سے بتایا‘‘امی قطعاً راضی نہیں۔ لیکن تم اسے منع نہ کرنا ، میں انہیں منا لوں گی۔’’ ‘‘ہاں ہاں منانا کوئی مشکل کام ہے ؟منانے کے سو طریقے ہوتے ہیں۔’’ فائزہ، ماہا کو کچھ کر گزرنے پر اکساتے ہوئے بولی۔ امی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی، اسے اندازہ ہوگیا کہ فائزہ کا فون آیا ہے۔ وہ انجان بن کر ماہا کو آوازیں دینے لگی، وہ نہیں چاہتی تھی کہ بیٹی اس سے زیادہ بات کرے۔ فائزہ کہنے لگی‘‘ اچھا کل تک مجھے بتا دینا، میں نے بھائی کو روکا ہوا ہے، ایک اور لڑکی توبہت بے چین ہے۔’’ ماہا نے فون بند کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ وہ ناراض لگ رہی تھی۔ کھانے کا وقت ہوا ، تو امی ماہا کو بلاتی رہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ خود اٹھ کر اسے بلانے پہنچی تو ماہا پھر وہی قصہ لے کر بیٹھ گئی۔ ماں نے بیٹی کو روٹھے ہوئے دیکھا تو بولی ‘‘ میری جان! تم میری سب سے قیمتی شے ہو، میں کیسے اپنی متاع عزیز کو یوں نمائش کے لیے رکھ دوں؟’’ یہ سن کر ماہا گستاخی پر اتر آئی‘‘ویسے تو آپ بہت روشن خیال بنتی ہیں کہ میں نے اپنے بچوں پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی اور اب؟ وہ تو ہم ہی اچھے ہیں جو آپ کی ہر بات مان لیتے ہیں۔’’ اس نے جو منہ میں آیا، بے دھڑک کہہ دیا۔ ‘‘ماہا!’’ امی نے اسے ڈانٹا‘‘روشن خیالی کا یہ مطلب نہیں کہ تم اپنا آپ عیاں کر کے جو مرضی کرتی پھرو۔ اللہ جانے اس فائزہ کی بچی نے کیا پٹی پڑھا دی کہ تمہیں اچھے برے کی تمیز ہی نہیں رہی۔ چلو اٹھو کھانا کھا لو، یہ بعد کی باتیں ہیں۔’’ماہا ناراضی سے کہنے لگی‘‘مجھے بھوک نہیں ہے۔ ویسے بھی میں اسی وقت کھاناکھاؤں گی جب آپ مجھے ماڈلنگ کرنے کی اجازت دے دیں گی۔’’ ‘‘نہ کھاؤ، لیکن وہ ہر گز نہیں ہوگا جو تم چاہ رہی ہو۔’’ ماں نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور واپس چلی آئی۔ دو گھنٹے بعد وہ پھر گئی اور اسے کھانا کھانے پر راضی کرنے لگی لیکن جتنا وہ بیٹی کو مناتی، وہ اتنا ہی سر چڑھتی گئی۔ آخر ماں کھانا وہیں چھوڑ کر آگئی کہ جب بھوک سے مچلے گی، تو خود ہی کھا لے گی، لیکن ماہا بھی ضد کی پکی تھی، اس نے کھانے کو چھونا، تو درکنار دیکھا تک بھی نہیں۔ ادھر ماں سے برداشت نہیں ہورہا تھا کہ اس کی لاڈلی بھوکی بیٹھی رہے۔ اس نے ملازم کے ہاتھ بازار سے آئس کریم منگوائی اور پھر اس کے پاس پہنچی۔ لیکن ماہااپنی ضد پر اڑی رہی۔ اس کا کہنا تھا کہ فائزہ نے ہی اپنے بھائی کوروکا ہوا ہے ورنہ ایک اور لڑکی تو بار بار فون کر کے کہہ رہی ہے کہ اس سے ماڈلنگ کروا لو۔‘‘ماہا! تم باز نہیں آئیں تو میں تمہارے ابو کو بتا دوں گی، وہ خود تمہیں ٹھیک کر لیں گے ۔ ابھی تک میں نے انہیں کچھ نہیں بتایا۔’’مگر ماہا کا بھی فیصلہ اٹل تھا کہ وہ ماڈل بن کر رہے گی۔ تنگ آ کر ماں کہنے لگی۔‘‘تمہارے ابو کو ہر جگہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، تم کیوں ہمیں شرفا کی فہرست سے نکلوانا چاہتی ہو؟’’ ‘‘ہونہہ! انیسویں صدی کی دقیانوسی سوچ! یوں چھپ کر سات پردوں میں بیٹھ رہنے کا یہ کوئی زمانہ ہے۔’’بیٹی کے منہ سے یہ سن کر ماں نے کوئی جواب نہ دیا اور واپس آگئی۔ بے بسی سے اس کی آنکھوں میں پھر آنسو آگئے۔ ‘‘کچھ بھی ہوجائے میں ہار ماننے والی نہیں، فائزہ کتنی اچھی سہیلی ہے، میرے لیے اتنا کچھ کر رہی ہے ورنہ اسے کیا، کوئی بھی لڑکی میری جگہ لے سکتی ہے۔ لیکن وہ مجھے بطور مشہور ماڈل دیکھنا چاہتی ہے۔’’

