نیٹ سائنس

مصنف : محمد رفیع مجاید

سلسلہ : سائنس و ٹیکنالوجی

شمارہ : جنوری 2007

چکوترے سے مسوڑے مضبوط

             دو ہفتے روزانہ دو گریپ فروٹ کھانے سے دانت مضبوط ہوتے ہیں:تحقیق کارروں نے پتا چلایا ہے کہ چکوترہ مسوڑوں کی بیماریاں کیخلاف ایک مفید علاج ہے۔جرمن تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسوڑوں کے مرض میں مبتلا لوگ اگر دو ہفتوں تک تواتر کے ساتھ دو چکوترے روزانہ کھائیں تو اس سے دانتوں سے خون بہنا ختم ہو جاتا ہے۔مسوڑوں کے مرض میں مبتلا اٹھاون لوگوں پر تحقیق کرنے کے بعد جرمنی کی فریڈرک سیلیر یورنیوسٹی نے کہا ہے کہ چکوترہ کھانے سے خون میں وٹامن سی کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے مسوڑوں سے خون رسنا کم یا بند ہو جاتا ہے۔

             مسوڑوں کی بیماریوں میں مبتلا اٹھاون لوگوں پر تحقیق شروع کرنے سے پہلے جب ان لوگوں کے خون کے نمونے لیے گئے تو پتا چلا کہ ان تمام لوگوں میں وٹامن سی کی مقدار صرف انتیس فیصد تھی۔تمباکو نوشی مسوڑوں کی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ مانی جاتی ہے۔تمباکو نوشی کرنے والوں میں چکوترہ کھانے سے بھی وٹامن سی کی تعداد اس رفتار سے نہیں بڑھتی ہے جس طرح تمباکو نوشی نہ کرنے والوں میں بڑھتی ہے۔تحقیق کار اس بات کا پتا نہیں چلا سکے ہیں کہ تمباکو نوشی کرنے والوں میں وٹامن سی کی مقدار کیوں نہیں بڑھ پاتی ہے۔مسوڑوں کی بیماریاں دانتوں کے کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ مانی جاتی ہیں۔

کوک کرے دانت خراب

            تحقیق کے مطابق نوجوانوں میں دانتوں کی خرابی اور دانت جھڑنے کی اہم وجہ مختلف تیز جھاگ والی مشروبات یا کوک کا استعمال ہے۔ برٹش ڈینٹل جرنل کی ایک تحقیق کے مطابق دانتوں کے کیڑا لگنے کی بڑی وجہ کوک جیسی مشروبات ہیں۔ اس طرح دانت گرنے کا خطرہ بارہ برس کے بچوں میں انسٹھ فیصد ہے اور چودہ برس کے بچوں میں یہی خطرہ دو سو بیس فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔ایسے نوجوان جو کوک یا تیز جھاگ والی مشروبات کے چار گلاس روزانہ کے حساب سے پی رہے ہیں ان میں دانتوں کے خراب ہونے یا جھڑنے کا خطرہ دو سو باون فیصد تک بڑھ سکتا ہے اور یہی خطرہ چودہ برس کے بچوں میں پانچ سو تیرہ فیصد تک ہو سکتا ہے۔ایک ہزار بچوں پر کیے گئے سروے کے مطابق بارہ برس کے بچوں کی ایک تہائی تعداد تیزجھاگ والی مشروبات یا کوک پینے پر آمادہ نظر آتی ہے جبکہ چودہ برس کے بچوں میں یہی رجحان بانوے فیصد سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اور دونوں عمروں کے بچوں میں سے چالیس فیصد تقریباً روزانہ تین یا تین سے زائد گلاس کوک پینے کی عادت پر مجبور ہیں۔برٹش ڈینٹل ایسوسی ایشن کی پروفیسر لز کے کا کہنا ہے کہ دانتوں کا جھڑنا برطانوی بچوں میں ایک بڑا مرض بنتا جا رہا ہے۔ لیکن کئی والدین اس حقیقت سے آگاہ ہی نہیں کہ دانتوں کو کیڑا لگنے اور جھڑنے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس صورتحال پر برٹش سافٹ ڈرنکس ایسوسی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کوک کی صنعت سے وابستہ لوگوں کو اندازہ ہے کہ کوک یا اسی طرح کی تیز جھاگ والی مشروبات دانتوں کے جھڑنے کا بڑا سبب بن رہی ہیں۔برطانوی سافٹ ڈرنکس ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ جو لوگ کوک یا اس جیسی دوسری مشروبات پیتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ دن میں دو بار فلورائیڈ والے ٹوتھ پیسٹ سے دانت صاف کیا کریں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہنا ہے کہ دودھ پینے والے بچوں کو بوتلوں میں کوک یا پھلوں کا شربت دینے سے بھی پرہیز کیا جانا چاہیے۔

