فاقے میں روزہ

مصنف : خواجہ حسن نظامی

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : مارچ 2008

انتخاب ، محمد عثمان بخاری

دہلوی تاج دارکے ایک کنبہ کی کہانی

۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں، خاص طو ر پرعلما اور مغلیہ خاندان پر جو قیامت برپا کی وہ تاریخ کا المنا ک باب ہے ۔ہزاروں بے گناہ پھانسیوں کی بھینٹ چڑھادیے گئے اور شہزادیاں اور شہزادے کسمپرسی اور بے بسی کی اذیت ناک تصویر بن کر رہ گئے۔ ان لوگوں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن کس طرح پورے کیے ، اس کے بارے میں سوئے حرم خواجہ حسن نظامی کی تحریر کردہ سچی کہانیاں شائع کر رہا ہے ۔ یہ تاریخ کا وہ عبرت کدہ ہے کہ جس سے سبق ملتا ہے کہ جو قومیں جفا کشی ، علم و عمل اور اعلی اقدار چھوڑ کر عیش و عشرت کی دلدادہ ہوجاتی ہیں ان کا اور ان کے ورثا کا حشر پھر یہی ہوا کرتا ہے ۔

            جب دہلی زندہ تھی اور ہند ستان کا دل کہلانے کا حق رکھتی تھی اورلال قلعہ پر تیموریوں کا آخری نشان لہرارہا تھا ،انہیں دنوں کا ذکر ہے کہ مرزا سلیم بہادر (جو ابو ظفر بہادر شاہ کے بھائی تھے اور غدر سے پہلے ایک اتفاقی قصور کے سبب قید ہو کر الٰہ آباد چلے گئے تھے ) اپنے مردانہ مکان میں بیٹھے ہوئے دوستوں سے بے تکلفانہ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں زنان خانہ سے ایک لونڈی باہر آئی اور ادب سے عرض کیاکہ حضور بیگم صاحبہ یاد فرماتی ہیں ۔مرزا سلیم فورًا محل میں چلے گئے اور تھوڑی دیر میں مغموم واپس آئے ۔ایک بے تکلف ندیم نے عر ض کیا :خیر باشد مزاج عالی مکدر پاتاہوں ۔مرزا نے مسکرار کر جواب دیا :نہیں کچھ نہیں بعض اوقات امّاں حضرت خوامخواہ ناراض ہوجاتی ہیں ۔کل شام کو افطاری کے وقت نتھن خان گویا گارہا تھا اور میرا دل بہلا رہاتھا ۔اس وقت امّاں حضرت قرآن شریف پڑھاکرتی ہیں ،ان کو یہ شورو غل ناگوار معلوم ہوا ۔آج ارشاد ہو ا ہے کہ رمضان، رمضان گانے بجانے کی محفلیں بند کر دی جائیں ۔بھلا میں اس تفریحی عادت کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں ۔ادب کے لحاظ سے قبول تو کر لیا مگر اس کی پابندی سے جی اُلجھتا ہے حیران ہوں کہ یہ سولہ دن کیوں کر بسر ہوں گے ۔

            مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا :حضور یہ بھی کوئی پریشان ہونے کی بات ہے شام کو افطاری سے پہلے جامع مسجد میں تشریف لے جایاکریں عجب بہار ہوتی ہے ۔رنگ برنگ کے آدمی ،طرح طرح کے جمگھٹے دیکھنے میں آئیں گے ۔خدا کے دن ہیں خدا والوں کی بہار دیکھیے ۔

