انسان پر انسان کی حاکمیت کی تاریخ

کیا غلامی دنیا سے ختم ہوگئی؟

غلامی آزادی و جمہوریت کی ضد ہے۔ انسان کے وہ بنیادی حقوق جو محض انسان ہونے کی حیثیت سے اسے حاصل ہیں اور ناقابلِ تنسیخ سمجھے جاتے ہیں، غلامی میں پامال ہوجاتے ہیں۔ غلامی کے آغاز کے بارے میں مختلف مؤرخین کی مختلف آرا ہیں۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ غلامی کا آغاز زرعی دور سے ہوا، جب کہ دیگر مؤرخین کا خیال ہے کہ قبائل کی باہمی جنگ و جدل نے غلامی کو رواج دیا۔ جدید دور میں جس کا عرصہ گذشتہ پانچ صدیوں پر محیط ہے، یورپی قوموں نے غلامی کو انتہائی وسعت دی۔ اس دور میں افراد ہی نہیں قوموں کو بھی بے دریغ غلام بنایا گیا۔ یورپ کی تمام تر ترقی اسی غلامی کی مرہونِ منت ہے۔ ہم اس کہانی کی ابتدا یونانی تہذیب سے کرتے ہیں۔

یونانی تہذیب اور غلامی

یونانی معاشرہ دو بڑے طبقات پر مشتمل تھا: آقا اور غلام طبقہ۔ آقا خود کو حاکم کہتے اور غلاموں کو محکوم قرار دیتے تھے۔ یہ تقسیمِ طبقات ان کے نزدیک فطرت کی وضع کردہ تھی۔ لہٰذا غلام طبقے کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ یہ ناقص العقل گروہ ہے جس سے فہم و فراست اور عقل و تدبر کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ ان سے دولت پیدا کرنے کا کام تو لیا جاسکتا ہے، لیکن امورِ مملکت جیسی نازک ذمہ داری ان پر نہیں ڈالی جاسکتی۔

افلاطون (۴۲۷- ۳۴۷ ق م) اپنی کتاب ری پبلک (Republic)میں کہتا ہے:

‘‘شہریو! تم آپس میں بھائی بھائی ضرور ہو مگر خدا نے تمہیں مختلف حالتوں میں پیدا کیا ہے۔ تم میں سے کچھ میں حکمرانی کی صلاحیت ہے اور انہیں خدا نے سونے سے بنایا ہے۔ کچھ چاندی سے بنائے گئے ہیں جو ان کے معاونین ہیں۔ پھر کاشتکار اور دستکار ہیں جنہیں اس نے پیتل اور لوہے سے بنایا ہے’’۔

اس تفریقِ معاشرت کی بنا پر ان کے درجات اور معاشرتی مقام جدا جدا تھے۔ چونکہ ملکی دولت اور پیداوار کے لیے غلاموں کا وجود ضروری تھا لہٰذا وہ ان کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے جنگ کو بھی جائز قرار دیتے تھے۔ اس فلسفے کی رُو سے غلاموں کے ساتھ عدل و انصاف کرنا بھی ضروری نہیں تھا، لہٰذا یونان میں عدل و انصاف اور مساوات جیسی چیزیں صرف آزاد شہریوں کے لیے تو ضروری خیال کی جاتیں، غلاموں کے لیے نہیں۔ افلاطون کا کہنا تھا:

‘‘میں اعلان کرتا ہوں کہ انصاف طاقتور کے مفاد کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا میں ہر جگہ انصاف کا بس ایک ہی اصول ہے اور وہ ہے طاقتور کا مفاد اور یہ کہ غلاموں کو وہی سزا ملنی چاہیے جس کے وہ مستحق ہیں۔ انہیں آزاد شہریوں کی مانند صرف سرزنش نہیں کرنی چاہیے ورنہ ان کا دماغ خراب ہوجائے گا’’۔

یہ ہے آقا اور غلام کی تقسیم پر یونانی تہذیب کے ایمان کا حال۔ اس تقسیم کی رُو سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ عدل و انصاف اور مساواتِ انسانی کے عالم گیر اصول بھی اس لیے قابلِ قبول نہیں ہیں کہ وہ سب انسانوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

غلام کون لوگ تھے؟

یونان میں جتنے بھی پیشہ ور لوگ تھے وہ غلام تصور کیے جاتے تھے ان میں کاشت کار، تاجر، بڑھئی، لوہار، سنار، درزی، چمڑے کا کام کرنے والے اور کشتیاں بنانے والے سب غلاموں کے زمرے میں آتے تھے۔عورتیں، مقروض اور کمزور حیثیت کے مالک بھی اس میں شامل تھے۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ: ‘‘غریب لوگ امیروں کے پیدائشی غلام ہیں۔ وہ، ان کی بیویاں اور بچے بھی۔ غلامی کی اس تعریف کے نتیجے میں یونانی ریاستوں میں آزاد شہری کم اور غلام زیادہ تھے۔ ریاست کورنتھ میں ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ غلام تھے۔ ایجینیا میں غلاموں کی تعداد شہریوں سے دس گنا اور ایتھینز میں پانچ گنا تھی۔ اسپارٹا اور دیگر ریاستوں میں بھی یہی کیفیت تھی۔ یونان کی اس صورت حال پر طنز کرتے ہوئے رابرٹ ای ڈیوی کہتا ہے کہ تین لاکھ غلاموں اور ۹۰ ہزار نام نہاد آزاد شہریوں کے شہر میں بیٹھ کر افلاطون نے کیسے کیسے شاندار اور پُرشکوہ الفاظ میں آزادی کے گُن گائے ہیں۔

عورتوں کی غلامی

یونانی تہذیب میں عورتیں بھی بدترین غلامی کا شکار تھیں۔ ان کا حال مرد غلاموں سے بھی بدتر تھا۔ شوہر کے لیے اپنی بیوی کا قتل بالکل ایسا تھا جیسے وہ اپنے کسی پالتو جانور کو ذبح کردے۔ اس کے لیے یونانی قانون میں کوئی سزا نہ تھی۔ افلاطون کا کہنا تھا کہ نیکی کے معاملے میں عورت کی فطرت پست تر ہے۔ لہٰذا عورت کے لیے انصاف، تعلیم اور دیگر بنیادی حقوق کا تصور تک نہ تھا۔ اس کا کام محض مردوں کی خدمت کرنا یا بچے پیدا کرنا اور ان کی پرورش کرنا تھا۔

غلاموں کا قتلِ عام

یونانی تہذیب کی رو سے غلام کو قتل کردینا کوئی جرم نہ تھا۔ لہٰذا شہریوں کی طرف سے ان کا قتل ہوتا رہتا یہاں تک کہ بعض اوقات انفرادی سطح پر ہٹ کر اجتماعی قتلِ عام کی نوبت آجاتی۔ یونان میں غلاموں کی ایک قسم ایسی تھی جو نیم غلامی کے زمرے میں آتی تھی۔ ان میں ہیلاٹ (Hilots) بھی شامل تھے۔ یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے اور حکومت کو اپنی پیداوار کا ایک حصہ لازمی طور پر ادا کرنے کے پابند تھے۔ اسپارٹا والے ہمیشہ ان غلاموں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنائے رکھتے تھے۔ ایک جنگ میں اسپارٹا والوں کو ان غلاموں کی ضرورت پڑی لہٰذا ان کے بلاوے پر ‘ہیلاٹ’ جنگ میں شریک ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑے لیکن بعد میں اسپارٹا والوں کو خیال آیا کہ یہ لوگ اپنی بہادری کے گھمنڈ میں مبتلا ہوکر کہیں ہم پر ہی حملہ آور نہ ہوجائیں لہٰذا اسپارٹا والوں نے اعلان کیا کہ ہیلاٹوں میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ملک کی خدمت کی ہے وہ سامنے آئیں تاکہ انہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ اس کے نتیجے میں دو ہزار ہیلاٹ سامنے آئے۔ شہریوں نے انہیں پھولوں کے ہار پہنائے اور جلوس نکالا، پھر اُنھیں خفیہ طور پر قتل کردیا گیا کیونکہ شہریوں کا خیال تھا کہ ملک کی خدمت کرنے کے تصور نے ان کے دلوں میں اپنی بڑائی اور اہمیت کا خیال پیدا کردیا ہوگا جو شہریوں کے لیے خطرے سے خالی نہیں۔

فنیقیوں میں غلامی

سولہویں صدی قبل مسیح میں جبلِ لبنان اور بحرِروم کے درمیان ایک قوم رہتی تھی جو یہود اور عرب کے ہم جنس تھی۔ یہ لوگ اہلِ فنیقیہ تھے۔ فنیقیہ کے دو شہر بڑے مشہور تھے۔ ایک ‘صیدا’ دوسرا ‘صور’۔ یہ دونوں شہر لبنان میں آج بھی موجود ہیں۔ ان لوگوں کو بھی غلام رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ وہ ہر جگہ غلاموں کی جستجو میں رہتے خصوصاً جوان لڑکیاں اور لڑکے جنگی فاتحین سے خریدتے۔ ویسے جہاں موقع ملتا یہ لوگوں کو اغوا کرکے بھی لے آتے۔

مذکورہ بالا صورت حال کو سامنے رکھنے کے بعد آدمی اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ غلامی کی بنیادیں مضبوط کرنے میں یونانی تہذیب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

قدیم رومن تہذیب میں غلامی

رومی سلطنت نے (۳۳۷ء) نت نئے علاقے فتح کرکے دنیا کے بہت بڑے حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔ جتنے بھی علاقے فتح ہوتے ان کی پوری کی پوری آبادی غلام بنا لی جاتی۔ رومی امرا ان جنگی قیدیوں سے اپنی زمینوں کی آبادکاری (زراعت) کا کام لیتے۔ لہٰذا غلاموں کی خریداری معمول کی بات تھی۔ بعض فتوحات کے بعد ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ جنگی قیدی فروخت کیے گئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ رومی مملکت میں اسیرانِ جنگ کی مجموعی تعداد چھ کروڑ تک پہنچ گئی۔ اس وقت کی معلوم دنیا میں غلاموں کی اتنی بڑی تعداد کہیں بھی نہیں تھی۔ یاد رہے کہ اُس وقت رومی سلطنت دنیا کے بہت بڑے حصے پر قائم تھی۔

