دبائے پھرتے ہو جنگل میں خشک چنگاری

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : نظم

شمارہ : جون 2008

 

دبائے پھرتے ہو جنگل میں خشک چنگاری
الاؤ بن کے یہ بھڑکی اگر تو کیا ہوگا
 
ہے آج اس کی گواہی پہ فیصلہ سچ کا
اُسے عزیز ہوا اپنا سر تو کیا ہوگا
 
تمام عمر چلے ہیں تمہاری یاد کے ساتھ
اکیلے کرنا پڑے گا سفر تو کیا ہوگا
 
بھُلا تو دیتے اسے ہم مگر یہ خوف رہا
ہمیں نہ بھول سکا وہ اگر تو کیا ہوگا
 
ڈرا ڈرا کے جسے شاہِ وقت رکھتا ہو
وہی رعایا بنی جب نڈر تو کیا ہوگا