انوکھی شرط

مصنف : ناصر زیدی

سلسلہ : غیر ملکی ادب

شمارہ : مئی 2008

اینٹن چیخوف

مترجم ، ناصر زیدی

اینٹن چیخوف ۱۸۶۰ میں ایک روسی کسان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد صرف سولہ برس کی عمر میں وہ طالب علم معلم بن گئے۔ پھر انہوں نے ماسکو میں طب کی تعلیم بھی حاصل کی، لیکن ادب ہی ان کا مشغلہ بنا۔ ۲۷ سال کی عمر ان کا پہلا ڈرامہ ‘‘آؤی نوف’’ چھپا۔ ان کی آخری کتاب ‘‘چیری آرچرڈ’’ کریمیا میں لکھی گئی۔ ۱۹۰۴ میں وہ جرمنی میں انتقال کر گئے ، ان کی لاش تجہیز و تکفین کے لیے ماسکو پہنچائی گئی۔

            وہ موسمِ خزاں کی ایک اندھیری شب تھی۔ بوڑھا بینکار اپنے مطالعے کے کمرے میں بے چینی سے ٹہلتے ہوئے پندرہ سال پہلے کے واقعات یاد کر رہا تھا۔ جب اس نے ایسی ہی ایک رات اپنے دوستوں کو دعوت دی تھی۔ بہت سے فاضل لوگ جمع تھے اوردلچسپ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ دیگر موضوعات کے علاوہ انہوں نے سزائے موت پر بھی تبادلہ خیالات کیا۔ مہمانوں کی اکثریت، جن میں صحافی اور دیگر ذہین افراد بھی شامل تھے، سزائے موت کی مخالف تھی۔ ان کے خیال میں عیسائی ممالک کے لیے سزائے موت کا یہ طریقہ نامناسب اور غیر اخلاقی تھا۔ کچھ حضرات کی رائے تھی کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردینا چاہیے۔

            ان کے میزبان بینکار نے مخالفت کرتے ہوئے کہا:‘‘میں آپ لوگوں کی رائے سے متفق نہیں ہوں، حالانکہ میں نے سزائے موت بھگتی ہے اور نہ عمر قید، لیکن اگر سوچا جائے تو سزائے موت عمر قید کی نسبت اخلاق اور انسانیت سے زیادہ قریب ہے، کیونکہ سزائے موت انسان کو بہت جلد موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے، جب کہ عمر قید میں آدمی سسک سسک کر مرتا ہے۔ اب آپ ہی سوچیے کہ کون سا جلاد بہتر ہے، وہ جو چند لمحوں میں مار دے یا وہ جو تڑپا تڑپا کر برسوں میں آپ کی جان نکالے؟’’

            ‘‘دونوں سزائیں غیر اخلاقی ہیں۔’’ ایک مہمان بول اٹھا‘‘کیونکہ ان دونوں کا مقصد ایک ہی ہے یعنی زندگی کا خاتمہ! حکومت خدا نہیں ہے، اس لیے اسے وہ چیز لینے کا بھی حق حاصل نہیں ، جسے واپس نہ کرسکے۔’’

            مہمانوں میں ایک پچیس سالہ نوجوان وکیل بھی تھا۔ جب اس کی رائے معلوم کی گئی تو اس نے کہا: ‘‘سزائے موت اور عمر قید دونوں مساوی طور پر غیر مہذب ہیں، لیکن اگر مجھے ان دونوں میں ایک منتخب کرنا پڑے تو میں یقینا عمر قید کو ترجیح دوں گا، کیونکہ کسی نہ کسی طور زندہ رہنا مرجانے سے بہر حال غنیمت ہے۔’’

            پھر ایک زوردار بحث چھڑگئی، بینکار جو ان دنوں نوجوان اور جوشیلا تھا، ایک دم جذبات کی رو میں بہنے لگا۔ اس نے میز پر مکا مارتے ہوئے کڑک دار آواز میں نوجوان سے کہا:‘‘نہیں یہ بالکل غلط ہے ، میں بیس لاکھ کی شرط لگا سکتا ہوں کہ تم پانچ سال بھی قید تنہائی نہیں کاٹ سکتے۔’’