غلاموں کا کام

غلاموں سے لیے جانے والے کام کی نوعیت ہر دور میں تقریباً ایک جیسی رہی ہے۔ یعنی یہ کہ آقا اور فاتح ان سے اپنی خدمت کرواتے۔ رومی تہذیب میں غلاموں کے لیے ایک زائد کام بھی تھا اور وہ یہ کہ آزاد شہری ان کو اپنی تفریح کا ذریعہ بنایا کرتے۔ یہ ان کا انوکھا طریقہ تھا۔ انہوں نے اپنی تفریح اور کھیل تماشے کے لیے بڑے بڑے اکھاڑے بنارکھے تھے۔ یہ اکھاڑے ‘اسٹیڈیم’ کی شکل کے تھے۔ آج بھی ان اکھاڑوں کے کھنڈر روم (اٹلی) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

کھیل تفریح میں سفّاکی

اکھاڑے میں چاروں طرف تماشائیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی، درمیان (میدان) میں غلاموں کو شیروں اور چیتوں سے لڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا جب کوئی درندہ کسی غلام کو چیر پھاڑ دیتا یا غلام درندے کو مار ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا تو تماشائی خوشی سے تالیاں بجاتے۔ بعض اوقات یہ کھیل اتنے بڑے پیمانے پر ہوتے کہ کئی کئی ہزار آدمیوں کو بیک وقت تہِ تیغ کیا جاتا۔ ٹیٹوس (۷۹-۸۱ء ایک رومن بادشاہ) نے ایک دفعہ پچاس ہزار درندے پکڑوائے۔ پھر ہزار یہودیوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے درندے ان پر چھوڑ دیے گئے۔ ٹراجان (۹۸-۱۱۷ء) کے کھیلوں میں گیارہ ہزار درندے اور دس ہزار آدمی بیک وقت لڑائے جاتے۔ کلادیوس نے ایک دفعہ جنگلی کھیل میں ۱۹ہزار آدمیوں کو تلواریں دے کر ایک دوسرے سے لڑوایا۔ قیصرآگسٹس (۲۳-۱۴ ق م) نے اپنی وصیت میں جو تحریر منسلک کی تھی اس میں لکھتا ہے کہ میں نے آٹھ ہزار شمشیرزنوں اور ۳۵۱۰ جانوروں کے کھیل دیکھے ہیں۔ یہ سب تفریحات جنگی قیدیوں کے دم قدم سے چل رہی تھیں۔

مؤرخ جی ایچ ویلز ان تفریحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ‘‘متعدد شہروں میں تمام تر دلچسپیوں کا مرکز اکھاڑے کی کشتیاں تھیں جن سے خونی اشتعال (شوق) پیدا ہوتا تھا۔ ان میں انسان اور درندے ایک دوسرے کو چیرپھاڑ دیتے۔ رومی آثارِ قدیمہ میں یہی مدوّر (گول) اکھاڑے اہم تعمیرات مانے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں رومیوں کا شوقِ تماشا اور ذوقِ نظارہ اس انتہا کو پہنچا ہوا تھا کہ وہ مجاز کے بجائے حقیقت کے روپ میں ان نظاروں کو دیکھنا پسند کرتے تھے۔ مثلاً آگ کے شعلوں کو بلند ہوتے دیکھنا مطلوب ہوتا تو مصنوعی طور پر ایندھن کو آگ لگانے کی بجائے وہ کسی غلام کے گھر کو آگ لگا دیتے اور اس کے شعلوں سے لطف اندوز ہوتے۔ اگر کسی کی موت کا منظر دیکھنا مقصود ہوتا تو کسی غلام کو درندوں کے درمیان چھوڑ دیتے۔

غلاموں کا کام اپنے آقاؤں کے جنسی جذبات کی تسکین بھی تھا۔ غلاموں کی بیویاں اور لڑکیاں ان کے لیے ناچ گانے اور تفریح مہیا کرنے کے کام آتی تھیں۔ غلام عورتوں کو فروخت کرنا، کسی کو تحفے میں دے دینا یا ان کو قتل کردینا بھی معمول کی بات تھی۔ یہ نہ تو قانوناً جرم تھا، نہ معاشرتی روایات کے خلاف۔

غلاموں پر مظالم

رومی تہذیب میں غلاموں پر مظالم ڈھانا ایک عام بات تھی۔ وہ سب کچھ جو اس سے قبل یونانی تہذیب میں ہوتا تھا یہاں بھی مروج تھا۔ جس طرح ایک انسان کسی جانور کو بے دردی سے مار سکتا ، بیچ سکتا یا ذبح کرسکتا تھا اسی طرح ایک آقا بھی اپنے غلام پر یہ تمام حقوق رکھتا تھا۔ غلام آقا کی ملکیت شمار ہوتے۔ لہٰذا جب وہ اپنی دوسری جائداد فروخت کرتا تو ساتھ ہی غلام، ان کے بیوی بچے اور گھربار سبھی فروخت کر دیے جاتے۔

غلاموں کو سزا دیتے وقت ان کے اعضا توڑ دینا یا ان کے جسم سرخ لوہے سے داغ دینا تاکہ بھاگ جانے کی صورت میں شناخت ہوسکے، مروج تھا۔ جی ایچ ویلز لکھتا ہے: روم کے جمہوریہ بننے کے آخری اور ابتدائی دور میں اطالیہ میں زرعی غلاموں کو ہولناک زیادتیاں سہنی پڑیں۔ ان کے فرار کے سدّباب کے لیے رات کو انہیں زنجیروں میں باندھا جاتا یا ان کے سروں کے نصف بال منڈوا دیے جاتے تاکہ وہ شناخت کرلیے جائیں۔ ان کی اپنی بیویاں نہیں ہوتی تھیں، ان کے آقا کے پاس انہیں زد وکوب کرنے، اعضا کاٹ دینے، حتیٰ کہ قتل کردینے کا حق بھی ہوتا تھا۔ آقا اپنے غلام اکھاڑے میں درندوں سے دوبدو لڑانے کے لیے بیچ سکتا تھا۔ اگر ایک غلام اپنے آقا کو قتل کردیتا تو نہ صرف اسے بلکہ اُس گھر کے سبھی غلاموں کو سُولی پر ٹانگ دیا جاتا۔

اگر آقا سے کوئی جرم سرزد ہوجاتا تو وہ تعزیری قوانین کا سامنا کرنے کے لیے اپنے بدلے کسی غلام کو بھیج دیتا جس کو تفتیش کے دوران سخت اذیت دی جاتی اور اگر وہ اس کی وجہ سے زخمی ہوجاتا یا مرجاتا تو آقا الزام سے بری کردیا جاتا۔ پیڈانس کے چارسو غلام صرف اس لیے قتل کردیے گئے کہ گھر میں ان کے ہوتے ہوئے آقا قتل کردیا گیا تھا۔

غلاموں کی کثرت حکومت اور امرا کے لیے باعثِ فخر تھی۔ مفتوح قوموں کی آبادی کو حسبِ ضرورت ہانک کر اپنے ساتھ لے جایا جاتا اور خدمت پر معمور کردیا جاتا۔ غلام عورتیں امرا کے لیے عیاشی کا سامان ہوتی تھیں۔ دنیا میں غلامی کو رواج دینے میں رومی تہذیب نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جب رومی تہذیب پورے یورپ میں پھیل گئی تو ساتھ ہی غلامی کا رواج بھی عام ہوگیا۔

رومیوں نے نظامِ غلامی یونانیوں اور مصریوں سے ورثے میں پایا تھا اور سلطنت روم کی علاقائی توسیع کے ساتھ نظامِ غلامی بھی وسعت اختیار کرتا گیا۔ غلاموں کی زیادہ تعداد جنگوں کے ذریعے حاصل ہوتی تھی۔ قیصر کی مغربی مہموں کے نتیجے میں ۵۰ اور ۵۸ ق م میں پانچ لاکھ غلام فراہم کیے گئے جن میں بھاری تعداد شام، یونان اور مصر سے حاصل کی گئی۔ غلام معدنیات کی کانوں، زرعی زمینوں، عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں مثلاً کارنتھین (corinthian) جس پر نیرو (۵۴-۶۸ء) نے قیدیوں کی بہت ساری تعداد لگا رکھی تھی جو بطور چرواہے یا خدمت گار کام کرتے تھے۔ تھوڑی سی تعداد اکھاڑے میں لڑنے والوں (gladiators ) کی بھی تھی۔ یہ لوگ رومی اکھاڑوں میں جانوروں اور انسانوں سے لڑائے جاتے تھے۔

حضرت عیسٰی ؑ کی ولادت سے دو صدیاں قبل زرعی غلاموں کی تعداد کا تناسب بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ اٹلی میں خوراک کی قلت اور آزادی کی خواہش نے غلاموں کو عملی طور پر باغی بنا دیا تھا لہٰذا دوسری صدی (ق م) سسلی میں غلاموں کی دو شدید بغاوتیں ہوئیں جو دو سال تک جاری رہیں۔

روم آقا کو حق دیتا تھا کہ اپنے غلاموں کے کندھوں پر پالکی میں بیٹھ کر سفر کرے اور چاہے تو انہیں چابک سے لہولہان کردے۔ رومی قانون میں آقا کو ناقابلِ تنسیخ حق تھا کہ اس کے غلام اس کی سواری کے آگے آگے بھاگیں۔ غلام کو جوتے پہننے کا حق نہ تھا، وہ ننگے پاؤں سواریوں کے آگے آگے دوڑتے تھے۔ روم میں غلاموں کو زنجیروں میں جکڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا جاتا۔ ان کو کھانے کے لیے جو خوراک دی جاتی وہ جانوروں کے چارے سے بھی بدتر ہوتی۔ گندا پانی ان کی پیاس بجھانے کے لیے مخصوص تھا۔ انہیں اذیت پہنچانا مالکوں کے نزدیک فن تھا۔ انہیں بلاوجہ گلا گھونٹ کر یا پھانسی پر چڑھا کر مار دینا روزمرہ کا معمول تھا۔ وحشی جانوروں کے سامنے غلاموں کو پھینک دیا جاتا جو انہیں چیرپھاڑ ڈالتے۔ یہ سارا منظر مہذب آقاؤں کے لیے تفریح اور دل لگی کا سامان مہیا کرتا تھا۔ وہ بیٹھے قہقہے لگاتے اور درندے انسانوں کو پارہ پارہ کردیتے۔

