تصورِ آزادی شریعت اسلامی میں

مصنف : محمد نجات اللہ صدیقی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : اپریل 2008

اس مضمون میں یہ واضح کیا جائے گا کہ انسان کی آزادی توحید کا لازمہ ہے اور آخرت میں انفرادی جواب دہی بھی یہی چاہتی ہے۔ پھر اسلامی تصور آزادی کے اہم عناصر کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا جائے گا کہ ان کی حفاظت کس طرح کی جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی نوٹ کیا جائے گا کہ آزادی کے پہلو بہ پہلو توحید کا دوسرا لازمہ مساواتِ بنی آدم ہے۔ آزادی کے ساتھ مساوات جبھی بنی رہ سکتی ہے جب آزادی سے وابستہ ذمہ داریاں پوری کی جائیں اور آزادی کو ایسے حدود کا پابند رکھا جائے جس سے سب کو یکساں آزادی میسر آنے کی ضمانت ہو۔ انسانی آزادی انسانی فلاح و بہبود کی خادم جبھی ہوگی جب وہ بنیادی اخلاقی قدروں کی پابند ہوگی اور یہ پابندی رضاکارانہ ہو نہ کہ مجبوراً۔ اس کے بعد آزادی فکر کی اہمیت جتانے کے ساتھ یہ بتایا جائے گا کہ آزادی فکر ہوگی تو اختلاف رائے بھی ہوگا اور اسے گوارا کرتے ہوئے اختلافی امور میں فیصلہ کے اسلامی طریقہ پر کاربند ہونا ہوگا۔ پھر میں آزادی کی اقتصادی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کروں گا کہ معاشی ترقی کے لیے آزادی شرط ہے، غلامی پر انحصار کرنے والے معاشی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آزادی ہی وہ ماحول فراہم کرتی ہے جس میں انسان کی ساری صلاحیتیں اپنے جوہر دکھا سکیں۔ اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے عروج کا زمانہ آزادی کا زمانہ تھا اور ہمارے زوال کا طویل سفر آزادی کے اضمحلال اور بالآخر تقریباً فقدان کی داستان ہے۔ شریعت اسلامی میں آزادی کے اس بے مثال تصور کے ہوتے ہوئے ہم کیوں کر اس سے تقریباً محرومی تک پہنچے۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ معاصر اسلامی دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے یہ بتایا جائے گا کہ جہاں آزادی جتنی کم ہے، وہاں پسماندگی اتنی زیادہ ہے۔

توحید کے تحت آزادی

توحید نام ہے اللہ کی مکمل بندگی اور غیراللہ سے مکمل آزادی کا، یہ آزادی انسان کو دوسرے انسانوں، انسانی اداروں، ان کے رسم و رواج ، عادات، قوانین، افکار و خیالات، مزعومات اور مسلمات سب سے بے نیازی سکھاتی ہے۔ فردِ انسانی ان میں سے کسی کا غلام نہیں، کسی کا پابند نہیں۔ غور کیا جائے تو واضح ہے کہ یہ دنیوی زندگی کی آزمائشی نوعیت کا لازمی تقاضا ہے۔ ذیل میں درج آیات کے مطابق حیاتِ دنیوی امتحان ہے اور آخرت کی دائمی زندگی میں جواب دہی اور حساب کتاب ہر فرد کا الگ الگ ہونا ہے۔ لہٰذا ہر فرد انسانی کو اپنے پروردگار کی بندگی کے سوا جو کہ اصل امتحان ہے ساری دوسری بندگیوں سے آزاد ہونا ہی چاہیے۔

‘‘نہایت بزرگ و برتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں (کائنات کی) سلطنت ہے اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی’’۔ (الملک:۱،۲)

‘‘وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنیوالااوررحم فرمانیوالابھی ہے’’ ۔(الانفال: ۱۵۶)‘‘سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے’’۔ (مریم:۵۹)

‘‘دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ کر کے رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط راستہ تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے’’۔ (البقرہ: ۲۵۶)

