سوال ، جواب

مصنف : مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جولائی 2007

سوال: کتاب و سنت کی روشنی میں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کیا راہنمائی کرتے ہیں کہ ایک آدمی اولادِ نرینہ کی خاطر دوسری شادی کی خواہش کرتا ہے اور وہ دوسری شادی کے لیے اپنی پہلی بیوی کو بارہا منانے کی کوشش کرتا ہے اور نکاحِ ثانی سے پہلے زبانی کلامی طور پر ہر چیز اپنی پہلی بیوی کو دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور غیر مشروط طور پر ایک عدد مکان ایک کنال پر محیط، دس لاکھ روپے اور لے پالک بچے کے نام دو عدد پلاٹ پانچ پانچ مرلے اور اپنے کاروبار میں سے صوبہ سرحد کا ٹور جس کی رقم یا آمدنی کا پانچ فی صد ہر ماہ دیا کرے گاپہلی بیوی اس کی دوسری شادی پر کسی طرح بھی راضی نہ ہوئی۔ پھر اس آدمی نے پہلی بیوی کو بتائے بغیر کچھ دن بعد نکاح کر لیا۔ تو پہلی بیوی انتہائی پریشان ہوئی اور اپنے شوہر کو کیے ہوئے وعدے یاد دلانے لگی۔ بیوی کے وعدہ یاد دلانے پر شوہر نے کہا کہ تم کس چیز سے پریشان ہوتی ہو، میں آج بھی اپنے وعدے پر قائم ہوں اور ہر چیز ہبہ کرتا ہوں اشٹام پیپر لاؤ میں اس پر تحریر کر دیتا ہوں۔ چوں کہ رات کا وقت تھا، اشٹام پیپر موجود نہ تھا اس لیے ایک ڈائری پر یہ سب کچھ تحریر کر دیا گیا اور پانچ لاکھ نقد بھی ادا کردیا، کچھ عرصہ بعد اس میں سے پچاس ہزار روپیہ اس شرط پر لیا کہ اب وقتی طور پر میرے پاس مکان کے کاغذات بنوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں، میں بعد میں یہ پیسے ادا کر دوں گا۔ 22-G سبزہ زار والا مکان پہلی بیوی کے نام لگوانے کے لیے کام شروع کردیا گیا۔ مختار نامہ عام بنوا لیا گیا، اسے بعد میں delayکر دیا گیا، اور سرحد ٹور کے پیسے حسب وعدہ ادا کیے جانے لگے۔ پہلے مہینوں میں دس ہزار ، سات ہزار،چھ ہزار ادا کرتے رہے پھر تقریباً ایک سال سے پیسے سات ہزار فکس کر دیے گئے۔ اب چھ ماہ سے وہ رقم بھی ادا نہیں کی۔پہلی بیوی کا جیب خرچ چار ہزار روپے مقرر تھا دوسری کے آنے پر اس کی رضا مندی سے پوچھنے کے بعد دو ہزار اس کا مقرر ہوا۔ اس مختصر سی توضیح کے بعد چند امور وضاحت طلب ہیں۔

سوال: کیا مذکورہ شخص اپنی پہلی بیوی سے کیے ہوئے وعدوں کی تکمیل کا پابند ہے یا کہ دوسری بیوی کو بھی اتنی ہی مالیت کی اشیا لے کر دے پھر برابری اور مساوات شروع کرے؟

جواب: پہلی بیوی سے کیے گئے وعدے کی پابندی ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ہے: واَوْفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا۔( بنی اسرائیل: ۳۴) ‘‘اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔’’

دوسری بیوی کو اتنی مالیت کی اشیا لے کر دینا اور دیگر مذکورہ مالی فوائد پہنچانا ضروری نہیں کیوں کہ پہلی بیوی سے وعدے دوسری کی آمد سے پہلے کے ہیں اس لیے ان کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم دوسری سے نکاح کے بعد دونوں میں مساوات ضروری ہے۔ پہلی بیوی کو پہلے جو کچھ مل چکا ہے، وہ اسی کا استحقاق ہے، دوسری کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ اور بعد میں جو چیز بھی خریدی جائے گی اس میں دونوں بحصہ برابر شریک ہوں گی۔ اگرچہ پہلی کے پاس وہ شے موجود ہو، رضامندی سے دونوں میں رقم بھی تقسیم ہوسکتی ہے یا کوئی ایک اتنی قیمت لینا چاہے تو لے سکتی ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب۔ اُنہی دلائل کی بنا پر لے پالک سے بھی وعدہ پورا ہونا چاہیے۔ دوسری بیوی کی اولاد کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ان کی آپس میں مساوات ضروری ہے، لے پالک سے تعلق نہیں۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: بچے کی حضانت(تربیت) کی سب سے زیادہ حق دار یا ذمہ دار ماں ہوتی ہے، اگر وہ موجود نہ ہو تو اس کے بعد نانی حق دار ہوا کرتی ہے، اگر وہ بھی نہیں تو خالہ۔ اس لیے کہ نانی ماں سمجھی جاتی ہے اور خالہ بھی ماں کے مرتبہ میں ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: اَلْخَا لَۃُ بِمَنْزِلَۃِالّاُمِّ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اگریہ رشتے دار نہیں تو دادی تربیت کرے گی، وہ بھی نہیں تو بہن اور اگر یہ بھی نہیں ہے تو پھوپھی ۔ اگر ان میں سے بھی کوئی تربیت کے لیے موجود نہ ہو تو بچے کی حضانت باپ کی طرف منتقل ہوگی۔موجودہ صورت میں چونکہ بچی کی نانی موجود ہے لہٰذا تربیت کی وہی حقدار ہے۔ شاہ ولی اللہ المسویٰ میں فرماتے ہیں۔:‘‘فالام وام الام اولی بالحضانۃ من الاب۔’’‘‘بچے کی تربیت کی ماں اور نانی زیادہ حق دار ہے۔’’

            پھر حضرت عمرؓ کے قصہ سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے ایک انصاری عورت کوطلاق دی تو اس سے عاصم بن عمر تولد ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو لینا چاہا تونانی رکاوٹ بن گئی ۔ پھر ابو بکرؓ نے ماں کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔

            بچی کا خرچہ باپ کے ذمہ ہے، اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: وارزقواھم فیھا واکسوھم وقولوا لھم قولا معروفا ‘‘اور اس میں سے ان (اولاد) کو روزی دو اور لباس مہیا کرو اور ان کے لیے اچھی بات کہو۔’’

            شوہر مرحومہ کے ترکے میں سے چوتھے حصے کا حق دار ہے اور آدھے کی بیٹی ہے، باقی دیگر ورثا کے لیے اپنے اپنے حصص کے مطابق ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)