روما کی حکومت آٹھ سو برس تک رہی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عہد عتیق کی سب سے بڑی، مہذب اور متمدن حکومت تھی لیکن ان کے تمدنی اصول و قواعد میں غلاموں کے لیے کچھ حقوق نہیں تھے اور انسانی زندگی کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہونے کا انہیں کوئی حق نہ تھا۔ انہیں زندہ رکھنے اور قتل کرنے میں آقا مختارِ کُل ہوتے تھے۔ کسی کو ان کے کسی فعل پر نکتہ چینی کا حق نہ تھا۔

امریکہ اور غلامی

امریکہ کی دریافت (۱۴۹۴ء) کے ساتھ ہی غلامی کا آغاز ہوگیا۔ جب کولمبس نے اس سرزمین پر قدم رکھا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پہلے سے انسان آباد ہیں۔ کولمبس نے انھیں ریڈ انڈین کا نام دیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جو سرزمین اس نے دریافت کی ہے وہ انڈیا ہے اور وہ آخر وقت تک اسے انڈیا ہی سمجھتا رہا۔

ریڈ انڈین کہاں سے آئے؟ اس کے بارے میں مؤرخین کا خیال ہے کہ تقریباً ۲۰ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ پہلے وہ ایشیا سے آئے تھے۔ ان دنوں ایشیا ایک تنگ خشک پٹی کے ذریعے امریکہ سے جڑا ہوا تھا جو بعد میں سمندر حائل ہونے کی وجہ سے جدا ہوگیا۔ ان کی تعداد اندازاً ۲۰ لاکھ تھی۔ وہ خانہ بدوش تھے جو اچھی چراگاہ اور خوراک کی تلاش میں جگہ جگہ نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔

جب کولمبس نے یہ ملک دریافت کیا تو مقامی لوگوں نے اس کی بہت آؤبھگت کی۔ اسے مہمان بنایا، علاقے کی سیر کرائی، اپنی فصلیں اور مچھلی پکڑنے کے مقامات دکھائے اور تحفے تحائف دیے۔ کولمبس امریکہ سے واپسی پر پچاس ریڈ انڈین کو بھی اپنے ساتھ لے گیا جنہیں اسپین میں بطور غلام فروخت کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جس سے امریکہ میں غلامی کا آغاز ہوا اور اس کا پہلا شکار ریڈ انڈین تھے۔ امریکہ دریافت ہونے پر یورپی لوگوں نے ادھر کا رخ کیا۔ زرخیز زمینوں کے لیے دوڑیں لگ گئیں۔ ابتدائی یورپی آبادکاروں میں اسپین، پرتگال اور فرانس تھے۔ بعد میں برطانیہ کے لوگ بھی آگئے۔ ان سب نے وہاں کالونیاں بنا لیں۔ کیوبا، جمیکا، ہیٹی اور پورٹ ریکو اسپینی باشندوں کی مشہور کالونیاں تھیں۔

ریڈ انڈین کی غلامی

یورپی باشندوں نے بڑے بڑے رقبوں پر قبضہ کر کے انہیں آباد کرنا شروع کیا۔ زمین زیادہ تھی اور افرادی قوت بہت کم، اس وجہ سے زرعی زمینوں کو آباد کرنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ زرعی زمینوں کی آبادکاری میں ریڈ انڈین سے مدد لی جاتی لیکن ملک وسیع تھا، زمینوں کے لیے ریڈ انڈین ناکافی ثابت ہوئے۔ پھر ریڈ انڈین غلامی قبول کرنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ وہ غلام بنائے جانے پر مزاحمت بھی کرتے تھے۔ یورپی لوگ ان پر تشدد کرتے اور جان سے بھی مار دیتے ۔ جواباً وہ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ جہاں ریڈ انڈین پر بے پناہ ظلم و ستم ہوا وہاں انہوں نے بھی مدافعت کرتے ہوئے کئی لوگوں کو قتل کیا۔ وہ جنگلوں میں روپوش ہوجاتے اور موقع ملنے پر وار کرتے۔ یوں یورپی آبادکار ان سے خوف زدہ رہتے۔ اس طرح یورپی لوگوں کے نزدیک وہ مفید غلام ثابت نہیں ہو رہے تھے اور پھر ان کی تعداد بھی ناکافی تھی جس سے کاشتکاری کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہو رہا تھا۔ لہٰذا ان کو متبادل انتظام کی تلاش تھی جس سے ان کی ضرورت پوری ہوسکے۔

یاد رہے کہ بالادست ہونے کی وجہ سے یورپی لوگوں نے ان کا شدید استحصال کیا۔ کچھ کو مار دیا، کچھ کو فروخت کردیا اور باقی ماندہ کو غیرآباد علاقوں اور جنگلوں میں دھکیل دیا جہاں وہ بھوک، پیاس اور بیماریوں کا شکار ہوکر مرگئے۔ ان کی آبادی گھٹ کر نصف رہ گئی۔

معاہدہ کے تحت غلامی

غلاموں کی دوسری قسم وہ تھی جس کو اِنڈنچرڈ سلیوری (Indentured Slavery) کہا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو خود یورپ کے مختلف ممالک سے آئے تھے۔ غربت و افلاس کے مارے ہوئے لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکہ پہنچ گئے۔ زرعی رقبوں کے مالکان باہمی معاہدے کے تحت ان کو اپنا غلام بنالیتے۔ غلامی کی میعاد اور کام کا معاوضہ طے ہوتا تھا۔ میعاد ختم ہونے پر غلام آزاد ہوجاتا اور حسبِ منشا جہاں چاہتا چلا جاتا۔ ان لوگوں کی مثال مستقل نوکروں کی ہوتی جو مقررہ مدت تک کام کرنے کی بہرصورت پابند تھے۔

لیکن یورپی آبادکاروں کا مسئلہ اس قسم کے غلاموں سے بھی حل نہیں ہو رہا تھا۔ ایک تو ان کی تعداد محدود تھی دوسرا وہ زیادہ تر کمزور یا بیمار ہوتے تھے۔ تیسرا یہ کہ وہ میعاد ختم ہونے پر کام چھوڑ کر چلے جاتے اور ان میں اکثر اپنے وطن لوٹ جاتے۔ پھر یہ بھی تھا کہ اپنے ہی بھائی بند ہونے کی وجہ سے ان پر کام کا وہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا تھا جو دوسروں پر ڈالا جاسکتا تھا۔

سیاہ فام غلام

تیسری قسم کے غلام سیاہ فام افریقی تھے اور یہی اصل غلام شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ کی داستان غلامی انہی سے عبارت ہے۔ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی اور یہی سب سے زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ بھی بنے۔ انہیں افریقہ سے جہازوں میں بھر کر لایا جاتا اور یورپ و امریکہ میں فروخت کردیا جاتا۔ چونکہ ان کی بہت بڑی منڈی امریکہ تھی لہٰذا ان کی غالب اکثریت کو وہیں زرعی رقبوں کے مالکوں کے ہاتھ فروخت کردیا جاتا جن سے وہ اپنی زمینوں کی آبادکاری کا کام لیتے۔ ان لوگوں کی آمد کب اور کیسے شروع ہوئی یہ بڑی عجیب اور افسوس ناک داستان ہے اور اس داستان کے جدید دنیا پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

ساحلِ غلاماں

مغربی افریقہ کا ساحل ‘گینیا’ (Guinea) ساحلِ غلاماں (Slave Coast )کہلاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے یورپی تاجر لوگوں کی مدد سے غلام پکڑتے اور دوسرے ملکوں میں فروخت کردیتے۔ سولہویں صدی میں بحری راستوں کی دریافت کے بعد یورپی تاجروں، ملاحوں اور جنگی جہازوں کا مغربی افریقہ کے ساحلوں پر آنا جانا شروع ہوگیا۔ ابتدا میں ان ساحلوں پر سامان کی تجارت ہوتی جو بتدریج غلاموں کی تجارت میں بدل گئی۔ اگرچہ مغربی ساحل پر کئی مقامات تھے جہاں یورپی جہاز لنگرانداز ہوتے تھے لیکن ان میں سب سے اہم مقام گینیا تھا اور غلاموں کی تجارت کے حوالے سے اسی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ مغربی ساحلوں پر غلاموں کے باڑے بنے تھے جن کو غلاموں کی فیکٹریاں کہا جاتا تھا۔ افریقہ کے مقامی لوگ مفلوک الحال لوگوں کو پکڑ کر باڑوں میں بند کردیتے اور یورپی تاجروں کی آمد پر انہیں فروخت کردیتے۔ افریقی لوگوں کی غربت اس کی ایک اہم وجہ تھی۔ غریب لوگ (غربت سے تنگ آکر) خود کو اپنے سرداروں کے ہاتھ فروخت کردیتے اور سردار انھیں پیسے کے لالچ میں یورپی لوگوں کے ہاتھ بیچ دیتے۔

باڑوں میں قید غلاموں پر بڑی سختی کی جاتی۔ انھیں زنجیروں میں باندھ کر رکھا جاتا، جسمانی تشددکیا جاتا اور بعض کو جان سے بھی مار دیا جاتا۔ ان کے لیے اندھیری کوٹھڑیاں بنی تھیں جن میں انھیں بند کردیا جاتا۔ یورپی تاجر خود بھی ساحلوں سے غلام پکڑتے تھے۔ جب وہاں زیادہ لوگ نہ رہے تو وہ ساحل سے دُور بھی جانے لگے۔ یوں افریقی اور یورپی تاجر دونوں ہی غلاموں کے کاروبار میں برابر کے شریک تھے۔

ابتدائی سیاہ فام غلام

ریاست ورجینیا میں جیمز ٹاؤن (James Town) نامی یورپی باشندوں کی ایک ابتدائی بستی تھی جہاں پہلی مرتبہ ۱۶۱۹ء میں ۲۰ سیاہ فام غلام فروخت کیے گئے۔ مقامی کاشتکاروں نے انہیں خرید کر تمباکو کی کاشت پر لگا دیا جو وہاں کی اہم کاشت تھی۔ یہ غلام نہایت کم قیمت پر فروخت کیے گئے۔ شروع میں ان کی قیمت تمباکو کی ایک گٹھی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بتدریج بڑھتی گئی۔ طلب اور رسد میں اضافہ ہوتا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ غلاموں سے بھر گیا۔ بعض علاقوں میں ان کی تعداد سفیدفاموں سے زیادہ تھی۔ پھر ۱۷۷۶ء تک ڈیڑھ صدی کے دوران غلامی ان تمام مقبوضات میں پھیل چکی تھی جنہیں بعد میں ریاست ہائے متحدہ بننا تھا کیونکہ اس وقت تک ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ ان میں سے کون کون سی ریاستیں وفاق میں شامل ہوں گی۔ ابتدا میں غلامی کو فروغ دینے میں امریکہ میں اسپینی باشندوں کی چار کالونیوں کیوبا، جمیکا، پورٹ ریکو اور ہیٹی کو بڑا عمل دخل ہے۔ اس وقت کے امریکہ میں یہ کالونیاں زیادہ اہمیت کی حامل تھیں۔ یوں ۱۸۷۰ء تک درآمد شدہ غلاموں کی تعداد ایک کروڑ چودہ لاکھ اُناسی ہزار تک پہنچ گئی۔