            ‘‘اگر آپ سنجیدگی سے کہہ رہے ہیں۔’’ نوجوان بولا، ‘‘تو مجھے شرط قبول ہے، بلکہ میں پانچ کی بجائے پندرہ سال قیدِ تنہائی میں ر ہ سکتا ہوں۔’’

            ‘‘پندرہ سال؟......منظور....’’ بینکار چلایا۔‘‘نوجوان میں بیس لاکھ کی شرط لگا سکتا ہوں۔’’

            ‘‘مجھے بھی منظور ہے۔’’ نوجوان بولا‘‘آپ نے بیس لاکھ داؤ پر لگائے ہیں تو میں اپنی آزادی داؤ پر لگاتا ہوں۔’’

            اور اس طرح یہ انوکھی شرط طے پاگئی۔

            لاکھوں میں کھیلنے والا معزز اور لا پروا بینکار اس شرط پر بے حد خوش تھا۔ رات کے کھانے پر اس نے نوجوان سے مذاق کرتے ہوئے کہا‘‘اچھی طرح سمجھ لو لڑکے! اب بھی وقت ہے، میرے نزدیک بیس لاکھ کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن تم اپنی زندگی کے تین چار بہترین سال ضائع کر رہے ہو۔ تین چار سال اس لیے کہ تم اس سے زیادہ عرصے قید میں رہ ہی نہیں سکتے۔ یہ مت بھولو بد قسمت لڑکے! رضاکارانہ قید برداشت کرنا، زبردستی قید کیے جانے کے مقابلے میں بہت مشکل ہے۔اس بات کا خیال کہ تم جب چاہو، اپنی مرضی سے آزاد ہوسکتے ہو، تمہارے پورے وجود کو زہر آلود کر دے گا، اوہ! مجھے تم پر بڑا ترس آرہا ہے۔’’

            اور اب بینکار بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہلتے ہوئے ان باتوں کو یاد کر رہا تھا۔ اس نے خود سے سوال کی ‘‘آخر اس شرط کا کیا مقصد تھا؟ اس نوجوان کی زندگی کے پندرہ سال ضائع کرنے اور میرے بیس لاکھ برباد کرنے کا فائدہ؟ کیا اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ سزائے موت، عمر قید سے بہتر ہے یا بد تر؟ نہیں، یہ محض فضول اور احمقانہ حرکت ہے، سوائے اس کے کیا نتیجہ کہ میں نے ایک جھکی آدمی کی طرح جھک ماری اور اس نے دولت کا لالچ کیا!

            پھر وہ اس کے بعد کے واقعات یاد کرنے لگا۔ اسی شام طے کیا گیا کہ نوجوان اپنی قید کی مدت کڑی نگرانی میں بینکار کے باغ میں بنے ہوئی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں گزارے گا اور پندرہ سال تک کوٹھڑی کی دہلیز سے باہر قدم نہ رکھے گا، لوگوں سے ملنے، انسانی آوازوں کو سننے یا خطوط و اخبارات حاصل کرنے کے لیے بھی آزاد نہ ہوگا، البتہ ایک آلہ موسیقی اور کچھ کتابیں ساتھ رکھنے، خطوط لکھنے اور شراب و تمباکونوشی کی اجازت دے گی گئی۔

