باپ

مصنف : بجور نسٹرین بجور نسن

سلسلہ : عالمی ادب

شمارہ : اپریل 2005

بجور نسٹرین بجور نسن ؍ ترجمہ، خاقان ساجد

انتخاب: الطاف محمود ، لاہور

(نوبل انعام یافتہ ادیبوں کے مشہور افسانوں سے ایک انتخاب)

مصنف کا تعارف: ادب کا دوسرا انعام حاصل کرنے والا مصنف بجورنسٹرین بجورنسن نارویجین تھا۔ وہ ۸ دسمبر ۱۸۳۲ء کو کیوبکنی (ناروے) میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ پادری تھا۔ مذہبی اعتبار سے وہ مارٹن لوتھر سے بے حد متاثر تھا۔ اس نے کسی کالج یا یونیورسٹی سے کوئی ڈگری حاصل نہ کی۔ اس نے ناروے کے کئی اہم پرچوں کی ادارت بھی کی اور ایک ایڈیٹر کے حوالے سے اس نے ناروے میں خاصی شہرت حاصل کی۔ ناروے حکومت کی طرف سے اسے ۱۸۶۳ء میں ‘‘مصنف کے اعزازیے’’ کا حق دار قرار دیا گیا تھا۔ یہ تنخواہ ناروے حکومت اسے دیتی تھی اور وہ ناروے کا پہلا مصنف تھا جسے یہ ‘‘اعزازیہ’’ جاری کیا گیا۔ 
جب بجورنسن کو نوبل انعام ملا تو اس کی عمر ۷۱ برس تھی اور وہ یورپی دنیا میں ایک بڑے شاعر اور ڈراما نگار کی حیثیت سے اپنا مقام بنا چکا تھا۔ اس نے کئی تاریخی کھیل بھی لکھے تھے۔ کہانیاں بھی لکھیں جو ناروے کی دیہی زندگی سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بجورنسن ہی تھا جس نے وہ مشہور نظم لکھی جسے ناروے کے قومی ترانے کا درجہ دیاگیا۔ اپنے ملک کا ترانہ لکھنے کے حوالے سے وہ ان معدودے چند شعرا میں شامل ہو چکا ہے جنہوں نے اپنے ملکوں کے قومی ترانے لکھے۔ بجور نسٹرین بجورنسن کا انتقال ۲۶ اپریل ۱۹۱۰ کو ہوا۔ 

 شفقت پدری کے پردوں میں چھپے لطیف ترین جذبات اور ان کے خوبصورت اظہار کا نام ‘‘باپ’’ ہے۔باپ بیٹے کے تعلق کی جو لطافتیں اور جہات عام طور پر الفاظ کی دستر س سے باہر رہ جاتی ہیں مصنف کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان کو بھی الفاظ کے دائرے میں لے آیا ہے۔اس کہانی کا دوسرا سبق وہ مثبت رویہ ہے جو شدت غم یا مکمل ناکامی کی صورت میں باپ کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ اور یہ رویہ اسی صورت میں رونماہو سکتا ہے جب اُخروی زندگی کا زندہ تصور انسانوں میں موجود ہو ۔اس سب کے علاوہ یہ کہانی ہمارے محترم بھائی الطاف محمود کے حسن انتخاب اور حسن ذوق کی بھی آئینہ دار ہے۔ مدیر

                تھورڈ اوراس اپنے قصبے کا امیر ترین دہقان تھا۔ ایک دن،و ہ اپنے قصبے کے واحد پادری کے دارالمطالعہ میں گیااور کہا:‘‘فادر! خدا نے مجھے ایک بیٹے سے نوازا ہے۔’’ خوشی اور جوش اس کے سارے بدن سے ہویدا تھا۔ ‘‘میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کو عیسائیت میں داخل کرنے کی رسم ادا کریں۔ ’’پادری مسکرایا۔ ‘‘اچھا مبارک ہو۔ اس کا نام کیا سوچا ہے؟’’ ‘‘اس کا نام ہو گا فن۔ میرے والد کے نام پر۔’’ ‘‘تمہاری ناگہانی موت کی صورت میں اس بچے کی کفالت کے ضامن کون ہوں گے؟’’ پادری نے پوچھا۔تھورڈ نے اسی قصبے میں رہنے والے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے چند معتبر نام بتا دیے۔ پادری نے تھورڈ کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا: ‘‘اور کچھ؟’’زمیندار تھوڑا سا ہچکچایا اور بولا:‘‘فادر میں آپ کو تعطیل والے دن تکلیف دینا چاہتا ہوں۔’’‘‘اس کا مطلب ہے اس ویک اینڈ پر؟’’‘‘ہاں ! ہفتہ والے دن۔دوپہر کے بارہ بجے۔’’‘‘اس کے علاوہ کوئی اور بات؟’’‘‘نہیں شکریہ فادر! اب اجازت چاہوں گا۔’’ تھورڈ نے ا نگلی پر ٹوپی گھماتے ہوئے کہا:‘‘نہیں ایک آخری بات رہ گئی ہے۔’’ پادری اپنی جگہ سے اٹھا ۔ تھورڈ کے قریب ہو کر اس نے اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر بردباری سے بولا: ‘‘خدا کے فضل سے تمہارا بچہ تمہارے لیے اس کی رحمت و برکت ثابت ہو گا۔’’

