سائنس یا آرٹس

مصنف : اللہ داد نظامی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : جون 2008

             موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے اور بجا کہلاتا ہے بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی ایک نعرے کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور پسماندہ مشرق میں مغرب سے مرعوب ذہنوں نے ضرورت سے زیادہ ہی اس کا غلغلہ بلندکر رکھا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مغرب کی بالا دستی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا زبردست ہاتھ ہے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا مغرب کے موجودہ تسلط کی وجہ محض سائنس و ٹیکنالوجی کا غلبہ ہے یا اس کے پیچھے کئی اور تاریخی عوامل بھی کار فرماہیں۔

              اگر تاریخ کا مطالعہ گہری نظر سے کیا جائے تو کسی محرم اسرار سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ قوموں کے عروج و زوال میں سائنس و ٹیکنالوجی نہیں بلکہ عمرانی علوم بنیادی کردار ادا کرتے ہیں جسے عرف عام میں Humanities Groupیا زیادہ آسان الفاظ میں Arts Groupکہا جا تاہے۔

            پاکستان کے نظام تعلیم کا یہ المیہ ہے کہ ذہین ، اہل ، قابل اور محنتی طلبہ کو سائنسی تعلیم کی بھٹی میں ٹھونس دیاجاتا ہے اور وہ علوم جو قوموں کے عروج کے لیے لازمی ہیں اور جو پاکستان کو قوموں کی صف میں ممتاز اور نمایاں کر سکتے ہیں ان علوم کے حصے میں غبی، کاہل، کند ذہن اور نا اہل طلبہ آتے ہیں اور قوم اپنی قسمت کاماتم کرتی رہ جاتی ہے۔ شاید اسی صورت حال کو منیر نیازی سمجھ نہ سکا اور چیخ اٹھا:

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے لیکن سفر آہستہ آہستہ

            انسانیت کی عظیم ترین ہستیوں یعنی انبیا کی تمام تر جدوجہد کیا سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے تھی۔اگر کوڑھ مغزی کسی کا مقدر نہ ٹھہرادی گئی ہو تو وہ اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔ ایک اہم شعبہ حیات کے طور پر انبیائے کرام کی تعلیمات اور توجہات میں سائنس و ٹیکنالوجی کو اپنی وقعت کے مطابق اہمیت حاصل ہوتی رہی لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انبیائے کرام کی تمام تر جدو جہد میں علوم عمرانی کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے کیونکہ انسان کے رویے کی اصلاح انہی علوم سے ہوتی ہے۔خود حضور ﷺ کی تئیس سالہ جدوجہدمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کو جو اہمیت حاصل رہی ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ اصحاب صفہ مسجد نبویؐ میں کیا تعلیم حاصل کرتے تھے اور وہ کن مضامین پر مشتمل تھی’ اس بات سے حرف و الفاظ سے رشتہ رکھنے والا ہر آدمی بخوبی واقف ہے۔ یہاں اس بات کی پھر وضاحت ضروری ہے کہ راقم الحروف کے نزدیک سائنس و ٹیکنالوجی کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ وہ زندگی کے لیے بے کار ہے لیکن جب یہ کہا جائے کہ اسے انسانی زندگی میں پہلی ترجیح حاصل ہے تو پھر شاید دور کی کوڑیاں لانے سے بھی بات نہ بن سکے۔

            زندگی ایک اکائی ہے اور زندگی سے متعلقہ تمام علوم ایک دوسرے کے ساتھ گندھے ہوئے ہیں اور انسانی زندگی کو حصوں میں تقسیم کرنا ایک نا ممکن العمل چیز ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ علوم عمرانی کی تدریس و ترویج میں سائنس و ٹیکنالوجی بذات خود ایک اہم کردار اداکرتے ہیں لیکن بات پھر وہی ترجیح کے مسئلے پر آکر رک جاتی ہے۔

