آنسو

مصنف : واصف علی واصف

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2007

            آنسو وہ موتی ہیں جو رات کے آنگن میں درد والے دل کی سیپ کے باطن سے ظہورکرتے ہیں اور انسان کی آنکھ سے ٹپکتے ہیں۔ یہ آسمان فکر کے ستارے ہیں کہ اند ر کی آگ کے انگارے ہیں۔ آنسو کیاہیں ؟ بس موتی ہیں ، چمکنے والے ، بہنے والے ، گرم آنسو، فریاد کی زبان ہیں۔ پرانی یادوں کے ترجمان ہیں۔۔۔۔ یہ آنسو، انمول خزانہ ہیں۔ معصوم و پاکیزہ۔۔۔مستور دوشیزہ کے حسن سے زیادہ حسین، حور سے زیادہ مکنون اور یہ خزانہ کمزور کی قوت ہے ۔۔۔دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والا آب حیات کا چشمہ، سعادتوں کا سر چشمہ ، آرزووں کے صحرا میں نخلستانوں کا مژدہ ۔۔آنسو، تنہائیوں کا ساتھی، دعاؤں کی قبولیت کی نوید ، انسان کے پاس متاع بے بہاہے جو اسے دیدہ وری کی منزل عطا کرتی ہے ۔

            یہ موتی بڑے انمول ہیں ۔ یہ خزانہ بڑا گرانمایہ ہے ۔ یہ تحفہ فطرت کا نادر عطیہ ہے ۔ تقرب الہی کے ستاروں پر چراغاں کرنیوالے موتی انسان کے آنسو ہیں۔

            ان ستاروں ، چراغوں ، موتیوں کی قیمت یہ ہے کہ ان کی خریدار خود رحمت خرید ار پرودرگار ہے۔جس کی رات اشکوں سے منور ہے اس کا نصیب درخشندہ ہے ۔ اس کا مستقبل خود شناسی اور خود آگہی کا حق دار ہے ۔ یہ موتی کبھی رائیگاں نہیں جاتے ۔ یہ حساس روحوں کا مقدر ہے ۔ چشم تر بذات خود شعر تر ہے ۔ اس دنیا میں کسی اور دنیا کے سفیر آنسو ہیں۔ سوز نفس کا آہنگ دل خراش آنسوؤں سے فاش ہوتا ہے ۔ انسا ن کے آنسو اس کے لیے ادرا ک کی وسعتیں رکھتے ہیں۔ روح کی زبان آنسو ہیں۔ روح کی نوا اشک سحر ہے ۔ روح کی پرواز کو آنسو ہی توانائی عطا کرتے ہیں۔ خرد کی بے مائیگی کو سرمایہ جنوں عطا کرنے والا فرشتہ آنسوؤں کے ساتھ نازل ہوتا ہے ۔آہ سحر گاہی آہ رسا کا دوسرا نام ہے ۔ آنسو خالق اورمخلوق کے درمیان پردہ نہیں رہنے دیتے ۔ یہ وہ موتی ہیں جو انسان کو اس کے اپنے باطن سے آشنا کرتے ہیں۔ چشم گوہر بار عنایت پرودرگار ہے۔

            دنیاکے عظیم انسان نالہ نیم شب کی داستا ن ہیں۔راز ہائے سر بستہ آشکار ہو ہی نہیں سکتے جب تک آنکھ اشکبار نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں ایک گرو نے اپنے چیلے کو جڑی بوٹیوں کا رس اکٹھا کرنے کا حکم دیا۔ چیلے نے عمر بھر جواہر العقاقیر اکٹھا کرنے کا حکم دیا۔ چیلے نے عمر بھر جواہرالعقاقیر اکٹھا کیا ۔ وہ خوشی خوشی اپنے گرو کے پاس خزانے سے بھری ہوئی شیشی لے کر چلا۔ اسے ٹھوکر لگی اور اس کے ہاتھ سے شیشی گر کے چکنا چور ہو گئی۔ وہ تڑپا، پھڑکا اور لگا رونے اور پکارنے کہ ہائے میں بربا د ہو گیا۔ میری کمائی الٹ گئی ۔ میرا حاصل لا حاصل ہو گیا۔ اب تو میں بوڑھا ہو گیا ہوں اب میں دوبارہ کیسے جتن کروں۔میرے گرو ، میں مر گیا، میں تباہ ہو گیا۔میری دولت مٹی میں مل گئی ۔ اسکا گرو سنتا رہا اور پھر اس نے خوشی سے قہقہہ لگایا ۔ چیلے نے کہا گرو میں مر رہا ہوں اور آپ ہنس رہے ہیں۔ گرو نے کہا تم سمجھ رہے ہو تم لٹ گئے ، میں جانتا ہوں کہ آج تجھے وہ دولت مل گئی جس سے بوٹیوں میں رس پیدا ہوتا ہے۔خزانہ گم نہیں ہوا ، خزانہ مل گیاہے ۔ چیلے نے پوچھا کون سا خزانہ ، گرو نے کہا تیر ے آنسو، یہ آنسو نہ ہوں تو دنیا میں ویرانی آ جائے ۔ میرے چیلے تجھے مبارک ہو ۔ اب من کی چنتا سے آزاد ہو جا۔ اس دنیا میں دل کی بوٹی کا امرت رس حاصل کرنا ہوتا ہے ، یعنی آنسو۔ آج تو سرفراز ہے ۔ یہ تیرے من کے مند رکی مورتی کا درشن ہے ۔

