محمدﷺ قدیم صحیفو ں میں

مصنف : پیام دوست

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : اپریل 2007

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

انبیاء و رسل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آتے ہیں۔ قرآن مجید اور قدیم صحیفوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی۔ نبی کو ماننے یا نہ ماننے پر چونکہ آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے’ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اِس معاملہ میں یہ اہتمام فرمایا ہے کہ عام اہل حق کی طرح نبی محض اپنی سیرت اور اپنی تعلیمات ہی کے بل پر دعوت کے لیے کھڑا نہیں ہوجاتا’ بلکہ آسمان کے بادشاہ کی طرف ے اپنا پروانۂ تقرر ساتھ لے کر آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ مقدر کردیا تھا کہ پیغمبرانہ دور کے آخری مرحلہ میں وہ اپنا ایک خاص نمائندہ بھیجے گا تاکہ خدا کا دین ہمیشہ کے لیے مضبوط بنیادوں پر قائم ہوجائے اور خدا کی کتاب کی حفاطت کا مستقل انتظام ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس منصوبہ کو ‘بائبل کی شہادت’ کے مطابق ہزاروں برس پہلے مختلف انبیاء کے ذریعے ظاہر کرنا شروع کردیا تھا۔ نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کے اس مقدس سلسلہ کے خاتم نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐ کی بعثت کی خبر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء و رُسل نے دی ہے۔

بائبل میں آپؐ کا ذکر

موجودہ بائبل کے دو حصے ہیں: عہدنامۂ قدیم اور عہدنامۂ جدید۔ عہدنامۂ جدید عیسیٰ علیہ السلام کی اناجیل پر مشتمل ہے۔ جبکہ عہدنامۂ قدیم دیگر انبیاء کی کتب پر مشتمل ہے۔ اگرچہ ترجمہ اور الحاقات کے نتیجہ میں موجودہ بائبل اصل بائبل سے بہت کچھ مختلف ہوچکی ہے’ تاہم آج بھی کثیر تعداد میں اُس کے اندر ایسے بیانات موجود ہیں جو ایک غیر جانبدار آدمی کے لیے آنے والے آخری نبی کے سوا کسی اور ذات پر صادق نہیں آتے۔ خاص طور پر مسیح علیہ السلام کی تشریف آوری کا تومشن ہی یہ تھا کہ وہ دنیا کو خصوصاً یہود کو آنے والے آخری نبی سے آخری طور پر آگاہ کریں۔ آپ نے جس نئے ‘عہدنامہ’ کی بشارت دی وہ حقیقتاً اسلام تھا جو یہود کی معزولی کے بعدبنی اسماعیل کے ذریعے باندھا گیا۔ انجیل نئے عہدنامہ کی بشارت ہے نہ کہ خود نیا عہدنامہ۔

۱- حضرت موسٰیؑ کی بشارت

اسرائیلی سلسلہ کے سب سے جلیل القدر رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر واضح کردیا تھا کہ آنے والا نبی بنی اسماعیل میں سے ہوگا۔ اُنھوں نے اپنی قوم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اُس کی سننا…… میں اُن کے لیے اُنھی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے حکم دوں گا وہ وہی اُن سے کہے گا اور جو کوئی میری اُن باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اُن کا حساب اُس سے لوں گا’’۔ (استثناء ۱۸: ۱۵-۱۹)

عیسائی کہتے ہیں کہ یہ پیشین گوئی حضرت عیسٰی ؑپر صادق آتی ہے کیونکہ عیسٰی ؑ یہودی النسل تھے اور آپ ؑپیغمبر بھی تھے۔ اگر یہی دلیل ہے تو پھر بنی اسرائیل کے اُن تمام انبیاء پر بھی تو یہ صادق آسکتی ہے جو حضرت موسٰی ؑکے بعد آئے۔ ہماری رائے میں تورات کی یہ پیشین گوئی صاف طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ:

۱- اس میں حضرت موسٰی ؑ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ ‘میں تیرے لیے تیرے بھائیوں سے ایک نبی برپا کروں گا’۔ ظاہر ہے کہ ایک قوم کے ‘بھائیوں’ سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی دوسری ہی ایسی قوم ہوسکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ ہو۔ اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی نبی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے کہ ‘میں تمھارے لیے خود تم ہی میں سے ایک نبی برپا کروں گا’۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لازماً بنی اسماعیل ہی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ حضرت ابراہیم ؑکے دو بیٹے تھے: حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت اسحاقؑ جن کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔ اسی لیے ان کی نسل کا نام بنی اسرائیل پڑا اور اسماعیل علیہ السلام کی نسل کا بنی اسماعیل۔ بنی اسماعیل اس پیشین گوئی کا مصداق بنے۔