غصہ اپنی جان پر ظلم

            طبی سائنسدانوں کے مطابق زیادہ غصیلی طبیعت والے نوجوان اپنی صحت کے لیے مسائل پیدا کر لیتے ہیں۔امریکہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جن نوجوانوں کو غصہ آتا ہے وہ اپنی صحت کے لیے مسائل پیدا کر لیتے ہیں اور وہ موٹاپے کی طرف بھی مائل ہوجاتے ہیں۔امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محققین نے کہا کہ غصہ کو دبانے سے بھی صحت کی خرابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

دل کے معالجوں کا کہنا ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے دل کی بیماری لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ٹیکساس یونیورسٹی میں قائم صحت کے مرکز میں ڈاکٹروں نے ایک سو ساٹھ بچوں کا جن کی عمریں چودہ سے سترہ سال کے درمیان تھیں، تین سال تک مشاہدہ کیا۔انہوں نے نفسیاتی طریقے استعمال کرکے یہ مشاہدہ کرنے کی کوشش کی کہ ان بچے اور بچیوں کا غصے میں کیا رد عمل ہوتا ہے۔اس مشاہدے سے انہیں معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے غصہ پر قابو پا لیتے ہیں ان میں موٹاپے کی طرف مائل کرنے والا مادے کم پیدا ہوتے ہیں۔جبکہ جن لوگوں کو اپنے غصے پر قابو پانے میں مشکل پیش آتی ہے ان میں ایسے فاسد مادے زیادہ پیدا ہوتے ہیں جس سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔تحقیق کرنے والے ڈاکٹر ولیم میولر کے مطابق غصے میں غیر صحت مندانہ رد عمل کے باعث وزن بڑھنے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔غصے کے باعث لوگوں کے کھانے پینے کے اوقات خراب ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں دل کے امراض کم عمری ہی میں جنم لینے لگتے ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچوں کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ورزش اور غذا سے حل نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے نفسیاتی مسائل کا بھی حل ضروری ہے۔

تین سیب روزانہ، دل توانا

            نئی تحقیق ایک نہیں اب تین۔ایک حالیہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اگر تین سیب روزانہ کھائے جائیں تو دل کی بیماری کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ سیب میں ایسے ریشے پائے جاتے ہیں جو کولیسٹرول پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں کے مطابق جو لوگ اپنی خوراک میں روزانہ دس گرام ریشے والی غذا کا استعمال کرتے ہیں ان میں عارضہ قلب میں مبتلا ہونے کا خدشہ چودہ فیصد تک کم ہو جاتا ہے جبکہ دل کی شریانوں میں دوران خون کے بہاؤ میں کسی قسم کی رکاوٹ ستائیس فیصد تک کم ہونے کا امکان ہے۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایک درمیانے سائز کے سیب میں تین گرام ریشے پائے جاتے ہیں، گندم کی بھوسی کی روٹی میں ڈیڑھ گرام اور براکلی کے ایک ڈنٹھل میں تقریباً تین گرام ریشے ہوتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے مطابق پھل، سبزیاں اور دالیں فشار خون کو کنٹرول میں رکھتے ہیں اور کولیسٹرول کو بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اسی تحقیق میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ نشاستے سے بھرے کھانے جیسے مکئی کے دانوں اور مٹر میں غذائیت کم اور شکر زیادہ ہوتی ہے جو لوگوں میں ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا موجب بنتے ہیں۔

