سلام و مصافہ

مصنف : مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اکتوبر2016

جواب :سلام کہنا سنت ہے، اور اس کا جواب دینا واجب ہے، جو پہلے سلام کرے اس کو بیس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو دس۔ غیرمسلم کو ابتدا میں سلام نہ کہا جائے اور اگر وہ سلام کہے تو جواب میں صرف ‘‘وعلیکم’’ کہہ دیا جائے۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: صحیح بخاری (ج:۲ ص:۶۲۹) میں حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
‘‘علمنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم التشھد وکفّی بین کفّیہ‘‘ 
ترجمہ:مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے التحیات سکھائی، اور اس طرح سکھائی کہ میرا ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کے درمیان تھا۔’’
اِمام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ‘‘باب المصافحۃ’’ کے تحت ذکر فرمائی ہے، اور اس کے متصل ‘‘باب الاخذ بالیدین’’ کا عنوان قائم کرکے اس حدیث کو مکرّر ذکر فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنتِ نبوی ہے، علاوہ ازیں مصافحہ کی رْوح، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے تحریر فرمایا ہے:
اپنے مسلمان بھائی سے بشاشت سے پیش آنا، باہمی اْلفت و محبت کا اظہار ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص:۸۹۱)
اور فطرتِ سلیمہ سے رْجوع کیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تواضع، انکسار، اْلفت و محبت اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیں پائی جاتی۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)


جواب:سلام اور مصافحہ ان لوگوں کے لئے مسنون ہے جو باہر سے مجلس میں آئیں۔ فجر و عصر کے بعد سلام اور مصافحہ کا جو رواج آپ نے لکھا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے یہاں اس کا معمول نہیں تھا، لہٰذا یہ رواج بدعت ہے۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

سوال:میں کئی مرتبہ اخبار ‘‘جنگ’’ میں ‘‘فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم’’ کے عنوان کے تحت شائع ہونے والی حدیثوں میں ایک حدیث پڑھ چکا ہوں، جس کا لب لباب کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی محفل میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ کرامؓ ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سخت ناپسند فرمایا اور اپنے احترام کے لئے کھڑے ہونے کو منع فرمایا۔
اب صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ آج کل کافی افراد اساتذہ یا بزرگوں یا پھر بڑے عہدوں پر فائز حکمراں افراد کے احترام میں کھڑے ہوکر استقبال کرتے ہیں، حدیث مبارکہ کی حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں لیکن شاید ہم کم فہم لوگ اس کی تشریح صحیح نہ کرسکے ہیں۔ لہٰذا مہربانی فرماکر اس بات کی مکمل وضاحت فرمائیں کہ آیا کسی بھی شخص (چاہے وہ والدین ہوں یا ملک کا صدر ہی کیوں نہ ہو) کے لئے (اس حدیث کی روشنی میں) کھڑا ہونا جائز نہیں؟ یا پھر اس حدیث شریف کا مفہوم کچھ اور ہے؟