غلاموں پر مظالم

امریکی غلامی (American Slavery) کا مصنف لکھتا ہے کہ ان کی سزاؤں میں جسم داغنا، ناک، کان، پنجے اور انگلیاں کاٹ دینا اور کبھی کبھی پورے ہاتھ اور پاؤں کاٹنا شامل تھا۔ حیرت کی بات یہ کہ جو مالک زیادہ سمجھ دار خیال کیے جاتے تھے وہ بھی بدترین قسم کی سزاؤں کے حامی تھے۔ ولیم بائر کی ڈائری ایسی سزاؤں کے تذکرے سے بھری ہوئی ہے۔ اس نے ۱۷۱۰ء میں لکھا: ‘‘میری بیوی نے میری مرضی کے خلاف ننھی جینی (Jenny) کو ایک گرم لوہے سے جلا دیا جس پر میرا اس سے جھگڑا ہوا’’۔ شاید آپ سوچتے ہوں کہ یہ جھگڑا اس بات پر ہوا ہوگا کہ کیوں جلایا حالانکہ یہ جھگڑا اس بات پر تھا کہ اس لڑکی کو پہلے ہی کیوں نہ جلا دیا گیا۔

جنسی تشدد

غلاموں پر جنسی تشدد بھی عام تھا۔ جو غلام عورتیں خرید لی جاتیں، وہ جس جس کی تحویل میں ہوتیں وہاں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی تھیں۔ جنسی بے راہ روی اتنی عام تھی کہ گورے آقا جب اور جہاں چاہتے نہایت بے تکلفی سے انہیں استعمال کرتے۔ یہ آقا ان کی رہائش گاہوں میں جاگھستے اور اپنے پاس بھی بلالیتے۔ کبھی کبھار کوئی چھوٹا موٹا تحفہ بھی پیش کردیاجاتا ورنہ زیادہ تر سختی سے کام نکالا جاتا۔

سیاہ فام اپنی بیویوں اور بیٹیوں کی حفاظت پر قادر نہ تھے۔ گورے جس طرح افریقی لڑکیوں کا پیچھا کرتے اس سے کسی سیاہ فام لڑکی کا زیادہ دیر تک عفیفہ رہنا ممکن نہیں تھا۔ بہت کم سیاہ فام اپنی خوش شکل بیٹیوں کو گوروں کی جنسی ہوس سے بچاپاتے۔ لیوسس ہولزے، گورے کے باپ نے کبھی شادی نہیں کی وہ ہمیشہ اپنے فارم سے یکے یعد دیگرے سیاہ فام عورتیں منتخب کرتا رہتا۔ اسے کمینگی یا سفلہ پن سے کم کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ مغرب آج بھی اس غلاظت کو چاٹ رہا ہے۔ اسے یہ بیماری بہت پرانی لگی ہے۔ قدیم یونانی تہذیب، چاہے رومی تہذیب، یورپی تہذیب ہو یا امریکی تہذیب، سب جنسی بے راہ روی کے غلیظ سمندر میں غرق ہیں۔

بھگوڑوں کی سزا

بھگوڑے غلاموں کو سخت سزائیں دی جاتیں۔ غلاموں کے لیے معاشرے میں کوئی جائے پناہ نہیں تھی۔ وہ آقاؤں کے ظلم سے تنگ آکر جنگلوں میں بھاگ تو جاتے لیکن نہ تو کھانے پینے کو کچھ میسر ہوتا اور نہ سر چھپانے کو۔ وہ یا تو گھاس پھونس کھاکر گزارہ کرتے یا پھر بھوکوں مرجاتے۔ اُوپر سے پکڑے جانے کا خوف ہمہ وقت سر پر سوار ہوتا۔ بعض غلام جنگلوں میں زندگی کے ہاتھوں تنگ آجاتے تو دوبارہ مالکوں کے پاس لوٹ آتے۔ یہ ان کی بے بسی کی انتہا تھی۔

جب کوئی غلام بھاگ جاتا تو مالکان ان کی گمشدگی کی اطلاع دیتے وقت اس قسم کی علامات بتاتے: ‘‘گردن پر زخم کا نشان ہے، اس کی پشت پر کوڑوں کی مار کے نشانات ہیں۔ اس کے منہ پر سامنے والے دانتوں پر میں نے بہت مُکے مارے تھے جن کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے دونوں گالوں پر میں نے لوہا گرم کر کے "R" کا نشان بنا دیا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں میں نے توڑ دی تھیں۔ اس کے دونوں گالوں پر میں نے "M" کا نشان گرم لوہے سے بنا دیا تھا وغیرہ وغیرہ’’۔

اوورسیئر ( Overseer)

زمینوں کے مالک خود تو اپنے ملکوں یا اپنے گھروں میں ہوتے البتہ کام کے لیے انہوں نے نگران (اوورسیئر) رکھے ہوئے تھے۔ بظاہر نگران کا کام غلاموں سے مشقت لینا، ان کی نگرانی کرنا اور ان کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام کرنا ہوتا تھا، لیکن درحقیقت وہ ان کے لیے جلاد اور فرشتۂ اجل تھا۔ وہ ان پر کوڑے برساتا اور بعض حالات میں جان سے بھی مار دیتا۔ وہ ان سے دن رات بے تحاشا کام لیتا اور خوراک بہت کم دیتا۔ نگران کو اختیار تھا کہ جس غلام سے جتنا چاہے کام لے اور اُجرت بھی جتنی چاہے دے۔ جس قسم کا کھانا اور لباس دے اور جہاں چاہے رکھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس طرح چاہے اُن کی عزت سے کھیلے۔ غلام بے چاروں کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرسکیں۔ ایک غلام نگران کا نام سنتے ہی سہم جاتا اور جان کے خوف سے بلاچون و چرا تعمیل حکم پر آمادہ ہوجاتا۔ مالکوں کے ہاں اوورسیئر کی شنوائی تو تھی مگر غلاموں کی ہرگز نہیں تھی۔

غلاموں کا طرزِ زندگی

غلام وہ بے یارومددگار مخلوق تھے جن کا کوئی گھرگھاٹ نہیں تھا۔ اپنے وطن سے اغوا کر لیے جاتے تھے اور نئی سرزمین پر ان کا کوئی جاننے والا نہ ہوتا تھا سوائے ان کے جلادصفت مالکوں کے جن کو صرف کام سے غرض تھی۔ وہ بے بس، فقیر، پردیسی لوگ جانوروں کی طرح مالکوں کے رحم و کرم پر تھے۔

غلاموں کی رہائش گاہ زیادہ تر کھیتوں میں ہی ہوتی جن کے لیے مالکوں نے وہاں جھونپڑیاں اور بیرکیں بنوائی ہوئی تھیں۔ ان کا ماحول غلیظ اور قطعی غیرصحت مند تھا۔ موسمی اثرات سے حفاظت کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ فرش گندے اور کیچڑ سے لت پت ہوتے، بدبو کا ماحول تھا۔ ان کے پہننے کے کپڑے اور اوڑھنے کے بستر گندے ہوتے۔ ان کی خوراک ناکافی، گھٹیا اور بدذائقہ ہوتی۔

افریقہ سے لائے جانے والے زیادہ تر مرد ہوتے، عورتیں کم ہوتیں لہٰذا غلام مرد ساری عمر کنوارے ہی رہتے جس سے نہ تو ان کا خاندانی نظام قائم ہوسکتا اور نہ ہی ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا تھا۔ جو اِکا دُکا عورتیں ہوتیں وہ اپنی مرضی سے جس غلام مرد کے ساتھ رہنا چاہتیں رہ لیتیں، باضابطہ شادی کا طریقہ نہیں تھا۔ ان کا باہم مستقل ایک ساتھ رہنا بھی یقینی نہیں تھا۔ جب مالک ان کو فروخت کردیتا یا اپنی جائداد دوسروں میں تقسیم کردیتا تو غلام بھی ایک دوسرے سے جدا ہوکر مختلف لوگوں کے ہاتھ میں چلے جاتے۔ غلام عورت اور غلام مرد ایک ساتھ رہنے سے اگر ان کے بچے پیدا ہوتے تو وہ بھی مالکوں کی ملکیت میں شمار ہوتے جیسے کسی شخص کا کوئی پالتو جانور بچہ دے تو وہ بھی مالک ہی کا ہوتا ہے۔

غلاموں میں بیماریاں زیادہ ہوتی تھیں جس سے وہ لاغر اور کمزور رہتے ۔ ان کے اندر شرح اموات زیادہ تھی۔ ان میں بہت سارے اپاہج اور معذور ہوتے جو مالکوں کے تشد د کی وجہ سے اپنے اعضاء کھو بیٹھتے۔ان کی شکلیں بھدّی ہوتیں اس لیے نہیں کہ وہ پیدائشی ہی ایسے ہوتے بلکہ اس لیے کہ مالک ان کے دانت توڑ دیتے، کوئی آنکھ نکال دیتے یا کان کاٹ دیتے۔ ان کے چہرے جلائے جانے کی وجہ سے داغدار ہوجاتے۔

مخصوص علاقے(Reservations)

مغربی اقوام نے جب امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا پر قبضہ کیا تو وہاں کے مقامی قدیم باشندوں سے ان کے علاقے چھیننے اور ان کی مزاحمت سے محفوظ رہنے کے لیے انہیں مخصوص علاقوں میں پابند کردیا۔ ان علاقوں سے باہر رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہ تھی۔ یہ ان کے لیے گویا قیدخانے تھے جن پر مسلح گورے پہرے دار تھے۔ اگر کوئی شخص یا قبیلہ ان مخصوص علاقوں سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا تو اسے جان سے مار دیا جاتا۔

