تخلیق آدم

مصنف : ڈاکٹر حمیداللہؒ

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اگست 2008

            ڈارون کا نظریہ ہمارے ہاں بعض اوقات اس لیے پیچیدگی پیدا کرتا ہے کہ ہم فرض کرتے ہیں کہ ڈارون ایک ملحد تھا ،خدا کو نہیں مانتا تھا حالانکہ ڈارون کی سوانح عمری پڑھیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ڈارون خدا کا قائل تھا ۔جب وہ اپنے آبائی فن علم طب کی تعلیم مکمل کر کے ڈاکٹر بن گیا تو یکا یک کایا پلٹ گئی دنیا سے نفور ہو گیا اورخدا کی طرف مائل ہوگیا ۔چنانچہ کیمبرج یونیورسٹی میں اس نے عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کی جہاں طلبہ کو تقابل ادیان کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہاں ڈارون نے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے عربی زبان بھی پڑھی اس کے خطوط کا جو مجموعہ شائع ہوا ہے اس میں کئی خط اس نے اپنے عربی استاد کے نام لکھے ہیں اور بے حد ادب و احترام سے اس کا نام لیا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کیمبرج یونیورسٹی میں عربی نصاب کی جو کتا بیں پڑھائی جاتی تھیں ’ان میں یاتو ‘‘اخوان الصفا ’’کے اقتباسات ہوں گے یا ‘‘ابن سکسکو یہ’’کی ‘‘الفوزالاصغر ’’کے انتخابات ۔ان دونوں میں ارتقا ء کا نظریہ بیان کیا گیا ہے اور آپ کو معلوم کر کے حیرت ہو گی کہ ان مسلمان مؤ لفوں کی زندگی میں کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور کبھی انہیں کافر قرار نہیں دیا ۔اخوان الصفا اور ‘‘ابن سکسکویہ’’ کی ‘‘الفوزالاصغر’’ تیسری چوتھی صدی کی کتابیں ہیں ،ان میں لکھا ہے کہ خدا پہلے مادے کو پیدا کرتا ہے اور اس مادے کو ترقی عطا کرتا ہے لہذا اولاًوہ مادہ غبار یا دھویں کی صورت اختیار کر تا ہے پھر ترقی کرتے ہوئے پانی کی صورت اختیار کرتا ہے پھر ترقی کرتے ہوئے جمادات کی صورت اختیار کرتا ہے جمادات ترقی کرتے ہوئے مختلف قسم کے پتھر بنتے ہیں اور بالآ خر وہ مرجان کی صورت اختیا ر کرتے ہیں جو ہوتے تو پتھر ہیں لیکن ان میں درخت کی سی شاخیں ہوتی ہیں پھر جمادات کے بعد نباتات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے درخت ترقی کرتے جاتے ہیں اور سب سے آخری مرحلے میں ایسا درخت ملتا ہے جو جانور کی خصوصیات سے بہت قریب ہے ۔یہ ہے کھجور کا درخت ۔اور درختوں کے بالمقابل کھجور درخت میں نر اور مادہ الگ الگ ہوتے ہیں۔اسی طرح اور درختوں کے بالمقابل جن کی ساری شاخیں بھی کاٹ دی جائیں تو درخت نہیں مرتا ،کھجور کا سر کاٹ دیں تو درخت مر جاتا ہے اس لیے کھجور کے درخت کو اعلیٰ ترین پودے اور ادنیٰ ترین حیوان دونوں سے مشابہت ہے۔ پھر ادنیٰ ترین قسم کا حیوان پیدا ہوتا ہے ،وہ ترقی کرتے کرتے کیا بنتا ہے ،ابن سکسکو یہ بیان کرتا ہے اور ‘‘اخوان الصفا ’’میں بھی وہی بیان کیاگیا ہے کہ وہ بندر کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ یہ ڈارون کا بیان نہیں ہے یہ مسلمان حکما کا بیان ہے ۔پھر اس کے بعد ترقی کرتا ہے تو ادنیٰ قسم کا انسان بنتا ہے وحشی انسان وہ ترقی کرتے کرتے اعلیٰ ترین انسان بنتا ہے یہ بشر ولی اور پیغمبر ہوتا ہے پھر اس سے بھی ترقی کر کے فرشتہ بنتا ہے پھر فرشتوں کے بعد ذات باری تعالیٰ خدا ہی کی ذات ہوتی ہے ہر چیز خدا سے شروع ہو کر خدا ہی کی طرف جاتی ہے ۔‘‘والیہ المرجع والماب’’ یہ ہے ہمارے حکما کا بیان ۔جب یہ چیزیں مسلمان حکما نے بیان کیں اور ان پر مسلمان فقہا نے ان کی زندگی میں کبھی کفر کا فتویٰ نہیں دیا تو اس کو اسلام کے خلاف قرار دینا ایک غور طلب بات ہے ۔قرآن مجید میں آدم ؑ کی پیدائش کے متعلق یہ ضرور بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ہمارا تصور یہ ہے کہ اللہ ایک کمہار کی طرح مٹی کو لیتا ہے اور اس کی مورت بناتا ہے پھر اس کے اندر روح پھونکتا ہے ۔ممکن ہے ایسا ہوا ہو ،میں انکار نہیں کرسکتا لیکن آپ ان آیتوں کو (۱۸:۳۷:۲۲:۵،۳۵:۱۱:۴۰:۶۷)کو کیاکریں گے جن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو ‘‘مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا ’’ظاہر ہے کہ مٹی سے کبھی نطفہ پیدا نہیں ہوتا ،حیوان اور انسان سے نطفہ نکلتا ہے اس کے معنی یہ ہے کہ اللہ نے سارے درمیانی مدارج کی تفصیل کو وہاں حذف کر دیا اور کہا کہ مٹی تمھا ری اصل ہے اور تمھاری پیدائش کا آخری وسیلہ تمھارے باپ کا نطفہ ہے جو تمھاری ماں کے رحم میں ہوتا ہے اوراس طرح تم پیدا ہو جاتے ہو ،ایک آیت ( ۷۱ :۱۴ ) کو لیجئے ‘‘خلقکم اطوارا’’( خدا نے انسان کو طور ،بہ طور پیدا کیا )‘‘طور وہی لفظ ہے جس سے تطور (ارتقا ) کا لفظ بنایا گیا ہے ،اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اولاً جمادات کی شکل میں پیدا فرمایا پھر وہی جمادات ترقی کر تے ہوئے نباتا ت بنتے ہیں پھر حیوان بنتے ہیں ۔غرض اس میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا ،شاید آپ کی واقفیت کے لیے ایک چیز عرض کروں کہ آپ کی یونیو رسٹی لائبریری ( بہاولپور یونیورسٹی) میں ایک چھوٹا سا مضمون عربی زبا ن میں آپ کو ملے گا ‘‘خلق الکائنات وتطورالانواع حسب آراالمفکرین المسلمین ’’سے آپ دیکھ سکتے ہیں ،جس میں آپ کو یہ ساری تفصیلات ملیں گیں ،اس میں بہ کثرت مسلمان عالموں اور صحافیوں کے بیانات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔

 (اقتباس:خطبات بہاولپور ازڈاکٹر محمد حمیداللہ )