الفاظ

مصنف : واصف علی واصف

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جنوری 2007

            ہرخیال اپنے مخصوص پیرہن میں آتا ہے یہ پیرہن الفاظ سے بنتا ہے ۔ خیال نازل فرمانے والے نے الفاظ نازل فرمائے ہیں۔ الفاظ ہی کے دم سے انسان کو جانوروں سے زیادہ ممتاز بنایا گیا۔ انسان اشرف ہے اس لیے کہ وہ ناطق ہے ۔انسان کو بیان کی دولت سے نوازا گیا اور بیان الفاظ کی ترتیب کا نام ہے۔حسن ترتیب الفاظ کی اپنی صفت ہے ۔انداز بیان بے شک انسان کا اپنا ہی ہے لیکن یہ خوبی دراصل الفاظ کی ساخت میں پنہا ں ہوتی ہے ۔موزوں الفاظ کا انتخاب ہی انسان کو صاحب طرز بناتا ہے ۔سنگ تراش کا فن یہ ہے کہ وہ پتھر میں چھپے ہوئے نقش کو اجاگر کرتا ہے ۔یہ کام بڑا کام ہے ۔ہر آدمی کے بس کا نہیں ۔ اسی طرح الفاظ سے مضمون اور مضامین سے الفاظ کے رشتوں کا علم ہی انسان کو مصنف بناتا ہے الفاظ کے بغیر حسن خیال بس جلوہ ہے ، صرف جلوہ۔ ایک گونگے کے خوبصورت خواب کی طرح۔ اور خیال کے بغیر الفاظ صرف ایک ڈکشنری ہیں۔ ایک ڈھیر ہے ایسی اینٹوں کا جنہیں کوئی عمارت بننا نصیب نہیں ہوا۔

            دنیا میں اصل قوت الفاظ کی ہے ۔اس کائنات کی ابتدا ایک لفظ سے ہوئی۔ ایک مقدس لفظ۔ایک امر، صاحب امر کا۔ ‘کن ’ کے لفظ میں ایک مکمل کائنات ، ایک مکمل نظام، ایک مکمل داستان پنہا ں تھی۔ یہ ایک ایسا لفظ تھا جس کی اطاعت میں آج تک ہر شے عمل پیرا ہے ۔

            الفاظ کی طاقت قدم قدم پر عیاں ہوتی ہے ۔ قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے الفاظ کا تازیانہ ہی کافی ہے ۔ قومی و ملی شعرا کا کمال الفاظ کے دم سے ہے ۔الفاظ خون میں حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔غلامی آزادی میں بدل جاتی ہے ۔ انسان کے عمل کی اصلاح ہو جاتی ہے کسی معاشرے میں استعما ل ہونے والے الفاظ کا بغور مطالعہ کرنے سے اس معاشرے کا اخلاقی معیار واضح ہو جاتا ہے۔ ترقی کرنے والے معاشروں میں اور طرح کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔اور ترقی پذیر میں اور طرح کے ۔

            الفاظ ہی امید کا چراغ روشن کرتے ہیں اور الفاظ ہی مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ الفاظ کی خاص ترتیب حدی خوانی کا کام کر تی ہے ۔ہمارے ترانے ہماری کیفیات کو ایک نہج کی طرف مائل کرتے ہیں۔ دشمنوں کے خلاف صف آرا ہونے کا عمل الفاظ کی بدولت ہی ممکن ہے۔

            محبت ایک جذبہ ہے ، ایک خواہش ہے کسی کے قریب ہونے کی۔ محبت خاموش بھی ہو سکتی ہے لیکن الفاظ محبت کو کچھ اور ہی چاشنی کچھ اور ہی رنگ عطا کر دیتے ہیں۔ محبت کرنا اپنی جگہ لیکن محبت کی تاثیرمیں ڈوبا ہوا شعر کچھ اور ہی جلوہ ہے۔محبت اتنی قابل محبت نہیں ہوتی جتنی اسے الفاظ بنا دیتے ہیں۔

