خون مسلم کی حرمت

مصنف : پروفیسر بشارت علی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جولائی 2008

پروفیسر بشارت الہی

(آزاد کشمیر)

            اللہ کریم نے انسان کو نہ صرف یہ کہ تمام مخلوقات پر اشرف و اکرم ہونے کا اعزاز بخشا بلکہ خود ابنائے آدم پر ایک دوسرے کی عزت و حرمت لازم قرار دے دی۔ ان کی جان ،مال اور آبرو کی حرمت قائم کی اور کسی دوسرے انسان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا بھی حرام قرار دے دیا، بلکہ ابن آدم کے ایک ایک عضو کو محترم و مقدس بنایا جیسا کہ سورہ مائدہ میں ارشاد ربانی ہے (وکتبنا علیھم فیھا انّ النفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص۔ المائدہ) اسی طرح اللہ تعالی نے نفس انسانی کو عزت و احترام بخشا بلکہ اس کے خاتمے کے کوشش کرنے والے کو پوری انسانیت کا مجرم قرار دیا۔ سور ہ مائدہ ہی میں ارشاد باری تعالی ہے (من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔ المائدہ ) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ اور اس کو بچانے والے کو ساری انسانیت کا محافظ و نگہبان قرار دیا۔ اس آیت کریمہ میں کسی بھی انسان کے خواہ مسلم ہو یا کافر کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا۔ اگر ایک کافر کا قتل ناحق بھی ساری انسانیت کا قتل ہے ، حالانکہ اس نے اللہ کو اپنا الٰہ اور انبیا و رسل کو اپنا امام ومطاع تسلیم نہیں کیاتوایک مسلم و مومن کے خون کی قدر وحرمت اس کے رب کے ہاں کس قدر زیادہ ہو گی !

             اس کا خون، اس کی عزت وآبرو اس کامال و متاع بلکہ اس کے بدن کا ایک ایک عضو اس کے پروردگار کے ہاں اتنا محترم و مکرم ہے جتنا اس کے ہاں بیت اللہ قابل عزت و وقار ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسولﷺ نے اپنے عظیم خطاب جو خطبہ حجتہ الوداع کے نام سے معروف ہے ارشاد فرمایا تھا ‘‘لوگو میری بات (غور سے) سنو ! کیونکہ میں نہیں جانتا شاید اپنے اس سال کے بعد اس مقام پر تم سے کبھی مل سکوں گا۔ تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے لیے آج کے دن کی رواں مہینے اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ پروردگار عالم نے ایک بندہ مومن کے قتل عمد پر جس قدر ناراضی وغصہ کا اظہار فرمایا اس کی جھلک سورہ النسا کی آیت 93 میں ملاحظہ فرمائیے ، ارشاد ربانی ہے۔ ومن یقتل مومنا متعمداً جزآۂ جھنم خالداً فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ واعدّلہ عذاباً عظیما۔

            ‘‘اور جس نے جان بوجھ کر ایک مومن کو قتل کر دیا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور (اللہ نے) اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔’’

            سالم بن ابوالجعدہؓ فرماتے ہیں حضرت ابن عباسؓ جب نابینا ہو گئے تھے ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے توایک شخص آیا اور آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کر ڈالا ، آپؓ نے فرمایا ‘‘اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ کا غضب ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے او را س کے لیے عذاب عظیم تیار ہے۔’’ اس نے استفسار کیا حضرت اگر وہ توبہ کر لے اور نیک عمل بجا لائے اور ہدایت ربانی پر جم جائے تو بھی؟ فرمانے لگے:‘‘ اس کی ماں اسے روئے اس کے لیے توبہ اور ہدایت کاہے کی؟’’ اس (رب) کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں نے تمہارے نبی ﷺ کو فرماتے سنا:‘‘ اس کی ماں اسے روئے جس نے ایک مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا وہ قیامت کے دن اسے (یعنی اپنے قاتل) کو دائیں یا بائیں سے پکڑے رحمان کے عرش کے سامنے آئے گا ، اس کی رگوں سے خون اچھل رہا ہو گا اور اللہ تعالی سے عرض کرے گا میرے مالک اس سے پوچھیے اس نے مجھے قتل کیوں کیا تھا؟’’ ۔فرمانے لگے اس کی ماں اس کو روئے اس کے لیے توبہ اور ہدایت کاہے کی ، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس آیت کے بعد حضورﷺ وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری (جیسے بعض بزرگوں کے خیال میں سورہ الفرقان کی آیت الا من تاب واٰمن وعمل صالحا…… ہے) جبکہ ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے لائے گا اور دوسرے ہاتھ میں اپنا سر اٹھا رکھا ہو گا اور عرض کرے گا میرے رب اس سے پوچھیے اس نے مجھے قتل کیوں کیا تھا ۔قاتل عرض کرے گا پروردگار آپ کی عزت کی بلندی کے لیے ، رب کائنات فرمائے گا ‘‘یہ میری راہ میں ہے۔’’ ۔ایک دوسرا مقتول بھی اپنے قاتل کو پکڑے دوسرے ہاتھ میں اپنا سر اٹھائے حاضر ہو گا اور یہی گزارش کرے گا قاتل جواباً کہے گا فلاں کی عزت کے لیے ۔ اللہ فرمائے گا اس کا گناہ وہ لے کر لوٹا پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا ایک ایسے گڑھے میں جس میں ستر سال تک نیچے لڑھکتا چلا جائے گا ۔ مسند امام احمد میں ہے: ‘‘ممکن ہے اللہ تعالی تمام گناہ بخش دے لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا ، دوسرا وہ جو کسی مومن کا قاتل قصداً بنا۔’’