            مرزا نے اس صلاح کو پسند کیا اور دوسرے دن مصاحبوں کو لے جا کر جا مع مسجد پہنچے۔ وہاں جا کر عجب عالم دیکھا ۔جگہ جگہ حلقہ بنائے لوگ بیٹھے ہیں ،کہیں قرآن شریف کے دور ہو رہے ہیں ،کہیں مسائل دین پر گفتگو ہورہی ہے ۔دو عالم کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں اور بیسیوں آدمی گرد میں بیٹھے مزے سے سن رہے ہیں ۔کسی جگہ توجہ اور مراقبہ کا حلقہ ہے ۔ کہیں کوئی صاحب وظائف میں مشغول ہیں ۔الغرض مسجد میں چاروں طرف اللہ والوں کا ہجو م ہے ۔ مرز اکو یہ نظارہ بہت پسند آیا اور وقت بہت لطف سے کٹ گیا ۔اتنے میں افطار کا وقت قریب آیا ۔سینکڑوں خوا ن افطاری کے لیے آنے لگے اور لوگوں میں افطاریاں تقسیم ہونے لگیں ۔خاص محل سلطانی سے متعدد خوان مکلف چیزوں سے آراستہ روزانہ جامع مسجد میں بھیجے جاتے تھے تاکہ روزہ داروں میں افطاری تقسیم کی جا ئے ۔ا سکے علاوہ قلعہ کی تمام بیگمات اور شہر کے سب امراء علیحدہ افطاری کے سامان بھیجتے تھے اس لیے ان خوانوں کی گنتی سینکڑوں تک پہنچ جاتی تھی ۔چونکہ ہر امیرکوشش کرتا تھا کہ اس کا سامان افطاری دوسروں سے بڑھ کر رہے ،اس لیے ریشمی رنگ برنگ کے خوان پوش اور ان پر مقیشی جھالریں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر ہوتی تھیں اور مسجد میں ان کی عجب آرایش ہو جاتی تھی

            مرزا کے دل پر اس دینی چرچے اور شان وشوکت نے بڑا اثر ڈالا اور اب وہ برا بر روزانہ مسجد میں آنے لگے ۔

            مرزا سلیم کے ایک بھانجے مرزا شہ روز نو عمری کے سبب اکثر اپنے ماموں کی صحبت میں بے تکلف شریک ہوا کرتے تھے۔ان کا بیان ہے کہ ایک تووہ وقت تھا جو آج خواب وخیال کی طرح یاد آتا ہے اور ایک وہ وقت تھا آیا کہ دہلی زیرو زبر ہو گئی قلعہ بر باد کر دیا گیا ۔امیروں کو پھانسیاں مل گئیں ،ان کے گھر اکھڑ گئے ۔ان کی بیگما ت ماما گیری کرنے لگیں اور مسلمانوں کی سب شان وشوکت تاراج ہوگئی ۔اس کے بعد ایک دفعہ رمضان شریف کے مہینے میں جامع مسجد جا نے کا اتفا ق ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ جگہ جگہ چولھے بنے ہوئے ہیں سپاہی روٹیاں پکا رہے ہیں ،گھوڑوں کے دانے دلے جا رہے ہیں ۔ گھاس کے انبار لگے ہوئے ہیں اور شاہجہان کی خوبصورت اور بے مثل مسجد اصطبل نظر آتی ہے اور پھر جب مسجد واگذشت ہو گئی اور سرکار نے اس کو مسلما نوں کے حوالے کر دیا تو رمضان ہی کے مہینے میں پھر جانا ہوا ۔دیکھا کہ چند مسلمان میلے کچیلے پیوند لگے کپڑے پہنے بیٹھے ہیں ۔دو چار قرآن شریف کا ورد کر رہے ہیں اور کچھ اسی پریشان حالی میں بیٹھے وظیفہ پڑ ھ رہے ہیں ۔افطاری کے وقت چند آدمیوں نے کجھوریں اور دال سویاں بانٹ دیں ،کسی نے تر کاری کے قتلے تقسیم کر دئیے ۔نہ وہ اگلا سا سماں نہ وہ اگلی سی چہل پہل نہ وہ پہلی سی شان وشوکت ،یہ معلوم ہوتا تھا کہ بے چارے فلک کے مارے چند لوگ جمع ہوگئے ہیں ۔انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان تو مسجد میں نظر ہی کم آتے ہیں ۔غریب غرباء آئے تو ان سے رونق کیا خاک ہو سکتی ہے ۔پھر بھی غنیمت ہے کہ مسجد آباد ہے ۔اگر مسلما نوں کے افلاس کا یہی عا لم رہا تو آئندہ خبر نہیں کیا نو بت آئے۔