کہا جاسکتا ہے کہ اللہ کی کتاب میں کوئی آیت صراحت کے ساتھ انسانی آزادی کا اعلان نہیں کرتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی آزادی دوسرے انسانوں کی نسبت سے آزادی ہے نہ کہ مطلق آزادی ۔جو خود اپنے وجود کے لیے محتاج ہو، وہ آزادی مطلق کا دعویدار کیسے ہوسکتا ہے؟ توحید یہ ہے کہ انسان خدا کو اس کی بندگی میں دے دے جس نے زندگی دی اور سامان زندگی بھی مہیا کردیے۔ آزادی مطلق کا دعویٰ کفر ہے اور غیراللہ کے حق میں اپنی خداداد آزادی سے دستبرداری شرک ہے۔ اسلامی تصورِ آزادی توحید کے اثبات اور شرک کی نفی پر مبنی ہے۔ جہاں تک ہرفرد انسانی کا دوسرے افراد انسان کی نسبت سے آزاد ہونے کا تعلق ہے تو اُوپر نقل کی گئی آیات اس کا اثبات کرتی ہیں۔ کسی مجبور پر تکلیف شرعی کا بار کیوں کر ڈالا جاسکتا ہے؟ غور کیا جائے تو اصل آزادی دوسرے انسانوں سے آزادی ہے۔ تاریخ انسانی میں آزادی کی جتنی لڑائیاں لڑی گئیں وہ اسی آزادی کے لیے تھیں انسان کی فطرت جس غلامی سے آباء کرتی ہے وہ انسانوں کی غلامی ہے۔ خدا کی بندگی تو وہ برضا و رغبت خود اختیار کرتا ہے۔ زندگی کی امتحانی نوعیت کے پیش نظر خدا کسی بھی انسان پر اپنی بندگی زبردستی نہیں تھوپتا جیساکہ اُوپر نقل کی گئی آیت کریمہ میں صراحت ہے۔

دوسرے انسانوں کی نسبت سے آزادی کے بارے میں اسلامی موقف کی ترجمانی سیدنا عمرؓ کے بھتیجے حضرت ربیع بن عامر نے ایرانی سردار رستم کے دربار میں ان الفاظ میں کی تھی: ‘‘اللہ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ لوگوں کو غلاموں کی غلامی سے نکال کر خدا کی اطاعت میں لے آئیں، دنیا کی زندگی کی تنگیوں سے نکال کر زندگی کی وسعتوں سے روشناس کرائیں اور مذاہب کے ظلم و جور سے نکال کر عدل اسلامی کے زیرسایہ لے آئیں’’۔ (ابن کثیر: البدایہ والنہایہ، جلد۲، ص ۴۰، ۹۸۸، قاہرہ، دارالریان للتراث)

اسی طرح حضرت عمر کا یہ فرمان بھی اسی پر دال ہے ۔‘‘تم نے انسانوں کو کب سے غلام بنانا شروع کر دیا جب کہ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا’’۔

اسلام کے اس موقف کا اعلان ہے کہ انسان کی اصل فطری حالت آزادی کی حالت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام چاہتا ہے کہ ہر فردِ انسانی قرآن کو براہ راست پڑھے اور ساتھ ہی اپنے اردگرد کی دنیا کو بھی خود سمجھنے کی کوشش کرے۔ پھر اس دنیا میں ہدایات الٰہی کے مطابق زندگی گزارے۔ ایسا کرنے میں نبی اکرمؐ کا اسوہ اس کی رہنمائی کرے گا۔ اس کام میں دوسرے انسانوں کی مدد تو لینی چاہیے مگر قرآن و سنت کے مطالعہ، آیاتِ کائنات پر غور اور اردگرد کی دنیا نیز مسائل حیات کوخود سمجھنے کی کوشش سے ایک مومن دستبردار نہیں ہوسکتا۔ توحید کے تحت انسان کو جو آزادی ملتی ہے۔ وہ اسی صورت میں برقرار رہ سکتی ہے جب یہ شرط پوری کی جائے تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی لوگ اس ذمہ داری سے غافل ہوئے، وہ یہ خداداد آزادی کھوبیٹھے۔ خواہ وہ سمجھ کر ہی آباؤاجداد کے نقشِ قدم پر چلے ہوں کہ ان کے طریقے درست تھے مگر اپنی مذکورہ بالا ذمہ داری سے غفلت کی وجہ سے وہ بہت دور نکل جاتے، اتنے دور کہ صراحتاً خلافِ فطرت اور خلافِ عقل باتوں کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے۔ ایسے میں ان کا مذہبی طبقہ بھی منفی کردار ادا کرتا ہے بلکہ اکثر مذہب کے نام پر عوام کا استحصال شروع کردیتا ہے۔ پچھلی قوموں کی یہ کہانی قرآن کریم میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ (ملاحظہ ہو، سورہ بقرہ، ۱۶۵، ۱۷۱۔ اعراف:۶۸۔ زخرف:۲۱۔ توبہ:۳۱-۳۴)