            عمر کے اس جذباتی دور میں کبھی کبھی دوستی خون کے رشتے پر حاوی ہوجاتی ہے اور ماہا بھی کچھ ایسی ہی حالت سے دوچار تھی۔جیسے تیسے رات گزر گئی۔ ماہا سوتی جاگتی رہی۔ جب بھی آنکھ لگتی، وہ خواب میں خود کو ایک مشہور ماڈل کے روپ میں دیکھنے لگتی۔ صبح اٹھی، تو بھوک کی وجہ سے، اسے شدید غصہ اور بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اس کے کانوں میں فائزہ کی بات گونج رہی تھی،‘‘منانے کے سو طریقے ہوتے ہیں۔’’ سواس نے انجام کا سوچے بغیر اپنی بات منوانے اور ماں باپ کو سزا دینے کے لیے نیند کی گولیاں کھا لیں۔ پھر ایک دم اسے خیال آیا کہ اگر وہ سچ مچ مر گئی تو....؟یہ سوچ کر ماہا کی سٹی گم ہوگئی۔ اس نے زور دار چیخ ماری اور بستر سے نکل کر ماں کی طرف بھاگی ماں نے بیٹی کی چیخ سنی ، تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ ‘‘یا اللہ خیر! جس خوف سے میں رات بھر جاگتی رہی ہوں، شاید اس نے وہی کر دکھایا۔’’ وہ ماہا کے کمرے کی طرف بھاگی، دیکھا بیٹی دروازے کے پاس کھڑی چیخ رہی تھی ‘‘امی امی، مجھے بچا لیں۔’’وہ پھر ماں کے ساتھ چمٹ کر زور زور سے رونے لگی۔ اور بولی‘‘امی! میں نے نیند کی گولیاں کھا لی ہیں مگر میں مر نا نہیں چاہتی! امی مجھے بچا لیں۔’’گھر میں کوئی نہیں تھا۔ بھائی اسکول کالج اور ابو دفتر جا چکے تھے۔اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے لیکن پر ماں نے حواس پر قابو پاتے ہوئے پہلے بیٹی کے گلے میں انگلیاں ڈال کر قے کروائی اور پھر گاڑی میں ڈال کر قریبی ہسپتال لے گئی۔ راستے میں اسے وہ ہلاتی جلاتی رہی کہ بے ہوش نہ ہوجائے۔ مگر ہسپتال کے قریب پہنچ کر ماہا نیم بے ہوش ہوگئی۔جیسے تیسے ماہا کو ڈاکٹروں کے سامنے لے جایا گیا اور وہ فوراً اس کا معدہ صاف کرنے لگے ۔ ماں نے اس کے ابو کو فون کیا لیکن یہ نہ بتایا کہ معاملہ کیا ہے، بس یہ کہا کہ ماہا کی طبیعت بہت خراب ہے، آپ فوراً فلاں ہسپتال پہنچ جائیں۔’’ وہ حیران کہ صبح تو بیٹی کو اچھا بھلا چھوڑ کر آئے تھے، اب ایک دم کیا ہوگیا۔ جب ہسپتال پہنچے اور انہیں سارا ماجرا معلوم ہوا، تو وہ بھی ہکا بکا رہ گئے۔ کہنے لگے‘‘ تم نے مجھ سے چھپا کر غلطی کی ، میں اسے سمجھا دیتا، تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔’’‘‘مگر ماہا کسی کے کہنے سننے میں کہاں آتی ہے؟’’ ماں نے کہا اور پھر روتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر بیٹی کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگی۔ چار پانچ گھنٹے بعد اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ سے باہر لایا گیا۔ جب ماہا کو ہوش آیا ماں اسے دیوانہ وار چومنے لگی۔ آنسو اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔ ابو قریب کھڑے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔

٭٭٭

            شام کو جب وہ کھانا کھا رہی تھی تو ماں نے بتایا‘‘فائزہ کا فون آیا تھا میں نے کہہ دیا کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں، اس لیے نہیں آسکو گی۔ دو تین دن بعد جب طبیعت سنبھل جائے، تو چلی جانا۔’’ماہا کچھ نہ بولی، ہولے ہولے کھچڑی کھاتی رہی۔ وہ اپنے کیے پر نادم تھی اور جذبات سے مغلوب بھی۔ اسے پچھلے ہی دن ہسپتال سے چھٹی ملی تھی۔ تین دن میں اس کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی۔ اب وہ بجھی بجھی اور شرمندہ سی رہتی۔

            ایک دن فائزہ اپنی سہیلی سے ملنے چلے آئی۔ آتے ہی پیار بھرے انداز میں اس کے گال پر چٹکی بھر کر کہنے لگی ‘‘تم نے بہت انتظار کروایا حالانکہ ڈیزائنر اتنا انتظار نہیں کرتے۔ چلو اب جلدی سے تیار ہوجاؤ، بھائی گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں۔’’ اس حادثے کے بعد امی ابو نے بیٹی پر دباؤ ڈالنا چھوڑ دیا تھا انہیں یقین تھا کہ بیٹی ٹھوکر کھانے پر ہی سنبھلے گی۔ ماہا جانے سے قبل امی کو بتانے ان کے کمرے میں گئی، تو وہ خاموش اور اداس بیٹھی تھیں۔ ماہا کہنے لگی‘‘امی! میں فائزہ کے ساتھ جارہی ہوں۔ واپسی پر وہی مجھے چھوڑ جائے گی، آپ فکر نہ کیجیے گا۔’’انہوں نے ماہا کو یوں گلے سے لگایا جیسے کوئی اسے چھین رہا ہو۔ پھر کہنے لگی‘‘بیٹی! جب کوئی چیز حد سے نکل جائے، تو اس کا منفی اثر ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں تم جارہی ہووہاں عورت کی عزت ہو ہی نہیں سکتی بلکہ تکریم کے پردے میں توہین ہوتی ہے۔ جب تمہیں لگے کہ تمہاری توہین ہورہی ہے، تو واپس آجانا۔’’

٭٭٭

            فائزہ کے بھائی نے ڈیزائنر کے ساتھ اس کی ملاقات کروائی۔ معاہدہ ہوا، اس کے چہرے کی خوبصورتی جانچی گئی اور وہ دو گھنٹے بعد واپس آگئی۔ جب سے وہ ہسپتال سے آئی تھی۔ اسے گھر کی فضا میں بے نام سی خاموشی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ کبھی اپنی ماں سے لا تعلق نہیں ہوئی تھی، کوئی نئی بات ہوتی تو فوراً پہلے ماں کو بتاتی لیکن اب وہ اس سے کھنچی کھنچی رہنے لگی۔

            دوسرے دن جب ماہا تصویریں بنوانے گئی تو پہلے تو اسے مشق کروائی گئی کہ کیسے دوپٹہ اوڑھنا ہے، کیسے آستین کی نمائش کرنی ہے اور کیونکر گلے کے نمونے دکھانے ہیں۔ اسے ایسے زاویے سے بٹھایا گیا کہ کپڑوں کی نمائش کم اور جسم کی زیادہ ہورہی تھی۔ وہ گھبرائی ہوئی ہر بات پر عمل کرتی رہی۔ اسے تیار کرنے ایک کمرے میں لے جایا گیا ایک لڑکا اس کا سنگھار کرنے لگا، دوسرا مختلف قسم کے جوڑے لے کر آیا جن کی نمائش کرنا تھی۔ ماہا نے کپڑے دیکھے ، تو حیران رہ گئی۔ کوئی بہت باریک، کوئی مختصر اور کوئی بہت تنگ اور چست۔ ‘‘میں یہ کپڑے پہنوں گی؟’’ اس نے حیرت سے پوچھا۔ ڈیزائنر کا پارہ چڑھ گیا، کہنے لگا‘‘بی بی ! معاہدہ ہوچکا ہے اور تم پیشگی رقم بھی لے چکی ہو۔ اب سارا کام میری مرضی کا ہوگا۔’’‘‘لیکن یہ تو بہت نا مناسب کپڑے ہیں۔’’ ماہا نے کہا۔ ‘‘محترمہ! میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیشہ ایسے ہی کپڑے پہنیے، گھر میں آپ جیسے مرضی رہیں۔ جب پوری رقم ہاتھ آئے گی، تو یہیں بیٹھے بیٹھے دوسرا معاہدہ کر جاؤ گی۔ دولت کے آگے ہر چیز ہیچ نظر آتی ہے۔ اچانک بجلی چلی گئی تو ملازم جنریٹر چلانے کو بھاگے لیکن ڈیزائنر کہنے لگا‘‘رہنے دو، اب کل کام کریں گے۔ سارا مُوڈ چوپٹ کر دیا۔’’