            معاہدے کی شرائط کے مطابق وہ صرف اس چھوٹی سی کھڑکی کے ذریعے ہی باہر کی دنیا سے رابطہ قائم کرسکتا تھا، جو خاص طور پر اسی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ بھی طے پایا کہ اسے جس چیز کی ضرورت ہوگی فراہم کی جائے گی، مثلاً کتابیں، آلاتِ موسیقی اور شراب وغیرہ، وہ ان چیزوں کو جتنی تعداد یا مقدار میں چاہے، ایک رقعہ لکھ کر حاصل کر سکے گا، مگر یہ چیزیں اسے اس چھوٹی کھڑکی کے ذریعے ہی سے مل سکیں گی۔معاہدے میں ہر ایسی چھوٹی سی چھوٹی غیر اہم بات کا بھی تذکرہ کر دیا گیا، جو اس کی قید کو انتہائی تنہا بنا سکے۔معاہدے کے مطابق وہ نوجوان پورے پندرہ سال وہاں گزارنے کا پابند تھا، جو ٹھیک ۱۴ نومبر ۱۸۷۰ کے بارہ بجے سے شروع ہوکر ۱۴ نومبر ۱۸۸۵ دن بارہ بجے ختم ہوتے تھے۔اس کی طرف سے اس معاہدے کی شرائط کی معمولی سی خلاف ورزی کی کوشش بھی بینکار کو بیس لاکھ اداکرنے کی ذمے داری سے سبک دوش کرسکتی تھی، چاہے یہ کوشش مدتِ معاہدہ ختم ہونے سے صرف دو منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو۔

            جیسا کہ اس کے ایام اسیری کی مکمل کی ہوئی ڈائری سے اندازہ سے لگایا جاسکتا ہے، اس قید کے پہلے سال اس نوجوان کو تنہائی بے حد کھلتی تھی اور وہ بہت اداس رہتا تھا۔ مسلسل دن رات پیانو کی آواز اس کی کوٹھڑی سے نکلتی ہوئی سنی جاسکتی تھی۔ شراب اور تمباکو نوشی سے وہ دور ہی رہا۔ اس نے لکھا تھا ‘‘شراب جنسی خواہشات کو بھڑکاتی ہے اور خواہشات قیدی کی بد ترین دشمن ہیں۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ کوئی چیزنہیں کہ عمدہ شراب پی جائے اور کسی سے ملاقات نہ کی جائے۔’’ تمباکو کا دھواں اس کے کمرے کی فضا کو مکدر کردیتا۔ پہلے سال اس نے جو کتابیں منگوائیں، ان میں زیادہ تر پیچیدہ اور رومانی قسم کے ناول تھے یا سنسنی خیز اور جذباتی کہانیوں کے مجموعے۔ دوسرے سال پیانو خاموش رہنے لگا اور اس نے صرف کلاسیکی کتابیں منگوائیں۔ جو لوگ اسے کھڑکی سے دیکھتے تھے، ان کا کہنا ہے کہ اس نے سارا سال سوائے کھانے پینے اور بستر پر پڑے رہنے کے اور کچھ نہیں کیا۔یا کبھی غصے میں اپنے آپ سے باتیں کرتا۔ اس نے کتابیں تو پڑھی ہی نہیں، کبھی کبھی رات کو وہ لکھنے بیٹھ جاتا اور گھنٹوں لکھتا رہتا، لیکن جو کچھ لکھتا،صبح اٹھ کر پھاڑ دیتا، کئی مرتبہ اسے زور زور سے روتے بھی سنا گیا۔

            چھٹے سال کے نصف آخر میں قیدی نے بڑی دل جمعی سے فلسفہ ، تاریخ اور مختلف زبانوں کا مطالعہ شروع کیا۔ وہ اس قدر مطالعے میں غرق رہتا کہ بینکار کو اس کی مطلوبہ کتب کی فراہمی کے لیے کافی دوڑ دھوپ کرنا پڑتی۔ چار سال کے عرصے میں اس کی درخواست پر تقریباً سو کتابیں فراہم کی گئیں۔ اسی دوران اس نے بینکار کو ایک خط بھجوایا جس میں لکھا تھا:

            ‘‘میرے عزیز جیلر! میں آپ کو یہ سطور چھ مختلف زبانوں میں تحریر کر رہاہوں۔ انہیں ایسے حضرات کو دکھائیے، جوان زبانوں سے واقف ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی غلطی نہ نکالی تو براہِ کرم آپ باغ میں اپنی بندوق سے ہوا میں ایک گولی چلا دیں۔ گولی چلنے کی آواز سے میں سمجھ جاؤں گا کہ میری کوششیں رائیگاں نہیں گئیں۔ ہر زمانے اور ہر ملک کے اکثر ذہین افراد مختلف زبانیں بولتے آئے ہیں، لیکن ان سب میں ایک ہی جذبہ کارفرما تھا۔ کاش آپ صرف اتنا جان سکتے کہ ان کو سمجھنے کے قابل ہو کر میں کیسی روحانی مسرت محسوس کر رہا ہوں۔’’