خود انبیائے کرام انسانوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانے آئے تھے نہ کہ اپنی بندگی کی طرف (سورہ آل عمران: ۷۹)

خدا کے بھیجے ہوئے آخری رسول کے بعد اب کسی انسان کو خداداد اتھارٹی کی بنیاد پر انسانوں پر حکم چلانے کا اختیار نہیں، یہ اختیار انہی افراد کو حاصل ہوگا جنہیں لوگ باہم مشورے سے حکمران بنائیں۔ پچھلی قوموں کی گمراہی کا سبب اکثر یہ رہا کہ لوگ اس نکتہ سے غافل ہوگئے اور انہی میں سے کچھ افراد مذہب کے نام پر ان پر حکم چلانے لگے۔

آزادی اور اخلاق

دنیا اور آخرت دونوں میں فلاح کے لیے ضروری ہے کہ افراد انسانی بااخلاق ہوں۔ صداقت، دیانت، رحم و کرم اور شفقت، سماحت، generousity ایثار، عفوو درگزر، ہمدردی، حیا اور عفت وغیرہ معروف اخلاقی قدروں کا پاس و لحاظ ہو تو معاشرہ خوش حال ہی نہیں امن و سکون کی دولت سے بھی مالا مال ہوگا، ان قدروں کا فقدان ہو تو مادی وسائل کی فراوانی بھی امن و سکون کی ضامن نہ ہوسکے گی۔ سماج کی بنیادی اکائی خاندان کا ادارہ قانون کے سہارے نہیں اخلاقی بندھنوں کے سہارے پنپتا ہے۔

مذکورہ بالا فضائلِ اخلاق کی ضدوہ رذائل ہیں جو خاندانی رشتوں، انسانی تعلقات اور سماجی اداروں کی جڑیں کھود سکتے ہیں۔ جھوٹ، بددیانتی، شقاوت و ستم رانی، حرص اور خود غرضی اور بزرگی یا خوردی کسی کا لحاظ نہ کرنے والی انانیت، اباحیت اور فحش رانی، ان رجحانات پر کسی صالح اور کامیاب معاشرہ کی تعمیرممکن نہیں۔قرآن کریم کی خاص طور پر ان سورتوں میں جو مکہ میں نازل ہوئیں، اخلاقی قدروں پر زور دیا گیا ہے اور نبی اکرمؐ نے فرمایا: بعثت لاتمم مکارم الاخلاق، ان اخلاق میں سب سے زیادہ زور ان پر ہے جن کا تعلق خاندان سے ہے۔

‘‘تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں، بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو۔ اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا’’۔ (اسراء: ۲۳-۲۴)

احادیث میں اسی سے ملتی جلتی تعلیمات پڑوسی، سفر کے ساتھی اور عام انسانوں کے سلسلہ میں بھی آئی ہیں۔ اس سیاق میں ان کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ آزادی کا استعمال بے محابا اور موقع محل کے لحاظ کے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ ضبط نفس اور ادب شناسی کے بغیر استعمال آزادی کو وبالِ جان بناسکتا ہے۔ وقتی میلانات اور خواہشات کے پیچھے بھاگنے والے آزاد نہیں کہے جاسکتے۔ اسلام کی نظر میں ہوائے نفس کی غلامی دوسرے انسانوں کی غلامی سے کم نقصان دہ نہیں۔