             بہرحال انسان کے آنسو حصول رحمت کا قوی ذریعہ ہیں۔ آنسوؤں کی فریاد مقبول ہے ۔ نالہ نیم شب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مقبول ہے ۔بارگارہ صمدیت میں آنسوؤں کی درخواست رد نہیں ھوتی۔ آنسوؤں سے زمانے بدلتے ہیں، مقد ر بدلتے ہیں، نوشتے بدلتے ہیں، حوادث کے طوفانوں کے رخ پھر جاتے ہیں۔گرد ش ایام کے طور بدل جاتے ہیں۔ معصیت کو مغفرت مل جاتی ہے ۔ بد حال ماضی کو خوش حال مستقبل مل جاتا ہے ۔گمشد ہ برآمد ہو جاتا ہے ۔ بھٹکے ہوئے راہی صاحبان منزل بن جاتے ہیں۔ گرداب میں گھر ے ہوئے سفینے ساحل مراد تک آتے ہیں۔ فراق مجاز، وصال حق بن جاتا ہے ۔ اشکوں کے موتیوں کی مالا، عالم بالا تک کی خبر لاتی ہے۔ یہ سچے موتی ، گوہر ہائے تابند ہ انسان کو مایوس اورمرے ہوئے انسان کو زندہ کر جاتے ہیں۔

            جو فریاد لب اظہار تک نہ آ سکے وہ اشکوں میں بیان ہوتی ہے ۔مذہب ، رنگ اورنسل سے آزاد ہر انسان کی آنکھ میں ایک جیسے آنسو ہوتے ہیں۔ یہی انسان کاانسان سے واحد رشتہ ہے ۔ ہمدردی کا ، غمگساری کا ۔۔۔

            عشق کے مسافروں کا زاد راہ آنسو ہیں۔ عشق حقیقی ہو یا مجازی ،آنسوؤں سے عبارت ہے ۔ روضہ رسول پر حاضری دینے والے آنسوؤں کی زبان سمجھتے ہیں۔ یہ سرمایہ کسی کا احسان ہے ۔ کسی کی دین ہے ، کسی کا اعجاز ہے ۔ اللہ تعالی نے دریاؤں کو پہاڑوں کے آنسو فرمایا۔ بے اشک آنکھ کو پتھر کہا ، پتھر دل ، پتھر نصیب۔۔۔

            ہم اپنے اللہ کے سامنے کیا پیش کریں۔ نامہ اعمال تو پیش کرنے کے قابل نہ رہا۔ دفتر عمل میں کیا دھر ا ہے ۔ رہی عبادت ۔ منظور ہو کہ نہ ہو کیا کہہ سکتے ہیں۔ ابلیس کی کروڑوں سال کی عبادت ایک انکار سے رائیگاں ہو گئی۔ہم تو کتنے احکامات سے روگر دانیا ں کرتے ہیں، من مانیاں کرتے ہیں۔ ہم نادان انسان ، کیا پیش کریں۔ٹوٹے ہوئے دل اوربہتے ہوئے اشکوں کے ساتھ ہم اس کے سامنے سر بسجود ہیں کہ اے اللہ یہ حقیر سرمایہ ہی ہم اس زندگی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ندامت اورشرمساری کے نذرانے تیرے سامنے حاضر ہیں۔۔قبول فرما۔۔۔ اپنی بارگاہ بے نیازی میں۔ اپنی شان غفاری دکھا اور ہمارے اشکوں کو پذیرائی عطا فرما اور ہماری ملی اورانفرادی لغزشوں کو درگزر فرما اور عطا کر ہمیں اسلاف کا سوز دروں اورجذبہ صداقت ۔ ہماری التجا اورفریاد اورمدعا صرف یہی ہے کہ ہمارے ان موتیوں کو اپنی شان کریمی کی تابداری عطا فرما۔ تو جانتا ہے کہ ہم بے کس و بے بس ہیں۔تیرے حبیب کے نام لیوا ہیں اورہماری بساط میں کیا ہے ۔ قبول فرمالے ہماری فریاد جوصرف آنسوؤں کی زبان میں ہم بیان کر تے ھیں۔ تو اور تو ہی ہمارے آنسوؤں کا آخر ی سہارا ہے۔ تو قبول کر لے تو یہ موتی انمو ل ہیں تجھے موتی پسند ہیں ہم تیری بارگاہ میں یہ موتی پیش کرتے ہیں ہمارے موتی قبول فرما۔