            مغرب کی تاریخ نے ایسا عروج کبھی نہیں پایا جو عصر حاضر میں اسے آج حاصل ہے۔ اس کی بنیاد مغربی مفکرین کی وہ فکر ہے جس نے اپنی جگہ پر صحیح یا غلط ہونے کے سوال کے باوجود اپنے معاشرے کے ذہین اور قابل افراد کو متاثر کیا اور متحرک کر دیا جس کے نتیجے میں جدید طرز کی ریاستیں وجود میں آئیں اور ان ریاستوں کے مدبرین اور قائدین نے پسماندہ قوم کو مغلوب کرنے کے لیے افکار اور سائنس و ٹیکنالوجی دونوں کا استعمال کیا ۔اس طرح یہ تسلط اپنے عروج پر پہنچا۔ اور آج بھی مغرب میں سائنٹسٹ اور ٹیکنالوجسٹ پر مفکرین کا حق تنقید فوقیت رکھتا ہے اور تا دم آخر مغرب کی تمام پالیسی اس کے مفکرین، مدبرین، سیاست کار اور سفارت کار تشکیل دیتے ہیں اور سائنس دان کی حیثیت محض آلہ کار کی رہی ہے اور شمار کی جاتی ہے۔ مغرب کی تاریخ کا ایک عبرت نا ک واقعہ جنگ عظیم دوم میں جرمنی کی شکست کا ہے۔ جس سائنس دان نے ایٹم بم ایجاد کر کے امریکہ اور امن اتحادیوں کی فتح کو ہر طرح یقینی بنادیا’ یہ صاحب جرمنی کے آمر ہٹلر سے ملے تھے اور ایٹم جیسا مہلک ہتھیار تیار کر کے دینے کی پیش کش کی تھی جسے ہٹلر نے در خور اعتنا نہ سمجھا۔ بعد میں یہی سائنس دان امریکی مدبرین سے ملا اور ایٹم جیسے مہلک جنگی ہتھیار ایجاد کرنے کے لیے سہولیات اور فنڈز طلب کیے جسے امریکی قیادت نے پورا کیا۔ جنگ عظیم دوم میں جرمنی اور امریکہ کی قیادت میں سے علوم عمرانی میں زیادہ بصیرت رکھنے والے نے ہی کامیابی اور فتح حاصل کی۔ سائنس دان کا کردار طفیلی (Subordinate) ہی رہا۔

             سائنٹسٹ ایک آلہ کار کی حیثیت سے ایک اہمیت کاحامل ہے البتہ جب تک قوموں کی باگ ڈور باعزت، جرات مند اور علوم عمرانی کے حوالے سے گہری نظر و بصیرت رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں نہ آجائے تب تک وہ بڑا کردار ادا کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔

            اگر برصغیر کے مسلمانوں کی موجودہ تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو ہمیں تین ایسی شخصیات ملتی ہیں جنہوں نے فکر و کردار کے حوالے سے مسلمانوں کی بیدار بھی کیا اور متحرک بھی کیا۔ یہ تین ہستیاں سر سیدؒ، علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کی ہیں۔ اب انہیں خوبی قسمت کہیں یا شومئی قسمت ان میں سے کوئی بھی کسی سائنسدان کی کوششوں کا مرہون منت نہیں ہے۔ یار لوگ چاہیں تو انہیں بھی کھینچ تان کے سائنس دان قرار دے دیں۔

            پاکستان کی قومی تاریخ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں بلاشبہ ایک عظیم نام ہے اور عظمت ان کی پاؤ ں چھو کر گزر رہی ہے۔ لیکن پاکستان کو ایٹمی قوت کے عظیم و سر بلند مقام تک پہنچا دینے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے بڑا کردار شاید پاکستان کے مرحوم وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تھا کہ جنہوں نے لیبارٹریوں کا قیام، فنڈز کی فراہمی، افراد کی دستیابی اور پرسکون ماحول، مزید براں بھر پور تحفظ فراہم کیا۔ یہ سب عبدالقدیر خاں کے بس کی بات نہ تھی، یہ اس مدبر کے بس کا کام تھا جو بہر حال سائنس دان نہ تھا۔

            موجودہ حالات میں جب ہم بحیثیت قوم ہر طرح کی یکجہتی و یکسوئی سے محروم ہورہے ہیں’ قوم کے ذہین ترین اور سارے کے سارے دماغوں کو سائنس و ٹیکنالوجی ایسی ثانوی چیزکے اندر کھپا دینا خطرناک نتائج سامنے لا رہا ہے۔ اندریں حالات قوم کی بہتری و ترقی کے لیے ایک امر لازم ہے کہ علوم عمرانی کی زبردست اہمیت کے پیش نظر ذہین اور محنتی طلبہ کی ایک بڑی تعداد علوم عمرانی یعنی آرٹس کے مضامین میں مہارت تامہ حاصل کرے تا کہ سب سے پہلے قوم کو ایک رخ دیا جاسکے۔ اولین چیز قوم کی یکسوئی ، یکجہتی اور اس کے لیے کسی منزل کا تعین ہونا ہے اور یہ کام علوم عمرانی کے ذریعے ممکن ہے۔

            جس طرح کے حالات اسکولوں اور کالجوں میں موجود ہیں ا ن میں سائنس کی تدریس و تعلیم کا کام کن بنیادوں پر ہوسکتا ہے؟ تجربہ گاہیں ضروری سامان سے خالی ہیں، اساتذہ ٹیوشن کی دکانوں میں تبدیل ہوگئے ہیں اور غنڈہ عناصر نے کام کرنے والے اساتذہ کا ناطقہ ویسے ہی بند کر رکھا ہے۔

