غربت اور جرائم

مصنف : محمد عارف جان

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جون 2007

ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر

جناب محمد عارف جان ہمارے نہایت قابل احترام علم پروردوست ہیں۔مختلف موضوعات پر ان کی تحریریں حالات اورحقیقت کی بے لاگ اور صحیح عکاس ہوتی ہیں۔زیر نظر تحریر بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک تلخ حقیقت کی تفصیل ہے مگر اس تجزیے میں ہمارے خیال میں ان سے ایک بہت اہم عنصر فراموش ہو گیا ہے یعنی جرائم کی ایک بڑی وجہ ‘ایمان’کامطلوبہ مقدار میں نہ ہونا ہے یا انہی کے الفاظ میں اس کو ہم‘ ایمانی غربت’ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔اگرچہ تحریر میں اس بات کا ضمناً ذکرموجود ہے مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر، ہماری ان سے توقع تھی کہ وہ اس کو اس کے مناسب وزن کے ساتھ بیا ن کرتے ۔ امید ہے آئندہ وہ اس کمی کو پورافرمائیں گے ۔ اور اس کے ساتھ ہی امیروں اور امیر ملکوں کے امیرانہ جرائم کی تفصیل سے بھی ہمارے قارئین کو آگاہ کریں گے ۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ غریب کا جرم اگر دس انسانوں کو متاثر کرتاہے توامیرکا جرم دس ہزار کو ، غریب کاجرم اگر محدود علاقوں پر اثر انداز ہوتا ہے تو امیرکا جرم ملکوں کو تباہ کرجاتاہے ،غریب کا جرم اگر ایک خاص وقت کو داغدار کرتا ہے تو امیر کاجرم صدیوں پہ اپنے دھبے چھوڑ جاتا ہے۔اگر غربت ہی سب سے بڑی وجہ ہوتی تومدینے کا نبوی معاشرہ اتنا پر امن نہ ہوتا کیونکہ روٹی ،کپڑے اور مکان کے اعتبار سے وہ سب سے غریب لوگ تھے اور و ہ جنہیں اس دنیاکی ہر نعمت اور آسائش میسر ہے وہ کبھی جرم نہ کرتے ۔اس لیے ہمارے خیال میں غربت جرائم کی ایک بڑی وجہ ضرور ہے سب سے بڑی وجہ نہیں۔(صدیق بخاری)

غریب کون ہوتا ہے؟

            ہر شخص جانتا ہے کہ غریب کون ہوتا ہے ؟ ہمارے نزدیک غریب وہ ہوتا ہے جو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہو۔ بنیادی ضروریات زندگی میں روٹی ، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، تفریح اور شادی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بھی غریب ہے جو اپنا حق لینے سے قاصر ہے، جو اپنی پوری تنخواہ لینے سے قاصر ہے، جو عدم تحفظ کا شکار ہے، جو انصاف حاصل نہیں کر سکتا، جس کی جان ، مال اور آبرو محفوظ نہیں ہے، جس کاروزگار محفوظ نہیں ہے۔ وہ مزدور، کسان ، ہاری، دیہاڑی دار یا چھوٹے درجے کا ملازم بھی ہوسکتا ہے۔ الغرض اس کو جتنا بھی پھیلایا جائے پھیلایاجاسکتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی جرائم ہوتے ہیں وہ زیادہ تر غربت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جرائم یوں تو امیرلوگ بھی کرتے ہیں مگرو ہ زیادہ دولت حاصل کرنے کے لیے یا وقت گزاری کے لیے کرتے ہیں۔ امیروں کے جرائم کی نوعیت غریبوں کے جرائم سے مختلف ہوتی ہے۔

امیروں اور غریبوں کے جرائم میں فرق:

            امیروں کے جرائم میں عام طور پر شراب نوشی، زناکاری، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، چوربازاری، غبن، فراڈ، فضول خرچی، نمودونمائش، اقربا پروری، سمگلنگ، انکم ٹیکس چوری، کسٹم ڈیوٹی چوری، میرٹ کا قتل، دوسروں کی جائیدادپر قبضہ، سیاسی بلیک میلنگ،اقتدار کی رسہ کشی اور رسہ گیری وغیرہ شامل ہیں جبکہ غریب عام طور پر چوری، ڈکیتی ، لڑائی مارکٹائی ، منشیات فروشی، قتل و غارت، اغوا برائے تاوان، جسم فروشی، آوارہ گردی، غنڈہ گردی، ملاوٹ، پیسے کی خاطر بم دھماکے کرنا، رشوت خوری وغیرہ جیسے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔

جرائم کی کچھ دیگر وجوہات:

            بد قسمتی سے اس ضمن میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا کردار انتہائی منفی ہے۔ ان کی وجہ سے جرائم کم ہونے کے بجائے زیادہ ہورہے ہیں اور مجرم و بدمعاش رول ماڈل کے قالب میں ڈھلتے جارہے ہیں۔ میڈیا کے علاوہ جن اداروں کا کام جرائم کا قلع قمع کرنا ہے وہ جرائم کی بیخ کنی کے بجائے مجرموں کے دست و بازو ہیں اور جرائم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ملک کا قانون بھی ایسا ہے جو مظلوم کے بجائے ظالم کا ساتھ دیتا ہے یا مجر موں اور بدمعاشوں کی طرف داری کرتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، برین ڈرین، ناانصافی، اقربا پروری، بے روزگاری، زیادتی، ناخواندگی اور امتیازی رویوں کے باعث بھی جرائم فروغ پا رہے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بیشتر ملکوں کی معاشی پالیسیاں اس نوعیت کی ہیں کہ جن سے امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوتا جارہا ہے۔

غربت اور امن کا چولی دامن کا ساتھ ہے:

            تا ہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ غربت اور امن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جہاں غربت ہوگی وہاں جرائم اور بدامنی ہوگی اور جہاں خوشحالی ہوگی وہاں امن اور چین و سکون ہوگا۔ غربت اور جہالت کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جہاں جہالت ہوتی ہے وہاں غربت ہوتی ہے اور جہاں غربت ہوتی ہے وہاں جہالت ہوتی ہے۔ خوشحال اور پر امن معاشرے عام طور پر تعلیم یافتہ معاشرے ہیں جبکہ بد امنی اور مفلسی سے بھر پور معاشروں میں جہالت کا دور دورہ ہوتا ہے۔

            ہم فی الوقت غربت اور جہالت کو نہیں چھیڑیں گے بلکہ غربت اور امن کو زیر بحث لائیں گے۔ اگر چہ جرم کرنے کی اور بھی وجوہات ہیں لیکن غربت ان میں سرِ فہرست ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ چیزیں انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ جن خوش نصیبوں کو یہ ضروریات حاصل ہوتی ہیں وہ بہت کم جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور جن بد نصیبوں کو یہ ضروریات حاصل نہیں ہوتیں وہ مجبوراً ان کو حاصل کرنے کے لیے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایسی بنیادی ضروریات میں روٹی ، کپڑا، مکان، علاج، تفریح اور شادی وغیرہ شامل ہیں۔ آپ اگر تھانہ ، کچہری، ہسپتال اور جیلوں وغیرہ کا دورہ کریں تو آپ کو نوے فیصد غریب لوگ ملیں گے اورغریب بھی ایسے کہ غربت ان کے چہروں ہی سے ٹپکی پڑ رہی ہوگی۔

            اکثر غریب لوگ پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے چوریاں کرتے ہیں یا دوسروں سے کچھ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر جیل میں پہنچ جاتے ہیں۔ جیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زمین پر دوزخ ہیں اور یوں غریب لوگ پیٹ کا دوزخ بھرتے بھرتے دوزخ بھردیتے ہیں۔ جرم کی دوسری بڑی وجہ تن ڈھانپنا ہے۔ جن غریبوں کے پاس اپنا بدن اور اپنے بچوں کا بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑے نہیں ہوتے وہ جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جرم کی تیسری وجہ علاج معالجہ ہے۔ جو غریب بیمار ہوجاتے ہیں یا جن غریبوں کے والدین یا بیوی بچوں میں سے کوئی بیمار ہوجاتا ہے اور دوائی خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تو وہ مجبوراً جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ چوتھی وجہ چھت سے محروم ہونا ہے یعنی غریب لوگوں کے پاس سر چھپانے کے لیے کوئی گھر نہیں ہوتا اور وہ کرایہ بھی برداشت نہیں کرسکتے تو حالات سے تنگ آکر کرائے کا مکان لینے کے لیے یا اپناکوئی چھوٹا موٹا مکان بنانے کے لیے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔پانچویں وجہ اپنی یا اپنی بہنوں کی شادی ہے۔ شادی انسان کی فطری ضرورت ہے لیکن موجودہ حالات میں شادی ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ لڑکیوں کی شادی کرنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوجاتی ہیں اور پھر شادی کے قابل نہیں رہتیں۔ غریب اور مزدور لوگ یا چھوٹے ملازمین اپنی شادی کرنے کے لیے ، اپنی بیٹیوں یا بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے رشوت، فراڈ، غبن یا دوسرے جرائم کاارتکاب کرتے ہیں۔ چھٹی وجہ بچوں کی تعلیم ہے۔ ہر آدمی کا خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائے تا کہ وہ معاشرے میں باعزت مقام حاصل کر سکیں۔ آج کل بچوں کو تعلیم دلانا بہت مشکل امر ہے۔ جب ایک غریب آدمی کے وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے تو وہ مجبوراً جرائم کا ارتکاب کرتا ہے تا کہ اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکے۔