            مرزا شہ زور کی باتوں میں بڑا درد اور اثر تھا ۔ایک دن میں نے ان سے غدر کا قصہ اور تباہی کا فسا نہ سنناچاہا ۔آنکھوں میں آنسو بھر لائے اس کے بیان کرنے میں عذرومجبوری ظاہر کرنے لگے ۔لیکن جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو اپنی درد ناک کہانی اس طرح سنائی :

            انگریزی تو پوں اور سنگینوں نے ہمارے ہاتھ سے تلوار چھین لی ،تاج سر سے اُتار لیا اورتخت پر قبضہ کر لیا ۔شہر میں آتش ناک گولیوں کا مینہ برس چکا ۔سات پردوں میں رہنے والیاں بے چادر ہو کر بازار میں اپنے وارثوں کی تڑپتی لاشوں کو دیکھنے نکل آئیں ۔چھو ٹے بن باپ کے بچے ابّا ابّا پکارتے ہوئے بے یارو مدد گار پھرنے لگے ۔حضور ظل سبحانی ، جن پر ہم سب کا سہارا تھا ،قلعہ چھوڑ کر باہر نکل گئے ۔اس وقت میں نے بھی اپنی بوڑھی والدہ ،کمسن بہن اور حاملہ بیوی کو ساتھ لے کر اور اُجڑے قافلہ کا سالار بن کر گھر سے کو چ کیا ۔ہم لوگ دور تھوں میں سوار تھے ۔سیدھے غازی آباد کا رُ خ کیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ راستہ انگریزی لشکر کی جو لان گاہ بنا ہو ا ہے ا س لیے شاہدرہ سے واپس ہو کر قطب صاحب چلے اور وہاں پہنچ کر رات کو آرام کیا ۔اس کے بعد صبح آگے روانہ ہوئے ۔چھتر پور کے قریب گوجروں نے حملہ کیا اور سب سامان لوٹ لیا مگر اتنی مہر بانی کی کہ ہم کو زندہ چھو ڑ دیا ۔ لق ودق جنگل ،تین عورتوں کا ساتھ اور عورتیں بھی کیسی ایک بڑھاپے سے لاچار دو قدم چلنا دشوار ،دوسری حاملہ اور بیمار ،تیسری دس برس کی معصوم لڑکی زارو نزار ۔عورتیں روتی تھیں اور بین کر کر کے رلاتی تھیں ۔ میرا کلیجہ ان کے بین سے پھٹا جا تا تھا ۔والدہ کہتی تھیں الہٰی ہم کہاں جائیں ،کس کا سہارا ڈھونڈھیں ،ہمارا تاج وتخت لُٹ گیا ،تو ٹوٹا بوریا اور امن کی جگہ تو دے ،ا س بیمار پیٹ والی کو کہاں لے کر بیٹھوں ،اس معصوم بچی کو کس کے حوالے کروں ،جنگل کے درخت بھی ہمارے دشمن ہیں ،کہیں سایہ نظر نہیں آتا ۔بہن کی یہ کیفیت تھی کہ وہ سہمی ہو ئی کھڑی تھی اورہم سب کا منہ تکتی تھی ۔مجھ کو اس معصومانہ بے کسی پر بڑا ترس آتا تھا ۔آخر مجبور اً میں نے عورتوں کو دلاسا دیا اور آگے چلنے کی ہمت بندھائی ۔گاؤں سامنے نظر آتا تھا ۔غریب عورتوں نے چلنا شروع کیا ۔والدہ صاحبہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی تھیں اور سر پکڑ کر بیٹھ جاتی تھیں اور جب وہ یہ کہتیں : ‘‘تقدیر ان کو ٹھو کریں کھلواتی ہے جو تاج وروں کے ٹھوکریں مارتے تھے ۔قسمت نے ان کو بے بس کر دیا جو بے کسوں کے کام آتے تھے۔ ہم چنگیز کی نسل ہیں جس کی تلوار سے زمین کانپتی تھی۔ ہم تیمور کی اولاد ہیں جو ملکوں کا اور شہر یاروں کا شاہ تھا ۔ہم شاہجہا ں کے گھر والے ہیں جس نے ایک قبر پر جواہر نگار بہار دکھا دی اور دنیا میں بے نظیر مسجد دہلی کے اندر بنادی ۔ہم ہندوستان کے شہنشاہ کے کنبے والے ہیں ۔ہم عزت والے تھے زمین میں ہمیں کیوں ٹھکانا نہیں ملتا ،وہ کیوں سر کشی کرتی ہے ۔آج ہم پر مصیبت ہے آج ہم پر آسمان روتا ہے ۔’’