                سولہ سال کے بعد ایک دن پھر تھورڈ پادری کے دارالمطالعہ میں حاضر ہوا۔ ‘‘تمہاری صحت اور جوانی تو حیرت انگیز طور پر قائم ہے! ’’ حیران پادری کو تھورڈ کے جسم میں کوئی خاص تبدیلی دکھائی نہ دی۔

                ‘‘کیونکہ مجھے کوئی فکر و غم نہیں ہے اور میرا چھوٹا بیٹا بھی اب خوبصورت نوجوان بن چکا ہے۔’’ تھورڈ ہنستے ہوئے بولا۔ پادری مسکرایا اور توقف کے بعد پوچھا۔’’ آج تمہیں کون سی خوشی یہاں لے آئی ہے؟’’ ‘‘کل گرجا میں نوجوانوں کی دینی تلقین و توثیق کی رسم ادا ہونے والی ہے۔ اس میں میرا بیٹا بھی شامل ہو گا۔’’ تھورڈ چہکا۔ ‘‘فادر! میں اس وقت تک آپ کو نذرانہ پیش نہیں کروں گا جب تک آپ مجھے نہیں بتائیں گے کہ کل میرے بیٹے کی باری کون سے نمبر پر آئے گی؟’’‘‘یقینا کل پہلی باری اُس کی ہو گی ! ’’ پادری نے ہنستے ہوئے کہا۔‘‘شکریہ فادر! یہ دس ڈالر میں آپ کی نذر کرتا ہوں۔’’ تھورڈ نے دس ڈالر میز پر رکھ دیے۔پادری اس کے چہرے کی خوشی دیکھتے ہوئے بولا ، ‘‘میرے لائق اور کوئی خدمت؟’’ ‘‘نہیں فادر اور کچھ نہیں۔ ’’ اورتھورڈ پادری سے اجازت لے کر چلا گیا۔

                آٹھ سال اور گزر گئے کہ ایک دن اچانک پادری کو اپنے کمرے کے باہر شور سنائی دیا۔ کافی سارے لوگ دارالمطالعہ کی طرف آرے تھے اور سب سے پہلے داخل ہونے والا شخص تھورڈ تھا۔ پادری نے اوپر دیکھا اور تھورڈ کو فوراً پہچان گیا۔ تھورڈ بہت غصے میں دکھائی دیتا تھا:‘‘آج بہت لوگوں کو ساتھ لے آئے ہو تھورڈ کیا بات ہے؟’’ پادری نے پوچھا۔‘‘فادر! میں آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ میرے بیٹے پر پابندی لگائیں اور پابندی اپنے روزنامچے میں درج کر لیں۔’’ تھورڈ تیزی سے بولا:‘‘لیکن کیوں؟ وہ تو بہت فرمانبردار لڑکا ہے۔’’ پادری حیران ہوا۔‘‘وہ کیرن سے شادی کرناچاہتاہے۔’’تھورڈ پھنکارا۔ ‘‘لیکن کیرن تو قصبے کی نفیس ترین لڑکی ہے۔’’