‘‘بھلا کہیں ایسا ہوسکتا ہے کہ جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف و صریح ہدایت پر ہو، وہ ان لوگوں کی طرح ہوجائے جن کے لیے ان کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیرو بن گئے ہیں’’۔ (محمد:۱۴)

خواہشات نفس کی پیروی اور عارضی مفادات کے پیچھے دوڑنا انسان کے طویل المیعاد مصالح کے خلاف ہے۔ حقیقی آزادی انہی لوگوں کے نصیب میں ہے جو آزادی سے وابستہ ذمہ داریوں کا شعور رکھتے ہوں اور خداداد آزادی کو اس طرح استعمال کریں کہ ان کا بھی بھلا ہواور دوسروں کا بھی۔

آزادی کے عناصر

آزادئ ضمیر، آزادئ فکر، اظہارخیال اور تبادلۂ افکار کی آزادی، ہم خیالوں کے ساتھ مل کر انجمن سازی کی آزادی، اس آزادی کے لازمی عناصر ہیں جس کی اساس پر اسلام کا شورائی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اسلام میں کوئی چرچ نہیں، نہ اللہ کے آخری رسول کے بعد کوئی معصوم عن الخطا ہے جس کے فہم کتاب و سنت کا ہر ایک پابند ہو۔ فردِ مومن کسی دوسرے انسان کے فہم قرآن و سنت کا پابند نہیں۔ ہدایاتِ الٰہی کو سمجھنے اور ان کو اپنے مسائلِ زندگی پر تطبیق کرنے میں وہ کسی کی بھی مدد لے سکتا ہے لیکن اس کی اندھی تقلید نہیں کرسکتا۔

جب لوگ آزادانہ سوچیں گے تو مختلف آراء تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان اختلافات کا تعلق کتاب و سنت کے فہم سے بھی ہوگا اور مسائل زمانہ کے تجزیے سے بھی۔ اسلامی معاشرہ میں ایسے اختلاف کو دبانے کی کوشش نہیں کی جاسکتی۔ اگر مسائل کی نوعیت علمی ہے، ان پر کسی اجتماعی فیصلہ یا پالیسی یا ضابطہ بندی کا انحصار نہیں، تو اختلاف بڑھتا گھٹتا بالآخریا تو کسی ایک رائے پر مرکوز ہوجائے گا یا چند حدود میں محدود رہے گا۔ اگر مسئلہ علمی ہے مگر ایسا کہ مختلف افراد یا گروہوں کے مختلف طریقے اختیار کرنے سے اجتماعی مصالح مجروح نہیں ہوتے تو آزادئ فکروعمل کے دھارے کو اپنے راستے خود نکالنے کا پورا موقع دینا چاہیے۔ اگر مسئلہ کی نوعیت ایک اجتماعی فیصلہ کی طالب ہو تو اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ شوریٰ کے ذریعے فیصلہ کیا جائے۔ بہرصورت یہ ضروری ہے کہ معاشرہ میں اختلاف رائے گوارا کرنے کا چلن ہو۔ اسے ایک قدرتی مظہر سمجھا جائے اور ایک رائے کا حامل دوسری رائے کے حاملین کے ساتھ حسنِ ظن سے کام لے۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی زریں ادوار میں حسنِ ظن اور رواداری کی ایسی ہی فضا قائم رہی، جس سے ہم آج تک فیض یاب ہو رہے ہیں۔