            ہمارے رشتے ، ہماری چاہتیں ہماری نفرتیں اس لیے دیرپا ہیں کہ ہم انہیں الفاظ میں ریکارڈ کر دیتے ہیں۔کسی کو دوست کہہ دینے کے بعدہم اس کی جفائے وفا نما برداشت کرتے ہیں۔ دوستی کا جذبہ اندر سے کئی دفعہ زخمی ہوتا ہے لیکن ہم جذبوں کے سرد ہونے کے باوجود لفظ دوستی کو نبھاتے ہیں۔ الفاظ ہمارے تعلقات کو استقامت بخشتے ہیں۔ ہم رشتوں کو اس لیے بھی قائم رکھتے ہیں کہ انہیں رشتہ کہہ دیا جاچکا ہے ۔کہہ دینا ہی قیام ہے ۔ کلمہ پڑھنے والا زندگی بھر مسلمان رہتا ہے۔اگر اسلام کا مفہوم سمجھ نہ بھی آئے تو بھی مسلمان ہی رہتا ہے ۔کلمہ پڑھ لینے ہی سے مہر ثبات لگ جاتی ہے ۔

            الفاظ سے ہی قرآن ہے ۔ خد ا کے مقدس الفاظ بندوں کے نام، روح القدس کالایا ہوا پیغام پیغمبر کے ذریعے سے تمام بنی آدم کے لیے ۔ ان الفاظ کی ترتیب اتنی مستقل کہ اس کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لگا رکھی ہے۔قرآن کے الفاظ قرآن کے علاوہ استعمال ہو ں تو قرآن نہیں ، الفاظ خداکے ہوں تو قرآن ہے ۔ نبی کے الفاظ حدیث ہیں۔ بزرگان دین کے الفاظ ملفوظا ت ہیں ۔ داناؤں کے الفاظ اقوال ہیں۔ جتنی مقدس زبان سے اداہو ں گے اتنے ہی الفاظ مقدس ہو ں گے اوراتنے ہی موثر ہو ں گے ۔

            ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں۔ الفاظ کے حصارمیں رہتے ہیں۔ الفاظ کانوں کے راستے دل پر اثر کرتے ہیں اور دل پر اثر کے بعد اعضا و جوارح پر عمل کا حکم نازل ہوتا ہے اور یوں انسان کا کردار بنتا رہتا ہے ۔ اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ الفاظ ہی انسان کو پسندیدہ یا نا پسندیدہ بناتے رہتے ہیں ۔الفاظ خوشبو کی طرح ماحول کو معطر کرتے ہیں۔

             ہر سماج اور ہر گروہ کے الفاظ الگ الگ ترتیب رکھتے ہیں۔ آپ کسی کے الفاظ یا گفتگو سن کر یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس پیشے سے تعلق رکھتا ہے بازار میں بیٹھنے والے بازاری زبان استعمال کرتے ہیں ۔ دارالعلوم کے لوگ اور ہی زبان استعمال کرتے ہیں۔ علما کی زبان اور ہے حکما کی اور ہے، اسی طر ح جہلا کی زبان اور ہے ۔ فلمی ماحول کے الفاظ اور ہیں ، ڈرامے کے اور ،نثر کے اور ، اور شعر کے اور، شعر کی دنیا میں الفاظ کی ایک بندش بس معنی کے پرت کھولتی چلی جاتی ہے ۔ سامعین پر ایک کیفیت طاری کر دینا شعرکا اعجاز ہے۔دل سے نکلی ہوئی بات دلوں میں ایسے داخل ہوتی ہے کہ سامع کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ۔بولنے والے کا سوز الفاظ میں سوز پیدا کر دیتا ہے ۔ درد سے گایا ہوا کلام محفل میں عجب سماں پیدا کر دیتا ہے۔ الفاظ کے معنی پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ گانے والے کا سوز قلوب کو زندہ کر دیتا ہے۔

             ایک دفعہ عظیم پریم راگی نے اپنی ایک نجی محفل میں بہت گایا۔دیر تک محفل بپا رہی۔ سامعین محظو ظ ہوئے ۔ بہت ہن برسا۔ لیکن رنگ نہ برسا بس اندر ہی اندر وہ کچھ پریشان ہوئے۔ رات گہری ہو چکی تھی۔انہوں نے اپنے گرو کو یاد کیا ۔ دل کا چراغ روشن کر کے کچھ الفاظ اپنے پاس سے مرتب کر کے الاپنا شروع کیا ۔ الفاظ تھے۔