۲- دوسری بات بشارت میں ہے کہ یہ نبی حضرت موسٰی علیہ السلام کی مانند ہوں گے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کی بھی ایک مستقل شریعت ہوگی۔ یہ خصوصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی رسول میں بھی حضرت موسٰی ؑ کے بعد نہیں پائی جاتی کیونکہ آپؐ سے پہلے بنی اسرائیل کے تمام انبیاء شریعت موسوی کے پیرو تھے اُن میں سے کوئی بھی نئی مستقل شریعت لے کر نہ آیا تھا۔ عیسٰی علیہ السلام اِس کا مصداق نہیں ہوسکتے کیونکہ:

۱- موسٰی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے والدین تھے جب کہ عیسیٰ علیہ السلام معجزانہ طریقے سے بن باپ کے پیدا ہوئے۔

۲- موسٰی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے شادیاں کیں اور اُن کے ہاں اولاد ہوئی جب کہ عیسیٰ علیہ السلام تمام عمر کنوارے رہے۔

۳- موسٰی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کو اُن کی اپنی قوموں نے پیغمبر تسلیم کیا جب کہ عیسٰی علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے: ‘‘وہ اپنے گھر آیا اور اُس کے اپنوں نے اُسے قبول نہ کیا’’۔ (یوحنا ۱:۱۱)

آج دو ہزار سال بعد بھی عیسٰی علیہ السلام کی قومِ یہود نے انھیں تسلیم نہیں کیا۔

۴- موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے ہجرت کی اور اُنھیں اقتدار حاصل ہوا۔

۵- موسٰی علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں قدرتی طور پر فوت ہوئے’ زمین میں دفن ہوئے جب کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اُٹھا لیے گئے۔

۲- صحابہ کرامؓ کے متعلق حضرت موسٰیؑ کی شہادت

حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی زندگی کی آخری وصیت میں فرمایا:

‘‘خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا’ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی’’۔ (استثناء ۳۳:۱-۳)

فتح مکہ کے دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار صحابہ تھے۔ نیز خدا کا مظہر تین پہاڑوں کو قرار دیا گیا ہے۔ کوہِ سینا سے حضرت موسٰی ؑ کوہِ شعیر سے حضرت عیسٰی ؑاور کوہِ فاران سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ تورات بابِ پیدائش میں ابراہیم علیہ السلام کا حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو جس جگہ چھوڑ کر آنے کا ذکر ہے: ‘‘اور وہ فاران کے بیابان میں رہنے لگا’’۔ (۲۱:۲۰)

مسلم علماء کے نزدیک کوہِ فاران مکہ کی پہاڑی کا نام ہے جب کہ عیسائی علماء کے نزدیک فاران سیناء میں ہے۔ مسلمان علماء کا سوال یہ ہے کہ پھر وہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کہاں آباد ہے؟

بائبل کی تحریف کا اِس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ انگریزی ترجمہ King James Version میں تحریر شدہ دس ہزار کے الفاظ کو اب اُردو ترجمہ میں لاکھوں سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

۳- حبقوق نبی کا صحیفہ

‘‘اور وہ جو مقدس ہے کوہِ فاران سے آیا۔ اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور اُس کی حمد سے زمین معمور ہوگئی۔ اُس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی’’۔ (۳: ۳-۴)

‘‘اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا’’…… یہ معراجِ آسمانی کی تشریح ہے۔ ‘‘اُس کی حمد سے زمین معمور ہوگئی’’…… زمین کا کون سا گوشہ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد سے آباد نہیں۔

۴- مدینہ کے کوہِ سلع اور واقعۂ ہجرت کا ذکر

۱- ‘‘بیاباں (عرب) اور اُس کی بستیاں قیدار (اسماعیل ؑ کے بیٹے) کے آباد گاؤں اپنی آواز بلند کریں گے۔ سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے للکاریں گے’ وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں گے’’۔ (یسعیا ۴۲:۱۱)