            غریب آدمی کا چونکہ کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اس لیے ہر کوئی اس کا حق مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کھیت، دکان، مل یافیکٹری میں وہ کام کرتا ہے اس کے مالک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا حق غصب کرے یا اس کی محنت کے مطابق اس کو معاوضہ نہ دے۔ غریب اپنا حق لینے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ جب کسی طرف سے بھی داد رسی نہیں ہوتی تو آخر کار قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے اور جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ ہر لُچے ، لفنگے، بدمعاش اور امیر آدمی کو معلوم ہوتا ہے کہ قانون کے رکھوالے غریب کی فریاد نہیں سنتے اور اس کی بات کو کوئی وزن نہیں دیتے۔ اس لیے اگر کسی غریب کے گھر اس کی خوبصورت بیوی، بیٹی یا بہن موجود ہے تو ہر کوئی اس کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ غریب آدمی سوائے سمجھانے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ جب لوگ باز نہیں آتے تو مجبوراً غریب آدمی قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے اور جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔

             امیر لوگ بھی جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔ تھانہ ، کچہری بھی ان کو سر پہ بٹھاتے ہیں حتیٰ کہ جب ایک غریب آدمی بیمار ہوتا ہے تو ہسپتال میں بھی اس کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جبکہ امیر آدمی کوہرجگہ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ معاشرے میں ایسے امتیازی رویوں کو دیکھ کر غریب آدمی باغی ہوجاتا ہے اور نتیجے کے طور پر جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ جرائم کی ایک وجہ ناخواندگی ہے۔ غریب لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں۔ وہ قانون اور قانونی پیچیدگیوں سے نا بلد ہوتے ہیں جبکہ امیر آدمی تعلیم یافتہ ہوتا اور قانون سے بھی واقف ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ غریب آدمی جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور جب غریب آدمی جیل میں پہنچ جاتا ہے تو وہاں جس جرم کی سزا چھ ماہ قید ہے وہ مناسب پیروی اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال پڑا رہتا ہے۔ جیل میں اس کی ملاقات پیشہ ور قاتلوں اور مجرموں سے ہوجاتی ہے اور یوں جب وہ آزاد ہوتا ہے تو پہلے سے زیادہ بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے اور باقاعدہ طور پر کسی بڑے گینگ کا ممبر بن جاتا ہے۔

            امیرلوگ وسائل رکھنے کی وجہ سے دنیاوی تعلیم سے مالا مال ہوتے ہیں اور کسی حد تک مذہب سے بھی آشنا ہوتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات بعض اوقات ان کے جرائم میں رکاوٹ بن جاتی ہیں جبکہ غریب لوگوں کے نہ دنیاوی تعلیم ہوتی ہے اور نہ ہی مذہبی۔ لہٰذا کوئی قوت ایسی نہیں ہوتی جو ان کے جرائم کے عزائم میں رکاوٹ بن سکے۔ یوں وہ آسانی سے جرم کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ پریشان تو امیر لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن غریبوں کی پریشانیاں زیادہ ہوتی ہیں۔امیرلوگ اپنے وسائل کے بل بوتے پر اپنے مسائل اور پریشانیوں کا حل تلاش کرتے ہیں جبکہ غریب لوگوں کے پاس کوئی حل نہیں ہوتا۔ نتیجے کے طور پر وہ منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ عادی ہوجانے کے بعد ان کی جیب ان کو اس کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ باقاعدگی سے منشیات خرید سکیں۔ لہٰذا منشیات خریدنے کے لیے وہ چوری چکاری یا ڈکیتی جیسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

