غلیظ دنیا سے آزادی

مصنف : اوریا مقبول جان

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : مئی 2007

مردوں کو رجھانے والی مغربی عورت کی کہانی

            میں ایک ۳۲سالہ نیلی آنکھوں’ سنہرے بالوں اور سفید رنگ و روپ رکھنے والی برطانوی عورت ہوں۔ میں برطانیہ کے شہر کینٹ میں پیدا ہوئی اور ابھی تک وہیں رہ رہی ہوں۔ میں اس ثقافت اور تہذیب کا حصہ ہوں جس نے مجھے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی نمود و نمائش’ اعضاء کا تناسب اور مردوں کو رجھانے کے انداز سکھا دیئے تھے۔ میں یہ بھی بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں مسلمان نہیں اور نہ ہی میرا اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ میں عیسائیت کے سب سے قدیم اور کٹر فرقے کیتھولک چرچ کو مانتی ہوں اور میرا خاندان بھی اس پر عمل کرتا ہے۔ میں کوئی صالح یا نیک خاتون بھی نہیں رہی۔ میں رزق کمانے کے لیے بھی اور شوق پورا کرنے کے لیے ایک ڈانسر اور ایک ماڈل رہی ہوں۔ تہواروں پر پیسے لے کر بوس و کنار بھی کرتی رہی ہوں۔ میری تین بہترین دوست لڑکیاں کلبوں میں کپڑوں سے آزاد ڈانس کرتی ہیں۔ میرے چند مسلمان مردوں سے بھی تعلقات رہے لیکن وہ سب بھی میری طرح آزاد خیال اور عیش و عشرت کے دلدادہ تھے۔

            یہ الفاظ تھے سٹیلا وائٹ کے جس نے اچانک چہرے پر حجاب پہننا شروع کر دیا۔ جب وہ لندن کی گلیوں میں حجاب کے ساتھ سامنے آئی تو سوال کرنے والوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور پھر اسے یہ سب کچھ ایک ہی سانس میں کہنا پڑا۔ سننے والے کانوں کو پھر بھی یقین نہ آیا۔ ایک نے پوچھا کہ تم کسی مسلمان کے عشق میں تو گرفتار نہیں ہوگئی جس نے زبردستی تمھیں ایسا کرنے کو کہا ہو۔ سٹیلا نے کہا کوئی سوچ سکتا ہے کہ میرے جیسی عورت کے ساتھ زبردستی کی جاسکتی ہے؟ نہ کسی نے ماضی میں ایسا کیا اور نہ اب۔ یہ حجاب میں نے زبردستی اپنے چہرے پر سجایا ہے۔

            یہ سب کہنے کے بعد اس نے کہا کہ تم سب لوگ یہ سمجھتے ہو کہ حجاب ایک غلامی کی یادگار ہے’ ٹانگوں پر کپڑوں سے بے نیاز عورتیں جب مجھے دیکھتی ہیں تو میرے اُوپر ایک افسوس اور ترس کھانے والی نگاہ ڈالتی ہوں۔ وہ مجھے اکثر کہتی ہیں کہ یہ تو زندہ درگور ہوگئی ہے لیکن میں’ جس نے حجاب بالکل ایک تجربے کے لیے شروع کیا تھا اور پھر یوں لگا کہ اسے پہننے کے بعد میں نے اپنے آپ کو اس تندوتیز’ آنکھوں میں چبھتی اور غلیظ دنیا سے آزاد کرلیا ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے میں بھیڑیوں کے ایک بہت بڑے پنجرے میں تھی جن کی خون خوار نظریں میرا پیچھا کر رہی ہوتی تھیں لیکن حجاب پہننے کے صرف چند گھنٹوں بعد مجھے یوں لگا جیسے کسی نے مجھے ان کی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ اس پنجرے سے نکال باہر کیا ہے۔ وہ سب میرے اردگرد گھومتے ہیں لیکن جیسے کسی نے مجھے کوئی جادو کا لباس پہنا دیا ہے کہ میں انھیں نظر نہیں آتی۔

            پھر اس نے خالصتاً برطانوی عورت کی طرح کہا کہ لندن کی گلیوں میں حجاب پہن کر گھومتے ہوئے مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے مجھے چلنے پھرنے کے لیے ایک علیحدہ جگہ مل گئی ہو۔ نہ مجھے ہجوم سے ڈر لگتا ہے اور نہ یہ خوف کہ میرے ساتھ چلنے والا کسی بھی لمحے مجھے کہنی چبھو کر یا ٹکرا کر گزرے گا۔ میں ان تمام نہ چاہتے ہوئے گھورنے والی آنکھوں’ بڑھتے ہوئے جسموں’ غلیظ فقروں کی زد سے دُور ہوجاتی ہوں۔ سٹیلا نے کہا کہ میں بہت نرم دل عورت ہوں۔ اکثر لندن کی سڑکوں پر بھیک مانگنے والے مجھے گھیر لیتے اور میرے چہرے پر رقت کی وجہ سے آئے ہوئے آنسو دیکھ کر میرے پیچھے پڑ جاتے اور بعض دفعہ جب میری جیب میں پیسے ختم ہوجاتے تو میں شرمندہ سی ہوجاتی۔ اب میرے جذبات کا کسی کو احساس ہی نہیں ہوتا’ میں جسے صحیح سمجھتی ہوں اسے بھیک دیتی ہوں اور کوئی میرے پیچھے دُور تک بھیک مانگتا ہوا نہیں آیا۔