تو بدن پر رو نگٹے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ القصہ بہ ہزار دقت ودشواری گرتے پڑتے گاؤں میں پہنچے ۔یہ گاؤں میواتیوں کا تھا ۔انھوں نے ہماری خاطر کی اور اپنی چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرایا ۔کچھ روز تو ان مسلمان گنواروں نے ہمارے کھانے پینے کی خبر رکھی اور چو پاڑ میں ہم کو ٹھہرائے رکھا ۔لیکن کب تک یہ بار اٹھاسکتے تھے ،اُکتا گئے اور ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ میاں جی چوپاڑ میں ایک بارات آنے والی ہے ،تو دوسرے چھپر میں چلا جا اور رات دن ٹھالی ( بیکار ) بیٹھے کیا کرے ہے ، کچھ کا م کیوں نہیں کرتا ۔میں نے کہا : بھائی جہاں تم کہو گے وہیں جا پڑ یں گے ،ہمیں چوپاڑمیں رہنے کی ہوس نہیں ،جب فلک نے عالی شان محل چھین لیے تو اس کچے مکان پر ہم ضد کیا کریں گے اور رہی کا م کرنے کی بات سو میرا جی تو خودگھبراتا ہے ،خالی بیٹھے ہوئے طبیعت اُکتائی جاتی ہے ،مجھ کو کوئی کام بتاؤ ۔ہو سکے گا تو آنکھوں سے کروں گا ۔ان کاچودھری بولا : ہم نے کے بیرا (ہمیں کیا خبر ) کہ تو کے کا م (کیا کام ) کر سکے ہے ۔میں نے جواب دیا : میں سپاہی زادہ ہوں تیغ تفنگ چلانا میرا ہنر ہے ۔اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں جانتا گنوار ہنس کر کہنے لگے :نہ بابا یہاں تو ہل چلانا ہوگا ،گھاس کھودنی پڑے گی ،ہم نے تلوار کے ہنر کیا کرنے ہیں ۔گنواروں کے اس جواب سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور جواب دیا کہ بھا ئیو مجھ کو تو ہل چلانا اور گھاس کھودنی نہیں آتی ۔مجھ کو روتا دیکھ کر گنواروں کو رحم آگیا اور بولے : اچھا تو ہمارے کھیت کی رکھوالی کیا کر اور تیری عورتیں ہمارے گاؤ ں کے کپڑے سی دیا کریں ۔فصل پر تجھ کو اناج دے دیا کریں گے جو تجھ کو کافی ہو گا چنانچہ یہی ہوا کہ میں سارا دن کھیت پر جانور اڑایا کرتا تھا اور گھر میں عورتیں کپڑے سیتی تھیں ایک دفعہ ایسا ہو اکہ بھادوں کا مہینہ آیا اور گاؤں میں سب کو بخار آنے لگا ،میری اہلیہ اور بہن کو بھی بخار نے آن دبایا ۔وہ گاؤں وہاں دوا اور حکیم کا کیا ذکر خود لوٹ پیٹ کر اچھے ہو جاتے ہیں ۔مگر ہم کو دواؤں کی عادت تھی سخت تکلیف اُٹھانی پڑی اسی حالت میں ایک دن اس زور کی بارش ہوئی کہ جنگل کا نالہ چڑ ھ آیا او رگاؤ ں میں کمر کمر پانی ہوگیا گا ؤں والے تو اس کے عادی تھے لیکن ہماری حالت اس طوفان کے سبب مرنے سے بدتر ہوگئی چونکہ پانی ایک دفعہ ہی رات کے وقت گھس آیا تھا اس لیے ہماری عورتوں کی چارپائیاں بالکل غرق آب ہوگئیں ۔آخر بڑی مشکل سے چھپر کی بلیوں میں دو چار پائیاں اڑا کر عورتوں کو ان پر بٹھا یا پانی گھنٹہ میں اُتر گیا مگر غضب یہ ہوا کہ کھانے کا اناج اور اوڑھنے بچھا نے کے کپڑے تر کر گیا ۔پچھلی رات میری بیوی کے دردزہ شروع ہوا اور ساتھ ہی جاڑے سے بخار بھی آیا ۔اس وقت کی پریشانی بس بیان کرنے کے قابل نہیں ۔اندھیرا گھٹ ،مینہ کی جھڑی ،کپڑے سب گیلے ،آگ کا سامان ناممکن ۔حیران تھے الہٰی کیا انتظام کیا جائے ۔درد بڑھنا شروع ہوا اور مریضہ کی حالت نہایت ابتر ہوگئی ۔یہاں تک کہ تڑپنے لگی اور تڑپتے تڑپتے جان دے دی ۔بچہ پیٹ ہی میں رہا۔