یہ علاقے ملک کے ان حصوں میں قائم ہوتے جو یورپی لوگوں کی آبادیوں سے کافی دُور تھے۔ وہاں کی زمین غیرپیداواری اور زندگی کی ضروریات بہت حد تک ناپید ہوتیں۔ یہ ایسے علاقے تھے جہاں کا موسم شدید اور آب و ہوا غیرصحت مند تھی۔ وہاں دلدل، مکھی، مچھر اور حشرات الارض کی کثرت ہوتی جس سے بیماریاں پھیلتیں اور زیادہ اموات واقع ہوتیں۔ یورپی لوگ خود زرخیز، اچھی آب و ہوا والے یا صنعتی علاقوں میں رہائش پذیر ہوتے۔ ان کے شہروں میں داخلے کے لیے پاس سسٹم تھا جس کو دکھائے بغیر وہ شہری حدود میں داخل نہیں ہوسکتے تھے اور وہ بھی محدود مدت کے لیے۔ یورپی لوگ ان کو اپنے درمیان دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح کے مخصوص علاقے آسٹریلیا میں بھی قائم تھے جہاں ملک کی اصلی اور قدیم آبادی کو محدود کردیا گیا تھا جہاں وہ بھوک پیاس اور بیماریوں کے شکار ہوکر ختم ہوگئے۔ یہ صورت حال امریکی ریڈ انڈین کے ساتھ بھی پیش آئی۔ انہیں ایسے علاقوں میں دھکیل دیا گیا جہاں وہ ضروریاتِ زندگی کی قلت اور جنگلی درندوں کی کثرت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔

ریڈ انڈین کے خلاف ایک گھناؤنی سازش یہ بھی کی گئی کہ ان کو متعدی بیماریوں میں مبتلا کر کے ہلاک کیا گیا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ بخار، خسرہ، چیچک اور تپ دق جیسی مہلک بیماریاں پھیلانے کے لیے یورپ کے ہسپتالوں سے ان بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے کپڑے اور بستر لاکر ‘خیرخواہی’ کے نام پر مقامی لوگوں میں تقسیم کیے گئے۔ لہٰذا ان جراثیم زدہ کپڑوں کے استعمال سے مقامی آبادی بھی ان بیماریوں میں مبتلا ہوگئی۔ ان کے اندر ان بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بھی نہیں تھی کیونکہ یہ بیماریاں ان کے ہاں پائی ہی نہیں جاتی تھیں اور علاج بھی میسر نہیں تھا۔

وہ قیدی بھی تھے اور خانہ بدوش بھی۔ اس طرزِ زندگی میں ان کا تعلیم سے بہرہ ور ہونا، اپنی معیشت کو مضبوط کرنا، سیاسی حقوق کا حصول اور آزادی کی نعمت سے مالا مال ہونا بڑی بعید از قیاس بات تھی۔

موجودہ امریکہ اور سیاہ فام

امریکہ کے موجودہ سیاہ فام انہی غلاموں کی اولاد ہیں جن کو چار صدیاں پیشتر افریقہ سے درآمد کیا گیا تھا۔ آج ان کی آبادی امریکی آبادی کا ۵ء۱۲ فی صد ہے۔ یہ لوگ عقیدے میں عیسائی اور مغربی تہذیب کے حامل ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ صدیوں پرانا غلامی کا ٹھپہ اور سیاہ رنگت ان کی ترقی و خوشحالی میں آج بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ سفیدآبادی ان سے شدید نفرت کرتی ہے۔ ان کو وہ شہری حقوق دینے سے انکاری ہے جو سفیدفام شہریوں کو حاصل ہیں۔ وہ مسلسل احتجاج کررہے ہیں کہ وہ بھی امریکہ کے شہری ہیں، اُن کے حقوق بحال کیے جائیں لیکن اب تک ان کی کوئی کوشش بارآور ثابت نہیں ہوئی اور مستقبل قریب میں بھی اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

اس وقت دنیا میں دو گروہ ایسے ہیں جو غلامی کی شدید زد میں ہیں ۔ ان میں ایک امریکہ کے سیاہ فام اور دوسرے ہندوستان کے اچھوت۔مؤرخین جب جدید دور کی غلامی کو موضوع بناتے ہیں تو ان دو گروہوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ موجودہ امریکہ میں سیاہ فاموں کی حالت کے بارے میں ‘انسائیکلوپیڈیا آف ہیومن ریسز آل اوور دی ورلڈ’ کا مصنف لکھتا ہے:

‘‘امریکہ میں سیاہ فاموں نے اس حیثیت کو تسلیم کرلیا ہے جو ان کا مقدر بنا دی گئی ہے۔ وہ اندر ہی اندر اس پر کُڑھ تو سکتے ہیں لیکن اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ سیاہ فاموں اور سفید فاموں کے درمیان گہری نفرت قائم ہے۔ مروجہ طریقہ کے مطابق ان کا فلاح عامہ کے اداروں مثلاً لائبریریوں اور پارکوں میں داخلہ ممنوع ہے۔ حالانکہ وہ بھی اسی طرح ٹیکس دہندگان ہیں جس طرح دوسرے شہری ہیں۔ انہیں محنت مزدوری جیسے حقیر کاموں تک محدود رکھا گیا ہے۔ ان کی اُجرتیں کم ہیں اور جن کوارٹروں میں ان کی رہائش ہے وہ بھی غیرمناسب ہیں۔ مزید یہ کہ:

ریل گاڑیوں، ریلوے اسٹیشنوں اور سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں میں انہیں سفیدفاموں سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ کوئی ہوٹل اور ریستوران ان کو کھانا کھلانے اور ٹھہرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سفیدفاموں کا کوئی بھی چرچ انہیں ممبر بنانے کو تیار نہیں ہے۔ گوروں کا کوئی بھی اسکول اور کالج انہیں داخلہ نہیں دیتا۔ انہیں قانونی طور پر ووٹ کا حق حاصل ہے مگر انہیں اپنا ووٹ استعمال کرنے نہیں دیا جاتا۔ اگر وہ ووٹ کا استعمال کر بھی لیتے ہیں تو ان کی رائے کی طاقت اور وزن کو غیرمؤثر کردیا جاتا ہے۔

اس وقت کوئی ایک کروڑ بیس لاکھ سیاہ فام امریکہ میں بستے ہیں۔ ان کی شرح پیدائش سفیدفاموں سے زیادہ ہے۔ سفیدفام انہیں نفرت سے ‘کالو’ (بلیکی) کہتے ہیں۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ ان کو کسی ایک علاقہ میں علیحدہ جمع کردیا جائے کیونکہ انہیں دوبارہ افریقہ بھیجنا، جہاں سے کبھی وہ آئے تھے، اب ممکن نہیں رہا۔

قانوناً غلامی کے خاتمے کو تقریباً ڈیڑھ صدی بیت گئی ہے لیکن عملاً سیاہ فاموں کی قسمت میں سرِمو فرق نہیں آیا۔ وہ پہلے بھی حقیر اور ذلیل متصور کیے جاتے تھے اور اب بھی کیے جاتے ہیں۔ وہ حقوق انسانی سے پہلے بھی محروم تھے اور اب بھی محروم ہیں۔ فرق صرف یہ واقع ہوا ہے کہ پہلے اس امتیازی سلوک کی وجہ غلامی تھی اور اب اس کا نام نسلی امتیاز ہے۔ حقیقی طرزِعمل یکساں ہے۔

علیحدگی کا اصول (Segregation)

گوروں کی کالوں سے نفرت کی بنا پر یورپ میں بالعموم اور امریکہ میں بالخصوص دونوں گروہوں کو جدا جدا دائروں میں رہ کر زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ ربط باہم کی نوبت بہت کم آتی ہے۔ اس علیحدگی کو عرفِ عام میں سیگریگیشن (علیحدگی) کہا جاتا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:

٭…… انتظار گاہوں (Waiting Rooms ) میں دونوں فریق اپنے اپنے الگ ویٹنگ رومز میں بیٹھتے ہیں۔

٭……بسوں اور ریل گاڑیوں میں سفر کے لیے علیحدہ حصے بنائے گئے ہیں جہاں گورے الگ اور کالے الگ بیٹھتے ہیں۔

٭……پارکوں میں چلنے پھرنے کے راستے (Tracks) اور بیٹھنے کے بینچ کالوں کے لیے علیحدہ ہیں۔

٭……لنچ کاؤنٹرز (Lunch Counters) جہاں سے لوگ دوپہر کا کھانا لے کر کھاتے ہیں، وہاں وہ (کالے) گوروں سے الگ قطار بنا کر کھانا لیتے ہیں۔

٭……ٹیکس جمع کرانے کے لیے گوروں اور کالوں کی الگ الگ کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔

٭……گوروں اور کالوں کے الگ الگ اسکول بنائے گئے ہیں جہاں کہیں ایک ہی اسکول میں دونوں کے داخلے کی اجازت ہے وہاں کالوں کی کلاسیں الگ اور گوروں کی الگ ہیں۔

٭……کالوں کی بستیاں گوروں سے الگ ہیں جنہیں (Ghettos)کہا جاتا ہے۔ یہ بستیاں بڑے شہروں سے باہر مضافات میں قائم کی گئی ہیں۔ ان بستیوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ بجلی، پانی، گیس، ٹیلی فون، سڑکیں، اسکول اور ہسپتال یا تو بالکل نہیں یا پھر بہت کم تعداد میں ہیں جس سے آبادی کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ ان بستیوں میں کالوں کے مکانات کچے، تنگ اور بدبودار ہیں۔

اس علیحدگی کے نتیجے میں امریکی معاشرے کی زندگی دو الگ الگ حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ گوری آبادی خود کو اعلیٰ اور کالوں کو پست مخلوق تصور کرتی ہے اور علیحدگی کے اس اصول کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔

یہ وہی صورت حال ہے جس کا ہندوستان کے شودروں کو بھی سامنا ہے۔ وہاں بھی ہوٹل، کیفے، ریستوران، سڑکوں اور مندروں جیسی جگہوں پر شودروں کا یا تو جانا ہی منع ہے یا پھر ان کے لیے علیحدہ حصے مقرر کیے گئے ہیں۔ ان کے لیے تو لباس، وضع قطع اور حلیہ بھی متعین کردیا گیا ہے۔