سیاں سے سیاں ملا جارے بالم

بالم سے بالم ملا جا رے سیاں

             بس کیا تھا۔ دل کے چراغ نے دلوں کے چراغ روشن کر دیے ۔ بے خودی ، محویت اور سرشاری کا عالم تھا۔ گانے والے کا درد بیدار ہوا کہ سب کا درد بیدار ہو گیا۔غرضیکہ الفاظ میں جادو بھرنے والی شے ادا کرنے والے کا جذبہ ہے ۔ بولنے والے کا لہجہ بھی الفاظ کے حسن کو متاثر کرتا رہتا ہے ۔ میٹھے بول کو کرخت لہجہ مل جائے تو بول میٹھا نہیں رہتا۔ مولانا روم نے ایک کہانی بیان فرمائی ہے ایک دفعہ صحرا میں دو قافلے قریب قریب آکر ٹھہرے ۔ ایک قافلہ مسلمانوں کا تھا دوسرا یہودیوں کا۔ صج کے وقت مسلمانوں نے فجر کی اذان کہی اور نماز ادا کی۔ اتنے میں یہودیوں کے کیمپ کی طرف سے ایک آدمی ایک تھال میں کچھ تحائف لے کر مسلمانوں کے کیمپ میں داخل ہوا اور امیر قافلہ سے ملاقات کی تمنا کی ۔ملاقات ہوئی تو آنے والے نے کہا یہ حقیر سا تحفہ ہمارے سالار قافلہ نے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔ مسلمان امیر نے کہا آخر کس لیے ؟ آنے والے بولا جناب ہمارے امیر کی بیٹی اسلام قبول کر چکی تھی۔ اور وہ کسی قیمت پر اسلام کو ترک نہ کرتی تھی۔ ہمارے قافلہ سالار نے بڑی کوشش کی لیکن وہ نہ مانی۔ آخر صبح آپ کے موذن نے اذان کہی وہ کچھ اتنے کرخت لہجے میں تھی کہ ہمارے سردار کی بیٹی اپنے پرانے دین پر واپس آ گئی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ موذن اور مبلغ کو خوش الحان ہونا چاہیے ۔ اچھی دعوت کو اچھے انداز سے پیش کرنا ہی اچھی بات ہے ۔ رسم اذان کو روح بلالی کی کتنی ضرورت ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

            علاقائی الفاظ علاقائی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہوتے ہیں۔ کسی انسان کے ذخیر ہ الفاظ سے یہ معلوم کرنا آسان ہے کہ وہ آدمی کون سے علاقے کا رہنے والا ہے اور کون سے پیشے سے تعلق رکھتا ہے ۔ تشبیہہ اور استعارے کے الفاظ بھی علاقے اورزمانے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ صحرائی لوگوں کے الفاظ اور ہیں کوہستانی لوگوں کے اور ۔ میدانی لوگوں کی زبان مختلف ہوتی ہے ۔ بہر حال الفاظ کی حرمت بولنے والے کے انداز اور لہجے کے دم سے ہے ۔ مقدس الفاظ کو منز ہ زبان میسر نہ ہو تو لفظ اپنی تاثیر کھو بیٹھتا ہے۔

            ہم نے قوم ہونے کی حیثیت سے الفاظ کے استعمال پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے ہم بے جہت و بے سمت الفاظ کے سیلاب میں ڈوبے جارہے ہیں۔ ہر روز لاکھوں الفاظ اخبار میں چھپ رہے ہیں کالم کے کالم چھپ رہے ہیں لیکن میٹھے بول ختم ہو رہے ہیں۔ دلوں کو زخمی کرنے والے الفاظ عام ہیں زخموں کے مرہم کہاں ہیں۔ کرامتیں بننے والے الفاظ کہاں غائب ہو گئے ؟ انسان کو انسان کے قریب لانے والے الفاظ کہاں گم ہو گئے؟آج نہ جانے کیوں لوگوں کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لیے نہ وقت ہے نہ الفاظ۔ اپنی کوتاہی پر معذرت کرنے کی نہ توفیق ہے نہ جرأ ت۔ آج کسی سیاسی اجتماع میں بولے جانے والے الفاظ کو غو ر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہم لوگ کہاں سے چلے تھے اور کہاں آ گئے۔تلخ الفاظ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ میٹھا بول زند ہ کرنا چاہیے۔ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو اپنا یا جائے تو ہمار ا انداز کلام یکسر بدل سا جائے ۔ لوگ اپنی زندگی میں مطمئن ہو جائیں ۔ میٹھے بول سننے سے زبان میٹھی ہو جاتی ہے ۔ اوریوں مٹھاس سے مٹھاس پیدا ہوتی رہے گی۔جب سے انسان کااحترام کم ہوا الفاظ کا احترام بھی کم ہو گیا۔ الفاظ کے انتخاب میں ذرا بھی احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا۔ اور نتیجہ یہ کہ ہر دل زخمی ، ہر انسا ن آزردہ ۔ ہماری زبان تلوار کی کاٹ سے کم نہیں۔