             چو نکہ وہ ساری عمر ناز و نعمت میں پلی تھیں ،غدر کی مصیبتیں ہی ان کی ہلا کت کے لیے کافی تھیں ۔خیر اس وقت تو جان بچ گئی مگر یہ بعد کا جھٹکا ایسا بڑا لگا کہ جان لے کر گیا ۔صبح ہوگئی ،گاؤں والوں کو خبر ہوئی تو انھوں نے کفن و غیرہ منگوادیا اور دوپہر تک یہ محتاج شہزادی گورغریباں میں ہمیشہ کے لیے جا سوئی ۔اب ہم کو کھانے کی فکر ہوئی کیوں کہ اناج سب بھیگ کر سڑگیا تھا گاؤں والوں سے بھی مانگتے ہوئے لحاظ آتا تھا وہ بھی ہماری طرح اسی مصیبت میں گرفتا ر تھے ۔ تاہم بے چارے گاؤں کے چودھری کو خودہی خیال ہو ا اور اس نے قطب صاحب سے ایک روپیہ کا آٹا منگوادیا ۔وہ آٹا نصف کے قریب خرچ ہوا ہوگا کہ رمضان شریف کا چاند نظر آیا ۔والدہ صاحبہ کا دل بہت نازک تھا ،وہ ہر وقت گزشتہ زمانہ کو یاد کیا کرتی تھیں ،رمضان کا چاند دیکھ کر انھوں نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہو گئیں ۔میں سمجھ گیا کہ ان کو اگلا وقت یاد آگیا ہے ۔تسلی کی باتیں کرنے لگا جس سے ان کو کچھ ڈھارس ہوگئی۔