یہ خداداد آزادی اسی فرد کے لیے بامعنی ہوگی جس کو فقر و فاقہ سے نجات حاصل ہو، جس کے پاس سر چھپانے کی جگہ ہو۔ اسلام کے تصور آزادی کی عملی تعبیر کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کی ضمانت دی جائے، البتہ اس کے لیے ایسے طریقے نہیں اختیار کیے جانے چاہییں جو ان آزادیوں سے محرومی پر منتج ہوں۔ اس کے علاوہ ایک فعال حرکی شورائی نظام کے لیے خواندگی کا عام ہونا اور تعلیم کا معیار اچھا ہونا بھی ضروری ہے۔ انسانی فیصلوں کا مدار صرف حسنِ نیت پر نہیں ہوتا۔ متعلقہ امور کے بارے میں صحیح معلومات میسر ہونا بھی ضروری ہے۔ عوام میں خواندگی جتنی عام ہوگی اور تعلیم کا معیار جتنا اُونچا ہوگا۔ اسی قدر فیصلوں کا صحیح ہونا متوقع ہوگا۔

آزادی کا بے جا استعمال

آزادی کی اخلاقی حدود کا اُوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ یہ وہ حدود ہیں جنہیں خارج سے نافذ کرنا نہ تو اکثر احوال میں ممکن ہے نہ مفید۔ خداداد آزادیوں کے بے جا استعمال کے سلسلہ میں صحیح موقف جسے اسلام نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ اگر اس سے کسی دوسرے فرد یا معاشرہ کو نقصان پہنچ رہا ہو تو اس پر روک لگائی جائے۔ آزادی کا ایسا استعمال نہ ہونے دیا جائے اور حسب ضرورت ایسا کرگزرنے والوں کو سزا دی جائے۔ آزادی کا مضرت رساں استعمال جرم ہے۔ چنانچہ اسلامی قانون میں حدود کا تعلق ایسے ہی جرائم سے ہے۔ آزادی کا ایسا استعمال جس کا نقصان اسی فرد تک محدود ہو جو ایسا کر رہا ہے اس سے روکنے کے لیے فہمائش اور سرزنش پر اکتفا کیا گیا ہے۔ الا یہ کہ اس فرد کی جان کو خطرہ ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ سماجی بہبود کی خاطر انفرادی آزادی کی حدبندی ایک بہت نازک مسئلہ ہے۔ اس بارے میں نقطۂ اعتدال ہر معاشرہ کو خود تلاش کرنا ہوگا۔ ایسے ضابطے ناقابلِ تصور ہیں جو ہر مقام اور ہر زمانہ پر یکساں لاگو کیے جاسکیں۔زندگی کی آزمائشی نوعیت کا لحاظ فیصلہ کے شورائی طریقہ کا التزام اور طویل المیعاد مصالح کو وقتی مفادات سے زیادہ اہمیت دینا، اس باب میں رہنما اصول ہونے چاہییں۔

آزادی اور اقتصاد

آج دنیا میں ترقی کا مدار قدرتی وسائل کی کثرت پر نہیں بلکہ انسانوں کی فکری اپج، فنی ایجادوں، ہنرمندی اور آزادئ کاروبار پر ہے۔ اسلام نے اول دن سے واضح حقوق ملکیت دیے ہیں۔ وعدہ وفا کرنے اور کیے گئے معاہدوں کی تکمیل کا واجب ہونا طے کیا ہے۔ نیز معروف اخلاقی پابندیوں اور شورائی طریقے پر مقرر کیے جانے والے حدود کے اندر آزادئ کاروبار کی ضمانت دی ہے۔ ترقی کی ان بڑی بڑی شرطوں کی تکمیل کے باوجود اگر موجودہ مسلم ممالک ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے بہت پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں عام لوگوں کو وہ ماحول نہیں میسر ہے جس میں انسانی صلاحیتیں کھل کر اپنے جوہر دکھا سکیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ‘‘زیادہ تر مستبدانہ معاشروں میں اقتصادی کارکردگی معمولی بلکہ بسااوقات بہت بُری رہی ہے۔ یہ بات ماضی کی تاریخ پر بھی منطبق ہوتی ہے اور حالیہ ادوار پر بھی’’ (منکور اولسان: پاور اینڈ پراسپیرٹی: آوٹگروئنگ کمیونسٹ اینڈ کیپٹلسٹ ڈکٹیٹرشپس، نیویارک بیسک بکس ۲۰۰۰، صفحہ ۹۹) نوبل انعام یافتہ امرتہ سین نے بجا کہا ہے کہ ‘‘انسانی آزادی کا فروغ ترقی کا اصل مقصد بھی ہے اور اس کا اولین ذریعہ بھی (امرتیہ سین، ڈویلپمنٹ ایز فریڈم، نیویارک بیکس بکس ۲۰۰۰، ص ۵۳) نیز یہ کہ آزادی ایک طریق کار (process) کے طور پر بھی میسر ہونی چاہیے اور مواقعِ عمل یا امکانات (oppertunity) کے طور پر بھی ۔طریق کار والے پہلو کا تعلق اس سے ہے کہ فرد کو بطور خود فیصلہ کا اختیار ہو اور امکانات والے پہلو کا تعلق اس سے ہے کہ جو کام ہم کرسکتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں اس کے کرنے کے مواقع واقعی کھلے ہوں۔ (امرتیہ سین، ریشنا لیٹی اینڈ فریڈم، ہارورڈ، یونیورسٹی پریس، ۲۰۰۳ء، ص ۵۰۶)