غلامی کی یہ دونوں قسمیں باہم گہری مماثلت رکھتی ہیں لیکن ان دونوں ملکوں کی اکثریتی آبادی ایک ہی قسم کا جواز پیش کرتی ہے جو طاقت ور اور ظالم کی منطق کا آئینہ دار ہے۔

اگرچہ نسلی منافرت اور نظریہ (آئیڈیالوجی) سے اختلاف کی بنیاد پر روس، چین اور جرمنی میں انسانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے گئے جن کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ تاہم چونکہ وہ براہِ راست غلامی کے زمرے میں نہیں آتے لہٰذا ان سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم ہندوستان کا رُخ کرتے ہیں جہاں اچھوت (شودر) کی حالت و حیثیت غلاموں سے بھی بدتر رہی ہے۔

ہندو معاشرہ اور غلامی

ہندو معاشرہ میں غلامی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ‘ذات پات’ کے نظام کو سمجھا جائے۔ اس لیے کہ یہی وہ نظام ہے جس نے ہندو معاشرے میں طبقات کو جنم دیا ہے۔ اس نظام نے ایک طبقہ ‘برہمن’ کو انتہائی طاقتور اور بااختیار بنا دیا اور دوسرے طبقہ ‘شودر’ کو انتہائی کمزور اور بے اختیار کردیا۔

یونانی، رومی اور ہندو غلامی میں فرق

یونانی، رومی اور ہندو تہذیب میں بنیادی فرق یہ ہے:

٭…… یونانی و رومی معاشرے کے آقا و غلام دو طبقوں میں منقسم تھے مگر ہندو معاشرہ چار طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔

٭……یونانی و رومی معاشروں میں یہ تقسیم اقتصادی اور معاشرتی حوالے سے تھی لیکن ہندو معاشرے میں اس کی بنیاد مذہب پر ہے۔

٭……یونانی و رومی معاشروں میں صرف ایک طبقہ ‘آقا’ غلاموں کا استحصال کرتا تھا مگر ہندو معاشرے میں تین ذاتیں مل کر چوتھی کا استحصال کرتی ہیں۔

اس معاشرتی بائیکاٹ کے نتیجے میں شودر اپنی بستیوں میں محصور ہوکر رہ گئے۔ ان کی فطرت کچلی گئی اور وہ معاشرے میں ذلت و حقارت کی علامت بن گئے۔ ان کو انسان نہیں بلکہ انسانوں کی ایک ذیلی قسم قرار دیا گیا۔ ان کے پیدا ہونے کی کسی کو خوشی اور مرنے کا غم نہیں تھا۔

نیچ ذاتیں

ان لوگوں کے لیے حکم ہے کہ گھروں سے نکلتے وقت پیشگی اطلاع دیا کریں تاکہ باہر کے لوگ ان کی آمد سے باخبر ہوجائیں اور ان کا سامنا کرنے سے بچ جائیں۔ لہٰذا ان ذاتوں کے لوگ گھروں سے نکلنے سے پہلے دو بار لگاتار تالی بجاتے ہیں یا زور سے آواز دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کے آنے کی خبر ہوجائے اور آمنا سامنا ہونے سے بچ جائیں۔ اچھوتوں کی ذیلی ذاتوں میں ‘ڈوم’ بھی ہیں جو تمام ہندوستان میں لاکھوں کو جلانے کا کام کرتے ہیں جب کہ سب نیچوں سے نیچ بھنگی (بیت الخلا صاف کرنے والے لوگ) ہیں۔ یہ لوگ اس قدر پلید خیال کیے جاتے ہیں کہ چمار اور ڈوم بھی ان کے قریب نہیں جاتے۔ ان کی بستیاں باقی اچھوتوں سے بھی جدا ہیں۔

ہندوستان کے دس کروڑ اچھوتوں میں سے ۸۵ فی صد دیہات میں رہتے ہیں جن کو معاشرے میں حقیر ترین کام انجام دینا پڑتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حددرجہ پلید کردینے کا باعث سمجھے جاتے ہیں۔ پلید روحانی لحاظ سے بھی اور ظاہری طور پر بھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسان نما جانور متصور کیے جاتے ہیں اور انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں جی رہے ہیں۔

نیچ ذات کی عورتوں کو جسم کا بالائی حصہ ڈھانپنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ طریقہ اعلیٰ ذات کی عورتوں کا ہے۔ نیچ ذات کی عورتیں ان کی ہمسری نہیں کرسکتیں۔ ان عورتوں کو سونے چاندی کے زیورات پہننے کا بھی حق نہیں ہے کیونکہ یہ زیورات قیمتی ہیں جو صرف اعلیٰ ذات کی عورتیں ہی پہن سکتی ہیں۔

‘ذات’ زندگی کے تمام تعلقات اور معاملات پر حکمرانی کرتی ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ ذات نیچ ذات کے ہاتھ یا اس کے برتن سے پانی نہیں پیتی۔ مندرجہ ذیل چند ذاتیں ایسی ہیں جو اپنے پیشوں کی وجہ سے کلیتہً ناپاک ہیں۔ ان کے محض چھو جانے سے کھانا ناپاک ہوجاتا ہے۔ ان میں چمڑا بنانے والے، دھوبی، حجام، لوہار، رنگساز، خاکروب، ڈوم شامل ہیں۔ کمہار پر بھی ناپاک ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے۔

‘ذات’ کے اثرات

ذات کے نظام نے جس طرح شودر کا ستیاناس کیا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ وہ احساسِ ذات سے بے بہرہ، ترقی سے ناآشنا اور زندگی کے جملہ حسن و جمال سے ناواقف ہے۔ اس کی دنیا میں آقاؤں کی خدمت کرنے، ان کے قہروغضب کو برداشت کرنے اور صرف دو وقت کی غیرمعیاری روٹی کھا لینے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کو تعلیم سے لاتعلق، اقتصادیات میں غیراہم اور سیاست میں ناقابلِ برداشت قرار دیا گیا ہے۔ ان سب چیزوں کے بعد وہ جو کچھ ہے اس کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔ شودر کا تعلیم حاصل کرنا ہندو دھرم کے مطابق ایک غیرشرعی کام ہے جس سے اسے روکنے کی ذمہ داری ہندو سماج پر بالعموم اور برہمن پر بالخصوص عائد ہوتی ہے لہٰذا وہ جہالت کی تاریک دنیا کا باشندہ ہے۔

جنوبی ہند میں اچھوت عوامی کنوؤں سے پانی نہیں بھر سکتے۔ وہ مندر میں داخل نہیں ہوسکتے۔ وہ اعلیٰ ذات کے لوگوں سے مقرر شدہ فاصلے سے کم تر فاصلے سے بات بھی نہیں کرسکتے۔ ملک کے بعض حصوں میں تو ان کے سائے سے ہی ناپاکی پھیل جاتی ہے۔ اس لیے پیشگی اطلاع کے بغیر وہ عوامی جگہوں پر نہیں آسکتے۔ مدراس کے بعض حصوں میں اچھوت اور پلید لوگ صرف دوپہر کے وقت سڑکوں پر آسکتے ہیں جب سورج عین سر پر ہو اور سایہ نہ ہونے کے برابر ہو۔

ذات کا ہندو ضابطہ

منوشا وہ بنیادی دستاویز ہے جس نے ہندو سماج میں ‘ذات’ کا نظام قائم کیا۔ اس کی تعلیم دو انتہاؤں پر مبنی ہے۔ ایک انتہا وہ ہے جو برہمن کو اس دھرتی پر ایک اوتار، ایک دیوتا کے روپ میں پیش کرتی ہے جس میں برہمن کی عظمت، برہمن کا تقدس اور اس کے حددرجہ وسیع حقوق کا بیان ہے اور دوسری طرف وہ انتہا ہے جس میں شودر کو ایک ایسی برائی اور غلاظت کے روپ میں پیش کیا گیا ہے جو برہمن کے لیے باعث آزار اور باعث مصیبت ہے۔ اس دستاویز میں شودر کے لیے جو فوجداری اور معاشی ضابطۂ قانون تشکیل دیا گیا ہے اس میں شودر فطرتاً ذلیل ہے، اعمال کی بنا پر نہیں بلکہ پیدائش کی بنا پر۔ وہ کہتا ہے کہ:

‘‘برہما نے اپنے منہ سے برہمن کو ‘ہاتھ سے کشتری کو’ ران سے ویش کو اور پاؤں سے شودر کو پیدا کیا ہے’’۔

‘‘منوشودروں کو بالذات نجس و ناپاک اور کمینہ سمجھتا ہے اور معاشرت میں ‘دویج’ یعنی شریف آریہ قوم کو ان سے کامل پرہیز کا حکم دیتا ہے’’۔

‘‘شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے برہمن ‘نرک’ (دوزخ) میں جاتا ہے’’۔ (۳:۱۷)

‘‘وہ کسی برادری سے خارج کیے ہوئے شخص یا چنڈال کے ساتھ ایک درخت کے سائے میں بھی نہ ٹھہرے’’۔ (۴:۷۹)

‘‘جو کوئی شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا اور جو اسے مذہبی مراسم ادا کرنا سکھائے گاوہ اس شودر کے ساتھ ہی ‘‘اسم ورت’ نامی جہنم میں جائے گا’’۔ (۴:۸۱)

‘‘وہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے’’۔ (۴:۹۹)

‘‘اگر کوئی شودر بلاارادہ وید کے الفاظ سن لے تو اس کے کان میں پگھلی ہوئی رانگ یا لاکھ ڈال دی جائے، اگر وید کی عبارت پڑھے تو اس کی زبان کاٹ لی جائے اور اگر وہ اس کو یاد کرے تو اس کے جسم کے دو ٹکڑے کردیئے جائیں’’۔ (گوتم ۱۲:۴-۶)

‘‘جس شخص نے چنڈال (شودر) کو چھولیا ہو وہ صرف نہانے ہی سے پاک ہوسکتا ہے’’۔ (۵:۸۵)

‘‘اگر کسی برہمن کو کھانا کھانے کے دوران کوئی شودر ہاتھ لگا دے تو وہ کھانا چھوڑ دے’’۔ اپسمبتھ (۱:۵:۱۷)

‘‘ان کو (یعنی شودر کو) کھانا ٹھیکروں میں دیا جائے مگر دینے والااپنے ہاتھ سے ان کے ہاتھ میں نہ دے’’۔ (۱۰:۵۱-۵۲)

‘‘برہمن شودر سے کبھی دان نہ لے اگر وہ اس سے دان لے کر قربانی کرے گا تو آیندہ جون میں چنڈال پیدا ہوگا’’۔ (۱۱:۲۴)