            چار پانچ دن تو آرام سے گزر گئے مگر جب آٹا ختم ہو چکا تو بڑی مشکل درپیش ہوئی سوال کرتے ہوئے شرم آتی تھی اور پاس ایک کو ڑی نہ تھی ۔شام کو پانی سے روزہ کھولا ،بھوک کے مارے کلیجہ منہ کو آتا تھا ۔والدہ صاحبہ کی عادت تھی کہ اس قسم کی تکلیف کے وقت بیان کر کے رویا کرتی تھیں مگر آج بڑے اطمینان سے خاموش تھیں ۔ان کی خاموشی و اطمینان سے میرے دل کو بھی سہا را ہو ا اور چھوٹی بہن کو جا کے دیکھاچہرے پر بھوک کے مارے ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ،دلاسا دینے لگا ۔وہ معصوم بھی میرے سمجھانے سے نڈھال ہو کر چارپائی پر جا پڑ ی اور تھوڑی دیر میں سو گئی ۔بھوک میں نیند کہاں آتی ہے بس ایک غوطہ ساتھا ۔اس غوطہ اور ناتوانی کی حالت میں سحری کا وقت آگیا ۔والدہ صاحبہ اٹھیں اور تہجد نماز کے بعد جن درد ناک الفاظ میں انھوں نے دعا مانگی ان کا نقل کر نا محال ہے ۔حاصل مطلب یہ ہے کہ انھوں نے بارگاہ الہٰی میں عر ض کیا :‘‘ہم نے ایسا کیا قصور کیا ہے جس کی سزا یہ مل رہی ہے رمضان کے مہینے میں ہمارے گھر سے سینکڑوں محتاجوں کو کھانا ملتا تھا اور آج ہم خود دانے دانے کو محتاج ہیں اور روزے پر روزہ رکھتے ہیں ۔خداوند ا!اگر ہم سے قصور ہو ا ہے تو اس معصوم بچی نے کیا خطا کی جس کے منہ میں کل سے ایک کھیل اڑ کر نہیں گئی’’

            دوسرا دن بھی یوں ہی گزر گیا اور فاقہ میں روزہ پر روزہ رکھا ۔شام کے قریب چودھری کا آدمی دودھ اور میٹھے چاول لایا اور بولا آج ہمارے نیاز تھی ،یہ اس کا کھانا ہے اور پانچ روپیہ زکوٰۃ کے ہیں ۔ہر سال بکریوں کی زکوٰۃ میں بکری دیا کرتے ہیں مگر اب کے نقد دے دیا ہے ۔یہ کھانا اور روپے مجھ کو ایسی نعمت معلوم ہوئی گویا بادشاہت مل گئی ۔خوشی خوشی والدہ کے آگے سارا قصہ کہا ۔کہتا جاتا تھا اور خدا کا شکرانہ بھیجتا جاتا تھا مگر یہ خبر نہ تھی کہ گردش فلاکت نے مرد کے خیال پر تو اثر ڈال دیا لیکن عورت ذات کی توں اپنی قدیمی غیرت دار ی پر قائم ہے ۔چنانچہ میں نے دیکھا کہ والدہ کا متغیر ہوگیا ۔باوجود فاقہ کی ناتوانی کے انھوں نے تیور بدل کر کہا :تف ہے تیری غیرت پر ،خیرات اور زکوٰۃ لے کر آیا ہے اور خوش ہوتا ہے ۔ارے اس سے مرجانا بہتر تھا ۔اگرچہ ہم مٹ گئے مگر ہماری حرارت نہیں مٹی ۔میدان میں نکل کر مر جانا یا مار ڈالنا اور تلوار کے زور سے روٹی لینا ہمارا کام ہے ،صدقہ خوری ہمارا شیوہ نہیں ۔

            والدہ کی ان باتوں سے مجھے پسینہ آگیا اور شرم کے مارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے ۔چاہا کہ اُٹھ کر یہ چیزیں واپس کر آؤں مگر والدہ نے روکا اور کہا :خدا کو یہی منظور ہے تو ہم کیا کریں سب

 کچھ سہنا ہوگا ۔یہ کہہ کر کھانا رکھ لیا اور روزہ کھولنے کے بعد ہم سب نے مل کر کھالیا ۔پانچ روپیہ کا آٹا منگوالیا جس سے رمضان خیروخوبی سے بسر ہوگیا اس کے بعد چھ مہینے گاؤں میں رہے پھر دہلی چلے آئے ۔یہاں آکر والدہ کا انتقال ہوگیا اور بہن کی شادی کر دی ۔انگریز ی سر کار نے میری بھی پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کر دی ہے ،جس پر آج کل زندگی کا انحصار ہے ۔