            ماہا بھی واپس چلی آئی، اس کے چہرے سے بے چینی اور پریشانی عیاں تھی۔ ڈیزائنر کی باتوں نے اس کا دل جلا دیا تھا۔ وہ پچھتا رہی تھی کہ ضد اور گستاخی کے بعد کس قدر غلط راستہ اپنا بیٹھی۔ گھر میں بھی وہ کسی سے نظریں نہیں ملا پائی۔اسے اپنی بے بسی اور بیچارگی پر رونا آگیا۔ادھر اس کی امی سوچ رہی تھی کہ ماہا ہم سے کٹ گئی ہے، اپنے کمرے میں بند نجانے کیا الٹی سیدھی باتیں سوچتی رہتی ہے ۔ یہی سوچتے سوچتے وہ ماہا کے کمرے میں پہنچی تو دیکھا کہ وہ اوندھی پڑی سسکیاں بھر رہی ہے۔ اس نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا، رو رو کر ماہا کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں۔ اس نے اسے سیدھا کر کے پوچھا:‘‘ماہا! مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے۔ کیوں رو رہی ہو میری جان؟’’وہ روتے روتے کہنے لگی ‘‘امی میں بہت بری ہوں نا اور آپ پھر بھی....!’’وہ اس کی بات کاٹ کر بولی‘‘نہیں بیٹی، کوئی انسان برا نہیں ہوتا۔ ہاں برے راستوں پر چلنے والے برے ہوجاتے ہیں۔’’ اسے یہی غم ستائے جارہا تھا کہ بیٹی راہِ بد پر چل نکلی ہے۔ ‘‘اور جو کوئی برے راستے پر چلنا چھوڑ دے؟’’ ماہا نے سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھا۔‘‘وہ پہلے کی مانند اچھے ہوجاتے ہیں۔’’وہ اس میں مثبت تبدیلی دیکھ کر خوش ہوئی اور اتنا کہہ کر باہر آگئی۔ماہا کوئی فیصلہ نہیں کر پار ہی تھی۔ اسے فائزہ کے ساتھ تعلق کا بھی خیال آیا کہ وہ کیا سوچے گی؟ آخر اس نے روتے روتے فیصلہ کر لیا کہ وہ پیشگی رقم واپس کر کے ماڈلنگ سے توبہ کر لے گی خواہ اسے جرمانہ ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ وہ حد میں رہ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنا چاہتی تھی۔ رہی فائزہ تو ایسی دوستی کا کیا فائدہ جس میں کوئی کھینچ کر گڑھے میں پھینک دے؟ جب ماہا نے اٹل فیصلہ کر لیا تو اس رات وہ کئی راتوں کے بعد پر سکون نیند سوئی۔

            صبح اٹھ کر وہ رقم واپس کرنے ڈیزائنر کے پاس گئی اور گھنٹے بھر میں واپس آکر ماں کے قدموں میں بیٹھ گئی وہ نم ناک آنکھوں کے ساتھ اس کے گھٹنوں پر سر رکھ کر کہنے لگی‘‘ امی! سیپ کا موتی نکل جائے تو وہ، کوڑی کی رہ جاتی ہے۔ عورت کا موتی حیا ہے، میں نے اپنے اس موتی کھونے نہیں دیا، میں نے اپنے قدر نہیں کھوئی۔ امی آپ میری نادانی کو ایک خواب سمجھ کر بھول جائیے۔’’

            ماں ، ماہا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچنے لگی کہ اگر صبح کا بھولا شام کو لوٹ آئے تو یقینا اس کا استقبال خندہ پیشانی سے کرناچاہیے۔

٭٭٭