            جیسے امیروں کے دوست امیر ہوتے ہیں اسی طرح غریبو ں کے دوست بھی غریب ہوتے ہیں اور اکثر غریب جرائم کی دلدل میں پھنسے ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے بھی منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں اور جرائم میں بھی ان کی معاونت کرتے ہیں اور آخر کار خود بھی جرائم کا ارتکاب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب کوئی غریب آدمی قانون کے شکنجے میں پھنس جاتا ہے تو بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام اتنا مہنگا اور پیچیدہ ہے کہ غریب آدمی کو اس نظام سے کوئی انصاف نہیں ملتا۔ غریب آدمی کے ورثا کو اس چنگل کے شکنجے سے نکالنے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رقم نہ ہونے کی صورت میں اس کے پسماندگان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

            بعض اوقات غریب آدمی اپنی غربت مٹانے کے لیے امیروں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا ہے یعنی ان کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے ۔ ان کی خواہشات کے مطابق کام کرتا ہے ۔ حتی کہ چند ہزار روپوں کی خاطر کسی کی جان لینے یاعزت سے کھیلنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

            یہ درست ہے کہ بعض امیرلڑکیاں بھی غیر مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتی ہیں لیکن یہ ان کا شغل اور وقت گزارنے کا ذریعہ ہے۔ جبکہ جسم فروشی کے کاروبارنوے فیصدغریب لڑکیاں ہی ملوث ہوتی ہیں ان میں نوے فیصد لڑکیاں غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ، یہ کام خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کے تحت کرتی ہیں اور ان کی مجبوریاں بھی کم و بیش وہی ہیں جو اوپر بیان ہوگئی ہیں۔

غریبوں کے چند دیگر قابلِ ذکر مسائل:

            غریب لوگوں کو اور بھی کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کم وسائل کی وجہ سے وہ عمدہ اور ملاوٹ سے پاک اشیائے خورونوش نہیں خریدسکتے۔ان کے نصیب میں ہمیشہ ملاوٹ شدہ خوراک ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں ۔ جب بیمار پڑجاتے ہیں تو اچھے ڈاکٹرز سے اپنا علاج نہیں کرا سکتے۔ وہ کسی ڈسپنسر یا حکیم کے پاس چلے جاتے ہیں اور غیر معیاری ادویات کھانے کی وجہ سے ٹھیک نہیں ہوتے اور یوں ان کی صحت روبہ زوال رہتی ہے۔ نتیجے کے طور پر صرف چالیس سال کی عمر میں وہ ساٹھ سال کے بوڑھے نظرآتے ہیں۔ غریب لوگ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ اردو میڈیم سکولوں میں پڑھانے کی وجہ سے ان کے بچے معیاری اور حقیقی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر وہ بی ۔اے یا ایم اے کرلینے کے باوجود بھی ایک درخواست یا خط تک نہیں لکھ سکتے اور زیادہ سے زیادہ کلرک یا کانسٹیبل بھرتی ہوجاتے ہیں۔

            غریب لوگ دینی تعلیم بھی نیم ملاؤں سے حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جس محلے گلی یا گاؤں میں رہتے ہیں وہاں کی مسجد یا مدرسے میں جو شخص دین کا علم پڑھاتا ہے وہ عام طور پر نیم مُلّا ہوتا ہے۔ جس کو خود بھی دین کا پتا نہیں ہوتا۔ لہٰذاان بچوں کو جو تعلیم وہ دیتا ہے وہ عام طور پر توہمات پر مبنی اور ناقص ہوتی ہے۔ لہٰذا بے چارہ غریب آدمی دین کی حقیقی تعلیم بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ غریب لوگوں کے گھر عام طور پر ایسے علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں سیوریج کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا۔ جگہ جگہ گندے جوہڑ ہوتے ہیں، ابلتے ہوئے گٹر اور نالیاں ہوتی ہیں جہاں مچھر پرورش پاتے ہیں۔ ان کے کپڑے آلودہ، پانی آلودہ، برتن آلودہ اور ماحول آلودہ ہوتاہے جس کی وجہ سے وہ اکثر بیمار رہتے ہیں۔ غریبوں کے پاس کوئی خاص تفریح بھی نہیں ہوتی کیونکہ جس کے پاس کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں وہ تفریح کیا خاک کرے گا۔ اس کی تفریح اس کے بیوی بچے ہوتے ہیں۔ لہٰذا غریبوں کے عام طور پر چھ سے دس تک بچے ہوتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر غربت مزید بڑھ جاتی ہے اور بچوں کی مناسب نگہداشت اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہ تو تعلیم حاصل کر سکتے ہیں نہ کوئی ہنر سیکھتے ہیں اور نہ معاشرے کے با عزت شہری بن سکتے ہیں بلکہ آسانی سے پیشہ ور مجرموں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو ان سے اپنی مرضی کے کام لیتے ہیں۔ یوں غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