             معاشرتی ناہمواریوں اور معاشی نا انصافیوں نے حساس ذہنوں کا سکون ویسے ہی غارت کر رکھا ہے۔ ایسے میں کسی ثمر آور سائنسی تعلیم کا تصورخاصا محال لگتا ہے۔ پھر سائنسی تعلیم کی بھیڑ چال کے باعث بہت سارے طلبہ کو اس بھٹی میں محض رائے عامہ کے جبر کی وجہ سے سلگنا پڑتا ہے۔ اپنی خواہشات کے برعکس محض والدین کے دباؤ اور خواہش کے پیش نظر سائنسی مضامین پڑھنا شروع کرتے ہیں اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر ناکامیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ کسی درد مند ادارے کو اس چیز کا سروے ضرور کرنا چاہیے کہ کلاس نہم میں سائنسی علوم میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعداد کا کتنا فیصد ایف ایس سی کرنے کے بعد اعلیٰ سائنسی علوم کے میرٹ پر پورااتر سکتا ہے؟ ان چار سالوں کی محنت کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے؟ ان ناکام ہوجانے والے طلبہ کی اتنی بڑی تعداد جن نفسیاتی، ذہنی ، مالی، معاشرتی اور روحانی مسائل کا شکار محض ان ناکامیوں سے ہوتی ہے اس سب کو کس کھاتے میں ڈالا جائے؟

            اس چیز کا بھی سروے کرنے کی ضرورت ہے کہ گریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ تک پہنچنے والے طلبہ کی تعداد کا کتنے فیصد سائنسی تعلیم کی بھٹی سے جھلس کر اس فیلڈ میں آنکلتا ہے اور یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کتنے ہی طلبہ سائنسی علوم میں ناکامی کے باعث تعلیم کو خیر باد کہہ گئے۔

            اگر ہم غور کریں تو خاصی بڑی تعداد تو ایسے لوگوں کی نکل آئے گی جو سائنسی علوم میں مسلسل ناکام ہورہے تھے اور ان ناکامیوں سے تنگ آکر آرٹس گروپ میں آپہنچے اور خاصے بڑے تعلیمی معرکے سر انجام دیے۔ اگر ان کے تعلیمی کیرئیر پر ناکامی کے یہ داغ نہ ہوتے تو یہ کتنے بڑے مزید علمی کارنامے سر انجام دے سکتے تھے۔

            جو کچھ سائنسی تعلیم ملک میں رائج ہے وہ بھی کسی بلند تر مقصد کے تابع نہیں ہے۔ سائنس کے طالب علم کی ایک بھاری اکثریت کا خواب میرٹ پر پورا اتر کر میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونی ورسٹی میں داخلے کا ہوتا ہے اور اس کی تعبیر کار، کوٹھی، سٹیٹس، چمک دمک اور بنک بیلنس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

            پاکستان کو اس وقت مغرب کے سیاسی اور اقتصادی تسلط کا سامنا ہے۔ اس میں بھی علوم عمرانی میں ہماری پسماندگی کو دخل حاصل ہے۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ دنیا کی قیادت سائنس دانوں کے ہاتھوں میں نہیں، ماہرین علوم عمرانی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اس عہد میں اسلامی تحریک کے لیے یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے معاشروں کو سمجھ کر او رمنظم کر کے ایک مضبوط سیاسی اور اقتصادی قوت میں ڈھال دیں تا کہ ہم مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔

            یہ بہت بڑا کام بلکہ سب سے بڑا کام علوم عمرانی سے تعلق رکھتا ہے۔ فکری آزادی سیاسی تسلط اور اقتصادی برتری کو ختم کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ہی وہ موقع آئے گا جب ہم پورے توازن اور یکسوئی سے اپنے جوانوں کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھا سکیں گے اور مسلمانوں کے سائنسی علوم میں عروج کے اس عہد قدیم کی بلاشبہ یادیں تازہ ہوجائیں گی۔ ہر کام کا اپنا دائرہ کار ہے۔ گھوڑا آگے ہو اور تانگہ پیچھے’ تبھی سفر ممکن ہے۔

            وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریکیں ادارے اور تنظیمیں ذہین طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو علوم عمرانی کی طرف متوجہ کریں تا کہ وقت کے چیلنج کا صحیح جواب دیا جاسکے۔

             سائنس و ٹیکنالوجی کی اپنی اہمیت ہے، اس سے انکار حماقت ہے لیکن اسے اپنے مقام پر ہی رکھنا ضروری ہے۔

            سائنس او رٹیکنالوجی کے وزیر اپنی وزارت کے مقاصد پورے کرنے کے لیے جو سرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں، ان سرگرمیوں کا تعلق سائنس کے علوم سے ہوتا ہے یا علوم عمرانی سے؟