‘‘منوشودروں کو دویجوں (آریہ) کی غلامی پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے نزدیک شودر کا پیدائشی اور فطری وظیفہ یہی ہے کہ وہ دویجوں کی خدمت کرے’’۔

‘‘شودر کو اگر اس کا آقا آزاد بھی کردے تب بھی وہ آزاد نہیں ہوسکتا کیونکہ جو حالت اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اس سے کون اس کو نکال سکتا ہے؟’’ (۸:۴۱۴)

‘‘منوشودر کو اس کی اپنی کمائی ہوئی دولت و جائیداد پر بھی حقوقِ ملکیت دینے سے انکار کرتا ہے’’۔

‘‘ایک برہمن بلاتامل اپنے شودر غلام کا مال لے سکتا ہے کیونکہ کوئی مال بھی شودر کی ذاتی مِلک نہیں ہے وہ ایک ایسی ہستی ہے جس کی جائیداد پر اس کے آقا کو تمام تر حقوق حاصل ہیں’’۔ (۸:۴۱۷)

‘‘اگر شودر دویج کی شان میں گستاخی کرے تو اس کی زبان کاٹ دی جائے کیونکہ وہ برہما کے حصہ اسفل سے پیدا ہوا ہے’’۔ (۸:۲۷)

‘‘اگر وہ ان کا نام اور ان کی ذات کا نام لے کر توہین کرے تو دس انگل لمبی لوہے کی سلاخ آگ میں سرخ کر کے اس کے حلق میں اُتار دی جائے’’۔ (۸:۲۷۱)

اصلاحِ احوال

سوال یہ ہے کہ کیا اصلاحِ احوال کی کوئی کوشش نہیں ہوئی اور سماج اور مذہب کی طرف سے باندھی گئی ان زنجیروں کو توڑ ڈالنے کی کوئی خواہش اور تحریک نہیں اُبھری؟ کوششیں ہوئیں اور ضرور ہوئیں لیکن نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔ شودروں نے دیگر مذاہب کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کی لیکن اصل صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہ ہوسکی۔ ہندو معاشرہ برہمنوں کی چال بازیوں اور ریشہ دوانیوں میں ایسا گرفتار رہا کہ اصلاح کے مواقع آئے اور گزر گئے مگر ‘ذات’ کا کسا ہوا پھندا ڈھیلا نہ ہوا۔ برہمنوں نے پوری تاریخ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ ان کے خلاف مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر امبید کرکے دور میں اٹھنے والی تحریکیں نتیجہ خیز ہوئے بغیر دم توڑ گئیں۔

اسلام اور غلامی

آزاد انسانوں کو غلام بنانے کی اسلام میں ہرگز اجازت نہیں ہے خواہ وہ انسان، افراد ہوں یا اقوام، بجز جنگ کے اور وہ بھی مخصوص ضابطوں کے تحت جن کی خلاف ورزی اتنا ہی سنگین جرم ہے جتنا کہ لوگوں کو غلام بنانا جرم ہے۔ ان میں غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کو آزاد کرنے کی اس قدر زیادہ تلقین و ہدایت کی گئی ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف غلامی کی جملہ قباحتیں ختم ہوجاتی ہیں بلکہ آزادی کی ایسی راہ ہموار ہوجاتی ہے جس میں غلاموں کو آزاد ہونے میں کوئی دشواری یا رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ گویا اسلام میں غلامی کی راہیں تو مسدود ہیں اور آزادی کی راہیں کشادہ۔

غلاموں کی آزادی کو دو طرفہ طریقے سے ممکن اور آسان بنایا گیا ہے۔ ایک طرف غلاموں کے لیے وہ طریقۂ کار وضع کردیا گیا ہے جس کو اختیار کرنے سے وہ آزاد ہوسکتے ہیں اور دوسری طرف آقاؤں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ان کو آزاد کردیں ، ان کو اس کی ترغیب اس تصور کے ساتھ دی گئی ہے کہ اس میں تمہاری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

اس کے برعکس مغرب نے غلامی کو رواج دے کر جس طرح مالِ تجارت اور نفع اندوزی کا ذریعہ بنایا، اسلام نہ صرف یہ کہ اس کا روادار نہیں بلکہ شدید الفاظ میں اس کی مذمت کرتا ہے اور اس کو انسانی عزت و وقار کے منافی اور دنیا و آخرت میں خدا کی ناراضی کا باعث قرار دیتا ہے۔ سید قطب لکھتے ہیں:

‘‘وقتی طور پر اسلام نے اس کے وجود کو بے شک برداشت کیا لیکن یہ محض اس لیے تھا کہ اس وقت اس کے سوا اور کوئی متبادل راہ موجود نہ تھی کیونکہ اس کے قطعی انسداد کے لیے صرف مسلمانوں کی رضامندی ہی کافی نہ تھی بلکہ غیرمسلموں کی حمایت اور تعاون بھی ضروری تھا۔ اسلام اس وقت تک غلامی کا قطعی انسداد نہیں کرسکتا تھا جب تک باقی دنیا بھی جنگی قیدیوں کو غلام بنانے سے اجتناب کرنے کا قطعی فیصلہ نہ کرلیتی۔ بعد میں جب اقوامِ عالم اس سلسلے میں ایک قطعی اور مشترکہ حل پر رضامند ہوگئیں تو اسلام نے اس کا خیرمقدم کیا، کیونکہ یہ فیصلہ اس کے نظامِ زیست کے اس بنیادی اور اٹل اصول کا عین منطقی نتیجہ تھا کہ آزادی اور مساوات تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے’’۔

جنگی قیدیوں کی رہائی کا طریقہ

مولانا مودودی ؒفرماتے ہیں:

‘‘حضور اکرمؐ کے زمانے میں غلامی کی دو صورتیں پائی جاتی تھیں۔ ایک صورت تو یہ تھی کہ ملک کے آزاد باشندوں کو پکڑ کر فروخت کردیا جاتا اور دوسری صورت یہ تھی کہ جنگ میں گرفتار ہونے والوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔

ان میں سے پہلی شکل کو رسولؐ اللہ نے قطعاً ممنوع قرار دیا اور فرمایا کہ جو شخص کسی آزاد کو پکڑ کر بیچے گا اس کے خلاف میں خود قیامت کے روز مدعی بنوں گا۔ دوسری شکل کے متعلق اسلام کا قانون یہ قرار پایا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو یا تو احسان کے طور پر رہا کردیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا دشمن کے مسلمان قیدیوں سے ان کا تبادلہ کرلیا جائے لیکن اگر یونہی رہا کردینا جنگی مصالح کے خلاف ہو، فدیہ وصول نہ ہوسکے اور دشمن اسیرانِ جنگ کا مبادلہ کرنے پر بھی رضامند نہ ہو تو مسلمانوں کو حق ہے کہ انہیں غلام بناکر رکھیں۔ البتہ اس قسم کے غلاموں کے ساتھ انتہائی حسنِ سلوک اور رحمت و رافت کے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے۔

مولانا مزید لکھتے ہیں:

‘‘اگر سیکڑوں ہزاروں قیدیوں کا معاملہ درپیش ہو تو ایسی صورت میں جب کہ مسلمانوں کے بھی سیکڑوں ہزاروں آدمی کفار کے پاس قید ہوں اور ان کو غلام بنا کر رکھا گیا ہو، مسلمانوں کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ کفار کے آدمیوں کو محض احسان کے طور پر رہا کردیں۔ اس صورت میں اسیرانِ جنگ زرنقد ادا نہ کرسکتے ہوں اور حکومت سے مبادلہ کا معاملہ بھی طے نہ ہوسکے اور دشمن کے ملک میں مسلمان قیدیوں کی حیثیت مملوکوں جیسی ہو، جیسی کہ فی الواقع ہزار برس بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ تک رہی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ اسی طرح مسلمانوں کو بھی حق نہ ہو کہ وہ کفار کے قبیلوں کو غلام بنا کر رکھیں۔

اسلامی قانون میں گنجائش صرف ہنگامی حالات کے پیش نظر رکھی گئی ہے اور ساتھ ہی ایک اصلاحی قانون بھی بنا دیا گیا ہے تاکہ جب حالات بدل جائیں تو خود بخود ایک نیا قانون…… آزادی کا قانون نافذ ہوجائے’’۔

لونڈیوں کا معاملہ

جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں ان کو پکڑتے ہی سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کرلینے کے مجاز نہیں ہیں بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کی جائیں۔ یہ اختیار حکومت کے پاس ہے کہ چاہے انہیں رہا کرے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے قبضے میں ہوں اور چاہے تو انہیں سپاہیوں میں تقسیم کردے۔ ایک سپاہی صرف ایک عورت ہی سے تمتع کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی مِلک میں دی گئی ہو لیکن اس میں بھی چند نکات ملحوظ رکھنے ضروری ہیں:

۱- جو عورت کسی کی مِلک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اسے ایامِ ماہواری نہ آجائیں اور یہ اطمینان نہ ہولے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضعِ حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔

۲- جو عورت جس شخص کے حصہ میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کرسکتا ہے کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہوگی وہ اس شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی مِلک میں وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں پہلی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب ِ اولاد ہوجانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جاسکتی اور مالک کے فوت ہوجانے پر وہ آپ سے آپ آزاد ہوجائے گی۔

۳- اسیرانِ جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی، بالکل اسی طرح جس طرح کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔

اسلام غلامی کا موجد ہرگز نہیں ہے

یہ بات مسلّم ہے کہ غلامی کی ایجاد اسلام نے نہیں کی، بلکہ وہ اس وقت ظہور پذیر ہوا جب ساری دنیا میں غلامی کا دور دورہ تھا اور غلامی انسانی معاشرہ میں رچ بس چکی تھی، حتیٰ کہ اسلام کے بعد بھی دیر تک غلامی کا رواج جاری رہا جو آج سے تقریباً ایک صدی قبل اس وقت تک تھا جب غلاموں کی آزادی کی تحریک شروع نہیں ہوئی تھی، کیونکہ انسانی زندگی کے نظام کی تبدیلی سے غلام بنانے کی پرانی روش اب قابلِ قبول نہیں رہی تھی۔

