خلافت راشدہ کا ایک جج

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : فروری 2007

عمر بن خطابؓ کا عہدِ خلافت ہے۔ عمرؓ کسی شخص سے ایک گھوڑا خریدتے ہیں’ اس شرط پر کہ پسند آگیا تو رکھ لیں گے’ ورنہ واپس کردیں گے۔ گھوڑا ایک سوار کو جانچنے کے لیے دیتے ہیں اور گھوڑا سواری میں چوٹ کھا کر لنگڑا ہوجاتا ہے۔ عمرؓ گھوڑا واپس کرنا چاہتے ہیں مگر مالک لینے سے انکار کرتا ہے۔ دونوں شریح بن حارث کو ثالث مقرر کرتے ہیں۔ شریح فیصلہ کرتے ہیں: ‘‘جو گھوڑا خریدا ہے اسے رکھو یا جس حالت میں لیا تھا اسی حالت میں واپس کرو’’۔ عمرؓ فیصلہ ہی تسلیم نہیں کرتے۔ شریح کو کوفہ کا جج بھی مقرر کردیتے ہیں کہ ایسا دقیقہ رس’ ذکی’ طبّاع’ حدیث و فقہ کا ماہر اور بے خوف شخص ایسے ہی بلند منصب کا اہل ہوسکتا ہے۔

شریح اپنے اس منصب کی ذمہ داریوں کو اس خوبی’ قابلیت اور دیانت کے ساتھ انجام دیتے ہیں کہ عبدالملک کے زمانہ تک مسلسل ساٹھ برس اس منصب جلیلہ پر فائز رہتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں ان کا شمار سب سے بڑے قضاۃ میں ہوتا ہے’ ان کے بعض فیصلوں پر تو اسلام کی تاریخِ عدل بجاطور پر ناز کرسکتی ہے۔

﴿……۲……﴾

حضرت علیؓ کا دورِ خلافت ہے۔ دارالخلافہ مدینے سے کوفہ منتقل ہوچکا ہے۔ شریح اسلامی مملکت کے چیف جسٹس ہیں۔ امیرالمومنین علیؓ اور ایک یہودی کا تنازعہ ان کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ امیرالمومنین کی زرہ کہیں گر پڑی تھی اور اس یہودی کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ امیرالمومنین کو پتہ چلتا ہے تو اس سے زرہ کا مطالبہ کرتے ہیں مگر یہودی کہتا ہے زرہ میری ہے چنانچہ دینے سے انکار کردیتا ہے۔ امیرالمومنین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں’ چیف جسٹس شریح فریقین کے بیان لیتے ہیں۔ یہودی اپنے بیان میں کہتا ہے زرہ میری ہے’ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میرے قبضہ میں ہے۔ چیف جسٹس شریح’ امیرالمومنین سے اپنے دعوے کے ثبوت میں گواہ پیش کرنے کو کہتے ہیں وہ دو گواہ پیش کرتے ہیں حسنؓ اور قنبرؓ۔ چیف جسٹس شریح کہتے ہیں’ قنبرؓ کی شہادت تو قبول کرتا ہوں لیکن حسن ؓ کی شہادت قابلِ قبول نہیں۔

امیرالمومنین کہتے ہیں آپ حسنؓ کی شہادت کو مسترد کرتے ہیں’ کیا آپ ؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں سنا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں؟ چیف جسٹس شریح کہتے ہیں: سنا ہے’ مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں۔

دوسرا شاہد نہ ہونے کی وجہ سے امیرالمومنین کا دعویٰ خارج کر دیا جاتا ہے۔ امیرالمومنین نہ تو کوئی آرڈی ننس جاری کرتے ہیں اور نہ کسی قانون کی پناہ ڈھونڈتے ہیں بلکہ اس فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کردیتے ہیں۔

یہودی اس فیصلہ سے بے حد متاثر ہوتا ہے۔ وہ دیکھتاہے ایک شخص صاحبِ اقتدار ہونے کے باوجود زرہ اس سے نہیں چھینتا بلکہ عدالت کے دروازے پر دستک دیتا ہے اور مدعی کی حیثیت سے اس کے سامنے جاتا ہے۔ پھر عدالت اس کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ نہیں کرتی۔ مدعی اور مدعا علیہ دونوں یکساں حالت میں اس کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ عدالتی کارروائی میں بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا۔ روزمرہ کی سی کارروائی ہوتی ہے اور عدالتی طریق کار کے عین مطابق۔ پھر عدالت کا جج امیرالمومنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا ہے اور امیرالمومنین بے چوں و چرا اس فیصلے کے آگے سرجھکا دیتا ہے۔ اسلامی عدالت کا بے لوث عدل اور امیرالمومنین کا منصفانہ کردارا س کے دل میں کھب جاتا ہے۔ وہ وہیں عدالت میں پکار اُٹھتا ہے کہ زرہ امیرالمومنین ہی کی ہے اور جس دین کا ماننے والا قاضی’امیرالمومنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا ہے اور امیرالمومنین اس فیصلے کو بلاحیل و حجت تسلیم کرلیتا ہے وہ یقینا سچا ہے: [أشھد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أن محمدا عبدہ ورسولہ] امیرالمومنین اس یہودی کے اسلام قبول کرلینے پر اتنے مسرور و شادماں ہوتے ہیں کہ اس یادگار میں اپنی زرہ اسے دے دیتے ہیں۔