مواقع میسر ہونے اور آزادی کار کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ترقیاتی عمل کے محرکات پائے جاتے ہوں جیساکہ ایک نامور معاصر دانشور نے لکھا ہے: روسی نظام کی ناکامی کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ لوگوں کے لیے کام کرنے کا کوئی ذاتی محرک عمل نہ باقی رہا۔ (فرانس فوکویاما، دی اینڈ آف ہسٹری اینڈ دی لاسٹ مین، نیویارک، فری پریس، ۱۹۹۴ء، ص ۹۴-۹۶) یہی وجہ ہے کہ جب تک پیداواری عمل کا انحصار غلاموں کی محنت پر رہا،انسانی معاشروں کی اقتصادی کارکردگی کم رہی کیوں کہ غلامی حسن عمل کے محرک کو کمزور کردیتی ہے۔ گائل نیس، دی سوشیالوجی آف اکنامک ڈویلپمنٹ، اے پرائمر، نیویارک اور لندن، ہارپر اینڈ راو، ۱۹۷۰ء، ص ۱۹۵)۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام آیا تو غلامی رائج تھی۔ اسلام نے ایک طرف تو متعدد ایسے ضابطے بنائے کہ غلامی رفتہ رفتہ ختم ہوجائے اور دوسری طرف لوگوں کو تاکید کی کہ اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اسلامی تعلیمات پر اگر ٹھیک سے عمل کیا گیا ہوتا تو مسلمان معاشروں سے غلامی کا خاتمہ اس سے بہت پہلے ہوگیا ہوتا جب کہ وہ واقعتا ہوا۔

اسلامی تاریخ میں اقتصادی کارکردگی کی ابتداء بہت اعلیٰ درجہ کی رہی کیونکہ قوانین چند تھے اور واضح تھے۔ ربا اور قمارکی حرمت غرراورضرر سے بچنے اور جاہلانہ جھگڑوں سے دُور رہنے کی تاکید اور احتکار، غبن، تدلیس جیسی کھلی بددیانتی کے طریقوں کی ممانعت نیز فریقین معاملہ کی آزادانہ رضامندی کا ضروری ہونا…… یہی چند امہات الاصول تھے۔ ان قوانین کی پابندی کی جارہی ہو تو حکمران کو آزاد کاروباری سرگرمیوں میں مداخلت سے شریعت مانع تھی۔ اس اسلامی اسپرٹ کا ایک مظاہرہ حضرت عمر کا وہ رجوع ہے جو آپ نے کھجور کے تاجر حاطب ابن بلتعہ کو بازارمیں نرخ سے کم پر کھجور بیچنے سے منع کرنے کے بعد کیا تھا (ملاحظہ ہو، الموسوعۃ الفقیہۃ، جلد۱۱،ص ۳۰۳، شائع کردہ: وزارتِ اوقاف، کویت، پہلا ایڈیشن) یہ درست ہے کہ حسبہ کا محکمہ پھرتی سے تجارتی معاملات سے متعلق اسلامی قوانین کا نفاذ کرتا تھا لیکن جب بھی حکمران نئی پابندیاں عائد کرنا چاہتے یا چنگی وغیرہ کے نام پر ٹیکس وصول کرنا چاہتے تو علماء ان کی مخالفت کرتے تھے۔ واضح حقوق ملکیت، عام فہم، گنے چنے قوانین، رشوتوں اور کرپشن سے پاک انتظامیہ اور عام طورپر نسبتاً اچھے اخلاقی معیار کے ساتھ آزادی کاروبار نے ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ نہ صرف مقامی لوگ جی جان سے پیداواری عمل میں سرگرم ہوئے بلکہ دُور دراز سے اہلِ ہنر نے بغداد، دمشق اور دوسرے اسلامی مراکز صنعت و تجارت کی راہ لی کیونکہ دارالاسلام میں نقل و حرکت اور مواصلات پر کوئی پابندی نہ تھی۔ نیز امن عامہ کی حفاظت اچھی سڑکوں اور راستہ میں سرائے خانوں کی تعمیر اور ڈاک کا انتظام سرکاری اہتمام میں ہر خاص و عام کی خدمت کے لیے مہیا تھا۔