                ‘‘وہ بھی یہی کہتا ہے۔’’ تھورڈ نے اپنے بالوں کو انگلیوں سے سنوارا۔ ‘‘میں اس رشتے کے لیے راضی نہیں ہوں۔’’پادری کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر اس نے کچھ کہے بغیر اپنے روزنامچے میں دونوں کے نام درج کر لیے اور نیچے تھورڈ اور گواہوں سے دستخط لے لیے۔ تھورڈ نے تین ڈالر میز پر رکھ د یئے۔‘‘فیس تو صرف ایک ڈالر ہے۔ ’’ پادری نے کہا۔‘‘میں جانتاہوں لیکن فادر وہ میرا اکلوتا وارث ہے۔ میں چاہتا ہوں یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے ہو۔’’پادری نے تین ڈالر رکھ لیے اور بولا: ‘‘یہ تیسری دفعہ ہے کہ تم میرے پاس اپنے بیٹے کے سلسلے میں آئے ہو۔’’‘‘بس فادر!ایک دفعہ اور آنا پڑے گا اوریہ آخری دفعہ ہو گا اس کی شادی کے سلسلے میں۔’’ تھورڈ نے پادری کو خدا حافظ کہا اور باہر نکل آیا۔ تمام لوگ اس کے پیچھے آ گئے۔

                کوئی دو ہفتوں کے بعد دونوں باپ بیٹا ہنسی خوشی اپنی کشتی میں سوار کیرن کے گھر کی سمت رواں تھے۔ وہ کیرن کے والد سے مل کر شادی کی تاریخ اور تفصیلات طے کرنا چاہتے تھے۔ خوش گوار موسم اور حسین دن تھا۔ جھیل بھی بہت پر سکون تھی۔ باپ بیٹا باتیں کرتے ہوئے دھیرے دھیرے چپو چلا رہے تھے۔

                ‘‘میری سیٹ کچھ ڈھیلی لگ رہی ہے۔’’ بیٹے نے کہا اور اپنی سیٹ کو کسنے کے لیے کشتی کے تختے پر کھڑا ہوا۔ اچانک اسی لمحے تختے سے اس کا پاؤں پھسلا ۔ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا۔ اس نے سنبھلنے کے لئے ہاتھ اوپر اٹھائے۔چیخ ماری اور پانی میں گر گیا۔ تھورڈ سپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اُچھلا۔ اپنے چپو کو آگے کرتا ہوا چلایا۔ ‘‘بیٹا یہ چپو پکڑ لو! ’’لڑکے نے چپو پکڑنے کی کوشش کی لیکن آنکھوں میں پانی بھر جانے کے باعث چپو نظر نہ آیا۔ چند ایک دفعہ چپو پکڑنے کی کوشش کے بعد لڑکے نے ہمت ہار دی:‘‘ایک منٹ ٹھہرو۔’’ باپ چیخا اور چپو کی مدد سے کشتی کو بیٹے کی طرف دھکیلا۔ ‘‘کشتی کا کنارا پکڑو۔ ہاتھ آگے کرو میرا ہاتھ پکڑو۔’’لیکن لڑکا کشتی سے کچھ دور آخری دفعہ پانی پر اُبھرا، باپ پر آخری نظر ڈالی اور جھیل کی تہ میں بیٹھتا چلا گیا۔ تھورڈ کو یقین نہیں آیا۔ وہ سکتے میں آ گیا۔ وہ مسلسل اسی جگہ کو گھورتا رہا جہاں اس کا لخت جگر ڈوبا تھا۔ اس امید پر کہ شاید وہ ایک دفعہ پھر سطح آب پر آ جائے۔ وہاں کچھ بلبلے پیدا ہوئے اور پھر کچھ اوربلبلے نکلے اور آخر کار ایک آخری بڑا بلبلا۔ جھیل پھر پرسکون اور آئینے کی طرح شفاف ہو گئی۔

                تین دن اور تین راتیں مسلسل بغیر کچھ کھائے پیے اور سوئے باپ، بیٹے کے ڈوبنے کی جگہ کے گرد کشتی گھماتا رہا۔ وہ جھیل سے اپنے بیٹے کی لاش مانگ رہا تھا۔ چوتھے دن صبح کے وقت وہ اپنے بیٹے کی لاش ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے بیٹے کی لاش اپنے بازوؤں میں اٹھا لی اور پہاڑوں میں اپنی جاگیر کی طرف چلا گیا۔