۲- ‘‘عرب کی بابت بارِ نبوت: اے دوانیو کے قافلو! تم عرب کے صحرا میں رات کاٹو گے۔ پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آؤ’ تیما (اسماعیلؑ کے بیٹے) کی سرزمین کے باشندے روٹی لے کر بھاگنے والے سے ملنے کو نکلے کیونکہ وہ تلواروں کے سامنے ننگی تلوار سے’ کھچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں’’۔ (یسعیاہ ۲۱:۱۴-۱۵)

کیا آنے والے کی اِس آمد پر دامن سلع کے باشندے مدینے والے طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا کے گیت نہیں گا رہے تھے۔ انھی کی للکار سے قیدار کی اولاد (قریش مکہ) کی عظمت بدر کے کنوئیں میں غرق ہوئی۔

۵- جنگ ِبدر کا ذکر

‘‘ٹھیک ایک سال مزدوروں کے ایک سال میں قیدار(یعنی قریشِ مکہ) کی ساری حشمت خاک میں مل جائے گی’’۔ (یسعیاہ ۲۱:۱۶)

جنگ ِ بدر میں قریش کے تقریباً تمام بڑے سردار مارے گئے۔ اِسی سلسلۂ کلام میں یسعیاہ علیہ السلام کی مزید پیشین گوئیاں اِس طرح ہیں:

۱- ‘‘خداوند بہادر کی مانند نکلے گا وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت دکھائے گا…… وہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے گا…… جو کھودی ہوئی مورتیوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ڈھالے ہوئے بتوں سے کہتے ہیں تم ہمارے معبود ہو وہ پیچھے ہٹیں گے اور بہت شرمندہ ہوں گے’’۔ (یسعیاہ ۴۲: ۱۳-۱۷)

یقینا یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد نہیں۔ نہ وہ ایک جنگی مرد کی مانند دُنیا میں آئے نہ انھوں نے توحید قائم کی اور بت پرستی ختم کی۔ علاوہ ازیں اس مکمل پیشین گوئی میں اِس طرف بھی خاص اشارہ ہے کہ وہ آنے والا بنی قیدار (یعنی قریش) کی نسل سے ہوگا اور قیدار کا دیہات مکہ معظمہ ہے نیز فتح مکہ کے دن آپؐ کے دشمنوں قریش کی ندامت کی طرف بھی اشارہ ہے۔

۲- ‘‘وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کرلے’’۔ (یسعیاہ ۴۲:۵)یعنی جب تک ان کی شریعت اور تعلیم قائم نہ ہوجائے گی ان کو موت نہ آئے گی ظاہر ہے کہ یہ وصف بھی آپؐ کا ہے کہ آپ اس وقت تک دنیا میں تشریف فرما رہے جب تک کہ آپؐ کا مشن مکمل ہوگیا۔

۳- ‘‘جزیرے اُس کی شریعت کا انتظار کریں گے’’۔ (یسعیاہ ۴۲: ۱۶)

یہ اسلام ہی تھا جس کی شریعت نہرسیحون سے جیحون تک اور دجلہ و فرات سے ہوکر بحیرۂ روم تک اور بحرہند سے بحرظلمات تک پھیل گئی اور بڑے بڑے جزیرے اس کے نور سے منور ہوگئے۔

۴- ‘‘اور اندھوں کو اُس راہ سے جسے وہ نہیں جانتے لے جاؤں گا میں اُن کو اُن راستوں پر جن سے وہ آگاہ نہیں لے چلوں گا’’۔ (یسعیاہ ۴۲:۱۴)

یعنی اُمیوں کا پیغمبر ہوگا یہ صفت اہل عرب کی ہے جن کو آپؐ سے پہلے کوئی صاحب شریعت پیغمبر نہیں ملا۔ حضرت عیسٰی ؑبنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے تھے جن کو شریعت مل چکی تھی۔

۶- فتحِ مکہ کا ذکر

‘‘دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا اور خداوند جس کے تم طالب ہو ناگہاں اپنے ہیکل میں آموجود ہوگا۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزومند ہو آئے گا’’۔ (ملاکی ۳:۱)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر اس طرح اچانک مکہ پہنچے ہیں کہ صحابہؓ کی دس ہزار فوج جب مکہ کے قریب پہنچی اور رات کو کھانا پکانے کے لیے چولہے روشن کیے گئے تب مکہ والوں کو آپ کے آنے کا علم ہوا اور وہ بالکل مزاحمت نہ کرسکے۔

۷- زبور میں مکہ کا ذکر

داؤد علیہ السلام اُس گھر کی تمنا میں بے چین ہوکر فرمایا کرتے تھے:

‘‘مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں رہتے ہیں وہ سدا تیری تعریف کریں گے…… وہ وادی بکہ سے گزر کر اُسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں’’۔ (زبور ۸۴:۴-۶)

قرآن نے بھی مکہ کا نام ‘بکہ’ بتایا حتیٰ کہ قرآن کے مشہور دشمن مارگولیوتھ نے بھی گواہی دی کہ زَبور کا یہ ‘بکہ’ عرب کے سوا اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔

‘‘خدا کے لیے گاؤ۔ اس کے نام کی مدح سرائی کرو۔ صحرا کے سوار کے لیے شاہراہ تیار کرو’’۔ (زبور ۶۸:۴)

کیا صحرا کے یہ سوار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی اور ہوسکتے ہیں؟

۸- یہود کی سلطنت کا خاتمہ

‘‘یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا جب تک کہ وہ نہ آیا جو بھیجا جانے والا ہے اور قومیں اس کی مطیع ہوں گی’’۔ (پیدائش ۴۹: ۱۰)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت یہود کے پاس یمن اور سبا کا اقتدار تھا۔ مدینہ اور بعدازاں خیبر میں بھی کچھ عرصہ اُن کے پاس اقتدار رہا۔ اِس پیشین گوئی کے مصداق حضرت عیسٰی علیہ السلام نہیں ہو سکتے کیونکہ یروشلم کی یہود کی سلطنت ان کی پیدائش سے ۶۲ سال پہلے ختم ہوچکی تھی۔ انھوں نے اسے ختم نہیں کیا۔ یہوداہ کا اقتدار حقیقتاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل ختم کیا۔

۹- سلیمانؑ کی غزل الغزلات

یہ غزل دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں عظیم الشان پیشین گوئی ہے تاہم ترجمہ کرتے ہوئے اس کو بالکل بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ ایک پیرا یہاں نقل کیا جا رہا ہے:

‘‘میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ وہ دس ہزار میں ممتاز ہے۔ اُس کے سر خالص سونا ہے۔ اُس کی زلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں…… اُس کا منہ ازبس شیریں ہیں۔ ہاں! وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب’ یہ ہے میرا پیارا’’۔ (۵: ۱۰-۱۶)

‘وہ سراپا عشق انگیز ہے’…… اس کا انگریزی ترجمہ بائبل میں He is altogether desirable کیا گیا ہے۔ جبکہ اصل عبرانی زبان میں موجودہ بائبل میں اصل الفاظ کا تلفظ Wa Kullo Muhammadim یعنی ‘وقلومحمدیم’ ہے۔

عبرانی میں کسی کی عزت افزائی کے لیے اُسے جمع کے صیغہ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے نام کے آخر میں im لگا دیا جاتا ہے۔ پیشین گوئی کے باقی الفاظ میں آپؐ کا سراپا اور شیریں گفتار ہونا بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ کے سر کے بالوں کے سیاہ اور ہلکے گھنگریالے ہونے کا بھی ذکر ہے۔ یہ سراپا وہی ہے جو شمائل ترمذی میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز فتح مکہ پر دس ہزار صحابہؓ میں آپ کے ممتاز ہونے کا ذکر بھی ہے یعنی سلیمان علیہ السلام فرما رہے ہیں:‘‘وہ ٹھیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں میرے محبوب’ میری جان’’۔

انجیل کی پیشین گوئیاں

۱- ‘‘مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبریں دے گا’’۔ (یوحنا ۱۶:۱۲-۱۴)

۲- ‘‘اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا لیکن دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں’’۔ (یوحنا ۱۴: ۳۰)

۳- ‘‘جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا یہ خدا کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے گی دے دی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا’’۔ (متی ۲۱:۴۳-۴۵)

۴- ‘‘اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے’’۔ (یوحنا ۱۴:۱۶)

۵- ‘‘پھر میں نے آسمان کو کھلا ہوا دیکھا کہ ایک سفید گھوڑا ہے اور اُس پر ایک سوار ہے جو سچا اور برحق ہے اور وہ راستی کے ساتھ انصاف اور لڑائی کرتا ہے…… اور اس کا نام کلامِ خدا کہلاتا ہے اور آسمان کی فوجیں سفید گھوڑوں پر سوار سفید اور صاف مہین کتائی کپڑے پہنے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے ہیں’’۔ (مکاشفہ ۱۹: ۱۱- ۱۵)