            قیدی کی خواہش پوری کی گئی۔ بینکار نے باغ میں ایک کے بجائے دو گولیاں چلانے کا حکم دیا۔

            پھر دسویں سال کے بعد قیدی بے حس و حرکت میز کے پاس بیٹھنے لگا، وہ سوائے انجیل کے اور کچھ نہ پڑھتا تھا۔ بینکار کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی تھی کہ جس شخص نے چار سال میں چھ سو ضخیم کتابوں پر عبور حاصل کر لیا، وہ ایک پتلی سی کتاب پر ، جس کا سمجھنا بھی بہت آسان تھا، تقریباً ایک سال برباد کرے۔ انجیل کے بعد دینیات اور مذہب کی تواریخ کا مطالعہ شروع ہوا۔

            قید کے آخری دو سالوں میں قیدی نے ہر قسم کی ڈھیروں کتابیں بلا امتیاز پڑھ ڈالیں۔ کبھی وہ قدرتی سائنس کے مطالعے میں محو ہوجاتا اور کبھی بائرن اور شیکسپیئر پر کتابیں منگوا کر پڑھتا۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ اس نے بیک وقت طب کی کوئی تشریحی کتاب، ایک آدھ ناول، فلسفہ یا دینیات پر کوئی تعارفی کتاب اور علم کیمیا پر چند کتابیں منگوائیں۔ اس زمانے میں اس کے مطالعے کی کیفیت اس شخص جیسی تھی، جو سمندر میں اپنے تباہ شدہ جہاز کے ملبے کے درمیان تیرتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لیے للچا کر کبھی ایک مستول کر پکڑتا ہے اور کبھی دوسرے کو تھام لیتا ہے۔

(۲)

            بوڑھے بینکار نے یہ تمام باتیں یاد کیں اور پھر سوچنے لگا‘‘ کل بارہ بجے وہ شخص اپنی کھوئی ہوئی آزادی دوبارہ حاصل کر لے گا، معاہدے کے مطابق مجھے بیس لاکھ ادا کرنے پڑیں گے۔ اگر اتنی بڑی رقم میں نے ادا کر دی تو میرا قصہ ہی ختم ہوجائے گا۔ میں بالکل تباہ و برباد ہوجاؤں گا۔’’

            پندرہ سال قبل وہ اپنی کروڑوں کی جائداد کا شمار بھی نہیں کر سکتا تھا اور اب وہ یہ حساب لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا کہ اس کا سرمایہ زیادہ ہے یا قرض؟ صرافہ بازار کی الٹ پھیر، حصص کی خرید و فروخت کی گرم بازاری اور مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا وہ گزشتہ برسوں میں مقابلہ نہ کر سکا تھا اور آہستہ آہستہ زوال کی طرف بڑھنے لگا تھا اور اب وہ مغرور، اور خود اعتماد کروڑ پتی بینکار سے ایک معمولی بینکار رہ گیا تھا، جو بازار کے معمولی اتار چڑھاؤ پر بھی اپنے لگائے ہوئے سرمائے کا خیال کر کے لرزنے لگتا۔

            ‘‘لعنت ہو اس شرط پر...’’ بوڑھا بینکار سر تھام کر مایوسی سے بڑبڑایا‘‘آخروہ شخص مر کیوں نہیں جاتا، وہ صرف چالیس سال کا ہے۔ وہ میری پائی پائی لے گا، شادی کرے گا، زندگی کے مزے اڑائے گا، صرافہ بازار میں پیسہ لگائے گا اور مجھے ایک بھکاری کی طرح رشک و حسد سے اس کا منہ دیکھنا اور ہر روز یہ جملہ سننا پڑے گا ‘‘میں اپنی زندگی کی مسرتوں کے لیے آپ کا مرہون منت ہوں...’’ نہیں، یہ تو بڑی ذلت ہے، اس ذلت اور دیوالیہ پن سے بچنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے اس کی موت۔’’