                اس واقعہ کے تقریباً ایک سال بعد کا ذکر ہے۔ ایک خزاں کی شام تھی۔ پادری نے اپنے دارالمطالعہ کی راہداری میں کسی کی آہٹ سنی۔ پادری نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ ایک لمبا دبلا پتلا شخص اندر داخل ہوا۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور تمام بال سفید تھے۔ پادری نے اس کو خاصی دیر غور سے دیکھا تو پہچان پایا ۔ وہ تھورڈ تھا۔‘‘خیریت تو ہے۔ اتنی دیر گئے۔ بہت کمزور ہو گئے ہو؟’’‘‘ہاں فادر! کچھ زیادہ ہی دیرہو گئی ہے۔ ’’ تھورڈ بولا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ پادری نے دوسری کرسی سنبھال لی۔خاصی دیر دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ ایک طویل خاموشی ۔ آخر کار تھورڈ بولا: ‘‘میرے پاس کچھ رقم ہے جو میں اپنے بیٹے کے نام پر غریبوں کے لیے وقف کرنا چاہتا ہوں۔’’وہ اٹھا اور اس نے میز پر نوٹوں کی گڈیوں کا انبار لگا دیا اور پھر بیٹھ گیا۔‘‘یہ تو بہت زیادہ رقم ہے۔’’ پادری حیرت زدہ رہ گیا۔‘‘یہ میری جاگیر کی قیمت ہے۔ میں نے آج اسے بیچ دیا ہے۔’’پادری خاصی دیر حیرت زدہ رہا۔ پھر بولا : ‘‘اب تم کیا کرو گے؟’’ ‘‘کوئی بہتر کام! ’’

                وہ کچھ دیر اور خاموش بیٹھے رہے۔ تھورڈ کی آنکھیں زمین میں گڑی ہوئی تھیں اور پادری کی آنکھیں حیرت سے تھورڈ کو دیکھے جا رہی تھیں۔ پھر پادری نے آہستگی سے تھورڈ کو مخاطب کیا۔ ‘‘آخر کار تمہارا بیٹا تمہارے لیے خدا کی سچی رحمت و برکت ثابت ہوا۔’’

                ‘‘ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔’’ تھورڈ نے سر اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھا۔ دو موٹے آنسو ڈھلک کر اس کے گالوں پر رُک گئے۔

٭.......... ٭..........٭

ادب کا دوسرا نوبل انعام حاصل کر نے والے نارویجین مصنف بجورنسٹرین بجورنسن کی کہانی میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشید ہ ہیں مثلاً: اللہ تعالی نے انسان کو محبت اور پیار کی جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس کااظہا ر عموما رشتوں کے خلوص سے ہوتا ہے ۔اِس کہانی میں باپ کے پیار کی ایک مطلوب سطح کو ظاہر کیا گیا ہے۔ آج ہم ما دہ پرستی کے جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں اولاد کواپنی مصروفیات اور مسائل کی وجہ سے باپ سے وہ گہرا پیار نہیں ہوتا جو کہ ہونا چاہیے یہی حال باپ کا ہے اس کی زندگی بھی کمائی کے چکرمیں گھومتے گھومتے بیت جاتی ہے اور اسے لطیف جذبات کی اظہار کا موقع ہی نہیں مل پاتا ۔یہ کہانی مصنف کی ایک کوشش ہے کہ آپ کو پیار کا وہ معیار اور لیول بتا سکے جو کہ ہونا چاہیے۔اس کہانی کا دوسرا پیغام فنا کا ہے ۔ ہمارے پاس جو کُچھ ہے وہ اللہ کی امانت ہے ، وہ جب چاہے اپنی امانت واپس لے سکتا ہے۔ ہمیں زندگی یہ سوچ کر گزارنی چاہیے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ کسی بھی لمحے واپس لیاجا سکتا ہے۔تو کیوں نہ ہم اُس کی دی ہُوئی نعمتوں کو ضرورت مندوں میں Share کریں وہ چاہے خوشیاں ہوں،چاہے مال و دولت ہو اور چاہے وقت ہی ہو۔ اِس میں اپنے بیٹوں سے نالاں باپوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ ان کو ان کی تمام خامیوں کے ساتھ گلے لگا کر کوشش اور دعا جاری رکھیں تو روشنی کی امید کی جا سکتی ہے۔مسائل دروازے بند کرنے سے نہیں بلکہ کھلے رکھنے سے حل ہوتے ہیں۔ (الطاف محمود)

اولاد پھر اولاد ہے لختِ جگر ہے جسم کا جزو ہے اور اُس کے ساتھ پیار اور دوستی سے ہی اِس کائنات میں خوشیاں ہیں۔

٭.......... ٭..........٭