فکری آزادی کی اہمیت

اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں آزادی صرف معاشی میدان تک محدود نہیں تھی۔ سب سے بڑی آزادی فکری آزادی تھی۔ کسی سے زبان کھولنے سے پہلے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ معاملہ دین کا ہو یا دنیا کا، اسلامی معاشرہ کو اپنے اُوپر پورا بھروسہ تھا۔ کوئی غلط بول بولا گیا تو اس پر گرفت کرنے والے سامنے آئیں گے۔ کوئی کم نتیجہ اقدام کیا گیا تو ناکامیاں اصلاحِ حال پر مجبور کردیں گی۔ چنانچہ یہی ہوا، اس زمانہ کی تاریخ پڑھئے تو کتنے ہی مکاتب فکر مذاہب فقہ اور ادبی حلقوں کا ذکر آتا ہے جو زیادہ عرصہ نہ چل سکے لیکن ان کے ظہور و عروج نے ایک ایسی فضا بنانے میں مدد دی جس کے طفیل ہمیں علم و آداب اور فقہ و کلام کے وہ اسکول ملے جو آج بھی زندہ وتابندہ ہیں۔ ان مکاتب و مذاہب کا ظہور بعینہٖ اسی طور پر ہوا تھا جس طرح تاریخ کے اوراق کی زینت بن کر رہ جانے والے مکاتب و مذاہب کا، مگر یہ قبول عام پاگئے جب کہ دوسرے عدمِ التفات عوام کے سبب ختم ہوگئے۔ باقی رہ جانے والوں کی بقا کسی حکمران کے فرمان کی مرہونِ منت نہیں۔ نہ مٹ جانے والوں کے مٹنے میں کسی اتھارٹی کو دخل تھا۔ معاملہ تمام تر بقائے اصلح کا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ خدا کی بندگی کا عہد کرنے والے انسانوں کو اس کی ضرورت نہیں کہ حکمران یا کوئی اور ان کو انگلی پکڑ کر بندگی کے راستوں پر چلائیں ۔وہ اپنے راستے خود پہچان سکتے ہیں۔ معاشرہ کا بھلا اس میں ہے کہ بندگی رب کا عہد کرچکے افراد کے آزاد فکروعمل کے نتائج بے روک ٹوک سامنے آنے دئیے جائیں۔ عاجلانہ ضابطہ بندیوں کے بجائے صبر سے اصلاح ذات اور مسابقت اور تعاون کی قوتوں کی کارفرمائی کا مطالعہ کیاجائے۔ مداخلت آخری چارہ کار ہو وہ بھی جب کسی ضرر، شر یا فساد کے ازالہ کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہوجائے۔