﴿……۳……﴾

عدل گستری کا ایک منظر اور ملاحظہ فرمایئے:

عدالت کا اجلاس ہو رہا ہے’ اپنے عہد کے بلند پایہ عالم اشعث بن قیس تشریف لاتے ہیں’ جسٹس شریح اٹھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے شیخ اور سردار! خوش آمدید! پھر انھیں اپنے پہلو میں بٹھا لیتے ہیں اتنے میں ایک شخص داخل ہوتا ہے’ وضع قطع اور لباس وغیرہ بتا رہے ہیں کہ کوئی عامی ہے۔ وہ اشعث کے خلاف دعویٰ کرتا ہے اور عدالت سے انصاف چاہتا ہے ۔ جسٹس شریح اس کا بیان لیتے ہیں جونہی سارا واقعہ سنتے ہیں’ ان کی نگاہیں بدل جاتی ہیں اور اشعث کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:‘‘اشعث! یہاں سے اٹھو’ مدعی کے پاس کھڑے ہوجاؤ اور جواب دعویٰ پیش کرو’’۔اشعث جسٹس شریح کے اس طرزِعمل پر چونک پڑتے ہیں اور کہتے ہیں: میں یہیں بیٹھ کر ان کی باتوں کا جواب دوں گا’’۔

جسٹس شریح کی باوقار اور بلند آواز عدالت میں گونجتی ہے’ فوراً کھڑے ہوجاؤ ورنہ میں کسی کو حکم دوں گا کہ وہ تمھیں اٹھا دے’’۔ عدالت میں سناٹا طاری ہے۔ اشعث چپ چاپ اُٹھتے ہیں اور مدعی کے پاس جاکر کھڑے ہوتے ہیں۔

﴿……۴……﴾

کسی جج کو عدل وا نصاف کی راہ سے بہت سے امور منحرف کرسکتے ہیں’ اعلیٰ حکام کا دباؤ ان کا لحاط’ عزیز و اقارب کا پاس’ سفارش’ رشوت اور ظاہر فریبی۔ جن دنوں کا ذکر ہو رہا ہے’ اس وقت تک عدالت پر اعلیٰ حکام یا خود سربراہِ مملکت کے دباؤ کا ابھی تصور تک سایہ فگن نہیں ہوا تھا۔ رہا لحاظ اور مروت تو اُوپر کے مناظرشاہد ہیں کہ جسٹس شریح عدل و انصاف کے باب میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ اگر امیرالمومنین کی پیش کردہ شہادت بھی ناقص ہوتی ہے تو ان کا دعویٰ مسترد کردیتے ہیں’ اپنے ایک دوست اور وقت کے بہت بڑے قابلِ احترام عالم کو بھی بھری عدالت میں مدعی کے دوش بدوش جا کھڑے ہونے کا حکم صادر کرتے ہیں اور ان کی طرف سے نادانستہ گریز کا اظہار دیکھ کر جبراً اُٹھا دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔

عزیز و اقارب کا پاس بھی عموماً عدل کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے دور میں کوئی عادل جج کسی ایسے مقدمے کی سماعت نہیں کرتا جس کا تعلق اس کے اپنے عزیز و اقارب یا دوست احباب سے ہو’ خود فریق مخالف بھی ایسی صورت میں خواہش مند ہوتا ہے کہ مقدمہ کسی دوسری عدالت میں منتقل ہوجائے’ لیکن اس زمانہ میں اس بنیاد پر انتقالِ مقدمہ کا دستور نہیں تھا۔ دوسرے ججوں کی طرح جسٹس شریح کی عدالت میں بھی ان کے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے مقدمات پیش ہوتے ہیں اور ان کا فیصلہ کرنے میں وہ کسی تعلق کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگر ان کا لڑکا بھی قانون کی زد میں آجاتا ہے تو اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔

﴿……۵……﴾

ایک مرتبہ ان کا صاحبزادہ کسی ملزم کی ضمانت دیتا ہے’ ملزم بھاگ جاتا ہے’ جسٹس شریح ملزم کے بدلہ میں اپنے لڑکے کو جیل بھیج دیتے ہیں۔ایک بار ان کا اردلی کسی شخص کے کوڑے مارتا ہے’ مضروب ان کی عدالت میں استغاثہ دائر کرتا ہے اور وہ اردلی کو مضروب کے ہاتھوں کوڑے لگواتے ہیں۔ایک مرتبہ ان کے خاندان کا ایک فرد کسی شخص پر ظلم ناروا کرتا ہے۔ جسٹس شریح اسے ایک ستون سے بندھوا دیتے ہیں’ عدالت برخاست ہوتی ہے اور جانے لگتے ہیں تو وہ عزیز کچھ کہنا چاہتا ہے مگر شریح یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں مجھ سے کہنے سننے کی حاجت نہیں’ تمھیں حق نے قید کیا ہے۔

ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے کا چند دوسرے اشخاص سے کسی حق کے بارے میں تنازعہ ہوجاتا ہے’ لڑکا انھیں سارے واقعات بتا کر پوچھتا ہے۔ اگر مقدمے میں کامیابی کی امید ہو تو میں دعویٰ کروں ورنہ خاموش رہوں۔ شریح مشورہ دیتے ہیں مقدمہ دائر کردو’ مقدمہ انھیں کے سامنے پیش ہوتا ہے اور وہ لڑکے کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں’ گھر آتے ہیں تو لڑکا کہتا ہے میں نے آپ سے مشورہ نہ کرلیا ہوتا تو اس فیصلے پر مجھے شکایت نہ ہوتی۔ مگر آپ نے خود ہی مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا اور خود ہی میرے خلاف فیصلہ صادر کردیا۔ اس طرح مجھے ذلیل و رسوا کیا۔ جسٹس شریح کا جواب انصاف کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے’ کہتے ہیں: جانِ پدر! تم مجھے دنیا جہان سے عزیز ہو’ لیکن اللہ مجھے عزیز تر ہے’ مجھے ان لوگوں کا حق نظر آیا تھا اگر میں تمھیں بتا دیتا تو تم ان سے صلح کرلیتے اوران کا حق مارا جاتا’’۔

رشوت بھی حق و عدل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں اس کا چلن ہر زمانے میں رہا ہے اور یہ مختلف شکلوں میں موجود رہی ہے۔ رشوت کی ایک مہذب ترین صورت ہدیہ و تحائف ہیں۔ اہلِ معاملہ اپنے جائز و ناجائز امور و خواہشات پوری کرنے کے لیے عموماً انھی کا سہارا لیتے ہیں۔ جسٹس شریح کے پاس بھی ہدیہ و تحائف آتے ہیں’ ہدیہ تو وہ قبول کرلیتے ہیں مگر رشوت سے بچنے کے لیے فوراً ہدیہ دینے والے کوا پنی جانب سے ہدیہ دے دیتے ہیں۔

﴿……۶……﴾

جج اور قاضی بسااوقات ظاہر فریبی میں آجاتے ہیں۔ حقیقت کی تہ تک پہنچنے کے لیے نہایت گہری بصیرت اور عمیق نظر کی ضرورت ہے۔ جسٹس شریح بے حد دقیقہ رس ہیں’ اہلِ مقدمہ کی ظاہری حالت سے کبھی متاثر نہیں ہوتے۔ ایک عورت ایک مرد کے خلاف مقدمہ دائر کرتی ہے۔ عدالت میں آتی ہے تو زار و قطار رونے لگتی ہے۔ امام شعبیؓ بھی موجود ہیں۔ شریح سے کہتے ہیں یہ عورت مظلوم معلوم ہوتی ہے’ شریح کہتے ہیں: رونا مظلومیت کا ثبوت نہیں’ یوسف کے بھائی بھی اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے تھے۔

جسٹس شریح مقدمے کی گہرائیوں میں اترتے ہیں اور شہادتوں کو خوب جانچتے پرکھتے ہیں’ تاہم مقدمے کا انحصار چونکہ شہادتوں پر ہوتا ہے اس لیے جب دیکھتے ہیں کہ گواہ مشکوک ہیں’ مگر ان کی ظاہری صداقت پر گرفت نہیں کی جا سکتی تو گواہوں سے کہتے ہیں میں نے تمھیں طلب نہیں کیا’ تم جانا چاہتے ہو تو میں نہیں روکتا۔ تمھاری گواہی سے میرا دامن محفوظ ہوجائے گا’ تم بھی اپنے آپ کو بچاؤ’ مگر گواہ جھوٹی گواہی سے پھر بھی باز نہیں آتے’ پھر چونکہ جج کسی گواہ کو شہادت دینے سے نہیں روک سکتا’ اس لیے جسٹس شریح مجبوراً اس کی شہادت پر فیصلہ کر دیتے ہیں’ تاہم جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے اس سے کہہ دیتے ہیں کہ تم اس معاملہ میں ظالم ہو’ لیکن مقدمے کا فیصلہ مجھے اپنے خیال و گمان پر نہیں ثبوت کے مطابق کرنا ہے اس لیے یہ بات اپنی جگہ پر رہ جاتی ہے کہ جو چیز خدا نے تم پر حرام کی ہے میرا فیصلہ اسے حلال نہیں کر سکتا۔