            سٹیلا نے کہا میں اپنے پورے یورپی لباس اور اکثر مختصر لباس میں بازار سے اشیاء خریدنے جاتی تھی لیکن مجھ میں اور کسی دوسری عورت میں کوئی تمیز نہیں کی جاتی تھی’ البتہ اگر کبھی نرخ کم کروانے کے لیے جھگڑتی اور کم کروا لیتی تو دکاندار میرے جسم کو ایسے دیکھتا جیسے وہ اسے میرے حسن کی خیرات سمجھ کر دے رہا ہو اور بعض تو وہ فقرے بول بھی دیتے لیکن اب میں لڑوں’ جھگڑوں’ ریٹ کم کرواؤں مجھے اس ندامت سے نہیں گزرنا پڑتا اور اگر کبھی بلکہ اب تو اکثر جب بھی کسی مسلمان کی دکان میں جاتی ہوں تو پورا ماحول یوں میرے سامنے مؤدب اور بااحترام ہوجاتا ہے جیسے چرچ میں مقدس مریم تشریف لے آئی ہو۔

            اس نے کہا میں نے ایک عمر ایسے کلبوں میں گزاری ہے جہاں یورپی لڑکیاں جیون ساتھی کی تلاش میں گہرے میک اپ’ غلیظ لباس’ بڑی بڑی نوک دار ہیل والی جوتیوں پر توازن قائم کرتی ہوئی اور مجبوراً بے ذائقہ خوراک کھاتی نظر آتی ہیں کہ ان کا وجود متناسب رہے۔ اس دوران میں جب کبھی میں حجاب والی عورت سے ملتی تو وہ حجاب والی عورت ان بیچاری عورتوں کی بے بسی پر ہنستی ۔پھر میری ایک ایسی عورت کے خاوند سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے پوچھا تم اسے حجاب کیوں پہناتے ہو؟ اس نے کہا میری بیوی ایک ہیرے کی طرح ہے میں نہیں چاہتا اس پر داغ لگے’ میلی ہوجائے۔ میں تو اسے مخمل میں لپیٹ کر رکھنا چاہتا ہوں حالانکہ وہ بہت موٹی اور بے ڈھب جسم کی عورت تھی اور شاید کسی ایسی موٹی’ بے ڈھب برطانوی عورت کو یہ فقرے زندگی بھر سننے کو نہ مل سکیں۔یہ سب کچھ کہنے کے بعد اس نے کہا’ میں کیتھولک ہوں لیکن ان چند ہفتوں سے میں جس سکون میں ہوں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی اور مجھے حیرت ہوتی ہے ان مسلمان عورتوں پر جنھیں ایسا حجاب اوڑھنے پر روحانی تسکین’ آخرت میں نجات اور مذہبی فریضے جیسے محرکات بھی میسر ہیں اور پھر بھی اس دنیا کی بھیڑ میں بھیڑیوں کے جنگل میں تر نوالہ بننا چاہتی ہیں۔

            یہ سب اگر کسی مولوی کی بیٹی’ بیوی یا بہو کہتی تو شاید میں یہ چند سطریں تحریر نہ کرتا کہ اس کی تو تربیت ہی ایسی تھی۔ میں تو اس عورت کا تجربہ بیان کر رہا ہوں جس کے اردگرد بسنے والی عورتوں کے نقش قدم پر چلنے کے لیے ہم بے تاب ہوئے جا رہے ہیں۔ کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں’ پوسٹر چھاپے جاتے ہیں’ جبر کے خلاف’ دہشت کے خلاف’ مرد کی حکمرانی اور عورت کی زیردستی کے خلاف۔ مجھے آج بھی پاکستان میں خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی علمبردار اور انسانی حقوق کی چیمپئن خاتون کا وہ فقرہ نہیں بھولتا جو انھوں نے کوئٹہ میں لا کالج کے ہال میں کہا تھا: ‘‘ہمارے لیے وہ خاتون وزیراعظم بھی کسی کام کی نہیں جو مردوں کے ووٹوں کے خوف سے اپنے سر سے دوپٹہ نہ اُتار سکے’’۔ شاید خوف کے معنی یہاں آکر بدل جاتے ہیں ورنہ جس نے خوف دیکھا ہے وہ تو چیخ کر کہتی ہے : ‘‘حجاب کے پیچھے آنے سے میں بھیڑیوں کے پنجرے سے آزاد ہوگئی’’۔