غلامی کے خلاف جدوجہد سب سے پہلے یورپ میں شروع ہوئی، پھر اس کا دائرہ امریکی اور ایشیائی ملکوں تک پھیل گیا۔ انگلستان میں ۱۸۴۰ء تک، فرانس میں ۱۸۴۸ء تک، ہالینڈ میں ۱۸۶۳ء تک اور امریکہ میں ۱۸۶۵ء تک غلامی کا سلسلہ جاری رہا۔ آخرکار برسلز میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مشترکہ اعلامیے کے ذریعے ساری دنیا میں غلامی کے سلسلے کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور یہ ۱۸۹۰ء کی بات ہے (یعنی تقریباً سو سال سے کچھ اُوپر)۔

دورِحاضر میں غلامی کے انداز

یہ درست ہے کہ اہلِ یورپ غلامی کے خاتمے کے لیے پیش قدم ثابت ہوئے لیکن اس مسئلے پر ذرا غوروفکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ غلامی کا نہ صرف یہ کہ خاتمہ نہیں ہوا بلکہ یہ پہلے سے زیادہ خطرناک اور وحشت ناک صورت میں ظاہر ہوئی ہے، یعنی قوموں کے استعمار اور ملکوں پر سامراجیت کی صورت میں۔

یوں انفرادی غلامی جتنا جتنا کمزور ہوتی گئی، اجتماعی غلامی اور سامراجیت اسی قدر فزوں تر اور قوی تر ہوتی گئی حتیٰ کہ سامراج کے چنگل سے آزاد ہونے والے ملکوں اور دوسرے کئی ملکوں میں بھی اقتصادی و ثقافتی غلامی اور استعمار کی حکمرانی ہے۔

اسلام میں آزادی کی راہیں:

۱- اسلام میں زکوٰۃ کے آٹھ مصرف ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے غلاموں کو خرید کر آزاد کروایا جائے۔ وہ (غلام) اپنی مشقت سے کمائی ہوئی رقم سے آہستہ آہستہ ادائیگی کر کے آزاد ہوسکتا ہے۔

۲- اسلام میں غلاموں کی آزادی کو بہترین عبادات میں سے اور عملِ خیر قرار دیا گیا ہے۔ حضرت علیؓ کے حالات میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ اعتق الفأ من کدیدۃ (آپ نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے ایک ہزار غلام آزاد کیے)۔

۳- حضرت امام زین العابدینؓ کے حالات میں ملتا ہے کہ: ‘‘آپ کا غلام آپ کے سر پر پانی ڈال رہا تھا کہ پانی کا برتن اس کے ہاتھ سے گرا جس سے آپ مجروح ہوگئے۔ امام نے اپنا سر اُوپر اٹھایا تو آپ کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر اس نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: والکاظمین الغیظ (اور غصہ کو پی جانے والے……) حضرت نے فرمایا: ‘‘میں نے اپنا غصہ پی لیا’’۔ اس نے کہا: والعافین عن الناس (اور معاف کردینے والے……) امام نے فرمایا: ‘‘میں نے تجھے معاف کیا’’۔ اس نے فوراً کہا: واللّٰہ یحب المحسنین (اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے) تو امام نے فرمایا: ‘‘جاؤ راہِ خدا میں تم آزاد ہو’’۔

بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ سات سال کے بعد غلام خود بخود آزاد ہوجاتا ہے۔ اسلام میں بہت سی خلاف ورزیوں اور خطاؤں کا کفارہ غلاموں کی آزادی مقرر کیا گیاہے (مثلاً قتلِ خطا، جان بوجھ کر روزہ نہ رکھنا اور قسم وغیرہ کے کفارے)۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: شرالناس من باع الناس (بدترین لوگ وہ ہیں جو انسانوں کو بیچتے ہیں)۔

آنحضرتؐ کا ایک ارشاد گرامی یہ بھی ہے کہ:‘‘خدا تین گناہوں کے سوا دوسرے سب گناہ معاف کردے گا:

۱- جو شخص اپنی زوجہ کے مہر کا انکار کردے۔

۲- مزدور کی مزدوری غصب کرے۔

۳- کسی انسان کو بیچ ڈالے۔

جیساکہ ہم بتا چکے ہیں کہ اسلام نے صرف ایک موقع پر یا صرف ایک وجہ سے غلام بنانے کی اجازت دی ہے اور وہ ہے جنگ اور وہ بھی صرف جنگی قیدیوں کو اور یہ بھی لازمی ہرگز نہیں ہے کہ ضرور غلام بنائیں چاہیں تو بے شک معاف کردیں۔

غلاموں کے حقوق

نبی اکرمؐ نے فرمایا: ‘‘کوئی آقا اپنے غلام کو ‘عبد’ نہ کہے بلکہ ‘فتای’ (میرا جوان) کہے اور اسی طرح غلاموں کو ممانعت کی کہ وہ اپنے آقاؤں کو ‘رب’ نہ کہیں بلکہ ‘مولیٰ’ کہیں۔ فرمایا کہ جن کو تم غلام کہتے ہو یہ بھی تمہارے بھائی ہیں۔ انہیں خدا نے تمہارے ماتحت کیا ہے لہٰذا ان کو وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے اور وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ ڈالو جو ان پر بھاری ہوجائے۔ اگر کام بھاری ہو تو اس میں خود شریک ہوکر ان کی مدد کرو’’۔

اسلام نے غلاموں کے بارے میں جو رویہ اپنایا اس کے نتیجے میں غلام ایسے ایسے بلند مناصب پر فائز ہوئے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اجتماعی زندگی میں غلاموں کی حیثیت کسی طرح آزادوں سے کم نہ تھی۔ علم، سیاست، مذہب، معاشرت غرض ہر شعبہ میں ان کے لیے ترقی کی راہیں کھلی ہوئی تھیں اور غلام ہونا ان کے لیے کسی رکاوٹ کا باعث نہ تھا…… رسولؐ اللہ نے خود اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینبؓ کو جنہیں بعد میں اُم المومنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہؓ سے بیاہ دیا۔

امام حسینؓ کا نکاح ایران کی ایک شہزادی سے ہوا جو جنگ میں لونڈی بن کر آئی تھیں۔ امام زین العابدین اسی لونڈی کے بطن سے تھے جن کی اولاد اشرفِ اسلام میں سب سے بالاتر درجہ رکھتی ہے۔ امام حسن بصریؒ جو آئمہ تابعین کے سرخیل اور اصحابِ طریقت کے پیشوا ہیں، ایک غلام کے بیٹے تھے۔ امام ابوحنیفہؒ جو کروڑوں مسلمانوں کے مقتدا ہیں اور جن کو اسلامی دنیا امام اعظم کے لقب سے یاد کرتی ہے، بنی تیم اللہ کے موالی میں سے بتائے جاتے ہیں۔ مشہور محدث اور منصف (قاضی) ابن سیرین جن کا شمار اکابر تابعین میں ہوتا ہے، ایک غلام کے بیٹے تھے۔ ان کے باپ سیرین اور ماں صفیہ دونوں مملوک تھے اور حضرت صفیہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ تین امہات المومنین نے انہیں دلہن بنایا تھا اور سیرین سے ان کا نکاح ابی بن کعبؓ جیسے جلیل القدر صحابی نے پڑھا یا تھا۔

امام مالکؒ کے استاد نافع حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام تھے۔ عبداللہ بن مبارک جن کا شمار اکابر مجتہدین میں ہوتا ہے، ایک غلام مبارک کے بیٹے تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ غلام تھے جن کے بارے میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں: سلمان منا اہل البیت (سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہیں) بلال حبشی غلام تھے جن کو حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ بلال سیدنا ومولٰی سیدنا (بلال ہمارے آقا کا غلام اور ہمارا آقا ہے) صہیب رومیؓ غلام تھے جنہیں حضرت عمرؓ نے اپنی جگہ مسلمانوں کی امامت کے لیے کھڑا کیا تھا۔ سالمؓ ابوحذیفہؓ کے غلام تھے جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا تھا کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو میں ان کو خلافت کے لیے منتخب کرتا۔ اسامہ بن زیدؓ غلام زادے تھے جنہیں رسول اکرمؐ نے اپنے آخری وقت میں اس لشکر کا سردار بنایا تھا جس میں حضرت ابوبکرؓ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے اور جن کے متعلق حضرت عمرؓ نے اپنے صاحب زادے عبداللہؓ سے کہا تھا کہ اسامہ کا باپ تیرے باپ سے اور اسامہؓ خود تجھ سے رسولؐ اللہ کو زیادہ محبوب تھا۔

یہ تو قرونِ اولیٰ کی باتیں ہیں۔ بعد کے ادوار میں جب کہ اُمت میں اسلامی روح بہت کمزور پڑ گئی تھی۔ تب بھی کئی درخشاں مثالیں موجود رہیں۔ مثلاً قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش اور غیاث الدین بلبن جیسے جلیل القدر غلاموں نے خود ہمارے ملک (ہندو پاک) پر حکومت کی ہے۔ محمود غزنوی جو اپنے وقت میں دنیا کا بڑا فاتح تھا نسلاً ترکی غلام تھا۔ مصر میں کئی صدیوں تک ممالیک کی حکومت رہی ہے اور ان کا نام خود کہتا ہے کہ وہ دراصل غلام تھے جنہوں نے بادشاہت کی۔

ان غلاموں کو کون غلام کہہ سکتا ہے؟ کیا آزادوں کے لیے ان سے کچھ زیادہ ترقی، عزت و اقتدار حاصل کرنے کے مواقع تھے؟ کیا ان کی غلامی نے ان کو اجتماعی زندگی میں اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج تک پہنچنے سے روکا؟ اگر غلامی اسی چیز کا نام ہے اور وہ ایسی ہی ہوتی ہے تو پھر آزادی کا نام غلامی رکھ دینے میں کیا حرج ہے؟ یہ طریقے تھے جن سے اسلام نے غلامی کو گھٹاتے گھٹاتے آزادی سے جا ملایا بلکہ دونوں میں کچھ فرق نہ رہنے دیا۔

دنیا کی اُس غلامی کو جس میں جبروتشدد اور بہیمیت کے سوا کچھ نہیں تھا، اسلام کی اس غلامی سے آخر کیا نسبت ہوسکتی ہے جو وسیلہ خیروبرکت اور سراپا رحمت تھی…… یعنی:

چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک

(ماخوذ از غلامی ، ایک تاریخی جائزہ)

(بشکریہ ،ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ، دسمبر ۲۰۰۷ء)