زوال کی صدیوں میں مسلمان خوداعتمادی سے محروم ہونے لگے۔ پھر جب انہیں یہ نظر آیا کہ دوسری قوموں کے عقائد و افکار اور ان کی ثقافت مسلمانوں کو متاثر کر رہی ہے تو انہوں نے اپنے اردگرد حفاظتی بند باندھنے شروع کردیے۔ اجتہاد کا دروازہ بند ہوا، تقلید ضروری قرار پائی اور اباحت اصلی کی جگہ سد ذرائع کو زیادہ قابلِ بھروسہ سمجھا گیا۔ عام مسلمانوں کے لیے محفوظ راستہ یہ طے پایا کہ وہ ہرچھوٹے بڑے معاملے میں مفتیانِ کرام کی انگلیاں پکڑ کر بندگی رب کے راستے پر چلیں۔ پھر جب مسلمان مغربی اقوام کے زیرحکمرانی ہوئے اور ان پر عیسائی مشنریوں کی یلغار شروع ہوئی اور ساتھ ہی مقامی اسلام دشمن طاقتوں نے بھی انہیں تر نوالہ سمجھ کر حملے شروع کیے تو بچاؤ اور تحفظ کی اسٹراٹیجی کے سامنے سارے مصالح ہیچ نظر آئے۔ طویل المیعاد اصولِ ترقی پس پشت چلے گئے، فوری دفاع تقاضائے دین قرار پایا۔

انسانی زندگی ایک اکائی ہے، ایک دائرہ میں احتیاط کا غلبہ اور جھجک اور دوسرے دائرہ میں ذہنی اپج تخلیقی میدان ایجاد و اختراع، ایسا ممکن نہیں۔ چنانچہ فکری آزادی سے محرومی کے بعد مسلمان صنعت و تجارت میں بھی پیچھے رہنے لگے۔ اسلام کا پھیلاؤ رک گیا، دارالاسلام کے مختلف گوشے استعمار کی بھینٹ چڑھتے گئے یہاں تک کہ بیسویں صدی کے ربیع الثانی میں جزیرۃ العرب کے سوا دنیا کے تمام سابقہ مسلم علاقے دوسروں کی غلامی میں چلے گئے۔ آج تقریباً ۱۰۰ سال بعد صورت حال یکسر مختلف ہے، مگر مسلمان اکثریتی علاقے ہوں یا اقلیتی گروہ، سب مل کر ، اور الگ الگ دوسروں سے تقریباً ہر معاملہ میں پیچھے ہیں۔ اس مختصر مقالہ میں ہم اس کے اسباب کا تجزیہ نہیں کرسکتے، البتہ صورت حال پر ایک طائرانہ نظر اس سیاق میں ڈال لینا ضروری ہے کہ کیا اس کا اسلام کے تصورِ آزادی سے دُوری سے بھی تعلق ہے؟

ہمارے خیال میں مسلمان ممالک کی موجودہ صورت حال اس بات پر شاہد ہے کہ جہاں اسلام کے تصور آزادی سے عملاً جتنی دُوری ہے وہاں پس ماندگی اتنی زیادہ ہے۔ افریقہ کے سارے اسلامی اکثریتی ممالک، وسط ایشیائی اسلامی جمہوریتیں اور سعودی عرب سمیت خلیجی ریاستوں کا شمار پسماندہ ممالک میں ہوتا ہے حالانکہ ان میں سے بعض تیل کی دولت اور دوسرے قدرتی وسائل سے مالامال ہیں۔اس کے برعکس ملایشیا، انڈونیشیا اور ترکی اور کسی حد تک بنگلہ دیش، پاکستان اور ایران ترقی کی راہ میں آگے بڑھتے شمار کیے جاتے ہیں۔ اس بات کا براہ راست تعلق ان آزادیوں سے ہے جو ان ممالک میں افراد کو حاصل ہیں۔ رہی یہ بات کہ کس ملک کے افراد بندگی رب کی راہ میں کس سے آگے ہیں تو اس کا جائزہ تفصیل طلب ہے مگر ایک بات کہی جاسکتی ہے: مذکورہ بالا کسی ملک میں بھی آزادیوں سے محرومی نے لوگوں کو زیادہ خدا ترس نہیں بنایا ہے۔ (بشکریہ ماہنامہ ‘‘زندگی نو’’، نئی دہلی، شمارہ ۲۰۰۷ء)