            گھڑی نے رات کے تین بجائے، بینکار نے اِدھر اُدھر کی سن گن لی ، گھر کا ہر فرد سو رہا تھا۔ باہر سردی سے اکڑے درختوں کی سرسراہٹ کے سوا کچھ سنائی نہ دیتا تھا، اس نے نہایت آہستگی سے اپنی تجوری سے اس تالے کی چابی نکالی جو گزشتہ پندرہ سال نہ کھولا گیا تھا۔ اپنا اوور کوٹ پہنا اور گھر سے باہر نکل گیا۔

            باغ میں تاریکی کا راج تھا، بارش ہو رہی تھی، سوئیاں سی چبھوتی ہوئی بھیگی ہوا باغ میں دوڑتی پھر رہی تھی اور درخت بے چینی سے جھوم رہے تھے۔ بینکار نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کی،لیکن نہ تو اسے زمین نظر آئی نہ درخت، حتیٰ کہ باغ میں نصب سفید مجسمے بھی دکھائی نہ دیے۔ قیدی کی کوٹھڑی کی طرف جا کر اس نے دو مرتبہ پہرے دار کو آواز دی لیکن کوئی جوا ب نہ ملا۔ شاید پہرے دار نے سردی کی شدت سے بچنے کے لیے کہیں پناہ لے لی تھی اور اب وہ باورچی خانے یا اپنے لیے مخصوص کمرے میں سورہا تھا۔ بوڑھے بینکار نے سوچا‘‘اگر میں ہمت سے کام لے کر اپنے ارادے میں کامیاب ہوجاؤں تو سب سے پہلے پہرے دار پر ہی شبہ جائے گا۔’’

            یہ سوچ کر اس نے تاریکی میں سیڑھیوں اور دروازے کو ٹٹولا اور کوٹھڑی کے برآمدے میں داخل ہوگیا، پھر ایک دیا سلائی جلا کر وہ ایک تنگ راہ داری سے گزرنے لگا۔ وہاں کوئی متنفس نہ تھا۔ ایک طرف پلنگ پڑا تھا، لیکن بستر غائب تھا۔ ایک گوشے میں کچے لوہے کا ایک سیاہ چولھا رکھتا تھا۔‘‘پہرے دار نہیں ہے’’ بینکار نے اطمینان کا سانس لیا۔ قیدی کے کمرے کی دروازے کی مہر صحیح سالم تھی۔

            دیا سلائی بجھنے کے بعد بوڑھے نے شدتِ جذبات سے کانپتے ہوئے کھڑکی کے اندر جھانک کر دیکھا، قیدی کے کمرے میں ایک دھندلی سی موم بتی جل رہی تھی۔ وہ ایک میز کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ عقب سے صرف اس کی پیٹھ، سر کے بال اور ہاتھ نظر آرہے تھے۔ کھلی ہوئی کتابیں ، میز دونوں آرام کرسیوں اور فرش پر پھیلی ہوئی تھیں۔پانچ منٹ گزر گئے ، لیکن قیدی نے جنبش تک نہ کی۔ پندرہ سال کی مسلسل قید نے اسے بے حس و حرکت بیٹھنا سکھا دیا تھا۔ بینکار نے نہایت احتیاط سے دروازے کی مہر توڑی اور چابی تالے کے سوراخ میں ڈال دی۔ زنگ آلود تالے سے کڑکڑاہٹ کی آواز نکلی اور دروازہ چرچراتا ہوا کھل گیا۔ بینکار کو امید تھی کہ اسے فوراً قدموں کی چاپ سنائی دے گی اور اس کے بعد ایک حیرت آمیز چیخ بلند ہوگی۔ تین منٹ گزرگئے، مگر کمرے میں بدستور سکوت طاری رہا۔ اس نے واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔

            کرسی پر ایک ایسا آدمی بے حس و حرکت بیٹھا ہوا تھا، جو عام آدمیوں سے بہت مختلف تھا، بس ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا، جس پر چمڑا منڈھ دیا گیا تھا، عورتوں کے سے لمبے لمبے گھنگریالے بال اور لمبی سخت داڑھی۔ اس کا چہرہ مردے کی طرح پیلا تھا اور گالوں میں گڑھے پڑے تھے۔ اس کی کمر لمبی اور پتلی ہوگئی تھی اور اس کاہاتھ، جس پر اس کا سر ٹکا ہواتھا، اتنا دبلا پتلا اور لجلجا ہوگیا تھا کہ دیکھ کر خوف آتا تھا۔ بالوں میں سفیدی آچلی تھی۔ اس کے مرجھائے ہوئے بوڑھے چہرے کو دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ وہ صرف چالیس سال کا ہے، وہ سورہا تھا۔ اس کے جھکے ہوئے سر کے سامنے میز پر کاغذ کا ایک وقت پڑا تھا، جس پر نہایت خوش خطی سے کچھ لکھا تھا۔

            ‘‘ہائے بے چارا! سو رہا ہے اور شاید لاکھوں کے خواب دیکھ رہا ہے۔’’ بینکار نے سوچا مجھے کچھ زیادہ تکلیف نہیں اٹھانی پڑے گی۔ بس اس نیم مردہ آدمی کو اٹھا کر بستر پر ڈال دینا ہے اور تکیہ اس کے گلے پر رکھ کر گلا گھونٹ دینا ہے۔ آن کی آن میں دم نکل جائے گا۔ بڑے سے بڑا تجربہ کار اور ماہر شخص بھی معلوم نہیں کر سکے گا کہ کسی نے اسے گلا گھونٹ کر ماردیا ہے، لیکن اس سے پہلے ذرا پڑھ تو لوں کہ اس نے یہاں کیا لکھ رکھا ہے؟ بینکار نے تجسس سے میز پر پڑا ہوا کاغذ اٹھا لیا اور پڑھنے لگا:

            ‘‘کل دن بارہ بجے میں اپنی آزادی اور اپنے جیسے انسانوں سے ملنے کا حق دوبارہ حاصل کر لوں گا۔ اس سے پہلے کہ اس کمرے کو چھوڑوں اور سورج کی روشنی دیکھوں، چند الفاظ گوش گزار کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ضمیر کی سچائی کے ساتھ اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں آزادی، زندگی ، صحت اور اس سب کو جسے کتابوں میں اچھی چیزوں سے تعبیر کیا گیا ہے ، نا پسند کرتا ہوں۔’’