پھل، سبزیاں اور سرطان سے بچاؤ

             پھل اور سبزیاں کھانے سے کینسر سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔انتڑیوں کا کینسر سب سے عام کینسروں میں شمار کیا جاتا ہے مگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے کینسر سے بچنا سب سے آسان ہے۔‘دی انسٹیٹوٹ آف فوڈ ریسرچ’ نامی ادارے کی نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق کھانے پینے کی عادات سے اس مرض سے بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔اس تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں انتڑیوں کے کینسر سے بچنے کے لیے مفید ہیں۔ اس میں خاص طور پر پیاز، سیب اور دیگر سبزیوں کے فائدوں پر زور دیا گیا ہے۔انسانی انتڑیوں پر اندر سے خلیوں کی ایک تہہ ہوتی ہے جسے ‘اپیتھیلیم’ کہتے ہیں۔ کھانے پینے کی کوئی بھی چیز سب سے پہلے ‘اپیتھیلیم’ سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے۔ کئی بار اس تہہ کے خلیے خلاف معمول تقسیم ہو کر ٹیومر میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔خیال کیا جاتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں پائے جانے والے کچھ کیمیائی مادے کینسر سے بچاؤ میں مدد کر سکتے ہیں۔دی انسٹٹیوٹ آف فوڈ ریسرچ کے پروفیسر ایئن جانسن کا کہنا ہے کہ انتڑیوں اور نظام ہاضمہ سے متعلق کینسر دنیا بھر میں نہایت ہی عام ہیں مگر ان کی تعداد ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں تقریباً اسی فیصد کھانے پینے کی عادات کی وجہ سے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے وزن اور کھانے پینے کا خیال رکھنے سے ہر انسان خود کو کینسر سے بچانے میں مدد کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن میں کم ازکم پانچ پھل اور سبزیاں کھانے سے عام طور پر بچاؤ میں مدد مل سکتی ہے۔

دانت اگائے جا سکیں گے

            جاندار دانت مسوڑوں کے لئے مصنوعی دانتوں سے زیادہ مفید ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اب نئے متبادل دانت نکل سکیں گے جس کے باعث مصنوعی دانتوں کا استعمال ختم ہو جائے گا۔لندن کے کنگز کالج کو پانچ لاکھ پاؤنڈ کی رقم دی گئی ہے تاکہ وہ سٹیم سیلز کی مدد سے منہ میں نئے دانت اگانے کی ٹیکنالوجی کو عملی جامہ پہنا سکے۔کنگز کالج لندن کی قائم کردہ کمپنی ‘اوڈونٹِس’ امید کر رہی ہے کہ وہ چوہوں پر اس تحقیق کے تجربات کے بعد آئندہ دو برس میں انسانوں پر آزمائشی تجربات کا آغاز کرے گی۔سٹیم سیلز کو دانتوں میں نمو پذیر کئے جانے کے بعد انہیں مریض کے منہ میں لگایا جائے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس عمل کے بعد متبادل نئے دانت دو ماہ میں پوری طرح نکل آئیں گے۔تاہم اس ٹیکنالوجی اور سہولت کے عام لوگوں تک پہنچنے میں پانچ برس لگ سکتے ہیں۔برطانوی لوگ پچاس سے زائد برس کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد اوسطاً بارہ دانت کھو چکے ہوتے ہیں۔لندن کنگز کالج کے ڈینٹل انسٹی ٹیوٹ میں جاری اس تحقیق کے پیچھے پروفیسر پال شارپ کی کوششیں کارفرما ہیں جو اس نئی تکنیک کے جینیاتی پہلو پر تحقیق کر رہے ہیں۔پروفیسر پال شارپ کے بقول اس ٹیکنالوجی کا اہم فائدہ یہ ہے کہ ایک جاندار دانت مصنوعی دانت کی نسبت اپنے آس پاس کے ٹِشوز کی زیادہ بہتر طریقے سے حفاظت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چبانے کے عمل کے دوران میں دانت حرکت بھی کرتے ہیں اور اسی باعث آس پاس کے مسوڑوں اور دانتوں کی صحت بحال رہتی ہے۔اس جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نصب کئے جانے والے جاندار دانتوں پر بھی اتنا ہی خرچہ آئے گا جتنا مصنوعی طریقے سے لگائے گئے دانتوں پر آتا ہے یعنی ڈیڑھ سے دو ہزار پاؤنڈ۔

( بحوالہ ،بی بی سی ڈاٹ کام)