            بندہ مومن کے جان کی حرمت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے خون ناحق کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا اور نہ ہی قاتل کی طرف نگاہ رحمت ہو گی بلکہ اس معصوم ایماندار کی جان لینے میں اگر روئے زمین کے تمام لوگ بھی شامل ہوں تو خدا ان کو بھی معاف نہیں کرے گا بلکہ سزا دے ڈالے گا جیسا کہ ایک حدیث میں نبی مہربانﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘اگر روئے زمین کے تمام لوگ اور تمام اہل آسمان کسی مسلمان کے قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔’’

            بلکہ ایک حدیث میں تو یہاں تک فرمایا گیا ہے :‘‘ جس نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے کلمے کی بھی مدد کی وہ قیامت کے دن اپنے رب کے حضور اس طرح حاظر ہو گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے محروم ہے۔’’

             قتل انسانیت اتنا بڑا گناہ اور اتنا گھناؤنا جرم ہے کہ اللہ تعالی نے بہت سے مقامات پر اس کا ذکر اس ظلم عظیم کے ساتھ کیا ہے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے : ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ یغفر ما دون ذلک لمن یشاء ‘‘ بے شک اللہ اس کو نہیں بخشے گا جس نے اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جبکہ اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دے گا’’۔

             انسانی قتل کو بھی شرک کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ انسانی جان کی حرمت و تقدس کو پاؤں تلے روندنے والوں کو تازیانہ درس لگا کر اس جرم عظیم سے روکا جائے۔ جیسا کہ سورہ الفرقان میں عبادالرحمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : والذین لا یدعون مع اللہ الھا آخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق۔ ‘‘او رجو لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور نہ کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا قتل کرتے ہیں’’ ۔

            ومن یفعل ذلک یلق اثامہ یضاعف لہ العذاب یوم القیامۃ ویخلد فیہ مھانا۔ الفرقان۔ ‘‘اور جس نے ایسا کیا وہ اپنا گناہ کا مزہ پائے گا اسے قیامت کے دن کئی گنا عذاب دیا جائے گا جس میں وہ رسوا ہو کر ہمیشہ رہے گا’’۔

            ابن کثیرؒ نے عقبہ بن مالک لیثیؓ کی طویل روایت نقل کی ہے جس کا لب لباب یہ ہے: ‘‘کہ رسول اکرمﷺ نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا جس نے ایک قبیلے پر چھاپہ مارا ، ایک لشکری نے ایک شخص کا تعاقب کیا ، قریب تھا کہ وہ اسے قتل کر دے ، بھاگتے ہوئے شخص نے کہا میں تو مسلمان ہوں ، لشکری نے کچھ خیال نہیں کیا اور تلوار چلا دی ۔ جب اس واقعہ کی خبر نبی مہربانﷺ تک پہنچی تو آپﷺ بہت ناراض ہوئے اور اسے سخت سست کہا ، یہ بات ان صاحب کو بھی پہنچ گئی تو ایک دن وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ آپﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے مذکور صاحب نے عرض کیا اللہ کی قسم اس نے محض قتل سے بچنے کے لیے کہا تھا ، آپﷺ نے اس کی طرف سے نگاہ پھیر لی اور خطبہ ارشاد فرماتے رہے۔ انہوں نے دوبارہ عرض کیا آپ نے پھر چہرہ انور پھیر لیا اور مسلسل خطبہ سناتے رہے ، ان صاحب سے صبر نہ ہو سکا تو سہ بارہ عرض گزار ہوئے تو آپﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ ناراضی آپ کے چہرہ مبار ک سے ٹپک رہی تھی اور فرمانے لگے مومن کے قاتل پر اللہ کا انکار ہے آپ نے تین دفعہ ایسا ہی ارشاد فرمایا…… اللہ اکبر جبکہ حضرت اسامہ بن زیدؓ والے واقعہ میں روایات میں حضورﷺ کے یہ الفاظ مروی ہیں کہ آپ نے حضرت اسامہ کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا: ‘‘کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا۔’’ واللہ اعلم بالصواب

             قیامت میں بارگاہ الہی میں جو مقدمہ سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ خون ناحق کا ہو گا بخاری و مسلم کی ایک روایت میں سید المرسلینﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘ قیامت کے دن سب سے پہلے خون کا فیصلہ ہو گا۔’’

وہ ایسے حالات میں تشریف لائے جب انسانی معاشرے کو ان کی سخت ضرورت تھی۔ وہ ایک غیبی ہاتھ کی طرح آستین سے باہر آئے اور انہوں نے بنی نوعِ انسان کو مصائب سے نجات دلائی۔ وہ ایک ایسی بارش کی مانند تھے جو بیاباں میں ایک پیاسے شخص کی خاطر برستی ہے۔ وہ خدائے تعالیٰ کے اس قول کے مصداق تھے: و نُریْدُ ان نَّمُنَّ علی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا فی الارضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃ وَّ نَجْعَلَھُمْ الْوَارِثِیْنَ(القصص: ۵)

            ‘‘اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین پر کمزور کر دیے گئے ہیں ان پر احسان کریں، انہی کو لوگوں کا پیشوا بنائیں اور انہی کو اس زمین کا مالک بنائیں۔’’

            خدائے تعالیٰ نے ان پیغمبروں کے ذریعہ بے کسوں اور مظلوموں پر احسان کیا اور انہیں ان لوگوں کی نجات کے لیے مبعوث فرمایا جنہیں ذلیل سمجھا جاتا تھا۔

(بشکریہ: معارف فیچر سروس ،کراچی)