پارسی مذہب کے صحیفے میں

پارسی مذہب بھی دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ہے۔ اس کی دو الہامی کتب ہیں دساتیر اور زند اَوستا۔ دساتیر ۱۴ جو (Sasanil) کے نام سے منسوب ہے اس میں نہ صرف اسلام کے عقائد و تعلیمات کی تصدیق ہے بلکہ ایک واضح پیشین گوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بارے میں ہے:‘‘جب ایرانی اخلاقی اعتبار سے زوال کا شکار ہوں گے۔ ایک انسان عرب میں پیدا ہوگا جن کے پیروکار ایرانیوں کی سلطنت’ مذہب غرض ہر چیز کو تہ و بالا کردیں گے۔ ایران کے سرکش زیر کرلیے جائیں گے۔ وہ گھر جو بنایا گیا تھا (ابراہیم علیہ السلام کے خانہ کعبہ بنانے کی طرف اشارہ) اور جس میں بہت سے بت رکھ دیے گئے ہیں بتوں سے پاک کر دیا جائے گا اور لوگ اپنی نمازیں اس طرف رخ کر کے پڑھیں گے۔ اُن کے پیروکار ایرانیوں کے بڑے بڑے شہروں طوس’ اور بلخ اور اردگرد کے اہم علاقوں پر قبضہ کرلیں گے۔ لوگ ایک دوسرے سے گھل مل جائیں گے۔ ایران کے عقل مند لوگ اور دوسرے’ ان کے پیروکاروں کے ساتھ مل جائیں گے’’۔ (۹:۹)یہ پیشین گوئی اُس کتاب میں ہے جو ہمیشہ سے پارسیوں کے پاس ہی رہی ہے اور اُس کے الفاظ کی دو توجیہیں ہو ہی نہیں سکتیں۔ آنے والا عرب ہوگا۔ ایرانی اُن کا مذہب اختیار کرلیں گے۔ کیا یہ پیشین گوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے پر بھی چسپاں ہو سکتی ہے؟

ہندوؤں کی ویدوں میں حضرت محمدؐ کا ذکر

۱- ‘‘اے لوگو’ سنو! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جائے گا۔ اس مہاجر کو ہم ساٹھ ہزار اور نوے دشمنوں سے پناہ میں لیں گے۔ جس کے ساتھ بیس اُونٹ ہوں گے اس کی سواری اُونٹ ہوگی جس کی عظمت آسمانوں کو بھی جھکا دے گی۔ اس عظیم رشی کو سو سونے کے سکّے’ دس مالائیں’ تین سو عربی گھوڑے اور دس ہزار گائیں عطا کی گئیں ہیں’’۔ (اتھروید: کندہ ۲۰ سکتہ ۱۲۷’ منتر ۱’۲’۳)

اس میں سو سونے کے سکّے سے مراد مہاجرین حبشہ’ دس مالائیں سے مراد ‘عشرہ مبشرہ’ تین سو گھوڑے سے مراد اصحاب بدر اور دس ہزار گائیں سے مراد ‘فتح مکہ’ کے وقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دس ہزار ساتھی ہیں۔

۲- ‘‘ایک ملیچھ (اجنبی ملک کا اجنبی زبان بولنے والا) روحانی استاد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ظاہر ہوں گے۔ ان کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم…… راجہ بھوج اُن سے پوری تعظیم دینے کے بعد کہے گا میں اظہار اطاعت کے لیے تیرے آگے جھکتا ہوں۔ اے فخرانسانیت! اے ریگستان کے باشندے! آپ نے شیطان کو شکست دینے کے لیے ایک عظیم طاقت اکٹھی کرلی ہے۔ آپ کو آپ کے دشمنوں سے تحفظ دیا گیا ہے۔ اے پاک خدا! عظیم خدا کی تصویر مجھے اپنی پناہ میں آیا ہوا غلام سمجھو’۔ (بھوشیہ پران پر تونگ پر’ تیسرے کھنڈ تیسرے ادھائے اشلوک ۵-۸) اب اِس پیشین گوئی کے بارے میں چند باتیں:

  • حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام واضح طور پر لکھا گیا ہے۔
  • اُن کے وطن کے بارے میں سنسکرت کا لفظ ‘مارو ستھل’ یعنی ریتلا قطعہ یا صحرا۔
  • پیغمبر کے ساتھیوں کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا ہے آپ سے پہلے شاید ہی کوئی ایسے نبی/ بزرگ گزرے ہوں جن کے اتنے زیادہ اُنھی کے رنگ میں رنگے ہوئے ساتھی ہوں۔
  • اُنھیں گناہوں سے پاک کہا گیا ہے۔
  • اُنھیں ‘پربتی ناتھ’ (فخر انسانیت) کہا گیا ہے۔

۳- رگ وید -(۱-۱۹: ۱-۹) میں ہر منتر کے آخر میں ایک ہی جملہ ‘‘اگنی (خدا) کا راز ریگستانی اُمت (یعنی مسلمانوں) کے ذریعے حاصل ہوتا ہے’’۔ بار بار دُہرایا گیا ہے۔

۴- حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے لیے ویدوں میں نراشنس کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں قابلِ تعریف۔ سنسکرت کے اس لفظ کا بالکل صحیح متبادل عربی لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ رگ وید میں سولہ جگہ آپ کا نراشنس (حضرت محمدؐ) کے نام سے ذکر ہے۔ یجروید میں دس جگہ’ اتھروید میں چار جگہ اور سام وید میں ایک جگہ’ اس طرح چاروں ویدوں میں کل ملا کر ۳۱ جگہ نراشنس (حضرت محمدؐ) کے نام سے آپؐ کا ذکر ہے۔

۵- پنڈت وید پرکاش سنسکرت کے ایم اے ہیں اور جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔ اُنھوں نے اپنی کتاب ‘کلکی اوتار اور محمد صاحب’ (حال طبع: ڈاکٹر اظہروحید B-106 گرین ویو سوسائٹی’ شیخوپورہ روڈ’ لاہور) لکھی ہے۔ اس کتاب کے شروع میں سنسکرت کے آٹھ مشہور عالموں کے تصدیقی نوٹ ہیں۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ چوبیسویں اور آخری اوتار جن کا ہندو ابھی تک انتظار کر رہے ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اُنھوں نے اس کے لیے اپنی مذہبی کتب کو بطور ثبوت پیش کیا ہے:

  • کلکی اوتار کا زمانہ تلوار سے جنگ اور گھوڑوں کی سواری کا زمانہ ہوگا اور خود کلکی اوتارشو (گھوڑا) اور کھڑک (تلوار) استعمال کریں گے۔
  • کلکی اوتار کے مقام پیدائش کے بارے میں ‘‘شنبھل گرام’’ کا نام لیا جاتا ہے۔ اس کے معنی شانتی کا استھان یعنی دارالامن ہے اور یہ بات مکہ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے اُس پر صادق آتی ہے۔
  • مذہبی کتابوں میں کلکی اوتار کو جگت گرو (دنیا کا رہنما) کہا گیا ہے۔ قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین (پوری دنیا کے لیے رحمت) کہتا ہے۔
  • کلکی اوتار کی والدہ کا نام ‘سوم وتی یا سومتی’ بتلایا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ‘امن والی’۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا نام آمنہ یعنی امن والی تھا۔
  • اُن کے والد کا نام وشنو یعنی وشنو کا پالک۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا نام عبداللہ یعنی اللہ (وشنو) کا بندہ (پالک)۔
  • کلکی اوتار کو انتم اوتار یعنی آخری اوتار کہا گیا ہے۔

 قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین (انتم اوتار) کہتا ہے۔

اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے شمس نوید عثمانی کی کتاب ‘اگر اب بھی نہ جاگے تو’ اور ابن اکبر الاعظمی کی کتاب ‘حضرت محمدؐ ہندو کتابوں میں’ پڑھیں۔

آخری بات

وہ رسولؐ جن کے آنے کی منادی انبیاء و رسل علیہم السلام ہر ہر زمانے میں کرتے رہے ہیں۔ جن کی آمد کے لوگ صدیوں منتظر رہے۔ اس آرزو کے ساتھ جیئے کہ وہ آئیں تو اُن کی راہ میں دیدۂ و دل فرشِ راہ کریں۔ کس قدر خوش قسمت ہیں ہم!…… ہمیں خدا نے اُنھی کی اُمت میں سے پیدا کیا۔ جتنا بڑا یہ احسان ہے’ اُتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم اُن کے لائے ہوئے پیغام اور احکام کے ساتھ کیامعاملہ کرتے ہیں؟!!

اللہ تعالیٰ ہمیں آپؐ کی اتباع کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!