            ہمارے معاشرے کی ایک اور ستم ظریفی دیکھیے کہ امیر آدمی کو ہر کوئی آنکھوں پہ بٹھانے پہ تیار ہوتا ہے۔اس کو تحفے تحائف بھی ملتے رہتے ہیں، اس کو لنچ اور ڈنر کی دعوتیں بھی ملتی رہتی ہیں، شناختی کارڈ دفتر والے اس کو بغیر رشوت کے کارڈ بھی بنا دیتے ہیں، پاسپورٹ والے اس کا پاسپورٹ بھی بنا دیتے ہیں اور ڈومیسائل والے اس کو ڈومیسائل بھی بنا دیتے ہیں جبکہ غریب کو ہر دفتر میں دھکے ملتے ہیں۔ اس کو بار بار چکر لگوائے جاتے ہیں اور رشوت لیے بغیر اس کا کوئی کام نہیں کرتے۔

            غریبوں کی عام طور پر وٹے سٹے کی شادیاں ہوتی ہیں۔ ان شادیوں کی وجہ سے لڑائی جھگڑے اکثر ہوتے رہتے ہیں اور ان جھگڑوں کے نتیجے میں اکثر طلاقیں ہوجاتی ہیں اور یوں ایک غریب آدمی کے مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ایک جاگیر دار، زمیندار یا امیر آدمی کے پاس اپنے ٹریکٹر ہوتے ہیں ، ٹیوب ویل ہوتے ہیں، کھاد بھی نقد فوراً مل جاتی ہے۔ سستی لیبر بھی مل جاتی ہے اور یوں اس کی پیداوار اچھی ہوتی ہے اس کے لیے خوشحالی کا پیغام لاتی ہے جبکہ غریب کاشتکار کرائے پر ٹریکٹر لاتا ہے، پانی بھی گھنٹوں کے حساب سے خریدتا ہے اور کھادیں اور ادویات بھی شرح سود پر خریدتا ہے۔ جعلی اور دو نمبر زرعی ادویات سے بھی اس کا پالا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کی فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی ہے اور جو ہوتی ہے وہ بھی قرضوں اور شرح سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتی ہے اور یوں مزید بدحال ہوجاتا ہے۔امیر آدمی کوٹہ لے کر، پرمٹ لے کر، کوئی ایجنسی لے کر ، ٹھیکہ لے کر ، ڈیوٹی بچا کر ، پلاٹ لے کر، ذخیرہ اندوزی کر کے ، کوئی فارن سکالرشپ لے کر ، بجلی چوری کر کے یا انکم ٹیکس بچا کر مزید امیر بن جاتے ہیں جبکہ غریبوں کے پاس ایسے کوئی مواقع نہیں ہوتے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کے لیے اپنے ذہن کے مطابق مختلف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

اگر معاشرے سے بد امنی اور جرائم کا خاتمہ کرنا ہے تو :