جواب:یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک یہ کہ کسی کا یہ خواہش رکھنا کہ لوگ اس کے آنے پر کھڑے ہوا کریں، یہ متکبرین کا شیوہ ہے، اور حدیث میں اس کی شدید مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ‘‘جس شخص کو اس بات سے مسرّت ہو کہ لوگ اس کے لئے سیدھے کھڑے ہوا کریں، اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔’’
بعض متکبر افسران اپنے ماتحتوں کے لئے قانون بنادیتے ہیں کہ وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوا کریں، اور اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی شکایت ہوتی ہے، اس پر عتاب ہوتا ہے اور اس کی ترقی روک لی جاتی ہے، ایسے افسران بلاشبہ اس ارشادِ نبوی کا مصداق ہیں کہ: ‘‘انہیں چاہئے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائیں۔’’
اور ایک یہ کہ کسی دوست، محبوب، بزرگ اور اپنے سے بڑے کے اکرام و محبت کے لئے لوگوں کا ازخود کھڑا ہونا، یہ جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آمد پر کھڑے ہوجاتے تھے، ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے تھے اور ان کو اپنی جگہ بٹھاتے تھے، اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر کھڑی ہوجاتیں، آپ کا دست مبارک پکڑ کر چومتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔ (مشکوٰۃ ص:۲۰۴) یہ قیام، قیامِ محبت تھا۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضراتِ انصار رضی اللہ عنہم سے فرمایاتھا۔
‘‘قوموا الٰی سیّدکم! متفق علیہ۔’’ 
یعنی اپنے سردار کی طرف کھڑے ہوجاو۔ یہ قیام اِکرام کے لئے تھا۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہمارے ساتھ بیٹھے ہم سے گفتگو فرماتے تھے، پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو ہم بھی کھڑے ہوجاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواجِ مطہراتؓ میں سے کسی کے دولت کدے میں داخل نہ ہوجاتے۔ 
یہ قیام تعظیم و اِجلال کے لئے تھا، اس لئے مریدین کا مشائخ کے لئے، تلامذہ کا اساتذہ کے لئے اور ماتحتوں کا حکامِ بالا کے لئے کھڑا ہونا، اگر اس سے مقصود تعظیم و اِجلال یا محبت و اِکرام ہو تو مستحب ہے، مگر جس کے لئے لوگ کھڑے ہوتے ہوں اس کے دِل میں یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ لوگ کھڑے ہوں۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب: آپ کی ٹریننگ کا یہ اْصول کہ سینٹر میں داخل ہوتے وقت یا باہر سے آنے والے اساتذہ وغیرہ کے سامنے رْکوع کی طرح جھکنا پڑتا ہے، شرعی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کرتے وقت جھکنے کی ممانعت فرمائی ہے، چہ جائیکہ مستقل طور پر اساتذہ کی تعظیم کے لئے ان کے سامنے جھکنا اور رْکوع کرنا جائز ہو۔ حدیث شریف میں ہے، جس کا مفہوم ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ‘‘ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی یا دوست سے ملے تو اس کے سامنے جھکنا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں!
مجوسیوں کے یہاں یہی طریقہ تھا کہ وہ بادشاہوں، امیروں اور افسروں کے سامنے جھکتے تھے، اسلام میں اس فعل کو ناجائز قرار دیا گیا۔ ٹریننگ کا مذکورہ اْصول اسلامی اَحکام کے منافی ہے، لہٰذا ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ وہ فوراً اس قانون کو ختم کریں۔ اگر وہ اسے ختم نہیں کرتے تو طلباء کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس سے انکار کریں، اس لئے کہ خدا کی ناراضی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

()

جواب: وعلیکم السلام کہنے میں عار نہیں بلکہ جو شخص السلام علیکم کہنے میں پہل کرے، اس کے جواب میں ‘‘وعلیکم السلام’’ کہنا واجب ہے۔ غلط رواج کی اصلاح یوں ہوسکتی ہے کہ اگر دونوں ایک ساتھ سلام کہہ دیں تو دونوں ایک دْوسرے کے جواب میں ‘‘وعلیکم السلام’’ کہا کریں، اور اگر ایک پہلے ‘‘السلام علیکم’’ کہہ دے تو دْوسرا صرف ‘‘وعلیکم السلام’’ کہے۔

()

جواب: عیدین کا معانقہ کوئی دِینی، شرعی چیز تو ہے نہیں، محض اظہارِ خوشی کی ایک رسم ہے، اس کو سنت سمجھنا صحیح نہیں، اگر کوئی شخص اس کو کارِ ثواب سمجھے تو بلاشبہ بدعت ہے، لیکن اگر کارِ ثواب یا ضروری نہ سمجھا جائے محض ایک مسلمان کی دِلجوئی کے لئے یہ رسم ادا کی جائے تو اْمید ہے گناہ نہ ہوگا۔

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)

جواب:عید کے بعد مصافحہ یا معانقہ کرنا محض ایک رواجی چیز ہے، شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں، اس لئے اس کو دِین کی بات سمجھنا بدعت ہے، لوگ اس دن گلے ملنے کو ایسا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اس رواج پر عمل نہ کرے تو اس کو بْرا سمجھتے ہیں، اس لئے یہ رسم لائقِ ترک ہے۔

()

جواب:بڑے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونا جائز ہے، مگر بڑے کو دِل میں یہ خیال نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں فرماتے تھے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں، اس حدیثِ پاک کا یہی محمل ہے۔
 

(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)