             بعض اوقات صداقت کی زبان بھی اتنی تلخ ہوتی ہے کہ بس خدا کی پناہ۔ اگر کسی انسان کی ایک آنکھ کام نہ کرتی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اس کے منہ پر ہی اسے کانا کہہ دیا جائے ۔ ہر چند کہ یہ صداقت ہے لیکن یہ ایک بدتمیزی کا مظاہرہ ہے صداقت کا غیر محتاط اظہار بھی باعث پریشانی ہو سکتاہے۔ایک دفعہ ایک بادشاہ نے ایک دست شناس و ستارہ شناس انسان کو بلایا۔ اس سے اپنا احوال پوچھا ۔ منجم نے حساب لگایازائچہ بنایا اور بادشاہ کو اطلاع دی جہاں پناہ آپ کے سب عزیز آپ کے سامنے مر جائیں گے۔ بادشاہ اتنی بری خبر پر بڑا پریشان ہوا۔ اسے غصہ آ گیا کہ منجم نے خبر کیا دی ہے ۔ اس نے منجم کو گرفتار کرا دیا۔ سلطنت میں منادی کرا دی گئی کہ کوئی اورمنجم بادشاہ کے لیے حساب لگائے ۔ایک آدمی حاضر ہوا۔ اس نے زائچہ بنایا حساب لگایا اور کہا کہ جہاں پناہ آپ کی عمر طویل ہے آپ اپنے سب عزیزوں سے زیادہ عمر پائیں گے ۔ بادشاہ خوش ہو گیا بولا مانگ کیا مانگتا ہے؟ منجم نے کہا جہاں پناہ میرے استاد کو رہا کر دیں۔ سلطان نے وضاحت چاہی تو منجم نے کہا گرفتار منجم میرا استاد ہے ۔ اس نے بھی وہی کچھ بتایا جو میں نے بتایا لیکن وہ الفاظ کے انتخاب میں محتاط نہ ہو سکا۔ آپ عزیزوں سے زیادہ عمر پائیں یا آپ کے عزیز آپ سے پہلے مر جائیں بات تو ایک ہی ہے لیکن ادائیگی مختلف ہے اور یہی چیز اہم ہے کہ ہم الفاظ کو کس طرح استعمال کر تے ہیں۔

            الفاظ بھی خاندان رکھتے ہیں۔ قصیدے کے الفاظ اور ہوتے ہیں اورمرثیے کے اور تنقید کے اور توصیف کے اور، مثنوی کے اور ، رزمیہ اور عشقیہ اور غزل کے اور، کیا سمجھنے کی ضرورت نہیں کہ شرافت کے الفاظ کون سے ہیں اور غیر شرافت کے کون سے ؟ بدمزاج ہونا اتنا خطرناک نہیں جتنا بدتمیز ہونا۔ کیونکہ بد تمیز آدمی الفاظ کے غلط استعمال کا مجرم ہوتا ہے۔

            الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق نعمت ہے ۔ یہ نعمت بھی کم انسانوں کو نصیب ہوتی ہے الفاظ سے ماحول کو خوشگوار بنانے کا کام لیا جائے توبڑی بات ہے ۔ خالی الفاظ نگلنے اور الفاظ اگلنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ الفاظ سے ماحول روشن کیا جائے ۔ الفاظ سے دلوں کو خوش کیا جائے الفاظ سے تعمیر ملت کے عظیم کام میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کو آمادہ کیا جائے ۔الفاظ حقیقت ہیں۔ الفاظ امانت ہیں۔ الفاظ دولت ہیں۔ الفاظ طاقت ہیں۔ انہیں ضائع نہ کیا جائے انہیں رائیگاں نہ ہونے دیا جائے۔