            ‘‘پورے پندرہ سال میں نے حیاتِ ارضی کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس عرصے میں، مَیں نے نہ تو دنیا دیکھی اور نہ کسی آدمی کو ۔ لیکن کتابوں کی دنیا میں، مَیں نے عمدہ شرابیں پی ہیں، گانے گائے ہیں، جنگلوں میں ہرنوں اور ریچھوں کا شکار کیا ہے، دوشیزاؤں سے محبت کی ہے، آسمان کے بادلوں کی طرح پاکیزہ دوشیزائیں جنہیں شاعروں اور فنکاروں کے جادو نے تخلیق کیا تھا، راتوں کو میرے پاس آئی ہیں اور انہوں نے میرے کان میں سرگوشیاں کی ہیں، مجھے حیرت انگیز کہانیاں سنائی ہیں، جن کو سن کر میں چکرا گیا۔ ان کتابوں میں مَیں نے کوہ البرز اور مونٹ بلانک کی چوٹیوں کو سر کیا ہے اور وہاں سے میں نے سورج کو طلوع ہوتے اور پھر شام کے وقت اپنی سرخ اور سنہری کرنوں سے سمندر ، آسمان اور پہاڑوں کو شرابور کرتے دیکھا ہے۔ میں نے وہاں اپنے سر پر بجلیاں کوندتے اور بادلوں کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے سر سبز جنگل، لہلہاتے کھیت، چمکتی جھیلیں اور پر شور شہر دیکھے ہیں۔ میں نے جل پریوں کے نغمے اور چرواہوں کی بانسریوں سے ابلتی ہوئی دھنیں سنی ہیں۔ میں نے خوبصورت شیطانوں کے بازو چھوئے ہیں، جب وہ خدا کے بارے میں بحث کرنے میرے پاس آتے تھے۔ میں نے کتابوں میں دوزخ کے اتھاہ گہرے غار میں چھلانگ لگائی ہے، معجزے دکھائے ہیں، قتل کیے ہیں، شہر جلائے ہیں، نئے سے نئے مذہب کی تبلیغ کی ہے اور دنیا کی تمام سلطنتوں کو فتح کر لیا۔ تم مغرور، عقل مند اور ذہین ہوسکتے ہو لیکن موت تمہیں صفحۂ ہستی سے اس طرح مٹا دے گی جیسے تمہاری حقیقت اس چوہیا سے زیادہ نہ ہو، جو زمین میں سوراخ کرتی پھر رہی ہو اور تمہاری آئندہ نسلیں، تمہاری تاریخ اور تمہارے عظیم افراد جل کر راکھ ہوجائیں گے یا ٹھٹھر کر برف بن جائیں اور اس عظیم کرۂ ارض میں گم ہو جائیں گے۔ تم نے اپنی قوتِ استدلال کھو دی ہے اور غلط راستہ اختیار کرلیا ہے۔ تم نے سچ کی جگہ جھوٹ اپنا لیا ہے اور بد صورتی کو خوبصورتی پر ترجیح دی ہے۔ اگرکسی وجہ سے نارنگی اور سیب کے درختوں پر نارنگیوں اور سیبوں کے بجائے اچانک مینڈک اور چھپکلیاں لگنے لگیں اور گلاب کے پھول سے گھوڑے کے پسینے کی بو آنے لگے تو تم حیرت سے چیخ اٹھو گے۔ اسی طرح مجھے تم پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ تم نے دنیائے فانی کو بہشت بریں پر ترجیح دی ہے۔

            اپنی اس بات کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے میں تمہاری تمام چیزوں سے اور تمہارے طریقۂ حیات سے نفرت کرتا ہوں۔ میں ان بیس لاکھ کو چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں جن کا میں نے کبھی خواب دیکھا تھا اور اب جن سے مجھے نفرت ہے، اس خطیر رقم سے دستبرداری کے لیے میں وقت مقررہ سے پانچ گھنٹے پہلے اس کمرے کو چھوڑ دوں گا اور اس طرح ہمارا معاہدہ ٹوٹ جائے گا۔’’

            بینکار نے تحریر پڑھ کر میز پر رکھ دی۔ اس عجیب آدمی کے سر پر خیالی بوسہ دیا اور روتا ہوا کمرے سے باہر چلاگیا۔ اس نے اتنی سبکی کبھی محسوس نہ کی تھی، اس وقت بھی نہیں جب اس کو زبردست خسارے ہوئے تھے۔ گھر پہنچ کر وہ بستر پر گر پڑا لیکن اس کے جذبات اور آنسوؤں نے اسے کئی گھنٹے سونے نہیں دیا۔

            دوسری صبح پہرے دار گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ انہوں نے بینکار کو بتایا کہ انہوں نے قیدی کو کھڑکی سے کود کر باغ میں آتے اور دروازے سے باہر جاتے دیکھا تھا۔ بینکار اپنے نوکروں کے ساتھ فوراً قید خانے میں گیا اور تحقیق کر لی کہ قیدی فرار ہوچکا ہے۔ لوگوں کی غیر ضروری باتوں بچنے کے لیے اس نے میز پر سے وہ کاغذ اٹھا کر سنبھال لیا، جس میں بیس لاکھ سے دستبرداری کا اعلان کی گیا تھا اور اسے حفاظت سے اپنی تجوری میں بند کر دیا۔

(بشکریہ: اردو ڈائجسٹ، مارچ ۲۰۰۸)