دو ضرب دو؟

مصنف : خضر حیات ناگپوری

سلسلہ : عالمی ادب

شمارہ : جولائی 2008

مترجم ، پروفیسر خضر حیات ناگپوری

حالانکہ مشرقی یورپ کے ملکوں سے کمیونزم کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن اس کے اثرات آج بھی ان ملکوں کے عوام کی زندگیوں میں نظر آتے ہیں۔ سرکاری سینسر کی دہشت عوام الناس کے قلب و ذہن پر کس قدر چھائی ہوئی ہے ، اس کا اندازہ ‘‘بوڈا پسٹ ریڈیو’’ سے نشر شدہ اس طنزیہ کہانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ آمریت چاہے نظریاتی ہو یا شخصی ، ریاستی سطح پر ہو یا اداروں کی سطح پر ، بدترین قسم کی منافقت کو جنم دیتی ہے ۔ خو دکہانی لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔(مترجم)

بوڈا پیسٹ سے شائع ہونے والے ایک اخبارکے نامہ نگار نے ایک راہ چلتے شخص سے پوچھا ، دو ضرب دو کتنے ہوتے ہیں؟

‘چار’ لیکن اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے؟ دو ضرب دو چار ہوتے ہیں اور کیا؟ اس شخص نے جواب دیا۔

کیا آپ کو پورا یقین ہے کہ دوضرب دو چار ہی ہوتے ہیں؟

 ہاں دو ضرب دو چار ہی ہوتے ہیں۔

 واقعی!

 ہاں واقعی ، میں اس بات پرشرط لگانے کو تیار ہوں۔

 واہ! کیا کہنے ! اچھا تو کیاآپ یہ بات مجھے لکھ کر دے سکتے

ہیں؟

کیا؟

یہی کہ دوضرب دو چار ہوتے ہیں۔ بس ایک کاغذ پر آپ یہ لکھ دیجیے ۔اور اس پر تاریخ ڈال کر اپنے دستخط کر دیجیے۔

آپ بڑے ہی بدھو نظر آتے ہیں ! خیر میرے پاس قلم نہیں ہے۔

آپ قلم کے لیے پریشان نہ ہوں ، میرے قلم سے لکھ دیں

میں دوسروں کے قلم استعمال نہیں کرتا۔ اس سے متعدی امراض لگ سکتے ہیں۔

اچھا ٹھیک ہے ، چلیے میں آپ کو ایک نیا قلم خرید دیتا ہوں۔

تم نے کیا مجھے بھکاری سمجھ رکھا ہے ؟میرے گھر میں بیسیوں قلم ہیں۔

کوئی بات نہیں۔ کیا میں آج شام کو آپ کے گھر آ سکتا ہوں۔

اگر تم میرے گھر آئے تو میں تمہیں دھکے مار کر باہر نکال دوں گا۔

واقعی! اچھا تو یہ بتا دیجیے کہ آپ دستخط کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں۔آپ نے ابھی ابھی کہا ہے کہ دو ضر ب دو چارہوتے ہیں اور اسی بات پر آپ شرط لگانے کو بھی تیار ہیں۔

ہاں یہ تو ہے ہی ! مگر میں کبھی بھی تمہیں یہ لکھ کر نہیں دوں گا۔ تم اسے بعد میں کسی کو بھی دکھا سکتے ہو۔

تو اس سے کیا ہوا ؟ دو ضرب دو تو ہمیشہ چار ہی ہوتے ہیں نا

ہاں ہوتے ہیں، لیکن دیکھ بھائی ! میں بال بچے والا آدمی ہوں ، میں سیاست کے چکروں میں نہیں پڑ نا چاہتا۔

مگر یہ سیاست تو نہیں ہے ۔

یہ میں نہیں جانتا۔لیکن میں بچ کر رہنا چاہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں اس طرح لکھ کر دینے سے میں کسی قسم کی پریشانی میں پڑ جاؤں۔

اچھا تو آپ ایک کام کریں۔ میں خود ایک کاغذ پر لکھ دیتا ہوں کہ دو ضرب دو چار ہوتے ہیں بس آپ اس کے نیچے دستخط کر دیجیے ۔ اس طرح آپ کی بھی چھٹی اور میری بھی ۔ اور آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔

یہ تو وہی بات ہوئی! اگر تم چاہو تو میں یہ لکھ کر دے سکتا ہوں کہ آج کل عموماً لوگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ دو ضرب دو چار ہوتے ہیں ، ٹھیک ہے نا۔

نہیں ، میں تو آپ کی اپنی رائے چاہتا ہوں کیوں کہ میں لوگوں کی ایماندارانہ آرا کوجمع کر رہا ہوں۔

تب تم بھاڑ میں جاؤ ، میں کچھ بھی لکھ کر دینے والا نہیں۔

ٹھیک ہے لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ میں سب لوگوں سے کہہ دوں گا کہ آپ نے کہا تھا کہ دو ضرب دو چار ہوتے ہیں۔

مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔ میں انکار کردوں کا کہ میں نے کبھی ایسا کہا تھا!۔

(انگریزی سے ترجمہ)