            اگر کسی معاشرے سے جرائم کا خاتمہ مقصود ہے تو سب سے پہلے غربت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ غربت ختم ہوگی تو جہالت کے اندھیرے دور ہوں گے۔ جب جہالت ختم ہوگی تو ترقی و خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔ غریب کا خاتمہ کیے بغیر امن و امان قائم کرنے کے جتنے بھی ادارے قائم کر لیے جائیں، جتنی کانفرنسیں منعقد کر لی جائیں، جتنی میٹنگز بلا لی جائیں، جتنی فورس بھرتی کر لی جائے، جتنی قرار دادیں پاس کر لی جائیں، جتنے سخت قوانین بنا لیے جائیں جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ۔ ہم جانتے ہیں کہ غربت عام طور پرنا انصافی، استحصال، اقربا پروری اور غیر مناسب معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اگر ہر ایک کو یکساں مواقع حاصل ہوں ، اگر ہر ایک کو انصاف میسر ہو، اگر ہر ایک کو اس کا حق مل جائے، اگر ہرایک حق دار کو بنیادی ضروریات زندگی ملتی ہوں تو ایسے معاشرے میں نہ تو غربت رہتی ہے اور نہ جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس کا اطلاق آپ معاشرے پر بھی کرسکتے ہیں اور ملکوں پر بھی ۔ آپ دیکھ لیجیے جن ملکوں میں زیادہ غربت ہے وہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے اور وہ دنیا کے بدعنوان ترین ممالک ہیں۔ آپ ان وجوہات پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہاں قانون صرف غریبوں کے لیے ہے، وہاں انصاف کو خریدا جاسکتا ہے، وہاں خواندگی کی شرح افسوسناک حد تک کم ہے، وہاں سیاسی عدم استحکام ہے، وہاں اقربا پروری اور دوسری سماجی برائیاں اپنے عروج پر ہیں اور حق دار کو اس کا حق نہیں ملتا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں یا ملکوں میں بد امنی ہے، بے چینی ہے اور لا اینڈ آرڈر کا شدید مسئلہ ہے۔ اس کے برعکس جن ملکوں میں ادارے مضبوط ہیں، سیاسی استحکام ہے، بد عنوانی نہ ہونے کے برابر ہے، سوشل جسٹس کا دور دورہ ہے، شرح خواندگی سو فیصد ہے یا سو فیصد کے قریب ہے اور ہر شخص کو بنیادی ضروریات زندگی حاصل ہیں وہاں امن ہے، سکون ہے اور لا اینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسے ملکوں میں اگر جرائم وقوع پذیر ہوتے بھی ہیں تو معاشرے کے ان طبقات کی طرف سے جن سے امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ وہ طبقات ان امتیازی رویوں یا قانون کی وجہ سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جو مختلف شکلوں میں ہوتا ہے۔مثال کے طور پر امریکہ میں جن علاقوں میں جرائم کی شرح زیادہ ہے وہ علاقے ہیں جہاں کالے امریکی آباد ہیں اور ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں اور جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے باقی خوشحال اور ترقی یافتہ ملکوں میں ان علاقوں میں جرائم کی شرح زیادہ ہے جہاں عدل و انصاف کی کمی ہے، جہاں لوگوں کے پاس بنیادی ضروریات کی کمی ہے، جہاں انتظامیہ بد عنوان ہے اور جہاں معاشی ترقی کے مواقع کم ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک اگر دنیا میں واقعی امن قائم کرنا چاہتے ہیں:

            ترقی یافتہ ممالک دنیا میں واقعی امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ان کو دنیا سے غربت کا خاتمہ کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں کیونکہ غربت کا خاتمہ ہوگا تو لوگ تعلیم حاصل کریں گے اور لوگ جب تعلیم یافتہ ہوں گے تو جرائم کی شرح کم ہوگی ۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک نے از خود تہذیبوں کا جو تصادم شروع کیا ہوا ہے اس کو ختم کرنا ہوگا۔ امتیازی پالیسیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے یعنی کہیں جمہوریت کی حمایت اور کہیں آمریت کی حمایت۔ اسی طرح خود اسلحے کے ڈھیر جمع کرنا اور ایٹم بم سے بڑھ کر ہائیڈروجن بم بنانا جبکہ دوسروں پر پابندیاں لگانا۔ اس طرح کی امتیازی پالیسیاں نفرت اور بغاوت کو جنم دیتی ہیں۔

حکومت پاکستان کے لیے بھی یہ ہی واحد راستہ ہے:

            حکومت پاکستان بھی اگر امن و امان قائم کرنا چاہتی ہے تو تمام علاقوں اور تمام قوموں کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ہوگا۔ تمام علاقوں میں یکساں ترقیاتی کام کروانا ہوں گے۔ جو ،علاقے یا لوگ پسماندہ رہ گئے ہیں یا ماضی میں نظر انداز ہوئے ہیں ان کو خصوصی اقدامات کے ذریعے آگے لانا ہوگا۔ غربت اور بد عنوانی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر امن و امان کا خواب دیکھنا حماقت ہے۔ جب تک معاشرے سے غربت، جہالت اور بدعنوانی کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک چوریاں اور ڈکیتیاں ہوتی رہیں گی، اس وقت تک امام بارگاہوں اور مساجد میں بم دھماکے ہوتے رہیں گے، اس وقت تک اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت کا کھیل جاری رہے گا۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ پولیس فورس بڑھانے، پٹرولنگ پولیس سٹیشن قائم کرنے، پولیس آرڈیننس میں ترامیم کرنے، SSPکے بجائےDPOمقرر کرے، کمشنر کی جگہ DCOنام رکھنے ، سیمینار کرنے اور میٹینگیں کرنے سے جرائم اور لاقانونیت کا خاتمہ ہوجائے گا تو ان کو چاہیے کہ وہ خواب و خیال کی دنیا سے باہر آئیں اور حقیقت پسندی پر مبنی لائحہ عمل اختیار کریں۔